التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پانچویں مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین


یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین
ایمان والوں کی صفات میں سے چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ سختیو ں اور تکلیفوں میں ثابت قدم رہا کرتے ہیں علی کےثبات قدم کا ذکر پہلی مجلس میں بھی ہوچکا ہے جنگ خندق میں علی کی پامردی جب عمروبن عبدود نے مبارزطلبی کی تو صحابہ کی حالت یہ تھی کانھم علی روسھم الطیر یعنی گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے صرف حضرت علی نے لیبک کہی تو حضور نےفرمایا وہ عمرو ہےتو علی نے جواب دیامیں بھی علی ہوںبالآخر حضرت علی کواپنا عمامہ سحاب باندھا اور رخصت فرمایا اور تمام صحابہ سے مخاطب ہو کرارشاد فرمایا برز الایمان کلہ الی الکفر کلہ یعنی سارے کا سارا ایمان سارےکے سارے کفر کےمقابلہ میں جا رہا ہے حضرت علی علیہ السلام نےاس کوضریت یداللہی سے واصل جہنم کیاتوارشاد  نبوی ہوا لٖضریتہ علی یوم الخندق افضل  من عبادتہ الثقلین یعنی علی کی خندق کےدن کی ایک ٖضربت جن وانسان کی عبادت سے افضل ہے فتح خندق مسلمانوں کی وہ کامیابی تھی کہ اس کے بعد کفار میں مقابلہ کی جرات نہ رہی اور حضور نےارشاد فرمایا الان نغزوھم ولا یغذوننا کہ اب ہم ہی ان سے لڑیں گے ورنہ ان میں ہمارے ساتھ لڑنے کی ہمت نہیں رہی اعلام الوری
خیبر میں علی
جناب رسالت مآب نے فرمایا تھا لاعطین الرایتہ غدا رجلا کرارا غیر فرار یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ لا یرجع اللہ حتی اللہ علی یدیہ یعنی ضرور کل میں علم فوج ایسے جوانمرد کے حوالہ کروں گا جو کرار غیر فرار ہو گا اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا اوراللہ اوراس کا رسول اسے دوست رکھتے ہوں گے وہ واپس نہ پلٹے گا مگر یہ کہ اللہ کی  فتح و نصرت اس کے ہاتھوں پر ہوگی اور مسند احمد میں الفاظ یہ ہیں لاعطین الرایتہ غدامن یا خذھا بحقھا یعنی کل علم فوج ایسے شخص کے حوالہ کردو ں گا جواسے کماحقہ بلند رکھے گا حضرت عمر فرماتے ہیں کہ حضور کا ارشاد سن کر اس دن مجھے بھی امیر فوج بننے کی تمنا پیدا ہوئی جو پہلے کبھی نہ تھی رات کو تمام صحابہ اسی خواہش میں پہلو بدلتے رہے اور حضرت علی نہایت اطمینان سے بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے رہے اللہم لا معطی لما منعت ولا مانع لما اعطیت اے اللہ جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اورجسے تودے اسے روکنے والا کوئی نہیں ۔ حضرت علی ارغوانی لباس میں شیرا نہ وارآگے بڑھے اور ابھی تک حضرت علی کے ماتحت سپاہی پورے میدان جنگ میں پہنچنے نہ پائے تھے کہ فتح و ظفر نے علی کے قدم چوم لئے طبر ی جناب رسالتمآب بنفس نفیس استقبال کےلئے آگے بڑھے اور بروایت جابر ارشاد فرمایا اے علی اگر یہ بات  نہ ہوتی کہ میری امت کا ایک گروہ تیرے حق میں وہ عقیدہ جمالیں گے جو انصاری کا حضرت عیسی کے متعلق ہے تو میں تیرے بارے میں وہ کچھ بیان کرتا کہ مسلمانوں کےکسی گروہ سےتیرا گزر ہوتا تو تیری طہارت کےپیش نظر تیرے قدموں کی خاک