التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اٹھارہویں مجلس -- حضر ت حسین کی تنہائی و بے کسی


حضر ت حسین کی تنہائی و بے کسی
نظر یمینا فلم یرااحدا    ونظر شمالا فلم یرا احد
دائیں دیکھا کوئی نظر نہ آیا   بائیں دیکھا کوئی نظر نہ آیا
فقال توآواز بلند فرمائی ھل من ناصر ینصرنا کیا کوئی ہے جو ہماری مدد کرے ھل بحیر یجیرنا کیا کوئی پناہ دینے والا ہے جو ہمیں پناہ دے ھل من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ کیا کوئی رحم دل ہے جو حرم رسول کےلئے رحمدلی کرے ھل من مو حد یخاف اللہ فینا کیا کوئی ہے خڈا پرست جو ہمارے بارے میں اللہ کا خوف کرےھل من مغیث یرجوااللہ فی اعانتنا کیا کوئی فریاد رس ہے جو ہماری اعانت سے اللہ کی بخشش کی امید کرتا ہو اس استغاثہ کا خیر مقدم کون کرتا تمام دشمن تھے سوائے تیروبر نیزہ و تلوار کے دوسرا جواب نہ ملا ا لبتہ ایمان رکھنے والی قیامت تک کی روحیں یہ صدائے استغاثہ کا سن کر لبیک داعی اللہ کہہ رہی تھیں بےشک حضرت قائم آل محمد اس استغاثہ کا خیر مقدم کریں گے ان کی آواز آتی ہے اہ اہ یا جداہ لئن اخرتنی عنک الدھور وعاقتنی عن نصرک المقدور ولم اکن لمن حاربک محار با ومن نصب لک العدواۃ منا صبا فلا ندبنک صباحا ومسا ئ ولا بکین لک بدل الدموع دما سرد آہ کھینچنے ہوئے اے جد نامدار اگر مجھے زمانہ نے آپ سےموخر کر دیا اور تقدیر نے مجھے آپ کی نصرت سے روک دیا اورمیں آپ کے محاربین اوردشمنوں سے جہاد نہ کر سکا اب آپ کے غم میں صبح و شام گریہ کروں گا اورآنسو کے بدلہ خون رووں گا
پھر سر بریدہ لاشوں کی طرف حسرت و یاس کی نظر اٹھا کران کو خطاب کر کےفرمایا یا مسلم بن عقیل ویاھا نی بن عروہ و حبیب ابن مظاھر ویازھیر بن القین  و یا یزید بن مظاھر و یا یحیی بن کثیرہ یا ھلال بن نافع و یا ابراھیم بن الحصین و یا عمر و بن المطاع و یا اسد الکلبی و یا عبداللہ بن عقیل و یا مسلم بن عوسجہ و یاد اودبن طرماح و یا حوالہ یا حیی ویا علی ابن الحسین ویا ابطال الصفاو یا فرسان الھیجا ہرایک کو نام سے پکار کر فرمایا اے میدان کارزار کے بہادرو اے عرصہ حرب و ضرب کے شاہسوار و مالی انا دیکم فلا تجیبونی وادعوکم فلا تسمعون کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں آواز دیتا ہوں اور تم جواب نہیں دیتے اور میں تمہیں بلاتا ہوں اورتم نہیں سنتے کیا تم محو خواب ہو کہ تمہاری بیداری کی امید کروں یا تمہاری محبت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ نصرت نہیں کرتے ہو یہ دیکھو رسول کی شہزادیاں تمہاری موت کی وجہ سے نڈھال ہو چکی ہیں اے کرام اپنی نیند سےاٹھو اوران کمینوں کو حرم رسول سےدفع کرو ہاں بیشک تم مجبور ہو کیونکہ تم جام شہادت پی چکے ہو ورنہ تم میری ندا سے کوتاہی نہ کرتے اورنہ میری مدد سےپیچھے ہٹتے اب ہم تمہارے غم میں مبتلا ہیں اور عنقریب تمہارے ساتھ ملحق ہونے والےہیں اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ناسخ التواریخ جلد 6 ص30۔
خیمہ میں تشریف لائے اور اہل حرم سےوداع کیا فرمایا اللہ خلیفتی علیکم اپنی بہن سے فرمایا کہ میرے بعد اگر یتیم بچے ادھر ادھر متفرق ہوجائیں تو ان کو اکٹھا کر نا مجالس المتقین فرمایا بہن میرے بعد تمہارا اگر یہ طویل ہوگا ۔
ایتیی بثوب عتیق لا یرغب فیہ احد مجھے پرانا لباس لادیجئے جس میں کوئی رغبت نہ کرے پس جب بی بی نے پرانا لباس حاضر کیاتوامام نے اس کو پارہ پارہ کیا پھر زیب تن فرمایا ۔
حضرت سجاد کےخیمہ میں تشریف لائے شہزادہ نے باپ کا استقبال اورپھر باپ کی حالتسے متاثر ہو کو پوچھا این عمی العباس میرے چچا عباس کہاں گئے آپ نے فرمایا اے لخت جگر وہ شہید ہو چکے ہیں پھر دوسرے اقربا کے متعلق یکے بعد دیگر ے پوچھا تو آپ نے فرمایا سب شہید ہو گئے پس اس وقت خیموں میں صرف میں اورتو باقی ہیں اورسنتے ہی حضرت سجاد کو جوش آیا اوراٹھ کھڑے ہوئے علی بالسیف والعصالا خیر فی الحیوۃ بعدہ مجھے تلوار اورعصا دیجئے کیونکہ بابا جان کے بعد زندہ  رہنے میں کوئی بہتری نہیں عصاطلب فرمایا کیونکہ بیمار تھے یعنی عصا کےسہارے سے میدان کا راز میں جاوں گااورپھر تلوارسے جہاد کروں گا امام نے تسکین دی وضمہ الی صدرہ اورسینے سے لگایا اور فرمایا انت خلیفتی علی ھولا العیال والاطفال تو ان بیواوں اور بچو ں پر میری طرف سے میرے بعد نگہداری کرنےوالا ہے فانھم غربائ مخذولون یہ عالم غربت میں بے کس و بیمارفرزند کا امام نے ہاتھ پکڑا اور بلند آوازسے اہل حرم کو ندادی یا زینب و یا ام کلثوم ویا سکینتہ ویا رقیتہ و یا فاطمہ اسمعن کلامی واعلمن ا ن ابنی ھذا خلیفتی علیکم وھوا مام مفترض الطاعتہ اے زینب اے ام کلثوم اے سکینہ اے رقیہ اے فاطمہ میری بات سنو اور یقین جانو کہ تحقیق میرا یہ فرزند میرے بعد میراجانشین ہے اور تمہار ا واجب الاطاعت امام ہے پھر اپنے فرزند کی طرف خطاب کرکے فرمایا یاولدی بلغ شیعتی عنی السلام وقل ان ابی مات غریبا فاندبوہ ومغمی شھید افابکوہ اے میرے فرزند میرےشیعو ں کو میرے سلام دینا اور ان کو کہنا کہ میرا باپ عالم غربت میں مر گیا ہے پس اس پر گریہ کرواور شہید ہو چکا ہے اس کو رویا کرو دمعہ ساکیہ
پس جلال  محمد ی سطوت علوی جما ل احمدی صولت حیدری بہجت حسنی عصمت فاطمی اور شجاعت حسینی کا مجسمہ ہو کر آمادہ میدان ہوئے جناب سکینہ خاتون نے عرض کی یاابت مھالا توقف حتی اتروعن نظری الیک  بابا جان ذرا ٹھہر جائیے تاکہ ایک دفعہ جی بھر کر آپ کی زیارت کروں تاکہ میری تسلی کےلئے یہ ز اد ہو جائے یہ وہ سکینہ ہےجس کےمتعلق آپ فرمایا کرتے تھے
لعمر ک اننی لا احب دارا   تکون بھا السکینتہ والرباب
بقسم مجھے وہ گھر محبوب ہے جس میں سکینہ اوررباب موجود ہوں پس بیٹی کو سینے سے لگا لیا اوراپنی آستین مبارک سے شہزادی کےبہتے ہوئے آنسو پونجھے اور فرمایا
سیطول بعدی یاسکینتہ فاعلمی منک البکای اذا الحمام دھانی لا تحرقی قلبی بدمعک حسرۃ مادام منی الروح فی جثمانی فاذا قتلت فانت اولی بالذی تاتینہ یا خیرۃ النسوان لکن صبر یا سکینتہ فی القضا ھا نحن اھدا لصبرالاحسان اے سکینہ میرے مرنے کے بعد جان لے کہ تیرا اگر یہ طویل ہو گا جب تک میرےجسم میں روح ہے میرے دل کو آنسو سے حسرت زدہ نہ کرجب میں شہید ہوجاوں تو زیادہ سزاوار ہے اسکی جو تو بجالائے اے عورتوں کی سردار اے سکینہ تقدیر پر صبر کرو کیونکہ ہم صبر و احسان والے ہیں۔
پس وداع کر کے روانہ ہوئے جب لاش ہائے شہدا کے قریب سےگزرے تو اپنے جوان فرزند کو حسرت بھری نگاہوں سے خاک و خون میں غلطان دیکھا اور ارشاد فرمایا اما انت یانبی فقد استرحت من ھم الدنیا وغمھا وبقی ابوک غریبا اے فرزند عزیز تو نے دنیاکے ھم و غم سے نجات پالی ہے اب تیرا باپ اکیلا و تنہا رہ گیا ہے ۔
پس گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدان کا ر زار میں وہ وقوف کیا جو آج تک اپنے مولا کے سامنے کسی کو نہ نصیب ہوا نہ منی وعرفہ و مشعر ہیں اور نہ کسی میدان جنگ میں اب حسین زندگی کو خیر باد کہہ کر پوری طرح موت پر کمر بستہ ہے۔
شیر خوار کی شہادت
تذکرہ سبط بن جوزی میں ہشام کلبی سے مروی ہے کہ جب حسین نے دیکھا کہ لوگ میرے قتل پرآمادہ ہیں تو قرآن مجید کو کھول کر سر پر رکھااور بآواز بلند صدا دی کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے اور میں تمہارے رسول کا فرزند ہوں بتاو میر ے خون کو کیوں حلال سمجھتے ہو اتنے میں آپ نے اپنے شیرخوار بچے کی گریہ کی آواز سنی جو پیاس سے رو رہا تھا پس اس کو ہاتھوں پراٹھا یااور فرمایا اے قوم اگر تم میرے اوپر رحم نہیں کرتے تو اس  شیر خوار بچے پر تو رحم کرو اس کا جواب کیا ملا ایک ملعون نے تیر جفاسے ٍٍٍٍٍٍبچہ کو باپ کی گودمیں ہی شہید کر ڈالاامام علیہ السلام رودئیے اور بارگاہ خدا میں عرض کی اے میرےپروردگار میرےاوراس قوم کے درمیان توہی فیصلہ کرناجنہوں نے ہم کو دعوت دی اور ہماری نصرت سے دست بردار ہو کر ہمارے قتل کے درپے ہوئے پس فضا سے ایک آوازآئی دعہ یا حسین فان لہ مرضعا فی الجنتہ اے حسین اس کی دایہ جنت میں موجود ہے نفس المہوم ص185 ممکن ہے اس دایہ سے مراد یاتو رجنت ہویااس سے مراد خاتون جنت ہوں ایک  روایت میں ہے کہ جناب زینب سے فرمایا کہ مجھے اپنا شیر خوار فرزند دیجئے تاکہ میں اس کو وداع کرلوں لیکن جب دیکھا کہ پیاس سے اس کے لب خشک ہیں اور رو رہا ہے اور فرمایا تمہارے اوپر ویل ہواس شیر خوار کو تو پانی دے دو دیکھنے نہیں ہو کر بلا قصور پیاس سے تڑپ رہا ہے یا قوم قد قتلتم اخی واولادی وانصاری وما بقی غیرھذا الطفل فاسقوۃ شریتہ من المائ اے قوم تم نے میرے بھائی اولاد اور انصار کو شہید کرڈالا ہے اور اب سوائے اس بچے کےاور کوئی باقی نہیں رہا اس کوایک گھونٹ پانی دو اگر میرے اوپر تم رحم نہیں کرتے تواس بچہ پر تو رحم کرو۔
لیکن کس زبان سے کہو ں امام کی کلام کا ان سنگدلوں پر کیااثر ہوا بس ایک تیر ظلم گلوئےنازنین پر آیا کہ بچہ باپ کی گود   میں ہمک ہمک کر ہمیشہ کی نیند سو گیا بےشک اس پانی کے بدلہ میں  حسین کو چار پانی عطا ہوئے کوثر کہ حسین پر رونے والے اس سے سیراب ہو کر مسرور ہوں گے آپ حیات جس کو رونے والوں کی آنسو سے آمیزش کیا جاتا ہے اور اس کی شیرینی میں اضافہ ہوتا ہے یہ بھی جنت میں رونے والوں کو نصیب ہو گا مومنوں کی آنسو کا پانی کیونکہ حسین قتیل العبرۃ ہرسرد پانی کیونکہ جب بھی مومن سرد پانی پیئے اور حسین پر صلوات اور اس کے قاتلوں پر لعنت بھیجے یہ  کیوں نہ ہو حالانکہ آپ کودین خدا کی حفاظت کے بدلہ میں پانی کےچار قسم کے حقوق سے محروم کیا گیا پہلا حق تو وہی ہے جو عام انسانوں کو پانی کے استعمال کرنےکا حق حاصل ہےدوسرا حق ذی روح ہونے کی حیثیت سے کیونکہ ہر ذی روح کی زندگی پانی پر منحصر ہے حتاکہ اگر کوئی حیوان مملوک پیاس سے مررہا ہواور پانی کم ہو تو نماز کے لئے تیمم کی جاتا ہے اور اس کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاتا تیسرا حق خصوصی اہل کوفہ پر تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ ان کو پیاس سے جان بلب ہونے کی حالت میں سیرا ب فرمایاتھا اور چوتھا حق اس لئے کہ دریا ئے فرات جناب فاطمہ کو خدا وند کریم نے عطا فرمایاتھا جب کہ ان کی شادی حضرت علی سے ہوئی تھی حضرت سیدالشہدا کے چار اعضا ئ مبارکہ اہل کوفہ امام حسین کی برکت سے تین مرتبہ سیراب ہوئے ایک دفعہ قحط سالی ہوئی بارش کی سخت کمی تھی آپ نے نماز استسقار پڑھی اور ابھی آپ کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ خدا وند کریم نے بارش نازل فرمائی جنگ صفین میں جب کہ مالک اشتر نے فوج کی پیاس کی شکایت کی تو حضرت نےاپنے عصا سے زمین پرپانچ لکیریں کھینچیں پس ہر بلکہ پانی کی نہر بن گئی اورسارا لشکر سیراب ہوا پھر دوسرے روز مالک نےپیاس کی شکایت کی تو حضرت نے پانچوں انگلیاں زمین پر ماریں پس پانچ نہریں پانی کی ظاہر ہوئیں اور تمام لشکر سیراب ہوا سی طرح تیسرے روز مالک نے پیاس کا اظہار کیاتو آپ نے پائے مبارک کو زمین پر مارا پس لشکر گاہ میں ایک نہر عظیم ظاہر ہو گئی اور سب نے پانی پیا اور متواتر بیس روزتک ایسا ہی ہوتا رہا حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اے  میرا میوہ دل اورجو بھی سامنے آتا تھا حضرت فرماتے تھے کہ میرا مقصود یہ نہیں بلکہ این ولدی الحسین المظلوم میرا مظلوم بیٹا حسین کہا ں ہے پس گریہ جاری ہوا لوگوں نے عرض کی حضور حسین کی برکت سے ہی تو ہمیں یہ فتح نصیب ہوئی ہے پھر آپ کی رونےکی کیا وجہ ہےآپ نے فرمایا انہ سیقتل عطشا نا بطف کربلا یہ زمین کربلا میں پیاسا شہید ہوگا پھر فرمایا فریاد اس امت سے جو اپنے بنی رادے قتل کرے گی۔
پر پیاس کی شدت ظاہر تھی ہونٹ بالکل خشک ہو چکے تھے جگر کباب ہو رہا تھا زبان مبارک پر آبلے پڑ گئے تھے چشم اطہر پر تاریکی چھا گئی تھی  ملحض ازخصائص حسینیہ
تیسری مرتبہ اہل کوفہ کواس وقت سیراب کیاتھا جب حرکی زیر سر کردگی ایک ہزار کی تعداد میں حسین کی راہ روکنے کےلیے گئے تھے اور پیاس سے جاں بلب تھے پس آپ نے ان سب کو سیراب فرمایا فوائد و خصائص
مناسبت مقام کے لحاظ سے جنگ صفین کے موقعہ پر حضرت علی کا اعجاز بھی ذکر کرنانہایت موزوں ہےجب حضرت امیر علیہ السلام کا لشکر ایک دن رات متواتر پیاسا رہا تو حضرت امیر کو نہایت پریشانی لاحق ہوئی بحار الانوار کی جلد نہم میں سہیل بن حنیف سے مروی ہے کہ جب لشکر معاویہ نے دریائے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرلیا توآپ نے مالک اشتر سے فرمایا کہ جاو اور جو بھی فرات پر متعین ہو اسے کہو اس کا حکم ہےکہ پانی سے ہٹ جاو پس مالک اشتر نے بفرمان جناب امیر گھاٹ کے پہرہ داروں سے یہ جملہ کہا وہ ہٹ گئے اور حضرت امیرکے لشکر نے پانی پی لیا اور ضرورت کے مطابق ساتھ بھی لےلیا جب معاویہ کواطلاع ملی تو ا س نے پہرہ داروں کو بلایا وار سرزنش کی انہوں نے معذرت کی کہ عمرو عاص نے ہمارے پاس جاکر تیرا حکم سنایا ہے کہ گھاٹ سے ہٹ جاو معاویہ نے عمروعاص کو بلایا اور کہا کہ تو خود ایک کام کرتا ہے اور پھر انکار بھی کرتا ہے پس دوسرے روز حجل بن عتاب نخعی کوپانچ ہزار کا لشکر دے کر دریائے فرات پر تعنیات کیا پھر حضرت امیر نے مالک اشتر سے فرمایا تو جا اور نہر فرات پر جو بھی تعنیات ہےاس سے کہوکہ وہ حکم دیتا ہے کہ تم گھاٹ چھوڑ دو چنانچہ مالک نے تعمیل حکم کی اور انہوں نے جناب سکینہ خاتون جب بعد از شہادت باپ کی لاش پر پہنچیں تو فرماتی ہیں کہ گلوئے بریدہ سےآپ یہ فرما رہے تھے
شیعتی ماان شریتم ما ئ عذب فاذکرونی اوسمعتم بغریب اوشھید فاندبونی وانا السبط الذی بغیر جرم قتلونی وبجرد الخیل بعد القتل عمدا سحقونی  اے میرے شیعہ جب تم سرو پانی پیو تو مجھے یاد کرنا یا اگر تم کسی غربت زدہ یا شہید کا ذکر سنو تو مجھے یاد کرکے رونا میں وہ سبط ہوں کہ بغیر جرم کے انہوں نےمجھے قتل کیا ہے ور قتل کے بعد گھوڑوں کے سموں سے میری لاش کو پامال کیا ہے۔
نے گھاٹ چھوڑ دیااور حضرت کی فوج نے حسب ضرورت پانی لے کیا پھر معاویہ کو اطلاع ملی تواس نے حجل کو بلایا اورسخت و سست کہا تو حجل نے جواب دیا کہ میرا بیٹا یزید ہمارے پاس گیا اور اس نے تیرا ہی حکم سنا یا تھا کہ گھاٹ چھوڑ دو معاویہ نے یزید سے دریافت کیا تواس نے انکار کردیا پس معاویہ نے حکم دیاکہ کل کسی کی بات نہ ماننا اوراگر میں خود بھی چلا آوں اورکہوں کہ ان کو پانی پینے دوتو بھی یہ ماننا جب تک کہ مجھ سے انگوٹھی نہ لے لو پس جب تیسرا دن ہوا تو حضرت امیرنے مالک اشتر سے فرمایا کہ جاو اورڈیوٹی والوں سے وہی بات کہو جب یہ پہنچے تو حجل نے دیکھا کہ معاویہ آگیا ہےپس اس نے انگوٹھی لے لی اور پانی سے ہٹ گیا اور لشکر امیر نے پانی حسب ضرورت لےلیا جب معاویہ کواطلاع ملی توا س نے حجل کو بلاکر بہت کچھ ناراضگی کے الفاظ کہے حجل نے فورا انگوٹھی پیش کر دی معاویہ نے اپنا ہاتھ انگوٹھی والے ہاتھ پرمارا تو انگوٹھی کو نہ پایا کہنے لگا ٹھیک ہے پس یہ سب کچھ علی نےہی کیاہے منہاج البراۃ شرح نہج البلاٖغتہ لحبیب اللہ الخوئی الموسوی جلد 2 ص 89
ویلھم قد جرحوا قلب الرسول الثقلین یا لزرع ومصاب ھذ ا زکان الحجون یستکم فی یوم عاشورا جمعیا تنظرونی کیف استسقی لطفلی فابو اان یرجمونی وسقوہ سھم بغی عوض المائالمعین فالعنوھم مااستطعتم شیعتی فی کل حین۔ ان پر ویل ہو کہ انہوں نے رسول الثقلین کےدل کو زخمی کیا کتنی زبردست ہی مصیبت ہے جس نےعالم کے ارکان گرا دئیے کاش یو م عاشور تم سب مجھے دیکھتے ہوتے کہ میں کس طرح اپنے بچے کےلئے پانی مانگتاتھا اور وہ رحم نہ کرتے تھے اور اس کوآب شیریں کے بدلہ میں ظلم کے تیر سے سیراب کیاتھا اے میرے شیعو جتنا کر سکو ہر وقت ان پر لعنت بھیجو۔
حضرت سیدالشہدا علیہ السلام نےشیر خوار شہزادے کا خون چلو پر لیا کہ وہ پر ہو گیا اور اسے آسمان کی طرف پھینک دیاکہ ایک قطرہ واپس زمین پر نہ پلٹا شاید وہ ملائکہ مقربین نےمحفوظ کر لیا ہو کہ بروز محشر بطور شہادت اسے پیش کیا جائے احتجاج میں ہے کہ پس گھوڑے سے اترے اور خون آلود نازنین کو سپرد خاک فرمایا کہ نوک تلوار سے قبر کھو دی اور نماز جنازہ ادا کر کےاسے سپرد خاک کیا اور تمام شہدا سے اس شہید کے ساتھ یہ نرالا بتاو کیوں کیا اس کے کئی وجوہ ہو سکتے ہیں شاید وجہ یہ ہو کہ اور کسی شہید کو دفن کرنے کاموقعہ نہ ملا اور اس کے لئے موقعہ مل گیا ہو شاید اس لئے کہ امام کو گوارا نہ تھا کہ اس نازنین کا سر نازک بدن سے جدا ہو کر نوک نیزہ پرسوار ہو ممکن ہے کہ تین روز تک ریگ گرم پر اس نازنین کا رہنا گوارا نہ ہو گھوڑوں کےسموں کے نیچے پامال ہونا ناقابل برداشت ہو ممکن ہےشہزاد ہ کی خورد سالی اور بے دردی سے عالم پیاس میں تیر جفا کا نشانہ ہونا چونکہ حد سے زیادہ المناک اور روح فرساتھا اس لئے لاش کا دوبارہ لٹنا منظور خاطر نہ تھا پس مستورات نے اپنے اپنے مقام پر بین کئے اور خیمہ گاہ میں کہرام ماتم بپا ہوا۔
ذکر شہادت اب آخر ی قربانی کے بعد میدان میں قدم جما کر  پہاڑ کی طرح کھڑے ہوگئے اور اس قدر مصائب و آلام کے بعد بھی کیا کہنا امام کی جرات کا کہ شجا عان معرکہ قتال اور آزمودہ کا ران حرب و ضر ب کے حواس اڑا دئیے کوئی بہادر نہیں بچا تھا جس کو شیر خدا کے شیر نے اپنی تلوار شر ر بار کا نشانہ نہ بنایا ہو گھوڑے سے اترے اورصولت حیدر یہ کا نمونہ بن کر چیدہ چیدہ شجاعان لشکر کو لقمہ ا جل کیا یہاں تک کہ اب کسی میں ہمت باقی نہ رہی کہ علی کے زخمی شیر کے سامنے آتا پس آپ نے ان پر ایک مرتبہ یکبارگی حملہ کیا اور بحر حرب میں غوطہ زن ہوئے اور حید ر کرار کی لڑائی کا نقشہ کھینچتے ہوئے میدان کو خالی کر دیا ان کی صفوں کو درہم برہم کر دیا حتی کہ ان کےعلم گر گئے اور نشانچی بھاگ گئے یا تہ تیغ ہو گئے پس آپ  اپنے مرکز کی طرف واپس آئے اور کلمہ لا حول ولا قوۃ الخ کو زبان پر جاری فرمایا گھوڑے پر سوار ہو کر دریائے فرات کے کنارے پہنچے گھوڑے سے فرمایا اے گھوڑا تو بھی پیاسا ہے اور میں بھی پیاسا ہوں لیکن جب تک تو پانی نہ پئے گا میں نہیں پیئوں گا یعنی پہلے تو پی پھر میں پیئو گا جب ان ظالموں نے دیکھا کہ حسین دریائے فرات پر پہنچے ہیں اور خیال کیا کہ اگر حسین نے پانی پی لیا تو پھر کسی کی کیا مجال کہ ان کا مقابلہ کر سکے پس از راہ مکرو فریب آواز بلند کی حسین خیام کی خبر لیجئے کہ لوگ ان میں گھسنا چاہتے ہیں غیور امام نے یہ کلمہ سنا تو دریائے فرات سے پیاسے واپس پلٹے خیمہ میں پہنچے اورمستورات سے فرمایا کہ بس اب قید کےلئے تیار ہو جاو مجھے معلوم ہےکہ عنقریب تمہیں غلاموں اور کنیزوں کی طرح قید کر لیا جائے گا۔
اس کے بعد واپس میدان کا ر زار میں پلٹے اور ید اللہ کے بیٹے نے ید اللہی انداز میں ایک مرتبہ پھر فوج اشقیار پر اس زوار اورجوش سے حملہ کیا کہ ان میں باوجود کثیر التعداد کے مقتولین کی زیادتی کی وجہ سے کمی محسوس ہونے لگی اور آپ کی زبا ن درفشاں پریہ رجز جاری تھا۔
خیرۃ اللہ من الخلق ابی ثم امی فانا ابن الخیر تین فاطمہ الزھرا می و ابی قاصم الکفر ببدر وحنین من لہ جد کجدی فی الوری اوکشیخی فانا ابن العلمین
تمام خلق خدا سے میراباپ اورماں برگزیدہ ہیں پس میں دوبرگزید گان خدا  کافرزند ہوں فاطمہ زہرا میری ماں ہے اور میرا باپ بدروحنین میں کفر کے توڑنے والا ہے لوگوں میں کون ہے جس کا نانا میرے ناناکی طرح ہوا ورجس کاباپ میرے باپ کی مثل ہو
پس میں دو بے مثل شخصوں کی یاد گار ہوں۔
ایسا جنگ کیا کہ نصرت خدا وندی سراقدس کا طواف کر رہی تھی پس ہذا آئی جس میں نصرت اوراللہ کی ملاقات کے درمیان آپ کو اختیار دیا کیا گیاتو  آپ نے لقائ اللہ کو اختیار فرمایا ۔ آپ کھڑے ہوئے تھے کہ پیشانی اقدس پرایک پتھر لگا آپ نے کپڑا اٹھایا تاکہ پیشانی کو پونجھیں اتنے میں سہ شعبہ تیر دل مبارک پر آکر لگا تو آپ نے بسم اللہ وباللہ وعلی ملتہ رسول اللہ زبان پر جاری فرمایا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر عرض گزار ہوئے اے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ اشقیائ ایک ایسے فرد کو قتل کر رہے ہیں کہ اس کے علاوہ روئے زمین پر کوئی دوسرا نبی زادہ نہیں ہے یہ عبدو مولا میں راز کی بات تھی پھر عرض کی کہ میں تیری قضا پر راضی ہوں حضرت قائم آل محمد عج زیارت ناحیہ مقدسہ میں ارشا د فرماتے ہیں لقد عجبت من صبرک ملائکتہ السموات اے جد تیرے صبر سےملائکہ آسمان محو تعجب ہیں واسرع فرسک شارد االی خیانک قاصد امتحمحما باکیا جب کہ آپ کو گھوڑا خالی زین ہنہناتا ہوا روتا ہوا آپ کے خیام کی طرف پلٹا فلما راین النسا ئ جوادک مخذیا ونظر ن سرجک علیہ  ملویا جب مستورات نے آپ کے رہوار کو بد حالی میں دیکھا   اور نظر کی  کہ زین پشت رہوارسے جھکی ہوئی ہے برزن من الخدور ناشرات الشعور سر کھلے خیمہ سے نکل پڑیں  علی الخدود لا طمات بالحویل  واعیات وبعد المز مذللات والی مصرعک مباورات منہ پر طما نچے مارتی تھیں روتی چلاتی تھیں اور عزت کے بعد پریشان حالت بنا ئے ہوئے تھیں اور تیری قتل گاہ کی طرف دوڑتی تھیں لقد شققن الجیوب لطمن الخدود الفاطمیات علی الحسین بےشک حضرت  فاطمہ کی شہزادیوں نےحسین پر گریبان چاک کر ڈالے اور منہ پر پیٹا
یوم بنو النبی لمصطفی الھادی ذبائحتہ والفاطمیات اسرائ نوائحہ وسبط احمد عار بالعرائ بقی  مرملا بالد ماجرحا جوارحہ قامت قیامتہ اھل البیت  وانکسرت سفن النجاۃ وفیہ العلم والعمل وہ دن کہ جب مصطفی کی اولاد ذبح ہو چکی تھی اورجناب فاطمہ کی شہزادیاں قیدی ہو کر نوحہ گر تھیں احمد کا نواسہ جسم عریاں گرم زمین پر خاک و خون میں غلطان تھا اس کے تمام اعضا زخمی تھے اہلیبت میں قیامت بپا ہوئی اور شکستہ ہو گئی نجات کی کشی جسمیں علم وعمل موجود تھا۔
بی بی نے لاش اطہر کو اس  بے کسی کےعالم میں دیکھ کر یہ نوحہ پڑھا اور جناب رسالت مآب کی طرف خطاب کرکے یہ عرض کی
ھذا الذی قدکنت تلثم نحرہ امسی نحیر ا عن حدود ظبائھا من بعد ھجرک یا رسول اللہ قد القی طریحا فی ثری رمضا ئما
یہ وہ حسین ہے جس کی گردن کے آپ بوسے لیتے تھے ان تلواروں کی دھاروں سے نحر کیا جاچکا ہے تیری محبت کی گود کے بعد اے رسول اللہ تحقیق گرم زمین کربلا میں بے وارث پڑا ہواہے۔
پھر شمر کی طرف خطاب کر کے فرمایا  دعنا نودعتہ ونجلس عندہ یا شمر قبل تفرق و تنا ئ ہمیں اجازت دے تاکہ الوداع کرلیں اور بھائی کےپاس بیٹھیں اےشمر قبل جدائی اور دوری کے
دعنا نظلل جسمتہ یا شمر عن حرالھجیر وواضح الرمضا ئ دعنا نرش الما فوق جبینہ فلعلہ یصحوا من الاغمائ  ہمیں اجازت دے کہ اس کے جسم پر سایہ بنالیں دوپہر کی دھوپ اور سخت گرمی سے ہمیں اجازت دے کہ اس کی پیشانی پر پانی  چھڑک لیں شاید اس کو ٹھنڈک سے راحت محسوس ہو
اے زبان دیگر مگومے باش لا ل    کے تو اں کر دن حسین راوصف حال        ذاکر اسمش بس بروے شوروشین         گریہ میخو اہی ہمی گویا حسین
امام مظلوم کی شہادت ہو چکی تو چند حرامزادے لاش کو  لوٹنے کی طرف دوڑے اسحاق حضرمی نے امام مظلوم کے تن پارہ پارہ سے وہ قمیض  اتار لی جس کو پرانا سمجھ کر عریانی سے بچنے کے لئے امام نے بہن سے طلب کرکے پہنی تھی اور علاوہ کہنگی کے امام نے بھی اس کو پارہ پارہ کر دیا تھا پھر تیروں تلواروں اور نیزوں کے ایک سو سے زیادہ شگاف بھی اس میں پڑ چکے تھے اس ملعون نے قمیض کو پہنا تو برص میں مبتلا ہو گیا اور اسی عذاب سے واصل جہنم ہوا غالبا اسی نکتہ کے پیش نظر بتول معظمہ یہی قمیض لےکر بروز محشر مقدمہ دائر کریں گی امام مظلوم کا تہ بند ابحرین کعب نے اتارا  اس کے پاوں شل ہو گئے اور گرفتار عذاب ہو کر مرا احتس بن مزید حضرمی نے عمامہ اٹھا یاپس دیوانہ ہو کر مرا بجدل بن سلیم نے انگوٹھی اتاری اور آپ کی انگلی کو شہید کر ڈالا اسود بن خالد نے نعلین اتاریں قیس بن اشعبث نے پشمینہ اتار لیا عمر بن سعد نے روز لے لی اور سود بن حنظلہ نے تلوار لے لی امام مظلوم کا ازار بند قیمتی تھا جو گیارہویں کی رات جمال ملعون نے اتارنا چاہا پس امام نے اسکی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ اوپر رکھے اس بے حیا نے تلوار کا ایک ٹکڑالیکر امام مظلوم کے دونو ہاتھ یکے بعد دیگرے قطع کردئیے اتنے میں حضرت رسالت مآب حضرت علی حضرت حسن اور حضر ت فاطمتہ الزہرا علئیم السلام تشریف لائے اور وہ ملعون واپس ہٹ گیا
وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبون۔

ایک تبصرہ شائع کریں