التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

امام مظلوم ؑ کی تنہا ئی اورامتحان

5 min read
’’محرق القلوب ص۱۵۳‘‘ میں ہے جب امام مظلوم ؑنے متعدد مرتبہ جہاد کرکے فوج اشقیا ٔ میں سے ہزاروں کی تعداد میں ملاعین کوتہ تیغ کر ڈالا تو ہاتف غیبی کی جانب سے ندا  ا ٓئی:  اے حسین ؑاگر اس زور بازوسے تم نے جہاد کیا تودرجہ شہادت کون لے گا؟ یہ سنتے ہی امام ؑ نے تلوار کو نیام میں داخل کرلیا اور  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن  پڑھا،  اس طرف عمربن سعد نے آواز دی کہ اے اہل کوفہ!  یہ شیر خداکابیٹاہے اگر پیاسانہ ہوتا تو تم کوایک ہی حملہ میں ختم کر ڈالتا؟ اب دیکھتے کیا ہو یکبارگی حملہ کرکے جنگ کوختم کرو اوراس مظلوم کا سرتن سے جداکرو۔
اب امام مظلوم ؑ کے بدن میں چونکہ طاقت کم ہوچکی تھی ملاعین ہرطرف سے حملہ کیلئے اکٹھے ہوگئے اورمارومارو کی صدائیں بلند ہوئیں، جناب امّ المصائب اوردیگر خاندانِ عصمت کی شہزادیوں میں یہ تاب کب تھی کہ یہ دل سوز نعرہ سننے کے بعد آرام سے بیٹھتیں؟  وَا حُسَیْنَاہُ  وَا حُسَیْنَاہُکی صدائیں بلند کرکے رونے لگیں اورمخدومہ علیاجناب زینب خاتون بابِ زینبیہ پرآگئیں اورہائے بھائی کرکے رونے لگیں۔۔۔۔۔ پس حصین بن نمیر نے ایک تیر کمان سے رہاکیا جوامام مظلوم ؑ کے دامن اقدس میں لگا۔۔ اورابو ایوب غنوی نے ایک تیر مارا جوآقائے مظلوم ؑ کے حلق میں پیوست ہوا، امام ؑ نے بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَلَاحَوْلَ وَ لا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ  پڑھا اتنے میں زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں بازوپرتلوارکا وار کیاکہ وہ جدا ہوگیا۔۔۔ عمر بن خلیفہ جعفی نے تلوار کا وار کیا جوہنسلی پرلگا۔۔۔ سنان بن انس نے ایک تیر مارا جوامام ؑ کے حلق میں جا لگا۔۔۔ صالح بن وہب نے ایک نیزہ امام ؑ کے پہلوپرمارا کہ امام ؑ منہ کے بل زمین پرگرگئے۔
’’محرق القلوب ص۱۵۵‘‘ میں ہے کہ چونکہ امام مظلوم ؑ بوقت وداع ازخیام اہل حرم کو صبر کی تلقین کرکے آئے تھے اس لئے پہلے توبیبیاں خاموش رہیں لیکن جب امام ؑ کے پہلوپرنیزہ لگا اورامام ؑ منہ کے بل زمین پرگرے اوربروایت ’’بحارالانوار‘‘ اس وقت عمربن سعد بھی امام مظلوم ؑ کے قریب آگیا تھا، بس بروایت حمید بن مسلم زینب خاتون سے ضبط نہ ہوسکا اورنالہ وفریاد کرتی ہوئی دروازہ پرآگئیں اور بروایت ابن طائووس کہنے لگیں   وَا سَیّدَاہُ وَا مُحَمَّدَاہ  کاش آج آسمان زمین پر گرپڑتا؟کاش پہاڑریزہ ریزہ ہوجاتے؟ اوربروایت ’’بحارالانوار‘‘ عمر بن سعد کی طرف متوجہ ہوکرفرمانے لگیں:  یاَعُمَر بْنَ سَعْدَ  یُقْتَلُ اَبُوعَبْدِاللّٰہِ وَاَنْتَ تَنْظُرُاِلَیْہ؟  اے عمرسعد!  حسین ؑ ماراجارہاہے اورتوکھڑادیکھ رہاہے؟
’’مخزن البکا‘‘ میں ہے کہ بی بی کے اس دلخراش لہجہ سے عمرسعد کا سخت دل بھی نرم ہوگیا اوراس کی آنکھوں سے آنسوٹپک کر داڑھی تک آگئے لیکن منہ دوسری طرف کرلیا، بیشک سنگدل تھا لیکن بی بی کی بے کسی اورامام ؑ کی مظلومی نے اس کو رلادیا، جب بی بی نے دیکھا کہ عمر بن سعد نے میری بات کا اثر نہیں لیا توبروایت ’’ارشاد‘‘ فوج اشقیا ٔ کی طرف متوجہ ہوئیں اورکہنے لگیں:  وَیْحَکُمْ اَمَا فِیْکُمْ مُسْلِمٌ  اے گروہِ منافقاں تم پر وائے ہوکیا تم میں مسلمان کوئی بھی موجود نہیں ہے؟
 امام عالیمقام ؑ کی یہ حالت تھی کہ اٹھتے تھے اورپھر منہ کے بل زمین پرگرپڑتے تھے اوربروایت ’’قمقام‘‘ زبان پریہ لفظ جاری تھے:  رِضًا بِقَضَاکَ وَلَامَعْبُوْدَ سِوَاکَ  میرے اللہ میں تیری قضا پرراضی ہوں اورتیرے سواکسی کولائق عبادت کے نہیں سمجھتا۔
’’قمقام ص ۳۹۰‘‘ پر ہے کہ ارواحِ انبیا ئے مرسلین اورملائکہ مقربین امام مظلوم ؑ کی اس منزل عشق کا نظارہ کر رہے تھے اتنے میں شیطانِ رجیم نے ازراہِ حسد وعناد بارگاہ ربّ العزت میں عرض کیا اے خدایا!  بعداز شہادت حسین ؑ کیلئے بہت انعام وکرام تونے مقرر کئے ہیں لیکن حسین ؑکا یہ امتحان توکوئی امتحان ہی نہیں صرف شہید ہونا توتمام عبدالمناف کی اولاد کا ورثہ ہے، قتل ہونا توان کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہے؟ پس بارگاہِ ربّ العزت سے خطاب پہنچا کہ اے لعین یہ حسین ؑ عشق کے امتحان میں کامیاب ہے اوراگر تودیکھنا چاہتاہے توپھر دیکھ لے، چنانچہ سورج کو حکم ہوا کہ اپنی پوری تمازت امام ؑ کے جسم پرڈالے اورپیاس کو حکم ہوا کہ اپنے پوری شدت کے ساتھ امام ؑ کے دل وجگر کو کباب کرے؟ پس امتحان بڑھتا گیا اورامام ؑ کا حوصلہ بلندہوتاگیا اورسوائے رضائے پروردگار کے دوسرا حرف زبان پرنہ آیا، شیطان کوتسلیم کرکے کہنا پڑا کہ اگر حسین ؑکونین کی شفاعت بھی کردے تو وہ بھی بارگاہِ ربّ العزت میں مقبول ہوگی، اس میں شک نہیں کہ صبر کی منزل سے رضاکی منزل بہت بلند وبالاہے مقام رضا میں امام مظلوم ؑ کی آخری مناجات کے ہی کلمات ہیں جوعام کتب مقاتل میں پائے جاتے ہیں:
تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرًّا فِیْ ھَوَاکَ
 وَ اَیْتَمْتُ عِیاَلِیْ کَیْ اَرَاکَ
میرے اللہ میں نے تیری ہی محبت میں تمام مخلوق کو چھوڑدیا ہے۔۔۔اورتیری ملاقات کی خاطراپنے بچوں یتیم کردیاہے۔
عبداللہ بن حسن کی شہادت سابقاً مذکور ہو چکی ہے وہ معصوم شہزادہ اسی وقت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اورامام ؑ نے اپنی بہن کو آواز بھی دی تھی کہ بچہ کو روک لو لیکن نہ رکااورابحربن کعب نے امام ؑ پرتلوار بلند کی تو بچہ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر سے پَربنائے اورفرما یا   یَا ابْنَ الْخَبِیْثَۃِ اَتَقْتُلُ عَمِّیْ اے خبیث عورت کے بیٹے تم میرے چچا کو قتل کرتے ہو؟ پس اس نے تلوار ماری اوربچے کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اوربچہ روتاہوا چچاکی گود میں گرگیا اتنے میں حرملہ نے ایک تیر مارا جوبچے کے حلق میں لگااوروہ اپنے چچا کی آغوش میں جاں بحق ہوگیا۔
’’مخزن البکا‘‘ میں منقو ل ہے کہ مختار نے ایک دفعہ ابوخلیق نامی ایک شخص سے کہاکہ امام مظلوم ؑ کے حالات بیان کیجئے؟ چنانچہ اس نے بیان کیا کہ امام ؑ تنہارہ گئے اورلوگوں نے ان کوگھیر لیا توامام مظلوم ؑ کا جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا اوردوہزار کے قریب زخم جسم اقدس پرلگے تھے جوسب کے سب سینہ اطہر پرہی تھے اوران میں سے بڑے زخم ۷۲تھے، پس اس اثنا میں ابوالجنوب نے ایک تیرآپ ؑ کی پیشانی پرمارا۔۔۔ عبداللہ بن حصین نے آپ ؑکے سرپرتلوار کا وارکیا۔۔۔ شبث بن ربعی نے زہر آلود سہ شعبہ تیرمارا جو آپ ؑ کے سینہ خزینہ علوم الٰہیہ پرلگا۔۔۔ ابوایوب غنوی نے حلق مبارک پرایک تیر کس کرمارا۔۔۔ زرعہ بن شریک نے بازوپرتلوارکا وار کیا۔۔۔ حصین بن نمیر نے دہن مبارک پرتیر مارا۔۔۔ سنان بن انس نے پشت پرنیزہ کا وارکیا کہ آپ ؑ منہ کے بل زمین پرگئے۔۔۔ حریم بن احجار نے ایک تیردہن اقدس پرمارا۔۔۔ مالک بن بسرنے سر پر تلوارماری کہ عمامہ خون آلود ہوگیا۔۔۔ صالح بن وہب نے پہلوئے اقدس پرنیزہ مارا۔۔۔ اسحق بن اشعث نے بائیں بازوپرتلوار ماری۔۔۔ ابوالاشرس نے تیر امارا جوامام مظلوم ؑ کے بازومیں پیوست ہوا۔۔۔ عامربن طفیل نے ایک پتھر مارا جوامام مظلوم ؑ کی پیشانی نورانی پرپہنچا، پس جب یہاں تک پہنچا تو مختار میں تاب ضبط نہ رہی، پس مجلس میں کہرام ماتم بپاہوا مختاراوراس کے وزرأ بہت روئے اوردارالامارہ کی دیواروں میں ایک صدائے گریہ وواویلا بلند ہوئی، ہائے سننے والے توبرداشت نہیں کرسکتے لیکن خدا معلوم بھائی کا یہ امتحان بہن نے کیسے دیکھا ہوگا؟

ایک تبصرہ شائع کریں