التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حالاتِ سر اقدس امام حسین ؑ -- سر مبارک امام حسین ؑ کوفہ میں

7 min read
’’فرسان الہیجا‘‘ میں مروی ہے کہ سر امام حسین ؑ روز عاشور بوقت عصر ہی عمر بن سعد نے خولی بن یزید کو دے کرابن زیادکی طرف کوفہ کوروانہ کردیا اورحمید بن مسلم کوبھی اس کے ہمراہ روانہ کیااوربعضوں نے کہاہے کہ امام پاک کے سرکولے جانے والاشمر تھا۔
پہلی روایت کی بنا پرجب خولی امام مظلوم ؑ کاسرلایا توادھ رات کا وقت تھا چونکہ دارالامارہ کا دروازہ بندہو چکا تھا لہذا اپنے گھر آیا اورسر مبارک کو ایک کپڑے دھونے کے طشت کے نیچے رکھ دیا، اس کی دوبیویاں تھیں ایک قبیلہ اسد سے تھی اوردوسری کا نام نوارتھا اورحضرموت کے باشندوں میں سے تھی، جب خولی نوارکے قریب آیا تواس نے پوچھاکیا لایا ہے؟ اس نے جواب دیا امام حسین ؑ کا سرلایا ہوں، نوار غصہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اورکہنے لگی اے بد بخت لوگ کمانے کے لئے گھر سے جاتے ہیں توپیسہ روپیہ لاتے ہیں اورتومیرے گھر میں فرزند پیغمبر کا سرلایاہے؟ خداکی قسم اب کے بعد کبھی تیرااورمیرا سرایک سرہانے پرجمع نہ ہوگا، پس یہ کہہ کر خولی سے دور ہوگئی اورسرمبارک کے قریب گئی، دیکھاکہ طشت سے تا آسمان ایک نور ساطع ولامع ہے اورملائکہ کی آوازتسبیح بھی سنائی دیتی ہے اورسفید قسم کے پرندے اردگرد گھوم رہے ہیں اورسرمطہر سے تلاوت قرآن مجیدکی آوازارہی ہے:
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ
دوسری روایت کی بنأپرشمر سرمطہر کو توبرہ میں ڈال کرگھر لایا اورکپڑے دھونے کے ایک تغارکے نیچے رکھ دیا، جب چاند غروب ہوا اور رات تاریک ہوئی توشمرکی ایک مومنہ بیوی اپنی جگہ سے اٹھی دیکھا کہ تغار سے آسمان تک نورساطع ولامع ہے فوراً شمر سے پوچھاتوکیا چیز لایاہے؟ اس نے جواب دیا ایک خارجی کا سرہے، اس نے پوچھا وہ کون تھا؟ اس حرامزادے نے کہا وہ حسین ؑ بن علی ؑتھا، تووہ مومنہ سنتے ہی اتنی روئی کہ بے ہوش ہو گئی؟ جب ہوش میں آئی توکہنے لگی اے مجوس سے بدترین انسان تجھے خداکا خوف نہیں آیا؟ یہ کہہ کرباہرآئی اورسرکوتغار سے نکال کر سینے سے لگایا، ارد گرد محلہ کی مومنہ عورتیں بھی جمع ہوگئیں اورکہرام ماتم بپاہوا۔
زوجہ شمرکا بیان ہے میں نے اچانک دیکھا کہ گھر کی دیوار شق ہوئی اورمیں بیہوش ہوکر گرگئی، گویا عالم خواب میں دیکھا ایک نورِعظیم ظاہرہوا اوربادل کا ٹکڑا سامنے آیا گویا وہ عماریٔ نور تھی جس سے دوبیبیاں اُتریں اوراس سرکو اٹھاکرسخت روئیں، میں نے پوچھا یہ عورتیں کون ہیں؟ تو ہاتف کی آوازآئی ایک فاطمہ زہرا ؑ ہے اوردوسری خدیجۃالکبریٰ ہے، پس چند مرد نازل ہوئے پوچھنے سے معلوم ہوا حضرت محمد مصطفی۔۔ علی مرتضیٰ۔۔ حمزہ اورجعفر طیارتھے وہ سب اس سر کوبوسہ دیتے اورروتے تھے۔
