التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چوبیسویں مجلس -- یا ایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین


یا ایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین
سچوں  کے ساتھ رہنے کا حکم ہے اور انہی سچوں کے ذریعے سے خدا کی رضا اور جنت کا پروانہ حاصل ہو سکتا ہے خدا وند کریم نے لوگوں کی قسمیں بیا ن فرمائی ہیں لوگوں میں سےبعض ایسے ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جانیں بیچ دیا کرتے ہیں اور ایک مقام پر ارشاد ہے اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس و مال خرید لئے اور بدلہ میں ان کو جنت دی خرید و فروخت کےلئے چار چیزیں ضروری ہیں بیچنے والا خریدنےوالا جو چیز بیچی جائے قیمت
یہاں بیچنے والا انسان خریدنے والا اللہ جو چیز بیچی گئی وہ ہے جان اور مال اور قیمت سےر ضائے خدا اور جنت اور خدا کی تعریف کرتاہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کےساتھ یہ سودا کیا غایتہ المرام میں موفق بن احمد نے باسناد جنا ب رسالت مآب سےروایت کی ہے کہ آپ نے حضر ت علی سے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو تم نور کی سواری پر سوار ہو گے اور سہ پر نورارنی تاج ہوگا جس سے اہل محشر کی آنکھیں خیر گی کریں گی پس اللہ کی جانب سے ندا آئے گی کہ کہاں ہے محمد کا خلیفہ توتم جواب دو  گے کہ میں حاضر ہوں تو ارشاد ہو گا کہ اپنے محب کوجنت میں داخل کرواور اپنے دشمن کو جہنم بھیج دو کیونکہ تم ہی جنت دوزخ کے قسیم ہو اسی لئے حضرت علی فرماتے تھے ان قسیم النار والجنتہ نیز حضور نے فرمایا کہ حضرت علی بروز قیامت حوض پر تشریف فرماہو ں گے اور جنت میں کوئی نہ جاسکے گا مگر وہ جس کے ہاتھ میں حضرت علی کاٹکٹ ہوالروضتہ الندیہ
قول مولف چونکہ آیت مجیدہ یہ ہے کہ جس طرح زر خرید غلام اپنے وجود کا خود مالک نہیں  ہوتا بلکہ اس کا آقا اس کا مالک ہوتا ہے اسی طرح میرے بعض بندے میری رضا کے لئے اپنے نفس کو میرے حوالے کردیتے ہیں یا جنت کی خاطر اپنے جان و مال و نفس اللہ کو دے دیتے ہیں یعنی وہ اپنے تمام تصرفات میں اللہ کے تابع فرماں ہوتے ہیں اور بغیر اللہ کی مرضی کے ان کا کوئی عضو حرکت نہیں نہیں کرتا پس علی کا تمام وجود اللہ کا ہے اس کا نفس نفس اللہ ہاتھ ید اللہ آنکھ عین اللہ چہرہ وجہ اللہ زبان لسان اللہ پہلو جنب اللہ یعنی علی کے اعضا سے وہی کچھ ہوگا جو اللہ کی منشا ہوگی اورعلی ہر فعل میں مظہر ذات خدا ہے چنانچہ علی کے ہاتھ قدرت خدا کے مظہر بنتے رہے آئیےید اللہ کے آثار ملاحظہ فرمائیے
جب خیبر کے قلعہ قموص کے دروازہ کو جنبش دی تو پورا قلعہ تھر تھر اگیا حتی کہ جنا ب صٖفیہ تخت سے گر پڑیں پھر دروازہ کو بائیں ہاتھ کے ساتھ اکھیڑ کر پھینکا جس کو چالیس جوان نہ اٹھا سکتے تھے اس دروازہ کا کنڈا وغیرہ نہ تھا جس کو پکڑا ہو بلکہ ہاتھ کی انگلیاں اس میں درآئیں اور پکڑ کر اپنی پشت کے پیچھے پھینکا کہ چالیس گز دور جا پڑا یہ دروازہ 18 گز لمبا تھا اور دروازہ کےسامنے جو خندق کھدی ہوئی تھی اس کی چوڑائی کنارے سے مل گیا اور دوسرے کنا رے کو پیچھے اترکر اپنے ہاتھ پراٹھائے رکھا حتی کہ فوج اسلام کے 8 ہزار 7 سو آدمی اوپر سے گذر گئے اور گھوڑے بھی گذرے کسی صحابی نے عرض کی ہمیں حیرانی ہے کہ کس طرح علی نےاس دروازہ کو اکھیڑ ا اور اٹھایا پھر پھینک دیا اور زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیچے اتر کر ایک ہاتھ پر اٹھالیا کہ سارا لشکر اوپر سے گذر گیا آپ نے فرمایا اے بندہ خدا تونے علی کے کی طرف نگاہ کی ذرا علی کے پاوں کی طرف تو دیکھو جب اس نے دیکھا تو حضرت علی کےپاوں زمین پر نہیں تھے تو حد سے زیادہ محو حیرت ہو کر عرض کی حضور علی کے قدم تو ہوا میں ہیں آپ نے فرمایا ہوا میں نہیں ہیں بلکہ پر جبریل پر ہیں
حضرت علی فرماتے تھے کہ میں نے قلعہ خیبر کو قوت جسمانی سے نہیں اکھیڑا بلکہ قوت الہیہ سے اس کو اکھیڑ ا ہے عبداللہ بن خالد کہتا ہے ایک مرتبہ میں حضرت کے ہمراہ تھا کہ آپ کے کوفہ سے دو فرسخ کے فاصلہ پر مقام نخلہ سے گذرے وہاں سے پچاس یہودی نکلے اور انہوں نے پوچھا کہ آپ علی بن ابی طالب ہیں آپ نے فرمایا ہاں تو انہوں نے کہا ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک پتھر ہےجس پر چھ نبیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں ہم نے اسے ہر چند تلاش کیا ہے لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکا اگر آپ واقعی امام ہیں تو  وہ پتھر تلاش کر دیجئے آپ نے ان کو اپنے پیچھے آنے کی دعوت دی جنگل میں پہنچ کر ایک بڑے بلندر یگ کے ٹیلے کے پاس کھڑے ہو گئے اور ہوا کہ حکم دیا کہ خدا کے اسم اعظم کے صدقہ میں پتھر سے ریگ کودور کردے چنا نچہ ایک ہی گھنٹہ میں ہوا نے ریت کو اڑا کر پتھر کو ظاہر کر دیا پس آپ نے فرمایا یہ وہی پتھر ہے انہوں نے کہا کہ اس پر نبیوں کے نام کہاں ہیں آپ نے فرمایا اس کو الٹا و تو سہی پس کا فی آدمیوں نے کوشش کی لیکن ناکام ہو گئے پس آپ نے ان کو ہٹا کر ایک ہا تھ پتھر کی طر ف پڑھا یا اوراس کو الٹا کردیا پس اس پر چھ صاحبان شریعت پیغمبروں کے نام تحریر تھے حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسی حضر ت عیسی اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلہیم پس یہودیوں نے کلمہ توحید و رسالت وولایت زبان پر جاری کر لیا اورمومن ہو گئے دمعہ ساکیہ
میثم تمارسے مروی ہے کہ میں حضرت امیر کے سامنے بیٹھا تھا آپ احکام بیان فرمارہےتھے جب آپ کا بیان ختم ہوا توا یک نوجوان تھا اور اس نے ایک خط حضرت کے سامنے رکھ کر امیر شام کی تعریف کے چند کلمات کہے حضرت امیرنے عمار کو حکم دہا کہ سوار ہو کر قبائل کوفہ میں اعلان کرو کہ جس نے حق و باطل اور حرام و حلال میں فرق دیکھنا ہو فورا پہنچ جائے پس اعلان ہوتے ہی لوگ فور ا جمع ہوگئے کہ مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی عالم اور ع اورباطل انزع منبر پر تشریف لائے اور تخخ کیاتو لوگوں پر خاموشی چھا گئی آپ نے فرمایا وہ امام امام نہیں جس کی دعا یا برکت سے مروۃ زندہ نہ ہو اور آسمان سے بارش نہ برسے یا اس قسم کےمعجزات نہ ظاہر کرسکے جن کے اظہار سے دوسرے لو گ عاجز ہوں اور تم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو یقین ہے کہ میں آیت باقیہ کلمہ نامہ اورحجت بالغہ ہوں معاویہ نے میری طرف ایک بد زبان  بے لگا م جاہل عرب کو بھیجا ہے اور تم جانتے ہو کہ اگر میں چاہوں تواس کی ہڈیوں پیس ڈالوں اوراسکے نیچے سےزمین کو کھینچ لوں یایہ کہ اسے زمین نگل جائے لیکن جاہل کی باتوں کا برداشت کرنا صدقہ ہے پھر آپ نے خدا کی حمد وثنا کی اورحضرت رسالت مآب پر درود بھیجا اور فضا میں اپنا ہاتھ بڑھایا توا یک بادل حاضر ہوااور اس نے آکر سلام کیا آپ عمار کے ہمراہ اس پر سوار ہو کر آنکھوں سے غائب ہو گئے تھوڑی دیر کے بعد واپس آگئے اورلوگوں نے دیکھا تو آپ دکتہ القضا ئ پر تشریف فرما تھے اورعمارسامنے تھا پھرآپ نے خطبہ شقشقیہ پڑھا مسجد میں بیٹھے لوگوں کے جتنے منہ اتنی باتیں تھیں کسی کا ایمان زیادہ ہوا اورکسی کے کفر میں زیادتی ہوئی عمار کہتا ہے جب بادل نے پرواز کی تو تھوڑے وقت میں ہم ایک برے شہرمیں پہنچے جس کے ارد گرد نہریں اورباغات تھے لوگوں کی زبان عربی کے علاوہ کوئی اور تھی وہ فورا جمع ہوگئے تو آپ نے ان میں انہی کی زبان میں تقریر فرمائی پھر ہم واپس آگئے تو مجھے آپ نے فرمایا اے عمار تجھے پتہ ہے وہ کون ساشہر تھا تو میں نے جواب دیا کہ اللہ رسول اورولی ہی اس کو جانیں مجھے کیا معلوم ہے آپ نےفرمایا وہ ملک چین کا ساتواں جزیرہ تھا جس میں ہم پہنچے تھے کیونکہ جنا ب رسول خد اتما م لوگوں کے رسول تھے یہ سن کر لوگوں نے عرض کی جب آپ کے پاس اتنی طاقت ہے تو معاویہ سے لڑنے کےلئے آپ فوجیں جمع کیوں کرتے ہیں آپ نے فرمایا یہ اس لئے کہ لوگ اپنے جہاد کے فریضہ کو ادا کریں اوراپنے عہد کی وفا کریں خداکی قسم اگر میں چاہوں تواپنے اس مختصر ہاتھ کو اس لمبی چوڑی زمین میں بڑھا کر معاویہ کے سینے پر گھونسہ لگاوں اوراسی کی ڈاڑھی یا مونجھوں کے بال نوچ لوں پس آپ نے ہاتھ بڑھایا اورواپس کیا تو اس میں بال تھے لوگوں نے تعجب کیا پھر اطلاع پہنچی کہ اسی دن معاویہ اپنے تخت سے گرا تھا اور بے ہوش ہوگیا تھا جب ہوش میں آیا تو اسے ڈاڑھی یا مونجھوں کے بالوں میں کمی محسوس ہوئی  دمعیہ ساکیہ
ایک دفعہ آپ مسجد کوفہ میں تشریف فرما تھے توبعض صحابہ نے عرض کی کہ اس دنیا پر تعجب ہے کہ کوگو ں کے ہاتھو ں میں جمع ہوتی ہے اور آپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں آپ نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم دنیا کو چاہیں تو وہ  ہمارے پاس نہیں آسکتی فورا مسجد کے سنگریزے مٹھی میں بند کئے اور کھولا تو وہ بیش بیا جواہر تھے فرمایا یہ کیا ہے ہم نے دیکھا تو وہ قیمتی جواہر تھے آپ نے فرمایا اگر ہم چاہیں تو دنیا ہماری ہے لیکن ہم نہیں چہتے پس ہاتھ سے پھینک دیئے تو وہ ویسے کے ویسے سنگریزے بن گئے ( دمعہ ساکبہ)
جب جناب فضہ کو خاتون جنت کا شرف حاصل ہوا تو دیکھا کہ اس گھر میں ایک زرہ اور ایک چکی کہ علاوہ اور اثاثہ نہیں ہے یہ چونکہ بادشاہان ہند کی لڑکی تھی اس کے پاس اکسیر کا ذخیرہ موجود تھا تواس نے پیتل کا ٹکڑا لے کر اس پردو ا ڈالی تو وہ سونا بن گیا اتنے میں حضرت امیر تشریف لائے تو فرمایا اے فضہ تونے خوب کاریگری کی ہے لیکن اس میں ایک کمی رہ گئی ہے اگر تو فلاں طریقہ اختیار کرتی تو اس سے بھی اعلی سونا بنتا فضہ نے عرض کی اے آقا و مولا آپ بھی یہ علم جانتے ہیں تو اپنے اپنے لخت جگر حسین کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہا کہ اس سے بھی بہت زیادہ جانتے ہیں پس آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا فضہ نے دیکھا تو سونے کے ڈھیر اور زمین کے خزانے جلتے ہوئے نظر آئے آپ نے فرمایا اپنےسونے کو ان میں ملا دے چناں چہ فضہ نے تعمیل کی اور وہ چل دئیے دمعہ ساکیہ
ہاں بے شک طاقت وقدرت کے ہوتے ہوئے صبر و رضا کا مظاہرہ خاصان خدا کی شان ہے ناسخ میں ہے جب امام حسین کو اطلاع ملی کہ کوفہ والا کےدل آپ کےساتھ اوران کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں تو  آپ نے آسما کی طرف اشارہ کیا آسمان کے دروازے کھل گئے اور بہت بڑی تعداد میں ملا بخت اترتے ہوئے دکھائی دئیے پس آپ نے فرمایا اگر حبط اجر نہ ہو تا تو میں دشمنوں کے ساتھ ان فوجیوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتا لیکن میں جانتا ہوں کہ وہاں میرے اور میرے اصحاب کی قتل گاہ ہے اور میرے  فرزند  علی زین العابدین کے علاوہ باقی سب وہاں مارے جائیں گے جب مدینہ سے روانگی کے وقت جناب ام سلمہ نے عرض کی اے فرزند آپ عراق کو جانا میرے لئے باعث غم و حزن ہے کیونکہ میں آپ کے نانا کی زبانی سن چکی ہوں کہ میرا فرزند زمین عراق میں بمقام کربلا شہید ہو گا آپ نے فرمایا اے مادر گرامی بے شک میں وہاں شہید ہوں اور میں جانتا ہوں جس دن شہید ہوں گا اور جو مجھے قتل کرے گا اور جس جگہ میں دفن ہو نگا اور میری اہل بیت  میں سے رشتہ داروں اور میرے شیعوں میں سے جو لوگ شہید ہوں گے سب کچھ جانتا ہوں اور اگر تو چاہے تو تجھے اپنی اور اپنے ستاروں کی قتل گاہ بھی دکھا سکتا ہوں تو ام سلمہ کی خواہش پر آپ نے اس کو اپنی قتل گاہ مقام دفن خیمہ گاہ لشکر گاہ  اور اپنے صحابہ کا مدفن سب کچھ دکھایا اور پھر اس جگہ کی مٹی اٹھا کر دی اور فرمایا کہ جب یہ مٹی و خون  ہو جائے تو سمجھ لینا کہ میں شہید ہو گیا ہوں ابن عباس کا بیان ہے کہ دسویں محرم کی عصر کو میں نے ام سلمہ کے گھر میں رونے کی آواز سنی تو اپنے غلام کو کہا کہ میرا عصا پکڑا کر مجھے ام سلمہ کے گھر لے جا مجھے اپنے غلام نے کہا کہ ام سلمہ کےسامنے ایک خون کی شیشی ہےاسے دیکھ کر رو رہی ہے میں نے پوچھا اے ام المومنین کیا ماجرا ہے تواس نے گریہ کی آواز بلند کرتے ہوئے کہا اے عبدالمطلب کی شہزادیوں آو اورمصروف گریہ ہو جاو کہ حسین کربلا میں شہید کر دئیے گئے ہیں صواعق محرقہ ص1 تاریخ الخلفائ
نیز ام سلمہ نے یہ بھی بیا ن کیاکہ میں نے خواب میں جناب رسالت مآب کودیکھا ہے جسم گرد آلود سراور ڈاڑھی میں خاک تھی میں نے ماجرا پوچھا تو فرمایا میرے فرزند کو لوگوں نے شہید کر ڈالا ہے اور میں وہاں سے آرہا ہوں۔
اسی طرح مدینہ سے خروچ کے موقعہ پر ملائکہ کی فوجیں پہنچیں جن کے ساتھ میں حربے تھے سلام کہہ کر عرض گزار ہوئے  کہ ہم نے آپ کے نانا کی کئی مقامات پر نصرت کی ہے اب آپ کی مددکے لئے حاضر ہیں تو آپ نے فرمایا میں نے کربلا میں دفن ہونا ہے جب اس زمین میں پہنچوں تو آجانا انہوں نے عرض کی اے حجت خد اہم بحکم خدا آپ کے فرمانبردار ہیں اگر راستہ میں دشمن کا خوف ہو تو ہم آپ کے ہمراہ چلتے ہیں آپ نے فرمایا اپنے مقام دفن تک پہنچنے سے قبل کسی کا مجال نہیں کہ مجھے کوئی گزند پہنچا سکے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ چار ہزار فرشتے خدا وند کریم سے حکم لے کر اتر ے تھے جب کربلا کی زمین میں وارد ہوئے تو حسین شہید ہو چکے تھے پس وہ قبر حسین کے پاس قیامت تک مشغول گریہ رہیں گے جن کے رئیس کا نام منصور ہے ابو بصیر کی روایت میں ہے کہ  وہ فرشتے حسین کے زائرین کا استقبال کرتے ہیں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو باز پرس کرتے ہیں اور اگر کوئی مر جائے تواس کےجنازہ میں حاضر ہوتے ہیں حضرت سید الشہدا سے تعلق رکھنےوالے فرشتوں کی کئی  قسمیں ہیں
ایک وہ تھے جو جھولا جھلاتے تھے جنت سے میوے لباس لاتے تھے اور لباس کو رنگ کرتے تھے
وہ جنہوں نے مدینہ بلکہ مکہ سے روانگی کے وقت اپنی نصرت کی پیش کش کی اسی طرح کربلا میں بھی حاضر ہوئے جب کہ حسین تنہا تھے اور فرف نصر آپ کے سر کے اوپر گویا ہوئی کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے یا ملاقات خدا کی تو آپ نے خدا کی ملاقات کوترجیح دی
وہ جو قبر حسین پر شب دروزروتے ہیں زائرین کا استقبال کرتے ہیں بیمار زواروں کی تیمارداری کرتے ہیں اور مرنے والوں کے جنازہ میں حاضر ہوتے ہیں
درزائرین کو خوشخبری دیتے ہیں کہ  تمہارے پہلے گنا ہ معاف ہو گئے اب آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا
آپ کے زائرین فرشتے جو ہر روز کربلا میں آتے ہیں اور اگر یہ کرتے ہیں پھر دوسرے دن نئے آتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے
حضرت پر درود بھیجنے والے فرشتے جن کی تعداد ایک لاکھ ہے
رواروں کے لئے دعا بخششش کرنے والے
واپس جانےوالے فرشتوں کی استقبال کرنے والے
زائرین حسین پر درود بھیجنے والے
جوحسین پر دور دراز سے سلام بھیجے تو ان لوگوں کا سلام پہنچانے والے اور یہ ڈیوٹی فطرس کے سپرد ہے
زواروں کے چہرے پر نورانی نشان قائم کرنےوالے
امام حسین کےعزاداروں کے آنسووں کو محفوظ کرنے والے
زمان رجعت میں حسین کی نصرت کی انتظار کرنے ولاے
جنا ب رسالت مآب کی طرف سے سلام لانےوالے
امام حسین کی قبر کے پاس نماز پڑھنے والے جن کی ایک نماز ہزار نماز کے برابر ہے اور ان کا ثواب امام پاک کےزائروں کے لئے ہو گا
امام حسین کےزواروں کے گھر تک لے آنے والے جو ہمیشہ ان کے گھر کے دروازے پر مامور عبادت رہتے ہیں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی طرف سے قیامت تک امام پاک کی زیارت کرتے رہیں گے
زوار کی قبر پر تا قیامت اس کے لئے استغفار کرنے والے ہیں
امام مظلوم کےحرم میں رہ کر عبادت کرنے والے
امام مظلوم کی شہادت کے وقت سے لے کر تاقیامت سوگ منانے والے
امام مظلوم کے قتل گاہ سے خاک شفا آسمان پر لے جانے والے
امام مظلوم کی تجہیز و تکفین کے لئے اترنے والے ملحض از خصائص
آئیے ہمارا سلام پہنچانے والافطرس فرشتہ موجودہے ہم کیوں نہ سلام بھیجیں کیونکہ اہل بیت کے دل بہت غمگین ہیں جناب ام کلثوم نے صحرا میں پہنچ کر عرض کی تھی بھائی جان اس صحرا سے میرا دل بہت  لرزتا ہے آپ نے زمین کربلا میں پہنچ کرچھ گھوڑے تبدیل کئے کیونکہ گھوڑے کا قدم آگے نہ بڑھتا تھا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں