پیہم اورباربار کی لڑائی سے امام عالیمقام ؑ کا جسم زخموں سے چورہوگیاتھا،
زخموں کی تعداد ایک ہزار نو سوپچاس بھی لکھی گئی ہے اورچار ہزار بھی بیا ن کی گئی
ہے، ’’مخزن البکا‘‘ میں بروایت ’’بحارالانوار‘‘ چار ہزار تیر اورایک سو اسّی زخم
نیزہ وشمشیر کے مذکور ہیں، بہرکیف مظلوم ؑکے زخم گنتی کی حدود سے باہر تھے کیونکہ
جوزخم شمار کئے گئے ہیں صرف ظاہر کے لحاظ سے ہیں ورنہ زخم درزخم اورایک ایک زخم
میں کئی کئی زخم تھے اورظاہری زخموں کے علاوہ باطن کے زخموں کی توکوئی حد ہی نہیں
اوریہ سب کے سب زخم سامنے کی طرف تھے کیوں کہ ا ٓپ ؑ نے کسی وقت دشمنوں کی طرف پشت
ہی نہیں کی تاکہ پیچھے کوئی زخم لگتا۔
پیاس کی شدت پہلے سے موجود تھی اب زخموں سے بھی نڈھال ہوگئے، تھوڑی دیر جنگ
سے آرام کرنے کیلئے ایک مقام پرٹھہر گئے تواچانک ابوالحتوف جعفی یاابولحنوق دونوں
مروی ہیں اوریہ دونوں لفظ غلط ہیں درست ابوالجنوب ہے (کیونکہ اس کا اصلی نام
عبدالرحمن جعفی تھا اوراس کی بیٹی کا نام جنوب تھا پس اس کی کنیت ابوالجنوب مشہور
تھی) نے ایک ایسا تیر مارا جو امام ؑ کی پیشانی نورانی میں پیوست ہوا، امام ؑ نے
قوتِ بازوسے وہ تیر کھینچا اورریش مبارک خون سے ترہوگئی ۔
’’مخزن
البکا‘‘ میں بروایت ’’بحارالانوار‘‘ مذکورہے کہ سخت کمزوری کے باعث آپ ؑ آرام
کیلئے ٹھہرے تواچانک جبین مبین پرایک پتھر لگاکہ خون جاری ہوگیا اورریش مبارک
رنگین ہوگئی، آپ ؑ نے قمیص کا دامن ہاتھ میں پکڑااورخون پونچھنے کا ارادہ
فرمایاکہ اچانک سہ شعبہ تیر سینہ بے کینہ پر لگا اورخزینہ علومِ ربانیہ سے
پارہواکہ اس کی نوکیں پشت سے نکل آئیں، پس اس وقت آپ ؑ کی زبان پریہ کلمہ جاری
ہوا: بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَعَلٰی
مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ پس آسمان کی طرف
منہ کرکے عرض کیا اے میرے پروردگار! توجانتاہے کہ یہ لوگ ایسے شخص کو مار رہے ہیں
کہ اس کے علاوہ اس روئے زمین پرتیرے نبی کا نواسہ اورکوئی نہیں ہے؟
اپنے اس تیر کے کھینچنے کا ارادہ کیا لیکن سامنے کی طرف سے نہ کھنچ
سکاکیونکہ اس کے پھل ٹیڑھے تھے، پس پسِ پشت دونوں ہاتھوںسے اس تیر کوپشت کی جانب
سے کھینچ لیا اورخون کا فوارہ جاری ہوا اورخون سے چلّوپُرکرکے دونوں ہاتھوں سے سر
اورریش کو رنگین کیا اور فرمایا اسی خضاب شدہ ریش سے اپنے نانا کی ملاقات کروں گا،
اورمروی ہے ایک چلّوآسمان کی طرف پھینکا کہ ایک قطرہ بھی واپس نہ آیا اور اسی دن
سے آسمان پرسرخی کا نشان قائم ہوا جوصبح اورشام نظرآتاہے اور ابن طائووس کی
روایت میں ہے کہ وہ تیرسہ شعبہ زہرآلود بھی تھا اوراس کے پس پشت نکلنے کے بعد خون
پرنالہ کی طر ح جاری ہوا۔
بروایت ’’محرق القلوب ص۱۵۴‘‘ کافی خون
نکل جانے کی وجہ سے امام ؑ پرکمزوری غالب ہوئی اورزین ذوالجناح پربیٹھنا مشکل
ہوگیا، پس گھوڑے سے اُترنے کا ارادہ فرمایالیکن بدن میں طاقت نہ تھی زخموں سے جسم
نڈھال ہوچکا تھا اوربے تابانہ دائیں بائیں جھوم رہے تھے، زمین لرز گئی ہوگی؟
آسمان تھرایا ہوگا؟ بیبیوں کے دل دہل گئے
ہوں گے؟ حوروغلمان نے ماتم کیاہوگا؟ صف انبیا ٔ میں تہلکہ مچ گیا ہوگا؟ غرضیکہ
کائنات کی ہرچیز محو گریہ ہوگی؟ نہ معلوم قلب مصطفیٰ پرکیا گزری ہوگی؟ اورروحِ
زہرا ؑنے کیسے برداشت کیا ہوگا جب زخمی جسم سے حسین ؑ نے گھوڑے کی زین چھوڑی ہوگی؟
دل لرزتاہے اورقلم کانپتاہے کیسے لکھوں کہ حسین ؑ کیسے زمین پرتشریف لائے؟ اورناطق
قرآن کس طرح رحل زین کوچھوڑ کر فرش زمین پرآیا؟
وامصیبتاہ ع
بلند مرتبہ شاہی زصدر زین افتاد
اگر غلط نہ کنم فرش بر زمین افتاد
شفیع روز قیامت بہ خاک مسکن کرد
زمین ماریہ را ہمچو دشت ایمن کرد