کوباعث شفا جان کر اٹھا کراپنے پاس محفوظ رکھتے لیکن اتنا کہتاہوں حسبک ان تکون منی ینزلتہ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ترجمہ تجھے بس ہے کہ تیری مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کوموسی سے تھی فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں تیرے اوپر میری ذمہ داریاں ہیں جن سے تو عہد برآہونے والا ہے تو ہی میرامحرم ہےاورمری سنت پر تو ہی جہاد کرنے والا ہے اور میدان محشر میں بھی تجھ سے زیادہ قریبی میراکوئی نہیں ہو گا تو حوض کوثر پر میرا ہمنشین ہوگا تحقیق تیرے شیعہ نور کے منبروں پر نورانی چہروں کے ساتھ میرے ارد گرد ہوں گے کہ میں ان کی شفاعت کروں ا ور جنت میں تیرےہمسایہ ہوں گے کیونکہ تیری لڑائی اور تیری صلح میری صلح ہے  تیرے رموز میرے رموز ہیں اورتیرے اولاد میری اولاد ہے تو ہی میرے قرضے ادا کرے گا اور تو ہی میرے وعدے پورے کرےگا تیری دل میں تیرے ساتھ اور سامنے اور مطح نظر حق ہی حق ہےایمان تیرے گوشت اور خون میں اس طرح یکجان ہے جس طرح مجھ میں ہے تیرادشمن حوض کوثر پر نہ  جائے گا اور تیرا محب حوض کوثر دور نہ ہو گا یہ سنتے ہی حضرت علی سر بسجود ہوئے اور حمد خدا بجا لائے تو جناب رسالت مآب نے فرمایا لولا انت یا علی لماعرف المومنون بعدی اے علی اگر تو نہ ہوتا تو میرے بعد مومنوں کی پہچان نہ ہوسکتی خدا وند کریم نے ہر نبی کی نسل اپنی صلب سےکی ہےاور میری نسل خدا نے تیری صلب سے قراردی ہے یاعلی تو خدا کی جملہ مخلوق میں سے اعزواکرم ہے میری امت میں جتنے لوگ میرے پاس وارد ہوں گے ان سب میں سےمجھے تیرے محب عزیز تر ہوں گے الروضہ الندیہ
حنین میں علی
اس دن فوج اسلام کی تعداد بارہ ہزار اور فوج کفار کی تعداد تیس ہزار تھی یہ لڑائی ہوازن کے خاندان سے ہوئی تھی مشجع نہدی بیان کرتا ہے کہ مجھے اپنے باپ نے سنایا کہ میں اپنی قوم کا سردارتھا اور ہوازن کی لڑائی میں میں خود شریک تھا میں نے فوج اسلام میں ایک جوانمرد بہادر کولڑتے ہوئے دیکھا کہ جس مقابل کےسامنے جاتا ہے اسے گرا کر ہی چھوڑتا ہے اور جو شجاع بھی اسکےمقابلہ کے لئے جاتا ہے وہ جا ن پر نہیں ہو سکتا میں نے دیکھا کہ ابن قریع اس کیطرف بڑھا اور میری دانست میں یہ شخص نہایت دلیراور آزمودہ کار تھا لیکن جب وہ شخص اسکے سامنے آیا اور تلوار کی ایک ہی جنبش سےاس کے سر کی کھوپڑی کوا ڑاکررکھ دیا تو ابن  قریع کا پیشاب نکل گیا اورمیں نے دیکھا کہ وہ صرف دشمنوں میں سے سردار ان قوم ہی کو چنتا تھا اور اس کے حملہ سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا پس وہ دن حضر ت محمد مصطفی کی فتح کا تھا اور  میں اس جنگ کےبعد مسلمان ہوا بعد میں مجھے معلوم ہواکہ وہ جوان علی بن ابی طالب تھا
وادی رمل میں علی