جناب فاطمہ ؑ اور خدیجہ کبریٰ دونوں شمر کی زوجہ کی طرف روانہ ہوئیں اور فرمایا اے بی بی ہم تیری ممنونِ احسان ہیں کہ تو نے اپنے گھر میں ہمارے فرزند حسین ؑ کی مجلس غم منعقد کی ہے اور گر یہ و ماتم کیا ہے، پس تو بہشتی محلات میں ہمارے ہمراہ ہو گی، جب بیدار ہوئی دیکھا سرگود میں ہے، پس شمر آیا اور سر طلب کیا تو اس مومنہ نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو میں سرہرگز نہ دوں گی، شمر نے تلوار کی ضربت سے اس مومنہ کو شہید کردیا؟ اور آقا شیخ ذبیح محلاتی نے ان دونوں روایتوں کی جمع اس طرح کی ہے کہ شاید کوفہ تک سرکو لانے والا خولی ہو اور ایک رات سر اس کے گھر میں رہا ہو پھر کوفہ سے شام بھیجنے کیلئے شمر کو معین کیا گیا ہو اور وہ سر مطہر کو اپنے گھر لایا ہو؟ پس ایک رات اس کے گھر میں سر اطہر نے گزاری اور بعض روایات تغار کی بجائے تنور لکھا ہے یعنی اس ملعون نے تنور میں رکھ کر اس کی خاکستر میں سر کو چھپا رکھا تھا، جب زنِ مومنہ نماز تہجد کیلئے اٹھی تو مطبخ میں روشنی دیکھی اور تنور میں خاستر کے نیچے مظلوم کربلا کا سر دیکھا اور اس کو اُٹھایا تو پہچان گئی، پس خاکستر کو صاف کر کے سینے سے لگایا اور رورو کر بے ہوش ہوگئی، پس اس وقت چار عورتوں کو دیکھا پوچھا تو معلوم ہوا ایک فاطمہ زہراؑ۔۔ دوسری خدیجہ کبریٰ ۔۔تیسری مریم عذرا ؑ اور چوتھی آسیہ ہیں (مخزن البکأ)
روایت ’’بحارالانوار‘‘ مسلم جصاص سے منقول ہے کہ میں ان دنوں کوفہ کے دارالامارہ کی مرمت کرہا تھا جب شور و غوغا سنا تو اپنے غلام کو حقیقت حال معلوم کرنے کو کہا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ایک شخص نے خروج کیا ہوا تھا اور ابن زیاد کی فوجوں نے اس کو بمعہ احباب کے قتل کردیا ہے، اب ان کے سروں کو بمعہ ان کے پردہ داروں کے کوفہ میں لایا جارہا ہے اور لوگ تماشا کیلئے جمع ہو رہے ہیں، میں پوچھا اس خارجی کا نام کیا ہے؟ تو جواب دیا کہ اس کو حسین ؑ بن علی ؑکہتے ہیں پس میں نے اپنے منہ پر زور سے طماچہ مارا اس کے بعد ہاتھ دھوکر باہرنکلا، میں دیکھا شہدأ کے سر نیزوں پر سوار ہیں اور ساتھ ساتھ چالیس کجاوے ہیں جن پر قیدی قافلہ سوار ہیں اور میں نے حضرت سجاد ؑ کو دیکھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور اس کی رگوں سے خون جاری تھا اور وہ چند اشعار پڑھ رہے تھے۔
سب سے آگے امام حسین ؑ کا سر تھا وہ سر نوارنی رسولؐ خدا کی شکل سے بالکل مشابہ تھا ااور ریش مبارک پر سیا ہ خضاب لگا تھا پس وہ بالکل سیاہ تھی اور جڑوں میں سفیدی معلوم ہوتی تھی، چاند کی طرح منہ چمکتا تھا اور ہوا کے جھونکوں سے داڑھی مبارک کے بال حرکت کررہے تھے، زینب عالیہ نے ایک مرتبہ بھائی کے سر کو دیکھا اور محمل کے ساتھ سر کو مارا اور فریاد کی کوچوں اور گلیوں میں بے پناہ ہجوم تھا اور ایک لاکھ کے قریب تماشائی موجود تھے۔
’’مخزن البکأ‘‘ میں ’’ملہوف‘‘ سے مروی ہے کہ آلِ اطہار کو بغیر پالانوں کے اونٹوں پر سوار کیا گیا تھا، نہ سر پر چادر تھی نہ مقنعہ؟ پس نامحرموں سے بچنانا ممکن تھا، اچھے اور نئے لباس لوٹے جاچکے تھے پس پرانے اورخستہ کپڑے تھے جو خاندان عصمت کی شاہزادیوں نے زیب تن کئے ہوئے تھے اوربروایت ’’بحارالانوار‘‘ حضرت سجاد ؑ کی گردن میں وزنی زنجیر ڈالے ہوئے تھے اوربعض روایات کے ماتحت بیبیوں کے ہاتھ بھی رسن بستہ تھے اورہاتھوں کا گردن سے بندھا ہوا ہونا بھی مذکورہے۔
مدینہ سے کربلاتک تودیگر جوانانِ بنی ہاشم کے علاوہ خود حضرت حسین ؑ بھی نگرانِ حال تھے اورسادانیوں کے محملوں کے نشیب وفراز کودیکھتے جاتے تھے کہ کہیں ناہموار مقامات سے نہ گزریں؟ لیکن اب خداجانے پردہ داروں کا کیا حال ہوگا؟ جبکہ عمداً اونٹوں کوناہموار مقامات سے گزاراجاتاتھا؟ بلکہ بعض اوقات ناہموار جگہوں پر عورتوں کاپیدل دوڑانا بھی ملتاہے؟ جیساکہ مختار کے حالات میں موجود ہے، اس نے ایک ظالم کوسزادینے سے پہلے پوچھاکہ میں نے سنا ہے توسادانیوں کے اونٹوں کو تازیانے مارتاتھا کہ اونٹ دوڑیں اوربیبیاں سنبھل نہ سکیں؟ اورایک ظالم کواس ظلم کی سزادی کہ تو بیبیوں کے پائوں سے جوتے اُتروا کر ناہموار مقامات پران کودوڑاتاتھا؟
’’توضیح عزا‘‘ میں ہے کہ جب کوفہ کے قریب قافلہ پہنچا اورسادانیوں نے اپنے لباس کی خستگی اورکوفہ کی جمعیت اوراپنی بے پردگی کا اندازہ کرکے خصوصاً جناب زینب عالیہ نے بواسطہ فضہ ؑ کے شمر سے خواہش کی کہ ہم اس لباس کے ساتھ بازار میں جانے کے قابل نہیں لہذا ہمیں شارع عام سے نہ لے جایا جائے اوراگر خواہ مخواہ ایسا کرناہی ہے توہمیں چادریں دی جائیں؟ لیکن شمر ملعون نے جواب دیا کہ اے فضہ ؑ اپنی مخدومہ سے کہو اب تم کوفہ کی شہزادی نہیں ہو بلکہ ابن زیاد کی اسیرہ  ہو لہذا اسی حالت سے جاناپڑے گا۔۔۔۔۔ نیز مروی ہے کہ بوقت داخلۂ کوفہ اکثر محلات جن میں شیعہ آبادی زیادہ تھی ان کی شاہراہوں پولیس کو مسلط کردیا گیا کہ کوئی حالات سے باخبر نہ ہو؟ مبادابغاوت کھڑی ہوجائے (مخزن البکأ)
بی بی عالیہ نے بھائی کی شہادت کوزندہ کرنے کے لئے بازار میں خطبے بھی پڑھے اوراپنے حسب ونسب سے آگاہ بھی کیا اورجولوگ یہ سن چکے تھے کہ کوئی خارجی ماراگیا ہے ان کو معلوم ہوگیاکہ رسولؐ کا خاندان تباہ کردیا گیا ہے؟ نہ معلوم دربار ابن زیاد میں کہنہ لباس کے ساتھ بی بی نے وقت کیسے گزاراہوگا؟ جب کہ کنیزوں نے احاطہ کیا ہواتھا اوروہ ایک گوشہ میں بیٹھی تھیں اورابن زیاد نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ زینب بنت علی ؑہیں۔
ابن زیاد نے حکم دیا کہ امام ؑ کے سر مبارک کو کوفہ کی گلی کوچوں میں پھرایا جائے؟ ’’فرسان الہیجا‘‘ میں بروایت ابن شہر آشوب مذکورہے کہ سرمبارک کو ایک گلی میں لٹکایا گیا تو کھانسنے کے بعد سرِامام ؑ نے سورہ کہف کی تلاوت شروع کردی، پس وہاں سے نقل کرکے آگے لے گئے اورایک درخت پرلٹکایا گیا اورسرمبارک نے  وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ کوتلاوت کیا۔
بروایت ’’تظلم الزہرا‘‘ حارث بن وکیدہ کہتاہے میں نے قرأت سن کرتعجب کیا اورمتفکر تھا کہ آیا یہ امام حسین ؑکی آوازہے جومیں سن رہا ہوں؟ اچانک امام مظلوم ؑ نے مجھے خطاب کرکے فرمایا:
یَا بْنَ وَکِیْدَۃَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّا مَعْشَرَالْاَئِمَّۃِ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّنَا۔
یعنی اے ابن وکیدہ! تجھے علم نہیں کہ ہم گروہِ آئمہ اللہ کے نزدیک زندہ ہواکرتے ہیں؟
حارث بن وکید ہ کہتاہے یہ سنکرمیں نے ارادہ کیا کہ موقعہ ملے اور اس سر کو چوری کرکے لے جائوں، پس وہ میرے دل کی بات کو بھانپ کرفرمانے لگے:
اے ابن وکیدہ! تجھے یہ کام میسر نہ ہوگا اورمیرے قتل کرنے سے اللہ کے نزدیک میرا گلی کوچوں میں پھراناسخت ظلم ہے، پس تواس کا م ہاتھ نہ ڈال، ان لوگوں کوبہت جلدی اپنے کیے کی سزامل جائے گی اوردوزخ ان کا ٹھکانا ہوگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں