التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پندرہویں مجلس -- کونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم  کونو امع الصادقین
صادق وہی ہےجس کا کوئی قول و فعل قرآن کے خلاف  نہ ہو حضر ت علی کے متعلق متفقہ حدیث نبوی منقول ہے علی مع القرآن والفران مع علی ابو سعید حذری سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا اقضی امتی علی بن ابی طالب میری امت کا بڑا  قاضی علی ہے مناقب خوارزمی
عن ابی طفیل قال قال علی سلونی من کتاب اللہ فانہ لیس من ایتہ الا وقد عرفت بلیل نزلت ام بنھار ام فی سھل ام فی جبل مناقب ابو طفیل سے مروی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا مجھ سے کتاب اللہ کے متعلق سوال کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت نہیں جس کو میں نہ جانتا ہو ں کہ رات میں اتری یادن میں اور سہل میں اتری یا جبل میں مناقب خوارزمی
نیز آپ نے فرمایا
سلونی قبل ان تفقد ونی فانما بین الجوانح منی علم جم ھذاسفط العلم ھذا لعاب رسول اللہ ھذا ما زقنی رسول اللہ من غیر وحیی او حی اللہ الی فواللہ لو ثینت لی وسادۃ فجلست علیھا لا فتیت لاھل التوراۃ  بتور اتھم ولاھل الا نجیل بانجیلھم فیقول صدق علی قد افتاکم بما انزل اللہ فی وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون اخطب
مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاو کیونکہ میری پسلیوں کےاندرگہراعلم ہے یہ علمی خزانہ یہ لعاب رسول اور یہ وہ ہےجو مجھے رسو ل نے چوسایا ہے بغیر اس کے کہ مجھ پر وحی اتری ہو بخدا اگرمیرے لئے مسند لگادی جائے اور میں اس پر بیٹھ جاوں تو تورات والوں کو تورات سے اور انجیل والوں کو انجیل سے فتوی دوں گا کہ وہ کتاب بول اٹھے گی کہ علی نے سچ فرمایا اور وہ فتوی دیا جو خدانے مجھ میں نازل کیا  الخ اخطب خوارزم
تفسیر اتقان اور ذخیرہ المال میں ہے آپ نے فرمایا
لو شئت لا وقرت سبعین بعیرامن تفسیرسورٰۃالفاتحہ قال ابن عباس اخذبیدی الامام علی لیلتہ مقمرۃ فخرج بی الی البقیع بعد العشائ فقال اقرئ یا عبد اللہ فقرات بسم اللہ الرحمن الرحیم فتکلم لی فی اسرار البائ الیالفجر ۔
اگر چاہوں تو سورہ فاتحہکی تفسیر سے ستراونٹ بارکر سکتا ہوں ابن عباس کہتاہے کہ حضر ت علی علیہ السلام نے ایک دفعہ چاندنی رات میں میرا ہاتھ پکڑا اور نماز عشاکے بعد مجھے بقیع کی طرف لے گئے اور فرمایا قرات کرو تو میں نے بسم اللہ پڑھی پس آپ ن با کےاسرار کو بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
نیز ایک روایت میں ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے نقطہ بائ بسم اللہ کی شرح کو ایک رات شروع کیا ور سپیدی صبح نمودار ہوگئی لیکن بیان تمام نہ ہو سکا تو میں نے اپنے نفس کوان کی ذات والا صفات کے سامنے ایسا پایا جیسا کہ ایک پانی کا چلو بحرذخار کے سامنے اب ان وستعوں کے مقابلہ میں کسی کو دم مارنے کی کیا مجال ہے کیا کلالہ و اب کے معانی کونہ سمجھ سکنے والا بھی مقابلہ کی تاب لا سکتا ہے جو اپنی کمزوری علم کو خود ان الٖفاظ سے بیانگ علم کو خود ان الفاظ سے بیانگ دہل ظاہر کرتا ہو ان زغت  فقد مونی اگر میں غلط بیان کرو ں تو میری اصلاح کردینا بہر کیف حضر ت علی کا علمی وقار تمام صحابہ میں مسلم تھا بنا بریں دوسروں کی علمی کمزوریوں کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ شمس امامت کی علمی شعائیں اور ضیا پاشیاں اس قسم کی معمولی گرد سے چھپ نہیں سکتیں ابو سعید حذری سے مروی ہے کہ میں نے قال الذی عندہ علم من الکتاب کے متعلق پوچھا کہ اس سےکون مراد ہے تو آپ نے فرمایا میرے بھائی حضرت سلیمان بن داود کاوصی تو میں نے پوچھا قل کفی باللہ شھید ابینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب سے کون مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ میرا بھائی علی بن ابی طالب ۔
بے شک جس قدر وسعت علم ہو اسی قدر حدود وتصرفات میں وسعت ہوتی ہے جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا وہ بلکہ سبا بلقیس کے تخت کو ملک سبا ہے چشم زون میں لاسکتا تھا جس کے پاس کل کتاب کا علم تھا اس کی خاطر چشم زون میں سورج واپس پلٹ کر آگیا جیسا کہ مناقب ابن مردویہ تفسیر ثعلبی خصائص نطنزی وغیرہ میں مرقوم ہے
جابر بن عبداللہ انصاری سے مروی ہے کہ ایک دن حضر ت امیر علیہ السلام نےہمیں نمازصبح پڑھائی اورہماری طرف متوجہ ہوکرارشاد فرمایا اے لوگو خدا تمہارے بھائی سلیمان کے بارے میں تمہارا اجر زیادہ کرے تو لوگ اس میں باتین کرنےلگے آپ نےجناب رسالت مآب کا عمامہ سر پر باندھا اور آپ کی قمیض پہنی اور آپ کا عصا ہاتھ میں لیا پھر ناقہ غضا پرسوار ہوئے قنبر سے فرمایا کہ تم دس تک شمار کرو قنبر کہتاہے کہ میں نے دس تک شمار کیاتو اپنے آپ کو سلیمان کے دروازہ پرپایا ۔
زاذان کہتاہےکہ جب سلیمان کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو میں نے عرض کی کہ آپ کو غسل کون دے گا فرمایا مجھے وہی غسل دے گاجس نے رسول کوغسل دیاتھا میں نے کہا آپ مدائن میں ہیں اوروہ مدینہ میں ہیں توفرمایا اےزاذان تومیرا تخت الحنک باندھ چکے توایک آواز سنے گاوہ کہتا ہے ایسا ہی ہوا کہ جب میں نےسلمان کا تحت الحنک باندھا توایک آواز سنی اوردروازہ پرپہنچا اچانک دیکھا کہ حضر ت امیر المومنین تشریف فرما ہیں اور دریافت کیاکہ سلمان قضا کرچکے ہیں میں نےکہا جی ہاں حضور پس آپ اندر داخل ہوئےاورسلمان کے چہرہ سےکپڑا اٹھایا تو سلمان نےآپ کے رخ انور کی زیارت کرکے مسکرادیا آپ نے فرمایا مرحبا اے سلمان جب رسول کے پاس جانا تو میرے ساتھ قوم کا جوبرتاو ہواہے بیان کرنا پھر تجہیز میں مشغول ہوئے اورنماز جنازہ پڑھی توہم حضر ت امیر سے پرزور لہجہ میں تکبیر سنتے تھے اور میں نے آپ کے پہلووں میں دواورشخصوں کواکٹھا کھڑا ہوا دیکھا فرمایا ایک جعفر طیار اور دوسرا خضر تھا مدیتہ المعاجز
اصنبع ابن بناتہ سے منقول ہے بعد از شہادت جناب امیرعلیہ السلام جب کہ حسنین شریفین مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے عرض کی اے آقا میں آپ سےایک امر کا سوال کرتاہوں جس کا مجھے یقین ہے اور وہ اللہ کے رازوں میں سےہے اور آپ رازدان ہیں آپ کوئی راز کی بات ظاہر فرما دیں آپ نے فرمایا کھڑا ہو پس میں نے دیکھا کہ ہم دونوں کوفہ میں پہنچ گئے ہیں اور چشم زدن دے پہلے میں نے اپنے آپ کو مسجد کوفہ کے قریب پایا پس آپ میری طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور فرمایا اے اصبنع تحقیق حضرت سلیمان بن داود کوہواپر حکومت دی گئی کہ صبح و شام ایک ایک ماہ کی مسافت طے فرماتے تھے اور مجھے سلیمان کی حکومت سے زیادہ عطاہوئی ہے میں نے عرض کی بے شک خدا کی قسم آپ سچ فرماتے ہیں اے فرزند رسول توآپ نے فرمایا کہ وہ ہم ہی ہیں جن کے پاس قرآن کا علم اور بیان ہے اورجو کچھ ہمارے پاس ہے خداکی مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں ہےکیونکہ ہمارے پاس اسرارالہیہ ہیں پھر مسکراتےہوئے فرمایا کہ ہم آل اللہ اوروارث رسول ہیں میں نے کلمہ حمد اد اکیا توآپ نے فرمایا اند ر داخل ہو چنانچہ میں جب اندر داخل ہواتو دیکھا کہ حضرت رسالت مآب محرا ب مسجد میں چادر اوڑھے بیٹھے ہیں اور دیکھا کہ حضرت  امیر المومنین ایک اعرابی کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور حضرت رسالت مآب انگشت مبارک کو دانتوں میں رکھ کرا س اعرابی کو سرزنش فرما رہے ہیں الخبر مدیتہ المعاجر
ایک طرف اعجاز کا یہ عالم ہے اوردوسری طرف صبر ورضا ملاحظہ فرمائیے کہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں اوراپنے نانا کی قبر مبارک پرجاکر یہ کلمات ادا فرما رہے ہیں اے اللہ یہ تیرے نبی کی قبر ہے اورمیں تیرےنبی کی دخترکا فرزند ہوں مجھے جو کچھ درپیش ہے تو جانتا ہے اے اللہ میں نیکی کو چاہتا ہوں اوربرائی کو ناپسندکرتاہوں اے جلال واکرام کے مالک میں تجھے اس قبراور اس قبر کے ساکن کا واسطہ دے کر عرض گزار ہوں کہ میرے لئے وہ چیز اختیار فرما جس میں تیری اور تیر ے رسول کی خوشنودی مضمر ہو وہاں پہلو قبر میں آنکھ لگ گئی اور عالم خواب میں اپنے نانا کو فرماتے ہوئے سنا میرے پیارے حسین میں اس منظر کو دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب زمین کربلا پر مذلوح ہو کر تواپنے خون میں غلطان ہو گا بیٹا عراق کی طرف چلے جاو حضرت امیر المومنین ام سلمہ سے جب وداع کیاتوام سلمہ نے عرض کی مجھے عزم عراق سے غمزدہ نہ کیجئے میں توآپ کےجدنامدار سے سن چکی ہوں کہ میرا فرزند حسین ملک عراق میں سر زمین کربلا پر  قتل کیا جائے گا آپ نے فرمایا اے مادرگرامی بے شک میں وہی ہوں اوریقینا قتل ہوں گااور اس سے کوئی چارہ کار ہی نہیں اور مجھے وہ دن بھی معلوم ہے جس میں قتل ہوںگااوریہ بھی پتہ ہےکہ مجھے کون قتل کرے گا او ر اس جگہ کو بھی جانتا ہوں جہاں دفن ہو نگانیز میری اہلبیت اقربا اورشیعوں میں سےجو جو قتل ہو گا میں ان کو بھی جانتاہوں اگر تو چاہے تومیں تجھے اپنی قتل گاہ مدفن اوراپنے اصحاب کا مدفن دکھا دوںگاجناب ام سلمہ نے عرض کی ہاں تو آپ نے صرف بسم اللہ کو زبان پر جاری فرما یا تو زمین کوایک جنبش ہوئی اور آپ نے اپنی اوراپنے اصحاب کی قتل گاہوں اور جائے دفن کی نشاندہی فرمائی اوران کو قدر ےاس جگہ کی خاک بھی عطا فرمائی اور فرمایا اس کو اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ سرخ خون ہوجائے توسمجھ لینا کہ میں شہید ہو گیا ہوں ۔
چنانچہ جناب ام سلمہ نے اس خاک کو محفوظ رکھا اور اس کو دیکھتی رہیں عصر عاشوراکو دیکھا تو وہ سرخ ہو چکی تھی پس رونا شروع کیا ہاشمی مستورات سے فرمایا اے عبدالمطلب کی شہزادیو میرے ساتھ گریہ و بکا میں شریک ہو جاو کیونکہ ہمارے آقا حسین کربلا میں شہید ہوگئے ہیں میں نے جناب رسالت مآب کوانتہائی پریشانی اوراضطراب میں دیکھاہےکہ ان کےسر پر غبار اور ڈاڑھی مبارک خاک آلود تھی میں نےوجہ پوچھی توارشاد فرما یا لوگوں نے میرے فرزند کو شہید کر ڈالا ہے اور میں نے اس کو قتل ہوتے دیکھا ہے تاریخ الخلفائ میں ہےکہ قتل حسین کے بعد دنیا کا یہ عالم تھا کہ سات دن تک سورج کی  شعاع بھی خونی رنگ کی تھی اور دیواریں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ ان پر سرخ چادریں ڈالی گئی ہیں۔
روز عاشور ہ آسمان سے خون برسا یہاں تک کہ برتن خون سے پر ہوگئے اور سورج گہن کی وجہ سے آسمان پر سخت تاریکی چھا گئی یہاں تک کہ ستارے نظر آنے لگے اور انتہائی ظلمت کی وجہ سے  لوگ سمجھے کہ قیامت قائم ہوگئی ہے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر ایک دوسرے پر گرتے تھے اورزمین پر جہاں سے کوئی پتھر اٹھایا جاتاتھا اس کے نیچے سے خون ابھر آتا تھا او ر تین دن تک دنیا تاریک رہی پھر سرخی ظاہر ہوئی اورکہتے ہیں کہ چھ ماہ تک سرخی باقی رہی اور اس کے بعد بھی سرخی دیکھی جاتی رہی شرح ابن حجر عسقلانی
امام شافعی کہتا ہے تزلزلتالدنیا لال محمد      وکادت لھم شم الجبال تذوت
ترجمہ   آل محمد کے مصائب سے دنیا میں زلزلہ قائم ہوا اور قریب تھاکہ اس کی تاب برداشت نہ لا کر بلند پہاڑ پھٹ جائیں ابن عباس سے منقول ہے کہ روانگی عراق سے قبل میں نے بیت اللہ کے دروازہ پر حسین کو دیکھا کی جبرئیل کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے اور جبرئیل آواز دے رہا تھا لوگو اللہ کی بیعت کی طرف آجاو جناب رسالت مآب کا ارشادہےکہ جوحسین کی مدد کرے گا گویا اس نے میری مددکی جناب امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے تھے کہ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ جناب فاطمہ کو پر سہ دیکر ان کی مدد کرو فرمایا نفس المھموم لظلمنا تسبیح ترجمہ جو شخص ہماری مظلومت پر غمزدہ ہواس کی ہر سانس تسبیح شمار ہوتی ہے انفاسکم فیہ تسبیح ترجمہ یعنی ہمارے ٖٖغم میں تمہاری ہر سانس تسبیح شمار ہوتی ہے  مومنین رونےکا مقام ہے اور گریہ زاری کا مقام ہے اور یہ ہمارے اوپر احسان نہیں بلکہ اس مظلوم کے لئے گریہ کرو جس نے خدا کی نے مثل عبادت کی چنانچہ منقول ہے کہ ہر شب ایک ہزار رکعت نماز نافلہ پڑھا کرتے تھے اورخوف خداکا یہ عالم تھا کہ وضو کرتے وقت آپ کے اعضاخوف خداسے کانپتے تھے اور زائرین جب زیارت کو جاتے ہیں تو آپ کیزیارت میں یہی کہتے ہیں کہ اشھدانک قد اقمت الصلوۃ  ترجمہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز کو قائم کیا ہاں ہاں کربلا کی نمازیں بھی نرالی شان کی حامل ہیں شب عاشورہ کی نماز پھر صبح عاشورہ کی نما ز پھر ظہر عاشورہ کی نماز اور عصر عاشورہ کی نماز تو حسین نے قیامت تک کے لئے یادگار چھوڑی ہے اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اقول
اس میں شک نہیں کہ عبادت کاوزن خشوع و خضوع کے ساتھ ہواکرتا ہے اورخشوع وخضوع کے لیے اسباب مناسبہ کا ہوناضروری ہے مثلاتندرستی بے فکر ی امن و اطمینان اورماحول کی موزونیت وغیرہ پس تندرست بے فکر باامن اور پر اطمینان جس طرح پر سکون ہو کر خشوع و خضوع سے عبادت کرسکتا ہے وہ بیمار وفکر مند بے امن و بے چین آدمی نہیں کر سکتابلکہ مصیبت میں گھرا ہوا ہرانسان اس یکسوئی کی عبادت سے محروم ہوتاہے جواس دنیا میں بسنے والے انسان سے ہو سکتی ہے اوریہی وہ وجود ہیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی آخری نماز کو بلکہ صرف ایک سجدہ کی اہمیت کوواضح کرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ حسین کے نانا اور بابا بہت بڑے عابد تھے نانا سیدالبنیین اور بابا امام المتقین تھے لیکن ان کی عبادتیں کسی حد تک مناسب و موزوں ماحول میں تھیں اوران کی عبادات میں خشوع و خضوع کے مناسب اسباب بڑی حد تک موجود ہواکر تے تھے اورحسین علیہ السلام نے کربلاکی تپتی زمین پرہر قسم کے پر خطر ماحول میں بھوکے پیاسے ہو کر زخمی جسم کے ساتھ برستے ہوئے تیروں کے نیچے تنے ہوئے نیزوں کےسائے میں اور چمکتی ہوئی تلواروں کےآگے زمین پر ہر قسم کے پر خطر ماحول میں بھوکے پیاسے ہو کر زخمی جسم کیساتھ برستے ہوئے تیرو ں کے نیچے تنے ہوئے نیزوں کے سائے میں اورچمکتی ہوئی تلواروں کے آگے زمین گرم فضا گرم اور ہوا گرم اردگرد بھائیوں عزیزوں دوستوں اور بیٹیوں کی لاشیں اور دوسری طرف بہنوں بیٹیوں اور لاوارث پردہ داروں کی غم واندوہ کے دریا میں ڈوبی ہوئی سر دآہوں اور خوردسال بچوں کے گریہ کی درد بھری آوازوں کے انتہائی ناسازگار ماحول میں خشوع و خضوع کی دو رکعت نماز بلکہ ایک سجدہ بھی اتنا وزنی تھا کہ اس نے اسلام کی تقدیر پلٹ دی چنانچہ شاعر مشرق کو کہنا پڑا اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں اک ٖضرب یداللہی اک سجدہ شبیری۔

ایک تبصرہ شائع کریں