التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اکیسویں مجلس -- کونوامع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم  کونوامع الصادقین
بروز قیامت حضرت امیر علیہ السلام کی شان جناب رسالت مآب سے سنئیے حضرت عمر سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا یا علی تیر ا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہو گا اور بروز قیامت تم وہاں ہو گے جہاں میں ہو ں گا ایک روایت میں ہے کہ جنت میں علی کا نور اس طرح توباں ہوگا جس طرح صبح کا ستارہ اہل دنیا کے لئے روشن ہوتا ہے ابو سعید سےمروی ہے کہ حضور نے فرمایا یا علی معک یوم القیامتہ عصامن عصی الجنتہ تذودبھا المنفقین عن الحوض اے علی بروز قیامت تیرے پاس بہشت کی لاٹھیوں میں سے ایک لاٹھی ہو گی جس کے ذریعہ سے تو منافقوں کو حوض کو ثر سے بھگائے گا نیز ابو سعید سے  مروی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے علی کے بارے میں خدا نے پانچ چیزیں عطا فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک دنیا و مافہیا سے بہتر ہے بارگاہ خدا میں بروز قیامت علی میرے ساتھ ہوگا یہاں تک کہ خلائق کا حساب تمام ہو گا لوائ الحمد اس کے ہاتھ میں ہو گا جس کےسایہ میں آدم اوراس کی اولاد ہو گی حوض پر کھڑا ہو گا اور انہی لوگوں کو کوثر پلائے کا جو اس کی معرفت رکھتے ہوں گے مجھے اس کے بارے میں یہ کوئی خدشہ نہیں کہ ایمان کے بعد کفر کرے پاکدامنی کو ہاتھ سے دھو بیٹھے الروضتہ البہیہ شرح التحفتہ العلویتہ اب ذرا دوسرے لوگوں کا میدان محشر میں حال ملاحظہ فرمائیے چنانچہ جنا ب رسالت مآب فرماتے ہیں میرے صحا بہ  میں سے حوض کوثر پر میرے پاس کئی لوگ آئیں گے جب میں انہیں دیکھوں گا اور وہ میرے قریب آنے کی کوشش کریں گے تو وہاں سے ہتانے جائیں گے پس میں کہوں گا یہ تو میرے صحابہ ہیں یہ میرے صحابہ ہیں پس مجھے جواب ملے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیرے بعد انہوں نے کیاکیا بدعات کیں بخاری جلد 4 کتاب الفقن و کتاب التفیسر سورۃ الانبیا جنا ب رسالت مآب نے جب شہدا نے بدر کی قوت ایمانی کی شہادتدی تو حضرت ابو بکر نے عرض کی ہم نے بھی ویسا ہی جہاد کیا جیسا کہ انہوں نے جہاد کیا اور ویسا ہی ایما ن لائے جیسا کہ یہ لائے تو آنحضرت نے فرمایا یا ں یہ ٹھیک ہے لیکن کیا معلوم کہ تم لوگ میرے بعد کیا کیا بدعات کرو گے موطا ان تصریحات کے بعد پھر جناب رسالت مآب کی طرف یہ منسوب کرنا کہ آپ نے فرمایا اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتھم اھتدیتم میرے تمام اصحاب مثل ستاروں کے ہیں جس کی بھی اقتدار کروں گے ہدایت پاو گے دین کےساتھ تمسخر نہیں تواورکیا ہے حضرت امیر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ میدان محشر میں سوار ہو کر سوائے ہمارے اور کوئی نہ جائے گا اور وہ ہم چار ہوں گے انصار میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی میرا ماں باپ آپ پر قربان ہو آقا فرمائیے وہ چار کون کون ہونگے فرمایا  میں براق پر سوار ہوں گا میرا بھائی حضر ت صالح پیغمبر اپنی ناقہ پر سوار ہو گا میرا چچا حضر ت حمزہ میری ناقہ عضبائ پر سوار ہو گا میر ا بھائی علی جنت کی ناقہ پر سوار ہو گا اور اس کے ہاتھ میں لوائ الحمد ہو گا عرش کےسامنے کھڑے ہو کر تو حید ورسالت کا کلمہ پڑھے گا تو تمام انسان دیکھ کر محو حیرت ہو کر کہیں گے یہ یاتو کوئی ملک مقرب ہے یا بنی مرسل اور یا حامل عرش ہے تو زیر عرش سے ایک فرشتہ جواب دیگا یہ نہ ملک  مقر ب ہے نہ بنی مرسل اور نہ حامل عرش ہے  بکہ یہ صدیق اکبر ہے اور یہ علی بن ابی طالب ہے الروضتہ البہیتہ کتاب المناقب لابی الموید سے بروایت ابو بردہ مروی ہے کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا اور ہم بھی پاس بیٹھے تھے کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے قیامت کےروز کوئی قدم اپنی جگہ سےجدا نہ ہو گا مگر یہ کہ خدا چار چیزوں کا سوال کرے گا عمر کے متعلق پوچھےگا کہ اس کو کن کن کاموں میں ختم کیا جسم کمایا اور کہاں لگایا اور ہم اہل بیت کے متعلق پوچھے گا کہ ان سے محبت کیسے کی حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ کی محبت کی کیا نشانی ہے تو آپ نے  اپنا ہاتھ حضرت علی کے سر پر رکھا جوان کے پہلو میں بیٹھے تھےا ور فرمایا میری محبت کی نشانی یہ ہے کہ میرے بعد اس کےساتھ محبت کی جائے مناقب امیر المومنین ص145 ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ علی بروز قیامت حوض کوثر پر ہو گا اور جنت میں کوئی داخل  نہ ہو گا مگر وہ جس کے پاس علی بن ابی طالب کی طرف سے جواز ہو گا نیز حضرت ابو بکر فرماتے ہیں میں نے حضرت رسالت مآب سے سنا کہ پل صراط سے کوئی نہ گذر سکے گا مگر وہ جس کے پاس  علی
عن عمرہ فیما افناہ وعن جسد ہ فیما ابلا ہ وعن مالہ عما کسبہ وفیم انفقہ وعن حبنا اھل البیت فقال  لرعمر ما آیتہ جسکم فرضع یدہ علی را س علی کرم اللہ وجہہ وھو جالس الی جنبہ قال  آیتہ حبی ھذا من بعدی قال رسول اللہ علی یو م القیامتہ علی الحوض لا ید خل الجنتہ الامن جا ئ بجواز من علی بن ابی  طالب سمعتہ  رسول اللہ یقول واللہ لا یجوز احد الصراط الا من کتب لہ علی الجواز صواعق محرقہ ابن حجر مکی
کی تحریر ہو گی حضرت  عائشہ فرماتی ہیں میں  نے ایک دفعہ اپنے والد کو دیکھا کہ بار بار حضرت علی کی طرف دیکھ رہے تھے میں نے پوچھا بابا جان میں دیکھتی ہوں کہ آپ حضر ت علی کے چہرہ کی طرف بہت دیکھتے ہیں تو فرمایا بیٹی میں نے جناب رسالت مآب سے سنا ہے کہ النظر الی وجہ علی عبادٰۃ الروضتہ الیتہہ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا کہ قیامت کے دن خدا مجھے اورعلی کو فرمائے گا القیا فی النار من بعضکما و ادخلا الجنتہ من احیکما جہنم میں ڈالو جو تمہارا دشمن ہے اور بہشت میں داخل کرو جو تمہار ا دوست ہے اور اسی کے متعلق پروردگار کا ارشاد ہے والقیا فی جھنم کل کفار عنید ابو القاسم حسکانی نیز ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ حضرت رسالت مآب نے فرمایا وقفوھم انھم مسئولون یعنی قیامت کے دن حکم ہو گا کہ ان کو روکو کہ ان سے کچھ پوچھا جانےوالا ہےاس سےمراد ولایت علی کا سوال ہوگا اور واحدی نے بھی یہی مراد لی ہے کہ کہاہے کہ اس آیت مجیدہ سے حضرت علی اوراہل بیت کی ولا ی کےسوال کے متعلق روایت کی گئی ہے کیونکہ خدا وند کریم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا تھا کہ ان کو صاف صاف کہہ دو کہ میرا اجر رسالت اورکچھ نہیں سوائے مودۃ فی القربی کے اور ان کے متعلق سوال کا مقصد یہ ہو گا کہ آیا پیغمبر کی وصیت کے مطابق  ان کی دوستی کا حق پورا کیا گیا ہے ی ان کو مہمل یا ضا ئع چھوڑ دیا گیا ہے پس یہی مطالبہ ہو گا اورسرزنش ہوگی صواعق محرقہ اس کو ابو نعیم ابو القاسم حسکانی اورابن مرودیہ نے بھی نقل کیا ہے ان مراتب کےباوجود جب حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کا جائزہ لیا جائے اور خوف خدا سےان کا رونا دیکھا  جائے تو ان کی عظمت معرفت کا خوب پتہ چلتا ہے لیکن کتنا تعجب ہے کہ وہ باوجود اتنے بلند مراتب کے خوف خدا سے گریہ کریں اور ہم بایں سیہ کا ری مطمن رہیں حضرت امیر علیہ السلام کے دور میں حضرت کے  بعض شیعہ ایسے تھے جو سیرت علوی پرچل کر بلند مرتبہ پر فائز ہو گئے جن کے متعلق یہ وارد ہےکہ ان کو یاد کرکے حضرت علی سردآہ کھینچتے تھے کہ وہ کہاں گئے اور بعض بد عمل ایسے تھے جن کے متعلق فرماتے تھے تمہارا امام اللہ کا اطاعت گذار ہے اور تم لوگ اس کےنافرمان ہو ادھر اہل شام کا امام اللہ کا نافرمان ہے لیکن وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں خدا کی قسم مجھے پسند ہے کہ معاویہ اپنے صحابہ کا میرے ساتھ سودا کرتا جس طرح دینار کا درہم کے بدلہ میں یعنی وہ مجھ سے ایک کے بدلہ  میں دس دس لیتا خدا کی  قسم میں تم سےا س قدر تنگ دل ہوں کہ کاش میری اور تمہاری آپس میں پہچان نہ ہوتی کیونکہ تمہاری پہچان میرے لئے ندامت کا باعث ہوئی ہے تم لوگوں نے میرا سینہ غم و غصہ سے پر کر دیا ہے ایک مقام پر ارشاد ہے محمد کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کر ے خواہ اس کا ظاہری تعلق دور کا ہوا ور محمد کا دشمن وہ ہے جو خداکا نا فرمان ہو خواہ اس کا رشتہ ظاہری قریب ہی ہو۔
بحار  الانوار میں مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت امیر علیہ السلام نےا یک عورت کو دیکھا جو پانی کی مشک اٹھا کر لےجارہی ہے تو آپ نے وہ مشک اس سے لی اورخود اٹھا کر منزل مقصود تک پہنچائی اور اس سے حال دریافت کیا اس عورت نےجواب دیا کہ علی بن ابی طالب نے میرے شوہر کو جنگ میں بھیجا ہےاور وہ وہاں شہید ہو گیا میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں اور میرے پاس کچھ نہیں رہا پس مجبور ہو کر لوگوں کی نوکری کرتی ہوں آپ واپس آئے اورساری رات بے چینی میں گذاری صبح سویرے ایک زنبیل میں خوردونوش کاسامان اٹھایا اورروانہ ہوئے راستہ میں کسی نے خواہش کی کہ میں اٹھا لوں تو فرمایا قیامت  کے دن میرا بوجھ کون اٹھا ئے گا پس اس عورت کے گھر  پہنچے اور دق الباب کیا عورت نے دریافت کیا کہ کون تو جواب دیا کہ میں وہی شخص ہوں جس نے کل  مشک اٹھائی تھی دروازہ کھول کیونکہ میں تیرے بچوں کے لئے کچھ لایا ہوں عورت نےجواب دیا خدا تجھ سے راضی ہواور میرے اور علی کے درمیان بھی وہ خود ہی فیصلہ کرے پس حضرت داخل ہوئےاور فرمایا میں ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں لہذا ایک کام تم کرو اور ایک میرے ذمے لگاو آٹاخمیر کرکے روٹیاں تیار کروں یا بچوں کو کھیل میں مشغول رکھوں عورت نے جواب دیاکہ روٹیاں میں خود اچھی طرح پکانا جانتی ہوں لہذا آپ بچوں کو بہلائیں بس اس عورت نے آٹا لیا اس کو خمیر کیا حضرت امیر علیہ السلام نے گوشت بھوننا شروع کیااور بھون بھون کربچوں کو کھلاتے تھے اور خرما کے دانے ان کے منہ میں دیتےتھے اورفرماتے تھے بیٹا علی کو معاف کرنا وہ تمہاری یتیمی کا باعث ہوا ہے جب عورت نے آٹا خمیر کرلیا تو عرض کی آپ تنور میں آگ جلائیں تو آپ نے اٹھ کر فورا تنور میں آگ روشن کی جب تنور سےشعلہ نکلا اورآپ کے منہ کو حرارت پہنچی تو اپنے آپ کو فرمایا اےعلی یہ اس شخص کا بدلہ ہےجو بیواوں او ر یتیموں کو ضائع کرے ایک دوسری عورت نے دیکھا تو گھر والی عورت سے کہنے لگی تیرے اوپر وائے ہویہ تو امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں پس وہ عورت جلدی سے خدمت اقدس میں پہنچی اورعرض کی مجھے معاف فرمائیے میں آپ سے شرمندہ ہون آپ نےفرمایا اےعورت تو مجھے معاف کر کیوں کہ میں تجھ سے شرمسار ہوں کہ میں نے تیرے معاملہ میں کوتاہی برتی ہے آئیے ہم کوئی ایسا کام کریں کہ حضرت علی ہم پر راضی ہوں آج حضرت علی کی حالت نازک ہے  آئیے آپ کی بیمار پرسی کریں اورمستحب ہے کہ انسان اگر کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائے تو مریض کےلئے کوئی چیز بطور تحفہ لے جائے لیکن اس مریض کا تحفہ یہ ہے کہ جن گناہوں کے ہم  مرتکب ہو رہے ہیں ان میں سے کم از کم ایک گناہ چھوڑنے کا عہد کر لیں آج اکیسویں کی شب حضرت امیر علیہ السلام تکیہ کے سہارے بیٹھے ہیں حالانکہ پوری زندگی میں تکیہ کا سہارا لیکن نہیں لیا تھا ۔ حضرت محمد حنیفہ فرماتے ہیں کہ زہر نے جسم اقدس میں سرایت شروع کی ہم نے قدموں پر نگاہ کی تو وہ زہر کے اثر سے سرخ ہو چکے تھے ہم پر وقت بہت گراں تھا اور آپ کی تکلیف بھی بڑھ رہی تھی پس لوگ داخل ہوئے آپ نے ان کے سامنے اوامر نواہی اوروصتیں بیان فرمائیں ہم نے کھانے پینے کے لئے کچھ پیش کیالیکن آپ نے انکار فرمایا ہم نے دیکھا کہ ہونٹ مبارک ذکر خدا میں حرکت کر رہے تھے اور پیشانی نورانی سے پسینہ جاری تھا جس کو وہ ہاتھ سے صاف کرلیتے تھے میں عرض کی  بابا جان آپ ہاتھ سے پسینہ صاف کر رہے ہیں توفرمایا بیٹا  میں نے جناب رسالت مآب سے سنا ہے کہ مومن کی پیشانی پر بوقت موت پسینہ آتا ہے کہ وہ مثل تازہ موتیوں کے ہو جاتے ہے اور اس کی گھبراہٹ ختم ہو جاتی ہے پھر حضرت عباس اور اپنی تمام اولاد کو نام لے کر چھوٹے بڑے کو یکے بعد دیگرے اپنے پاس لایا دوران سے وداع کیا اور فرمایا اب اللہ تمہار ا نگہبان ہو گا میں تمہیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں یہ سن کر سب رو رہے تھے پھر امام حسن کو وصتیں فرمائیں منجلہ ان کے ایک یہ کہ میری  قبر کو مخفی کرنا امام حسن نے عرض کی بابا جان آپ وصتیں کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا بیٹا میں نے تیرے نانا کو خواب میں دیکھا ہے اورمیں نے اپنی تکلیفات بیان کیں تو انہوں نے فرمایا ان پر دعا کرو تو میں نے کہا اے اللہ اس امت کو کوئی برا حاکم نصیب کراور مجھے اچھا ساتھ عطا فرما تو حضرت رسالت مآب نے فرمایا پس تیری دعا قبول ہے اور تو تین دن کے بعد ہمار ا مہمان ہو گا چنانچہ اے حسن وہ تین دن ختم ہو گئے ہیں ۔
پھر فرمایا اے حسن اپنے بھائی حسین کا خیال کرنا تم دونو مجھ سے ہو اور میں تم سےہوں غالبا امام حسین کے زیادئی مصائب کی طرف اشارہ تھا نیز امام حسین کے  چہرہ و  سینہ پر دست شفقت پھرااور نہ معلوم اس میں کیا راز مضمر تھا پھر اپنے دونو شہزادوں یعنی امام حسن اور اما م حسین سے خطاب کرکے فرمایا کہ میرے بعد تم دونو پر مصائب کا ہجوم ہوگا پس صبر کرنا یہاں تک خدا خود فیصلہ کرے اور وہ حاکم الحاکمین ہے پھر بالخصوص امام حسین سے فرمایا اے فرزند تو اس امت کے ہاتھوں شہید ہو گا پس تقوی اورصبر کو نہ چھوڑنا اس کے بعد غیر فاطمی اولاد کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ ہرگز ہز گز اولاد فاطمہ کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت امیر کے باقی فرزند  میدان کربلا میں ایک دوسرے سے بڑھ کر امام حسین کے سامنے شہادت کوگلے لگاتے تھے پھر آپ نےجملہ اولاد کو تسلی دی اور فرمایا کہ میں اسی رات تم سے جدا ہونے والا ہوں اور جناب رسالت مآب سے جاملنے والا ہوں حبیب بن عمرو بیان کرتا ہے کہ میں حضرت امیر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور یہ زخم معمولی ہے آپ فکر نہ کریں تو فرمایا اے حبیب خدا کی قسم میں ابھی تم لوگوں سےجدا ہونے والا ہوں پس میں رویا اور آپ کی شہزادی جناب ام کلثوم بھی ان کلمات سے متاثر ہو کر رونے لگیں تو آپ نےفرمایا اے بیٹی تم نہ روو اور اگر تم وہ چیزوں دیکھتی جس کو میں دیکھ رہا ہوں تو ہرگز  گریہ نہ کرتی حبیب کہتا ہے میں نے پوچھا اے مولا آپ کیا دیکھ رہے ہیں تو فرمایا ملائکہ کی صفین جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہیں اور میری انتظار میں ہیں اور میرے بھائی جناب رسالت مآب میرے پاس تشریف فرما ہیں تو مجھے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے ہیں حبیب کہتا ہے  اس کے بعد میں رخصت  ہوا اور آپ کی اسی آذان میں رحلت  ہوئی
جناب علیا زینب خاتون فرماتی ہیں کہ جب موت کے آثار میں نے دیکھے تو خدمت اقدس میں عرض کی بابا جان میں نے ام ایمن میں سے ایک حدیث سنی تھی اور آپ کی زبان گہر بار سے بھی سنتا چاہتی ہوں آپ نے فرمایا جو کچھ ام ایمن نے بیان کیا تھا درست ہے بےشک تم اسی شہر میں ایک وقت قید ہوکر آو گی اس وقت تمہارا کوئی خیر خواہ اورپرسان حال نہ ہو گا پس صبر سے کام لینا اور فرمایا کہ اس وقت حق کا طرفدار  تمہارے سوا کوئی نہ ہو گا پس اپنی تما م اہلبیت کو ایک نظر سے دیکھا اور فرمایا کہ تمہیں اللہ کو سونپا خدا تمہیں محفوظ رکھے وہی تمہا را نگہبان ہوگا اور فرمایا اے ملائکہ پروردگار تم پر میرا سلام ہو پھر  قرآن مجید کی ایک تلاوت فرمائی اور پیشانی اقدس پر پسینے کے قطرات نمودار ہوئے ذکر خدا اور کلمہ شہادتیں زبان پر جاری ہوئے رخ انور کو  قبلہ کی طرف پھیر لیااو ر آنکھیں بند کر لیں اور  ہاتھ اورپاوں دراز کرکے کلمہ شہادتیں کو زبان پرجاری فرمائےہوئے  اعلی علیین کی طرف روانہ ہوئے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

ایک تبصرہ شائع کریں