التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مجلس نمبر 26 ۔۔ کونو امع الصادقین


کونو امع الصادقین
آیت مجیدہ انما ولیکم اللہ پ6 المائدہ حضرت علی کے حق میں نازل ہوئی باتقاق کشاف بیضادی درمنثور تفسیر کبیر کنز العمال مستدرک مشکواۃ نسائی تفسیر حسینی مناقب ابن مغازلی شافعی وغیرہ
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس چاہ زمزم کے کنارے پر بیٹھ کر رسالت مآب کی احادیث بیان کر رہے تھے کہ ایک عمامہ پوش شخص آکر بیٹھا تو جو نہی ابن عباس کے منہ سے نکلتا تھا حضور نے یہ فرمایا تو وہ عمامہ پوش فورا کہہ دیتا کہ حضور نے  یہ فرمایا  ابن عباس نے اسے خدا کی قسم دیکر پوچھا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے چہرہ سے نقاب ہٹایا اورکہنے لگے اے لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں اور جو نہیں جانتے تو  میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں میں نے رسول سےاپنے کانوں یہ سنا اگر جھوٹ ہو تو خدا مجھے بہرہ کر دے اور آپ کو میں نے ان دونوں آنکھو ں سے دیکھا ہے اگر جھوٹ ہو تو یہ اندھی ہو جائیں کہ  آپ فرما رہےتھے علی قائد البررۃ وقاتل الکفرۃ منصور من نصرہ ومخذول من خذلہ علی نیک لوگوں کاسردار اور کافروں کا قاتل ہے اس کا مددگار منصور اور اس کو چھوڑنے والا ذلیل ہو گا میں نے ایک مرتبہ نماز ظہر رسول کے ساتھ پرھی ایک سائل نے سوال کیا اوراس کو کسی نے کچھ نہ دیا پس اس سائل نے آسمان کی جانب ہاتھ بلند کئے اور عرض کی اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے مسجد رسول میں سوال کیا اور کسی نےکچھ نہ دیا اس وقت حضرت علی حالت رکوع میں تھے انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا اشارہ کیا جس میں انگوٹھی تھی تو سائل نےانگوٹھی اتار لی اور چلا گیا حضور مسجد میں موجود تھے جب نما ز سے فارغ ہوئے تو دعامانگی اے اللہ حضرت موسی نے دعا مانگی تھی اے رب میرا سینہ کھول اور میرا معاملہ آسان فرما اور میری زبان کی گرہ دور کرو تاکہ میری باتیں سمجھیں اورمیری اہل سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر مقرر فرماکر اس سے میری  کمرکو مضبوط کرا ور اسے میرا شریک کا ر بنا تو تو نے جواب دیا جس کی قرآن حکایت کر رہا ہے ہم تیرا بازو تیرے بھائی کے ساتھ مضبوط کریں گے اور تم دونو کو طاقت دیں گے کہ وہ تم تک نہ پہنچ سکیں گے اے اللہ میں محمد تیر ا نبی و برگزیدہ ہوں پس میرا سینہ کھول اورمیرا معاملہ آسان کراور میری اہل سے علی کومیرا وزیر بنا اوراس کےساتھ میر ی پشت کو مضبوط کرابھی تک حضور کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبریل اترا اور یہ آیت مجیدہ لا یا بروایت حموینی آیت مجیدہ پڑھ کر حضور نے فرمایا من کنت مولا فعلی مولا ہ بروایت شیخ ابو الفتوح جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں جب صحابہ نے یہ دیکھا تو جس جس کے ہاتھ میں انگوٹھی تھی اس سائل کو دے دی حتی کہ اس اعرابی کے پاس چار سو انگوٹھیا ں پہنچ گئیں انیس الاعلام اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے چالیس انگوٹھیاں حالت رکوع میں سائل کو دیں تاکہ ویسی آیت اترے جو علی کے بارے میں آئی لیکن نہ اتری صافی حضرت علی کی یہ فضیلت سن کردشمنان اہلبیت کےدل کباب ہوگئے انہوں نے آیت مجیدہ کی تفسیر پر کئی قسم کے اعتراضات کئے شان نزول کے متعلق بعض نے کہا مہاجرین و انصار کے حق میں اتری ہے ابن تیمیہ نے منہاج الکرامتہ میں اوراس کے دیگر ہم خیالوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اس آیت مجیدہ کے متعلق حضرت علی کی ولایت کو ثابت کرنے کے متعلق کوئی حدیث صحیح موجو د نہیں ہے عکرمہ سےنقل کیا گیا ہے کہ یہ آیت ابو بکر کے حق میں اتری ہے  کسی نے اس کا مصداق عبداللہ بن سلام کو اور کسی نےعبادہ بن صلمت کو قرار دیدیا لیکن ان سب کی تکذیب کے لئے معتبر تفاسیر میں انگوٹھی کا واقعہ اور نزول آیت کا وجود کافی ہے
کہتے ہیں کہ انگوٹھی والی حدیث کا راوی صرف ثعلبی ہے حالانکہ بڑے بڑے اعلام نے اس کو نقل کیا ہے مثلا ابن ابی حاتم ابن جریر ابن مردویہ ابن عباس طبرانی ابو نعیم ابن جوزی ابن مغازلی سیوطی نیشا پوری بیضادی وغیرہ
نیز اس روایت کے نقل کرنے کے جرم میں ثعلبی بے چارے پر جرح و قدح کا دروازہ کھول کراسے مطعون کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ وفیا ت الاعیان یافعی طبقات السافعیہ اسدالغایتہ جواہرالعقدین اورازالتہ الخفای وغیرہ میں اس کو ثقہ کہا گیا ہے
لفظ ولی کے دو معنی ہیں امام  ناصر و مدد گار ممکن ہے یہاں ناصر مراد ہو کیونکہ لفظ ولی مشترک ہےاس کے جوا ب میں نطنزی نے خصائص میں ذکر کیا ہے کہ شوری کے دن حضر ت علی نے اپنے استحقاق کو ثابت کرنے کےلئے  اسی آیت مجیدہ کو پڑھا اورسامعین صحابہ نےا س کو قبول کیا تو اس سے ثابت ہو اکہ مراد جگہ ولی سے امام ہے ناصر  و مددگار نہیں
ازالتہ الخٖفائ مقصد اول کی تیسری فصل میں ہے کہ ولی سے مراد امام خلیفہ ہے لیکن مصداق اس کا ابو بکر ہے صاحب احقاق الحق فرماتے ہیں اگر ولی کا معنی ناصر ہواورمومنین سے مراد عام ہو تو خضردرست ہے لیکن حالت رکوع میں زکوٰۃ دینےوالی وصٖف کا پھر کوئی ربط نہیں رہتا اگر ولی کا معنی ناصر اورمومنین سے مراد صرف  علی ہو تو وصف زکوۃ درست لیکن حصرانما درست نہیں کیونکہ سب مومن ایک دوسرے کے ناصرومددگار ہوتے ہیں بس باقی ایک ہی صور ت ہے اور وہی درست ہے کہ ولی کا معنی امام و خلیفہ ہواور مومنین سے مراد حضرت علی ہوں تو حصر بھی درست ہے اوروصف بھی بجا ہے بعضوں نے تنقیص شان علی میں کہہ دیاکہ وہ تو فقیرتھے لہذا زکوۃ کیسے دئیے تھے اور یہ محض عداوت علی کی غمازی ہے اورنہ زکوۃ کا اطلاق قرآن مجید میں صدقات مستحبہ پر بھی آیا ہے اور صدقہ مستحبہ فقیر بھی دے سکتے ہیں
بے شک علی اپنی حالت ظاہر ی کے لحاظ سے فقیر تھے لیکن سائل کی حاجات براری کے لئے وہ خزائن ارضیہ کے مالک تھے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جنا ب رسالت مآب کی رحلت کے بعد حضرت علی مسجد نبوی میں منادی کراتے تھے کہ اگر کسی شخص کا قرضہ وغیرہ رسول کے ذمہ ہو تو وہ بےشک مجھ سے وصول کرلے چنانچہ لوگ آتے تھے اور حضرت علی ان کو بغیر ثبوت و گواہ کے دے دیتے تھےایک دفعہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمر سے کہا کہ لوگ فوج درفوج علی کے پاس جاتے ہیں اور وہ ان کو بغیر گواہ و دلیل کےدے دیتا ہے حالانکہ فدک خمس اور فئے وغیرہ تو ہم نے لےلئے ہیں پھر اتنا مال ان کے پاس کہاں سے آگیا حضرت عمر نے کہا تم مالدار ہواور تم بھی منادی کرا دو تو ابو بکر نے منادی کرائی کہ جس شخص کا رسول خداکے ذمہ قرضہ ہو تو میں ادا کروں گا تو دو شخص آئے اور ابو بکر نے ان کو منہ مانگی چیز بغیر گواہ و دلیل کے دے دی اتنے میں باہر سے ایک بدوی عرب آپہنچا اورابو بکر کی منادی اس نے سن کر لی تو دربار خلافت میں پہنچ کر کہا حضور نے میرے ساتھ دو سو سرخ ناقہ کا جن کی آنکھیں سیا ہ ہوں مہار و سامان کےساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا حضرت ابو بکر نے حیران ہو کر حضرت عمر کی طرف دیکھا تو حضرت عمر نے جواب دیا اے اعرابی دنیا میں ایسی نا قائیں نہیں ملتیں فورا اس نے جواب دیاکہ کیا رسول خدا نہ مل سکنےوالی چیز کا وعدہ فرما سکتے ہیں پس اس اعرابی کو علی کے گھر کا نشان بتلایا گیا کہ وہ بھی رسول خدا کے قرضے اوروعدے پورے کرتا ہے وہ اعرابی پہنچا حضرت علی نےاس کو کل آنے کا حکم دیا اعرابی یہ تسلیم کرتا ہوا گیا واقعی یہ شخص رسول کا بھائی اوراس کے قرضوں کو پورا کرنے والا ہے ابو بکر اعرابی کے ہمراہ روانہ کیا کہ وادی جن میں جاکر ندا کروا ے گروہ جن میں حسن بن علی وصی رسول تم کو حکم دیتا ہوں کہ رسول خدا کے وعدے کو پورا کرو یعنی دوسو سرخ رنگ سیا ہ چشم اونٹنیاں بمعہ مہاروسامان کے اس بدوی کے حوالہ کرو چنانچہ امام حسن نے تعمیل حکم کی اور ان کی کلام ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ اونٹنیوں کی قطار سامنے آگئی غایتہ المرام ایک روایت میں ہے کہ وہ سائل درحقیقت جبریل تھا۔غزالی نے سرالعالمین میں ذکر کیا ہے کہ وہ انگوٹھی حضرت سلیمان بن داودکی تھی جو حضرت علی نےدی تھی غایتہ المرام
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس انگوٹھی کا چھلا چار مثقال چاندی تھااور اس کا نگینہ یا قوت سرخ بوزن پانچ مثقال تھااور اس کی مالیت خراج شام کے برابر تھی اور شام کا خراج تین سو  بھارچاندی اور چار بھار سونا ہوتا ہے یہ انگوٹھی مردان بن طوق کے ہاتھ میں تھی حضرت علی نے اس کو قتل کیا تھا اور انگوٹھی اس کے ہاتھ سے اتار کر باقی غنیمتوں میں ملا کر حضرت رسالت ماب کے پیش کی تھی حضور نے وہ انگوٹھی حضرت علی کو دی تھی جو سائل کو دی گئی جمع کے صغیے پر بھی اعتراض کیا گیا لیکن جمع صرف کثیر افراد کے لئے نہیں ہوا کر تی بلکہ عظمت و جلال کے لئے بھی تو آیا کرتی ہے نیز چونکہ تمام آئمہ طاہرین یکے بعد دیگرے اس آیت مجیدہ کے مصداق ہیں لہذا اپنے اپنے مقام پر یہ صفت سب کے لئے ہےجیسا کہ تفسیر صافی میں مذکور ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں کہا جاتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز ادا کی اورزکوۃ بھی دی زکوۃ سے زکوۃ کے کئی افراد مراد ہو سکتے ہیں زکوۃ حالت رکوع میں بحیثیت مصداق آیت ہونے کے نیز یتیموں اوربیواوں کی کفایت و سر پرستی زکوٰۃ مستحبہ کے طور پر چنانچہ آپ کی خدمت میں ایک سائل آیا اوراس نے عرض کی میں نے ویت کاملہ ادا کرنی ہے امام نے فرمایا پہلے میں تم سے تین سوال کرتا ہوں اگر سب کےجواب دئیے تو جو کچھ مانگا ہے دوں گا اور اگر دو سوال کے جواب دے گا تو تہائی دوں گا اور ایک سوال کا جواب دے گا تو ایک تہائی دوں گا اس نے عرض کی آقا میری کیامجال کہ میں آپ کےسوالات کے جواب دےسکوں تو آپ نے فرمایا میرے نانا کا فرمان ہے المعروف بقدر المعرفتہ یعنی کسی پراحسان اس کی معرفت کےاندازہ سے ہوناچاہئے تو سائل نےعرض کی حضور پوچھئے اگر جواب معلوم ہوگا تو عرض کروں گا ورنہ آپ سےاس کا جواب سیکھ لوںگا تو آپ نے پوچھا بتا و افضل اعمال کیا چیز ہے اس نےعرض کی معرفت خدا اور اللہ پرا یمان لانا آپ نے فرمایامصائب میں گھر نے کے وقت باعث نجات کیا چیز ہوتی ہے تو اس نے عرض کی اللہ پر توکل پھرآپ نےفرمایا انسان کے لئے زینت کیا چیز ہوتی ہے تو اس نے عرض کی علم بمع حلم آپ نے فرمایا اگرعالم نہ ہو تو پھر اس نے عرض کی مال بمعہ مروت آپ نے فرمایا اگر مال بھی نہ ہو تو پھر اس نے کہا فقربمع صبر آپ نے فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس نے عرض کی حضور  پھر ایک بجلی گرے جو اس کو نیست و نابود کر دے بس اس کے لئے زینت یہی چیز ہے بس آپ اس کے جوابوں سے نہایت خوش ہوئے اور ایک ہتھیلی اس کو دی۔جس پر ایک ہزار دینار تھا اور ایک انگوٹھی بھی دی جس کا نگینہ دو سو درہم کا تھا پس وہ اعرابی دعا کر تا چلا گیا آئیے امام مظلوم نےایک اور انگوٹھی بھی دی لیکن اس کی تفصیل قابل بیان نہیں ہے امام مظلوم نے تو اپنے بدن کی زکوۃ بھی جناب رسالت مآب کے حصہ میں درد سراور زہرکا اثر تھا جناب بتول کے حصہ میں پہلو اوربازو کا زخم تھاجناب امیر کے حصہ میں سرکا زخم  تھا اور جناب حسن کے لئے درد جگر تھا لیکن جناب امام حسین علیہ السلام کے لئے سب کچھ تھابدن کاکوئی حصہ خالی نہ تھا ہاں ہاں پیچھے کی طرف بھی دوزخم تھے ایک وہ نشانی جو فقرائ و مساکین کی روٹیاں اٹھا نے سےہوا تھا اوردوسرا تیر سہ شعبہ جو سامنے سے لگا تھا اور امام نے اس کو پیچھے سے کھینچ لیاتھا رسول خد بچنے سے امام پاک کے تمام بدن کو چومتے تھے اور فرماتے تھے میں تلواروں کی جگہ کو بوسہ دیتا ہوں اس لئے روتا ہوں ایک دفعہ حضرت رسالت مآب نے حسین کی گلی میں دیکھا کہ اور بچوں کے ہمراہ کھیل رہے ہیں تو حضور حسین کی طرف بڑھے پس شہزادہ آگے دوڑ گیا تو حضور بھی آگے بڑھے اسی طرح یہاں تک کہ حضور نےا مام حسین کو اٹھالیا اور ان کے منہ پر منہ رکھ کر بہت بوسے دئیے اورفرمایا حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں خدا حسین کے دوست کو دوست رکھے ابن ماجہ
ایک دفعہ راستہ میں جاتے ہوئے آپ نے ایک بچہ کو اٹھا لیا اوراس  کے ساتھ بہت محبت کی تو لوگوں نےوجہ پوچھی آپ نے فرمایا اس لئے ہے کہ  یہ بچہ میرے فرزند حسین کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور میں نےدیکھاہے کہ حسین کے قدموں کی خاک کو  یہ بچہ باعث برکت سمجھ کر اٹھا لیتاہے
قول مولف مورخین کا خیال ہے کہ یہ بچہ حضرت حبیب بن مظاہر اسدی تھا جناب رسالت مآب  امام حسین کی گردن کو بوسہ دیتے تھے اور  اس کا انکشاف میں دسویں محرم کی عصر کو ہوا آئیے ہم بھی جنا ب رسول خداکی سنت کواسا کرکے ان کا احترام کریں ان کی حوصلہ افزائی و ناز برادری کرتے تھے اورظالموں نے اس کے مقابلے کیا سلوک کیااور اس سے مصیبت کی عظمت بھی خوب معلوم ہوتی ہے کا استقبال کرنا کجا اور لوگوں کا راستہ چھوڑکر الگ ہوجانا کجا کہ مبادا امام ہم نے نصرت نہ طلب کرےجیسا کہ راہ عراق میں بعض واقعات ایسے رونما ہوئے امام کی روح پر سرور داخل کریں کہ ان کے مصائب و آلام پر گریہ کریں ہائے پروردہ سینہ نبوت اورنازدیدہ پر جبریل کس طرح بے گور اپنے زخمی تن کے ساتھ ریگ گرم صحرا میں رہا ہوگا لباس بھی جسم اطہر سے کر لیا گیا ہاں کئی ایک لباس بدن اطہر پرموجود تھےجو ظالموں کے بس نہ تھے لباس خون لباس نور چنانچہ ایک راوی کہتاہے کہ خاک و خون غلطان ہونے کے باوجود میں نے کسی شہید کو حسین سے زیادہ نورانی انہیں اور حسین کے چہرہ کے نور کو دیکھتا رہا جس کی وجہ سے شہادت کی کیفیت نہ کر سکا لباس گردو غبار صحرا قیامت تک کا خونی لباس اوراسی لباس کر بتول معظمہ غش کھا کر گر جائیں گی اور ان کی حالت کو دیکھ کر تمام ملائکہ سمائ پر کاعالم طاری ہو گا نور کی ناقہ نوری عماری میں آئیں گی ستر ہزار فرشتے ساتھ ہوں گے آنکھیں بند کر نے کا حکم ہو گا اور وارد محشر ہو کا استغاثہ کریں گی مجلس نمبر 16 میں ذکر ہو چکا ہے اناللہ وانا الیہ راجعون
اقول تقریبا یہ روایت متواتر ہے کہ بروز محشر اللہ کی جانب سے منادی ندا کرے گا اور اے محشر آنکھیں بند کر لو اورنظریں جھکا لو کہ بنت رسول دربارپروردگار میں تشریف لا رہی ہیں چنا نچہ تما م اہل محشر آنکھیں بند کرلیں  گے اور خاتون جنت عدالت عظمی پروردگار میں خون حسین کا مقدمہ دائر کریں گی لیکن ہائے خاتون قیامت کی شہزادی جب کوفہ وشام کے بازاروں و درباروں میں حاضر ہوئی تو کسی نے یہ نہ کہا کہ مسلمانو آنکھیں بند کر لو اور دوسروں کو جھکا لو کہ یہ علی کی شہزادی محمد کی نواسی سر برہنہ آرہی ہیں لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ اور خصوصا سید روتے اور پیٹتے کیوں ہیں تو میں ان کے جواب میں کہا کرتا ہو  ں کہ یہ نہ کہو کہ تم پیٹتے کیوں ہو بلکہ عبرت سے پوچھا کرو کہ تم جیتے کیوں ہوہائے جس غیور عزت دار نوجوان کی ماں پھوپھی اور بہن سر برہنہ درباروں اوربازاروں میں پھرائی جائیں تو وہ روئے نہیں تو اورکیا کرتے اوریہی مصائب ہیں جن کی وجہ سے جناب رسالت زینب خاتون کے سر کے بال ایک سال کے اندر سفید ہو  گئے اور انہی مصائب کو یاد کرکے حضر ت سجاد چالیس برس تک روتے  رہے وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون ۔

ایک تبصرہ شائع کریں