اس لڑائی میں حضرت رسالت مآب نے کئی سوصحابہ کو حضرت ابو بکر کی سر کردگی میں بھیجا لیکن ناکام واپس آئے پھر اتنی تعداد کو حضرت عمر کی قیادت میں روانہ کیا لیکن نتیجہ ناکامی رہا پس حضرت علی کو روانہ فرمایا اور حضرت علی فاتح و کامران ہوکر واپس آئے کہ قرآن کی سورۃ العادیات بھی انہیں کے حق میں اتری جاتے ہوئے حضور نے مسجد احزاب تک مشایعت کی تھی اورواپسی پر استقبال کا حکم دیا تو صحابہ دوصفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے اور حضرت علی کو آپ نے اترنے نہ دیا اور فرمایا اے بھائی تو سوار ہو کر خدا وند رسول تجھ سے خوش ہیں پس حضرت علی خوشی کے مارے رو دئیے اور اترکر حضور کے قدموں کابوسہ لیا اس دن بھی حضور نےفرمایا کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہو تا کہ میری امت متعلق وہی عقیدہ رکھ لے گی جو انصاری کا عیسی کے متعلق ہے تو میں تیرے حق میں کچھ کہتا کہ تو کسی گروہ پرسے نہ گزرتا مگر یہ کہ وہ تیرے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ۔
جنگ جمل میں علی
اس جنگ میں حضر ت علی کا لشکر 20 ہزاراور عائشہ کا لشکر 30 ہزار تھا جناب امیر نے اپنی رزہ پہنی اور تلوار اٹھائی وہی تلوار جو چوتھائی صدی سے زنگ آلود ہو چکی تھی حضرت عائشہ نے کنکر ے اٹھا کر جناب امیر کے لشکر کیطرف پھینکے تو حضرت علی کے ایک سپاہی نے کہا وما رمیت اذرمیت والکن الشیطن رمی قبیلہ ازد کی ایک جماعت حضرت عائشہ کے اونٹ کی مینگنیاں اٹھاتے اور سونگھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ماں کے اونٹ کے فضلہ کی خوشبو کستوری کی طرح ہے حضرت علی نے اپنے ایک غلام کو قرآن شریف دے کر لشکر عائشہ کی جانب بھیجا تو اس کے ہاتھ کاٹ کر اسے شہید کردیا گیا پس آپ نے فرمایا کہ اب لڑائی درست ہے عبداللہ بن سنان کا ہلی سے مروی ہے کہ جمل کےروز پہلے ہم نے تیر اندازی کی یہاں تک کہ تیر کش خالی ہوگئے پھر باہمی نیزہ زنی اتنے زوروں پر ہوئی کہ ان کے اور ہمارے سینوں میں تیروں کی لائن بن دی گئی کہ اگر شاید اوپر سے گھوڑے گزارے جاتے تو وہ گزر سکتے طبری اسی جنگ میں حضرت امیر نےاپنے شہزادہ حضرت محمد بن حنیفہ کو فرمایا تھا جب کہ انہیں علم  فوج سپرد فرمایا بیٹا پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں لیکن تیرے قدموں میں لغزش نہ آئے پس دانت پیس کر دشمن کا مقابلہ کرو اور اپنا سر اللہ کے حوالہ کرو اور قدموں  کو میخ کی طرح زمین میں گا ڑ دو اور قوم کے آخری سپاہی تک اپنی نظر رکھو اور یقین جانو کہ نصرت اللہ کی طرف سے ہوگی سخت تیر بارانی کےسبب حضر ت محمد بن حنیفہ آگے نہ بڑھ سکے توا ٓپ نے علم فوج اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ایک ایسا ہولناک حملہ کیا کہ سپاہ دشمن میں کھبلی ڈالدی او ر واپس آکر فرمایا کہ حملہ یوں کرنا چاہیے حضرت امیر علیہ السلام نے آواز دی کہ اونٹ کو پے کر و تاکہ ان کی جمعیت متفرق ہوجائے پس ایک شخص نے بڑھ کر تلوار ماری اور اونٹ گر گیا اوراتنی شدید آواز بلند کی کہ اس قسم کی سخت آواز اس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی اسی جنگ میں دس ہزار مسلمان قتل ہوئے حضرت علی نے پورے احترام سے حضرت عائشہ کومدینہ پہنچوایا
حمیر اجنگ جو باحیدر آمد   کہ جنگشن جنگ باپیغمبر آمد       کہ پدرش مرد ترسان و جباں بود    نگہ کن دختر ش جنگی بر آمد مفتی صاحب قبلہ
صفین میں علی
یہ لڑائی تین ماہ متواتر رہی اور حضرت علی نے کئی بار مقابلہ کےلئے معاویہ کوبلایا لیکن وہ سامنے نہ آیا حضرت علی کا لشکر نوے ہزار اور معاویہ کا لشکر 30 لاکھ تھا اس جنگ میں ستر ہزار مسلمان قتل ہوئے اور حضرت علی کی جانب سے شہدا کی تعداد کل چار ہزار ہے اس جنگ میں لشکر شام کے دو بہادروں نے ایک بسر بن ارطارۃ دوسرا عمرہ عاص حضرت علی کی تلوار سے بچنے کےلئے وہ شرمناک ذریعہ اختیار کیا جسے ذکر کرنے سے شرم مانع ہےایک شب و روز میں حضرت علی نے اپنے دست مبارک سے 523 آدمی قتل کئے جن سے اکثر کو رات  میں ہی قتل کیا مروج الذہب
کہتے ہیں ابتدا خلقت سےاب تک کوئی ایسا بادشاہ نہیں ہوا جس نے اپنے ہاتھ سے اس قدر قتل کئے ہوں جتنے حضرت علی نےا یک رات صرف لیلتہ الہریر میں قتل کئے اس موقعہ پرایک دن اور ایک رات متواتر لڑائی رہی شایدا ن کی مراد وہ بادشاہ ہوں جن کے پاس منظم لشکر اور خوشحالی ہو ورنہ میدان مصائب کے بادشاہ جنہیں میدا ن کربلا میں ابتلائے عظیم کا سامنا ہوا  اس موقعہ پر انہوں نےشجاعت کا وہ نمونہ پیش فرمایا کہ رہتی دنیا تک اس کی نظیر کا ملنا مشکل ہے ان کی حالت مسافری بیداری بھوک و پیاس اور عزیزوں کی سامنے موت جومثل گو سفیدوں کے بیدردی سے ذبح کئے گئے تھےا ور اس کےعلاوہ بدن مبارک میں تلواروں اورنیزوں کے زخم جوشمار سے باہر تھے اور ساتھ اہل حرم کا اضطراب اور ان کی اسیری کا فکر بایں ہمہ ان کی بے نظیر شجاعت بس یہ حسین ہی کا کام تھا جنگ صفین کاستائیسواں روز تھا کہ حضرت امیرعلیہ السلام نےاپنے لشکر میں آواز دی تھی ھل من معین تو بارہ ہزار مسلح جوانمردوں نے لبیک کہتے ہوئے عرض کی تھی حضور ہم آپ کے سامنے مرنے کو حاضر ہیں پس نیام توڑ کر ننگی تلوار یں ہاتھوں میں لے کر میدان کار از میں کود پڑے تھے لیکن آہ جب حسین نے آواز دی ھل من ناصرینصرنا تو کسی ایک نے  بھی جواب تک نہ دیا وہ بار بار صدائے استٖغفار بلند کرتے تھے اور کوئی نہ سنتا تھا جنگ صفین کے 29 ویں روز عباس بن حارث بن عبدالمطلب نے ایک شامی بہادر کو قتل کیا اور شامی کا بھائی بدلہ لینے کےلیے آگے بڑھا تو عباس خدمت امام میں آ کے حاضر ہوا اور شامی سے کہا کہ اجازت لے کر ابھی آتا ہوں تو اس موقعہ پر عباس کی امداد کے لئے حضرت علی نے اعباس کاسا لباس او ر اس جیسے ہتھیار لگا کر میدان میں قدم رکھا اور ایک ضربت یداللہی میں سے اسےدو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس ضربت سے تمام فوج شام میں تعجب سا طاری ہوا پس عمرو بن عنس لخمی جو مشہور بہادر تھا آگے بڑھا تو حضرت نے ایک ہی وار سےاسے بھی دو ٹکڑے  کیاکہ اوپر کا حصہ اس کا زمین پر گر پڑا اور نیچے کا حصہ گھوڑے کےاوپر رہا یہ دیکھ کر عمرو عاص نےآوازبلند کی کہ یہ علی کا کارنامہ ہے تو معاویہ نے کہا توغلط کہتا ہے عمرو نے کہا اگر میری بات پر باور نہیں تو گھوڑ سواروں کو حکم دیا جائے کہ سب یکبارگی حملہ کریں اگر میدان میں جما رہے تو سمجھنا علی ہے ورنہ کوئی اور ہوگا جب انہوں نے ایسا کیا او ر حضرت علی کے قدموں میں لغزش نہ آئی تب وہ سمجھے کہ یہ علی ہے اس موقعہ پرمالک اشتر نے عرض کی قبلہ عالم آپ کو رسول سے حق قرابت کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ ہٹ جائیے اور مجھے جنگ کی اجازت مرحمت فرمائیے پس آپ نےا س کو اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ مالک اشتر کے رجزیہ اشعار بقیت وفری الخ حماسہ میں موجود ہیں حضرت سید الشہدا دشمنوں کے مقابلہ میں تنہاپوری ثابت قدمی کا مظاہرہ فرماتے رہے لیکن کوئی نہیں تھا جو کہتا کہ آپ آرام کریں اور مجھے اجازت دیں امام و آلام میں  گھرے ہونے کے باوجود اس قدر شجاعت کامظاہرہ یہ صرف حسین ہی کا کام تھا آپ کے تمام زخم سامنے کی طرف تھے صرف دو زخم پس پشت تھے ایک سہ شعبہ تیر کا زخم جس کو پیچھے کی طرف سے نکالا تھا اور دوسرا شانوں کا زخم جو غربا تک کھانا پہنچانے کی وجہ سے ہو گیا تھا
انا للہ وانا  الیہ راجعون
بعض روایات سے کتب مقاتل و تاریخ میں منقول ہے کہ آج تک کوئی ایسا دلیر و جری بہادر نہیں گزراجس کے تن پاش پاش میں بے حدوحساب زخموں کے علاوہ اسکےسامنے بیٹے بھتیجے بھائی اور جملہ انصار گو سفندوں کی طرح ذبح کئے گئے ہو ں نیز دل اہل پردہ کی بے بسی کا احساس بھی ہوا اور بھوک و پیاس بھی حد کمال تک پہنچی ہو ان تمام باتوں کے باوجود پوری دلجمعی اور سکون قلب سے شیرا نہ وارد شمنوں کا مقابلہ کرنے اور پوری جرات کا مظاہرہ کرکے میدان قتال میں اقدام کرتے ہوئے دشمنوں کی فوجوں کو تتر بتر کردے یہ صرف حسین ہی کا کام تھا اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ علی کی شجاعت کے مقابلہ میں تمام شجاعان زمانہ کے کارنامے ہیچ ہیں لیکن حسین کی شجاعت کی نوعیت کچھ اور ہے کیونکہ حضرت علی کا جہاد صرف مد مقابل سے ہوتا تھا اور کربلا میں حسین کا جہاد کافی دشمنوں سے تھا پیاس گرمی درد اولاد اور فکر ناموس وغیرہ کوفیوں کی یلغار سے کہیں بڑھ کر تکلیف دہ تھے لیکن پائے حسین میں نغزش نہ آئی اور قدم لڑ کھڑا نے نہ پائے پس ایسا جہاد کیا تا  قیامت انصاف پسند طبائع اور حق طلب انسان آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے آہ بہن کیلئے  کسقدر صبر آزما وقت ہو گا جب حسین آخری وداع کیلئے تشریف لائے ہوں گے سرتا پازخموں سے چور پیشانی سے خون جاری وہان اقدس زخمی گلوئے نازنین پر تیر کا زخم اور سینہ مقدس پر سہ شعبہ تیر کا شگاف گویا پورا لباس خون سے رنگین تھا اور جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی تھا افتاں و خیزاں درخیام پر تشریف لائے اور یہی وہ وقت تھا جب پردہ نشیناں سر اوقات عصمت کو آخری دیدار امامت کیلئے پریشانی لاحق تھی پس آپ نے دھیمے لہجے میں فرمایا ہو گا یا زینب ویا ام کلثوم ویاسکینتہ ویارباب علیکن منی السلام جیسا کہ یہ فقرے زبان زد عام ہیں اس سلام کے بعد تو بیبیوں کویقین ہو گیا کہ اب ہمار ا آخری سہارا بھی ختم ہونیوالا ہےہو سکتا ہےکہ بہن نے بھائی کےلاتعداد زخموں پرپٹی باندھنے کی خواہش ظاہر کی ہوا اورممکن ہے کہ بہن نے بھائی کے گلے پر بوسہ دینے کی خواہش بھی کی ہو جیسا کہ ذاکرین کی زبان پر جاری ہے پس اس کے جواب میں حسین نے بہن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ہوگا اور سر کے کھلے بالوں پر بھی ضرور بوسہ دیا ہو گا اور بہن کو آخری وصیت میں فرمایا کی مجھے نماز شب میں نہ بھول جانا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں