التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سولہویں مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم
یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین
ترجمہ   اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور ہو جاو ساتھ صادقین کے قرآن مجید میں مع کی لفظ تین معنو ں میں استعمال ہوئی ہے
احاطہ علمیہ    جس طرح کہ خدا وند کریم کے لئے ہے واللہ معکم یعنی خدا تمہارے ساتھ ہے دوسری جگہ ہے وھو معھم الایت  اور وہ یعنی اللہ ان کے ساتھ ہے ان سے مراد یہ ہے کہ انسان جس حالت میں ہو جس جگہ ہو جس کام میں مشغول ہو وہ اللہ کے احاطہ علمیہ ودائرہ قدرت کے اندر ہی ہوتا ہے اورخدا تمام ممکنات پر ہر وقت حاوی و محیط ہے اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں ۔
اطاعت جس طرح جناب رسالت مآب کے اطاعت گزا ر صحا بہ کے لئے ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشد ائ علی الکفار یعنی حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اورجو لو گ ان کے اطاعت گزار ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں الخ
مساوات و برابری جیسے ارشاد ہے مااتخذاللہ من ولد وما کان معہ من الہ الایتہ یعنی نہ اللہ سے کسی کواپنابیٹا بنا یا ہے اورنہ اس کے ساتھ یعنی برابر کا کوئی دوسرا خدا ہے جناب رسالت مآب نے حضرت علی کے متعلق فرمایا ہے علی مع القرآن والقران مع علی جیسا کہ مجلس گذشتہ میں بیان ہوا ہے اور اس روایت میں مع کا معنی یقینا تیسراہے یعنی یہ دونوں مساوی حیثیت سے ہیں اور ثابت ہوچکا ہے کہ صادقین سے مراد آل محمد ہیں جس کے اشرف فرد حضرت علی علیہ السلام ہیں تو یہاں علی کے ساتھ ہونے کامقصد یقینا وہی ہے جو قرآن کے ساتھ ہونے کاہے تو گویا آیت مجید ہ میں مع کا معنی اطاعت ہے چنانچہ حضرت امیر علیہ السلام نے اپنے بعض خطبوں میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں وہ قرآن ہوں جس کو بعض لوگ چھوڑ چکے ہیں مراۃ الانوار
ایک اورخطبے میں آپ ارشاد فرماتے ہیں
فاین یتاہ بکم بل کیف تعمھون وبینکم عترۃ نبیکم وھم ازمتہ الحق والسنتہ الصدق فانزلوھم باحسن منازل القرآن الخ
یعنی تم کہاں سر گرداں ہواورکس طرح اندھا دھند چل رہے ہوحالانکہ تم میں تمہارے نبی کی عبرت موجود ہےجو حق کی زمام اورسچ کی زبان ہیں پس ان کو اپنے درمیان وہ منزلت دو جو قرآن کے لئے بہترین منزلت ہو سکتی ہے اس کے متعلق ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغتہ رقمطراز ہےکہ فانزلوھم باحسن منازل القرآ ن کے فقرے کے نیچے ایک بڑا را ز پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ آپ نے تمام عاقل بالغ لوگوں کو امر فرمایا ہے کہ عترت نبویہ کی تعظیم وتوقیر اطاعت اور فرمانبرداری کو وہی حیثیت دیں جو قرآن کو حاصل ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سےتو عترت کی عصمت ثابت ہوتی ہے جو علمائے اہل سنت کے مسلک کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابو محمد نےکتاب کفایہ میں صراحتا ذکر کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام معصوم تھے لیکن ان کی عصمت واجب نہ تھی اور نہ ہی عصمت امامت کی شرط ہے البتہ ان کی عصمت پر نص موجود ہے اورتمام صحابہ میں سےیہ صرف انہی کا ہی خلاصہ ہے پس یہاں دو قول ہیں ایک یہ کہ وہ معصوم تھے دوسرے یہ کہ وہ واجب العصمہ تھے کیونکہ امام تھے اور امام کےلئے معصوم ہوناشرط  ہے ان دونو قولوں میں فرق ظاہر ہے ہم لوگ پہلا قول اختیار کرتے ہیں اورشیعہ امامیہ دوسرے قول کے قائل ہیں
الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین کے تحت تفسیر قمی میں ہے کہ کتاب حضر ت علی ہیں اورمتقی شیعہ ہیں اور مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک نصرانی نےامام موسی کا ظم علیہ السلام سے حموالکتاب المبین کی باطنی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا حم سےمراد حضرت محمد اور والکتاب المبین سے مراد حضرت علی ہیں بعض زیارات کےالفاظ بھی ہیں انتم الکتاب المسطور یعنی تم ہی کتاب مسطور ہو حضرت قائم آل محمد علیہ السلام کی بعض زیارات کےالفاظ ہیں یاابن طہ والمحکمات تفسیر عیاشی وغیرہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور بانی آئمہ ہیں اور واخرمتشابھات سے مراد فلاں فلاں اور فلاں ہیں اوراما الذین فی قلوبھم الخ سے مراد ان کے ساتھی جو ان سے محبت رکھنے والےہیں مراۃ الانوار
ہم نے اس کو تفسیرانوارالنجف کی تیسر  ی جلد میں بھی بیان کیا ہے جو شخص تفصیل معلوم کرناچاہے اس کا مطالعہ کرے اب ذرا قرآن مجید کی منازل کا جائزہ لیجئے
پہلی منزل  قرآن مجید اللہ کی طرف سے ہے اوراسی نے ہی نازل فرمایا ہے چنانچہ فرماتا ہے وما کان ھذا القرآن ان یفتوی من دون اللہ ولکن تصدیق الذ ی بین یدیہ وتفصیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین یہ قرآن غیراللہ کی طرف سے افترار نہیں ہے بلکہ یہ اس کی تصدیق ہے جو اس کے پہلے ہے اورتفصیل ہے کتب سابقہ کی اس میں کوئی شک نہیں کہ پروردگار عالم کی جانب سے ہے نیزفرمایا انا انزلنا ہ قرانا عربیا لعلکم تعقلون ہم نے قرآن عربی زبان ہیں اتارا تاکہ تم سمجھو اور فرمایا انا اتینا ک سبعا من المثانی والقرآن العظیم ہم نے آپ کو سبع مثانی یعنی سورہ فاتحہ اور قرآن عظیم عطا کیا ۔
اور حضرت علی علیہ السلام اس منزل میں قرآن کے ساتھ برابر کے  شریک ہیں اور ان کی امامت اللہ کی جانب سے ہے کیونکہ منصب خلافت و امامت صرف اللہ ہی کی جانب سے عطا ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت آدم اور حضرت داود کی خلافت کےمتعلق قرآن شاہد ہے اور اسی طرح حضرت ابراہیم کی امامت کے متعلق بھی صریح ارشاد ہے اور تمام ہادیان دین کے متعلق ارشاد قدرت ہے وجعلنا ھم ائمتہ یھدون بامرنا اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ ہمارے امرسے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں ابن مردویہ خطیب اورابن عسا کرنے اسمائ بنت عمیس سےروایت کی ہے کہ حضرت رسالت مآب نےیہ دعا مانگی ۔
اللھم انی اسئلک بما سلک اخی موسی ان تشرح لی صدری وان تبیسرلی امری وان تحل عقدۃ من لسانی یفقھو اقولی واجعل لی وزیر امن اھلی علیا اخی اشددبہ ازری واشرکہ لی امری کے نسبحک کثیر ا و نذکرک کثیر اانک کنت بنا بصیرا درمنثور تفسیر سورہ طہ
ترجمہ   اے اللہ میں تجھ سے وہی سوال کرتا ہوں جو میرے بڑے بھائی حضرت موسی نےکیاتھا کہ میراسینہ کھول دے اور میرا معاملہ آسان کرمیر ی زبان کی گرہ کو دور فرما تاکہ میری بات سمجھیں اور میری اہل سےمیری بھائی علی کو وزیر بنا اور اس سےمیری کمر کو مضبوط کر اور اسے میرا شریک کار قرار دے تاکہ ہم مل کر تیری زیادہ سے زیادہ تسبیح کریں اور تیرا ذکر کثیر زبان پر جاری کریں اور تحقیق تو ہمارے حال سے واقف وآگاہ ہے  چنانچہ آپ کی یہ دعا مستجاب ہوئی اور اسی طرح آیت مجیدہ انما ولیکم اللہ الخ اور آیت مجیدہ یا ایھا الرسول بلغ بھی حضرت علی کے خلیفہ وامام من جانب اللہ ہونے کی قطعی دلیلیں ہیں
قرآن کی دوسری منزل متشابہ ہونا یعنی فصاحت بلاغت پختگی نظم و نسق اعجازاور صداقت و حقیقت میں تمام قرآن کی آیات ایک دوسری کے متشابہ ہیں اور ان امور میں ان کو کوئی اختلاف نہیں اور یہی اس کے منزل من اللہ ہونےکی ناقابل تردید ودلیل ہے کیونکہ اگر غیر اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور ہوتا او ر اس مطلب کو ہم نے تفسیر انوارلنجف کی تیسری جلد میں واضح کیا ہے حضرت علی علیہ السلام کوا س منزل کے لحاظ سے بھی قرآن مجید کے ساتھ مساوات حاصل ہے کیونکہ ان کے تمام اقوال و افعال میں یگانگت ہے کہ اس میں جوانی بڑھانے کا کوئی فرق نہیں جو کچھ دل میں ہے وہ زبان پر ہے اور اسی پر عمل ہے اورآپ تمام زندگی کے جملہ شعبے ایک دوسرے سے پوری مشابہت رکھتے ہیں اور یہی ان کےامام من اللہ ہونے کی دلیل ہے ورنہ ان کے نظر یات افعال اقوال اور اطوار میں کچھ نہ کچھ تفاوت ضرور ہوتا اور معصوم کی ہی یہ شان ہوسکتی ہے ورنہ غیر معصوم تو خواہش نفس کو بھی معبود قرار دے بیٹھتا ہے اور بعض اوقات سےاعلان کرنا پڑتا ہے ان لی شیطانا یعترینی
قرآن کی تیسری منزل پاک و مطہر ہونا چنانچہ فرمایا قرانا عربیا غیر ذی عوج ایک اور مقام پر فرمایا لا یایتہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ یعنی قرآن عربی ہے اس میں کوئی کجی نہیں اس کے سامنے یا پیچھے سے باطل اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتا نیز فرمایا  لایمسد الا المطھرون اس کومس نہیں کرتے مگر مطہر لوگ ۔
ان کے علاوہ دیگر آیات بھی اس امر پر شاید ہیں
اور حضر ت علی علیہ السلام اس منزل میں بھی قرآن کے ساتھ برابر کے شریک ہیں چنانچہ آیت تطہیر باتفاق علمائ اس کیلئے شاہد موجود ہیں غالبا حضرت سید الشہدا نےاپنی تنہائی کے وقت آخری اتمام حجت میں یہ اشعار فرمائے
انا ابن علی الطھر من آل ھاشم کفانی بھذا مفخرا حین افخر میں آل ہاشم سے حضر ت علی کا فرزند ہوں جو طیب و طاہر ہیں اور مقام فخر ہیں میرے لئے یہی فخر کافی ہے
وجدی رسول اللہ اکرم من مضی ونحن سراج اللہ فی الارض یذھر اورمیرا خدا جنا ب رسول پاک ہے جو تمام گذشتگان سے افضل ہے اور ہم اللہ کی  زمین میں اس کی روشن قندلیں وفاطمہ امی من سلالتہ احمد وعمی یدعی ذوالجناحین جعفر ہیں میر ی مادرگرامی حضرت  فاطمہ ہے جورسالت مآب کی شہزادی ہے اور میرا عم حضرت جعفر ہےجو ذوالجناحین کے نام سے پکارا جاتا ہے اللہ کی کتاب ہمارے حق میں سچی گواہی دیتی ہے ۔ وفینا کتاب اللہ انزل صادقا وفینا الھدی والوجی بالخیر یذکر ونحن امان اللہ للناس کلھم نسربھذا فی الایام ونجھر ہم تمام لوگوں کیلئے اللہ کی امان ہیں ہم ظاہر و پوشیدہ طورپر لوگوں میں اس وصف سےمتصف ہیں ونحن ولا ۃ الحوض  نسقی محبنا بکاس رسول اللہ من لیس ینکر ہم حوض کوثر کے مالک ہیں کہ اپنے دوستداروں کو پلائیں گے جناب رسالتمآب کے کاس سے اس کو جو منکر نہ ہو گا اذا ما اتی یوم القیامتہ ظامئا الی الحوض یسقیہ بکفیہ حیدر جب بروز قیامت پیاساداد ہو گا حوض کی طرف توحید کرار اپنے ہاتھوں سےاس کو سیراب کریں گے امام مطاع اوجب اللہ حقہ علی الناس جمعا والذیکان ینظر وہ واجب الاطاعت امام ہیں کہ اللہ نے ان کا حق واجب کیا ہے تمام لوگوں پراوروہ جو دیکھنے والا ہے اور ہمارے شیعہ لوگوں میں بہترین شیعہ ہیں اور ہمارا دشمن قیامت کے دن خسارہ میں ہوگا۔ فطوبی لعبد زار نا بعد موتنا بجنات عدن صفوھا لا یکدرہمار ی موت کے بعد ہمارےزائرین کو خوشخبری ہےجنات عدن کی جن میں عیش کبھی گندلا نہ ہوگا ۔
ایک روایت میں ہے ما من بنی الا وزار کربلا وقال فیک یدفن القمر الازھر یعنی کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اس نے کربلا کی زیارت کی اور زمین کربلاسے خطاب کرکے  کہا تجھ میں ایک روشن چاند دفن ہوگا۔
ایک دفعہ جناب رسالت مآب امام حسین سے پیار کررہے تھے اور اس سے ہنس رہے تھے تو حضر ت عائشہ نے کہا آپ کویہ بچہ کس قدر پیارا ہے تو آپ نے فرمایا مجھے کیونکر پیارا نہ ہو حالانکہ میرے دل کا میوہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لیکن میری امت اس کو بے جرم و خطا قتل کرے گی پس جو شخص اسکی وفات کے بعد اس کی زیارت کرلے گا میری حجوں میں سےایک حج کا ثواب اس کو ملے گا اس نے ازراہ تعجب کہا آپ کی حجوں میں سے ایک حج توبڑھتے بڑھتے آخر آپ نے فرمایا میری ستر حجوں کا ثواب بمعہ عمروں کے اس کو ملے گا۔
حضرت سیدالشہداعلیہ السلام نے 25 حجیں پیادہ کیں آخر ایک حج ایسی کی جو آج تک کسی نے نہ کی ایک نہیں بلکہ پانچ حجیں خاص مناسک کے ساتھ ایسی حج کہ خود مکہ بھی بنے اورمنی بھی اور خود موقف بھی ہوئے اور قربان بھی پھر اس کے حاجیوں میں سے سیدالمرسلین بمعہ عترت طاہرین ہیں ملا ئکہ مقربین ہیں اورپہلا حاجی پہلے چہلم پرجابر بن عبداللہ انصاری تھے ۔
حسین کی پہلی حج روانگی از مدینہ اس کامیقات قبر رسول تھا اورموذن خدا ند کریم تھا کہ صحیفہ شریعہ الہیہ میں ایسا ہی تھا یا حسین اخرج بقوم الی الشھادۃ فلا شھادۃ لھم الا معک وقاتل حتی تقتل اے حسین اپنے ساتھیوں کو لیکر شہادت کی طرف جاو کیونکہ آپ کے بغیر ان کی شہادت نہ ہوگی اور جہاد کرو یہاں تک کہ شہید ہو جاو نیز اس حج کے موذن حضرت رسالت مآب بھی تھے چنانچہ جب حسین قبر رسول پر آئے خدا سے عرض کی اللھم ھذا قبربنیک الخ تو خواب میں جناب رسالت مآب نے فرمایا میرے پیار ے حسین میں تجھے زمین کربلا میں مذبوح اور خاک و خون میں غلطان دیکھ رہا ہوں بیٹا عراق کی طرف  جاو پس وطن سے احرام باندھ کر چل دئیے
حسین کی تیسری مخصوص حج        اس حج کی ابتدا روز عاشور سے ہوئی مقام احرام یعنی میقات خیمہ گاہ تھا اوراس کے موذن حضرت رسالت مآب حضرت علی حضرت امام حسن اور حضرت فاطمتہ الزہرا تھے چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے جدنامدار کو بمعہ صحابہ کبارکےدیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں سکان سما اور باشندگان ملا اعلی تیری انتظار میں ہیں اور آج تیر ا  افطار فاقہ شکنی ہمارے ہاں ہوگی پس جلدی کرواور دیرنہ کرو اوریہ ایک فرشتہ آسمان سے صرف اس لئے آیا  ہےکہ ایک سبز شیشی میں تیرا خون لے کر آسمان کی طرف جائے پس حسین نے لبیک اللھم لبیک  زبان مبارک پر جاری فرمایا اس حج میں حسین نے وہ قربانیاں کیں کہ اولین میں سے کوئی نہ پیش کرسکا اس حج میں سعی بھی کی اور ہر ولہ بھی کیا اس سعی مخصوص کے لئے سات طواف نہیں بلکہ حسین کو ستر طواف کرنے پڑے خیمہ گاہ سے قتل گاہ تک اور قتل گاہ سے خیمہ گاہ تک یا حسین
حسین کی چوتھی حج یہ مخصوص حج عاشورکی ظہر کے بعد ہوئی جب اپنی اولاد اعزا  یارو انصار کی خوردوکلاں اور پیر و جواں قربانیوں سے فارغ ہوچکے اور یہ تن تنہا غریب و فرید باقی بچ گئے اذان حج کی صدا کانوں میں گونجی یہ موذن جناب شہزاد علی اکبر ہم شکل پیغمبر ہیں کہ جب حسین اس کی لاش پر پہنچے اور تشنگی کے متعلق پوچھاتو شہزاد ے نے عرض کی بابا جان مجھےنانا نے سیراب کردیا ہے اور آپ کواپنے پاس جلدی سے بلا رہے ہیں اور آپ کے لئے کوثر لئے کھڑے ہیں اور صحیفہ الہیہ سے قاتل حتی تقتل کی آواز بھی گوش حق نیوش میں پہنچ رہی تھی پس آپ نے اس حج کے لئے تیاری کی لباس احرام تبدیل کرنے کے لئے خیمہ اطہر میں تشریف لائے اپنی بہن سے فرمایا ایتیننی بثوب عتیق لا یرغب فیہ احد من القوم اجعلہ تحت ثیابی لئلا اجر دمنہ بعد قتلی فارتفعت وجعلہ تحت ثیابہ وکا ن لہ سروال جدید فخرقہ ایضا لئلا یسلب منہ مجھے ایسا پرابا لباس لادیجئے جو کسی شخص کو پسند آنےکے قابل نہ ہو میں اس کو کپڑوں کے نیچے پہنوں گا تاکہ بعد از قتل برہنہ نہ کیا جاوں یہ سنتے ہی اہل حرم کے رونے اور فریاد کرنے کی آواز بلند ہوں پس ایک لباس پیش کیا گیا جس کو آپ نے اطراف سے پارہ پارہ کردیا اور لباس کے نیچے پہن  لیااور اپنے نئے زیر جامہ کو بھی پارہ پارہ کر دیا تاکہ اتارانہ جائے یہ تھا حسین کا لباس احرام اور زبان حال سے لبیک اللھم لبیک کہہ رہے تھے کہ اللہ میں اپنے آگے اپنی اولاد بھائیوں بھتیجوں او ر یارو انصار کو بھیج چکا ہوں ان میں کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں اے اللہ اب میں خود حاضر ہوں اب اپنے پیچھے صرف عورتیں اورپیاسے بچے چھوڑ رہاہوں جو حیران وسرگرداں ہیں ان کا نہ کوئی ناصر ہے اورنہ مددگار پس گھوڑے پرسوار ہوئے اورموقف حج پر ایسا وقت کیا کہ عرفہ مشعر اور منی میں کسی نے ایسا وقوف نہیں کیا اورنہ کسی میدان کا رزار میں کوئی ایسا وقوف کر سکا اور زبان حال سے کلمات جاری تھے اے اللہ میں حاضر ہوں تیرے لئے میں نے ایسا حرام باندھا لیا ہے لبیک اللھم لبیک تیرے لئے میرے جگر نے پانی سے احرام باندھا ہے اور میرےبالوں نے خضاب سے احرام باندھا ہے میرے جوڑوں نے ایک دوسرے کے اتصال سے احرام کی نیت سے اور نفیس ترین قربانی یعنی اپنے نفس نفیس کو نحر کے  لئے پیش فرمایا
حسین کی پانچویں حج حسین کی یہ حج حج اکبر تھی جو نہ کسی کو نصیب ہوئی اورنہ ہو گی اس کاموذن خداوند عالم تھا یا ایتھا النفس المطمئنتہ ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیتہ فادخلی فی عیادی وادخلی جنتی اس کے حرام کا وقت عصر عاشورہ تھا جب کہ روح پاک بد ن سے پرواز کی چکی تھی سلاح جنگ اتر چکے تھے تمام زینتیں ترک ہوچکی تھیں حتی کہ انگوٹھی بھی اور صرف انگوٹھی نہیں بلکہ وہ انگلی بھی جس میں انگوٹھی تھی لباس اتر چکا تھا حتی کہ لباس احرام بھی جس کی حفاظت  کے لئے پارہ پارہ کیا تھا ہاں ایک نیا لباس پہن لیا تھا اور وہ تھا خاک و خون کا لباس جوتا محشر زیب تن فرمایا یہی وجوہ تھے کہ ان کی ریارت حج کے برابر قرار دی گئی
ملحض خصائص و فوائد المشاہد      انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ایک تبصرہ شائع کریں