التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چھٹی مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مع الصادقین


یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مع الصادقین
دعوت ایمان کےلئے پہلے پہل دعوت عشیرہ ہے جب حضور پر یہ آیت اتری و انذر عشیر تک الاقربین  تو آپ نے حضر ت علی سے فرمایا یاعلی مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اپنے قریبیوں کوڈراوں لیکن میرا جی گھٹ رہا ہے اور سوچنا ہوں کہ اگر میں نے ان کو یہ بات کہی تو وہ مجھ سےالجھن گے اور برے پیش آئیں گےپس میں خاموش رہا لیکن بعد میں جبریل سخت حکم لے کر نازل ہوا لہذا آپ ایک صاع کھانا تیار کریں جس پر ایک ران بکرے کی ہو اور ایک گھڑا دودھ کا ہو اور پھر عبدالمطلب کی اولاد کوبلا لائیں تاکہ میں ان کو تبلیغ کروں آپ فرماتے ہیں میں نے تعمیل ارشاد کی او ر وہ چالیس نفر ایک کم یا زیادہ جمع ہوئے ان میں حضرت کے چچے ابو طالب حمزہ عباس اورا بو لہب وغیرہ بھی تھے میں نے کھانا پیش کیا پہلے پہل جناب رسالت مآب نے گوشت کا ٹکڑا اٹھایا اور اپنے دندان مبارک سے توڑ کر کھایا اور باقی کو پیالہ میں رکھ دیا اور پھر آپ کے کہنے پر باقی لوگوں نے کھایا اور سب کےسب سیر ہوئے حالانکہ بخدا ان بندوں میں سے ہر ایک اس قدر کھانے والا جتنا کہ میں نےسب کے لئے تیار کیاتھا اس کے بعد وہ دودھ سب نے سیر ہو کر پبا حالانکہ وہ ان میں سےایک آدمی کےپینے کی مقدار کے برابر تھا پس اس کے بعد جب حضور نے کچھ کہنا چاہا تو ابو لہب نے سبقت کی اور کہنے لگا کہ ہم پر اس نے جادو کر لیا ہے اورسب کےسب اٹھ کھڑے ہوئے اورچلے گئے اور حضور کو بولنے کاموقعہ تک نہ دیا دوسرے روز حضور نے فرمایا یا علی اس شخص نے مجھے بولنے نہ دیا تھا لہذا اب دوبارہ کھاناتیار کرو اور سب کودعوت دوآپ فرماتے ہیں میں نے تعمیل حکم کی پس حسب سابق جب وہ کھاپی بیٹھے تو حضور نے سلسلہ کلام کواسطریق پر شروع فرمایا اے اولاد عبدالمطلب میں تمہارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کودوں تم میں سے کون ہے جواس معاملہ میں میری امداد کرے تاکہ وہمیرا بھائی وصی اور خلیفہ ہوسب لوگ خاموش رہے تو میں نے عرض کی کہ حضور میں اگرچہ سب سے چھوٹا ہوں لیکن اس معاملہ میں آ پ کے ساتھ حاضر ہوں اور آپ کےساتھ  بوجھ  اٹھانے کو تیار ہوں پس حضور نے میرا سر پکڑ کر فرمایا یہ میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو گا لہذا تم پراس کی اطاعت واجب ہو گی لوگ حضر ت ابو طالب پر مضحکہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے تھے کہ ا تم اپنے علی کی بات بھی سنو اوراس کی اطاعت بھی کرو معالم التزیل تفسیر سورۃ شعرا یہ روایت مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے تفسیر طبری جلد 19 تاریخ طبری خصائص نسائی ازالتہ الخفا ئے مسند احمد بن حنبل جلد اص 153 کنز العمال ص 696 مختار ۃ الضیا المقدوسی تفسیر ابن ابی الحاتم ذخیرہ المال تاریخ کامل ۔
ابن عباس سےروایت ہے کہ حضور نے میرااورعلی کا ہاتھ پکڑا اور چار رکعت نمازادا کر کے دعامانگیاے اللہ حضرت موسی بن غمران نے تجھ سےسوال کیا تھا اورمیں محمد بھی سوال کرتاہوں کہ میرا سینہ  کھول اور میرا معاملہ آسان کر اور میری زبان کی گرہ دور  کرتا کہ میری باتکوسمجھیں اور میری اہل سے میرے  بھائی علی کو میرا وزیر بنا اور اس کے ذریعہ سے میری کمر کو مضبوط کر اور اس کو میرا شریک کا ربنا ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے سنا کہ ایک مبادی نے ندادی اے احمد تونے کچھ طلب کیا تجھے مل گیا پس حضور نے فرمایا اے ابوا لحسن ہاتھ  بلند کرکے  اپنے رب سے مانگو تاکہ وہ مجھے عطا فرمائے پس علی نے ہاتھ اٹھا کرعرض کی اے اللہ مجھے اپنی جانب سے عہد عطا فرما اورمجھےاپنی طرف سے محبت کرامت فرما پس خدا نے یہ آیت بھیجی انا الذین امنو اوعملو الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا روضہ ندیہ  کتاب الکشف والبیان ثعلبی تفسیر کبیر تفسیر نیشا پوری مطالب السئول تْذکرہ خواص الامتہ فصول مہمہ مراۃ المومنین شاہ ولی اللہ مصعب بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ حضور غزوہ تبوک میں جانے لگے تو علی کواپنا جانشین مقرر فرمایا  تو حضرت علی نے عرض کی حضور آپ  مجھے بچوں اور عورتوں پر خلیفہ مقرر فرماتے ہیں تو فرمایا اما یرضی ان تکون منی بمنزلتہ ھا رون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی بخاری مسلم ابن ماجہ ترمذی خصائص نسائی مسند احمد  کنزالعمال مستدرک حاکم استیعاب تفسیر کبیر مطالب السئول تذکرہ خواص الامتہ زادالمعاد ابن قیم مشکوۃ مودۃ القربی فصول مہمہ تاریخ الخلفارر تاریخ خمیس صواعق محرقہ روضتہ الاحباب و مراۃ المومنین شاہ ولی اللہ لکھنوئ حضرت عمر بھی اس حدیث کے راویوں میں سے ہیں آپ نے فرمایا کہ مدینہ کےلئے آپ کے یا میرے علاوہ کوئی دوسرا مناسب نہیں مستدرک اور روضہ ندیہ اور طبقات ابن سعداور فتح الباری کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ یا میں ٹھہروں یا آپ ٹھہریں اور طبری اور ریاض النضرۃ کے لفظ ہیں کہ آپ راضی ہیں کہ آپ کے لئے اجر مجھ جیسا اور غنیمت بھی میری مثل ہو مسند احمد کےالفاظ یہ ہیں کہ میرا جانا مناسب ہی نہیں جب تک کہ میرا خلیفہ نہ ہو نیز مستدرک جمع الجوامع ازالتہ الخلفای روضہ ندیہ اور وسیلہ النجاہ ملامنین لکھنوی میں بھی اسی طرح ہے اور حضور سے یہ حدیث یوم مواخاۃ یوم خیبر اور سدالابواب کے موقع پر بھی منقول ہے نہج البلاغتہ آپ اپنے ایک احتجاج میں فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد جانتے ہیں کہ میں نے کبھی ایک لمحہ بھر بھی خدا اور رسول کی بات کو رد نہیں کیا اور میں نے رسول خدا کی امداد ایسے مواقع پر کی کہ وہاں بہادرو ں کے جگر کا نپتے ہیں اور قدم آگے نہیں بڑھ سکتے یہ میری ہمت تھی جو مجھے خدا نے کرامت فرمائی اور جب حضور کی وفات ہوئی تو ان کا سر مبارک میرے سینہ پر تھا اور انہیں میں نے ہی غسل دیااور ملائکہ میرے شریک تھے گھر میں ایک کہرام تھا فرشتوں کی ایک فوج جارہی تھی اور میں لگا تار سنتا رہا کہ فرشتے آپ پردرود پڑھتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو ضریح میں دفن کیا پس کون ہو سکتا ہے جو حضور کی زندگی اور موت کے بعد مجھ سےان کے معاملہ کازیادہ  سزا وار ہو کنز العمال ج 3 ص104 پر ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر حضور کے دفن میں شریک نہیں ہوئے وہ مجمع انصار میں تھے اور ان کی واپسی سے قبل حضور کو دفن کردیاگیا 6 ہجری میں حضرت علی سے مروی ہے جب سورہ براۃ کی پہلی دس آیتیں نازل ہوئیں تو آپ نے ابو بکر کو بلا کرفرمایا کہ جا کر اہل مکہ کو سنانے خو د جاو چنا نچہ میں نے ایسا کیا اور ابو بکر واپس آگیا اور عرض کی حضورکیا میرے بارے میں کچھ نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ جبریل نےآکر یہ حکم خداوند ی سنایا ہے کہ یا خود جائیے یا ایسے شخص کو بھیجئے جو تجھ ہی سے ہو درمنثور بخاری سنن ابو داود ترمذی نسائی مسند احمد مستدرک حاکم کشاف طبری ثعلبی ازالتہ الخفار تاریخ کامل عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ میں حضرت عمر کے ہمراہ مدینہ کی گلیوں میں سےایک گلی میں چل رہا تھا کہ مجھے کہنے لگے اے ابن عباس میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا ساتھی علی مظلوم ہے میں نے دل میں کہا کہ یہ ایسی بات کیوں کہہ رہے ہیں خیر میں نےجواب دیااگر ایسا ہے تو ان کو آپ حق واپس کر دیں پس اس نے فورا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا اور چلا گیا کہ میں ہمبمہ کی آواز سنتا تھا تھوڑی دور جاکر پھر ٹھہر گیا اور بھی جا پہنچا تو کہنے لگا وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے کم عمری کے باعث ہی ان کو پیچھے ہٹا دیا ہے میں نے دل میں کہا کہ یہ بات پہلی سےبد تر ہے لیکن میں نے کہہ دیا کہ خدا کی قسم خدا اور رسول نے اس کو اس وقت بھی چھوٹا نہیں سمجھا تھا جب آپ کےساتھی سے سورہ براۃ واپس کر کے ان کو دلوائی تھی پس اسنے مجھ سے منہ پھیر لیا اور ہاتھ کھینچ کرچلا گیا اور میں واپس آگیا ابن ابی الحدید
تاریخ طبری میں ہے کہ پھر آپ نے حضرت عمر کو بلا کر اشراف قریش کیطرف روانہ کر نا چاہا لیکن عمر نے جواب دیاکہ قریش سے ڈرتا ہوں جب حضرت ابو بکر واپس آئے تو کہنے لگے یارسول اللہ کیا آپ کا مجھ پر تبلیغ کےلئے اعتماد نہیں تھا آپ نے فرمایا خدا نہیں چاہتا مگر یہ کہ علی ہی پہنچائے ابو بکر نے بہت کچھ کلام کیا آخر آپ نے فرمایا تو کیسے پہنچا سکتا جب کہ تو نماز میں میرے ساتھ شریک تھا حضرت علی مکہ میں پہنچے پھر عرفات پھر مزدلفہ پھر منی میں پہنچے ذبح کیا اور حلق کیا پس ایک پہاٖڑ پر چڑھ گئے جسے شعب کہتے ہیں اور تین دفعہ بآواز کہا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کافر ستادہ ہوں پھر براۃ من اللہ سےشروع کرکے نو آیتیں سورہ براۃ کی تلاوت کیں اور بار بار ان کو پڑھا لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کون ہے تو بتایا گیا کہ یہ علی ہے اور جو پہچانتے تھے انہوں نے کہاکہ یہ محمد کا چچا زاد ہے اور ایسی بات کے کہنے پرسوائے محمد کےاپنو ں کےکوئی جرات کر سکتا بھی نہیں پس ایام تشریق میں تین روز آپ نے وہاں ٹھہر کر صبح و شام ان آیتوں کی تلاوت کا اعلان کیا آخر کار لوگوں نے علی کو یہ جواب دیاکہ جا کر کہہ دے کہ ہماری تلواریں اورنیزے حاضر ہیں اور حضرت علی کو جس اعلان کےساتھ روانہ کیا گیا تھا ان میں سے یہ بھی تھا کہ جنت میں صرف مسلم ہی جائے گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک نہ حج کرے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کرے گا کوئی عریا ن ور جن جن لوگوں کا جناب رسالت مآب کے ساتھ عہد ہےوہ اپنی معیاد تک باقی ہوگا ۔ بحار بحوالہ علل الشرائع
جناب رسالت مآب سےایک طویل حدیث میں منقول ہے کہ میرے بھائی موسی نے کوہ طور پر اپنے پروردگار سے مناجات کی تھی آخر کار میں خدا نے ارشاد فرمایا تھا کہ فرعون اور اس کی قوم کی طرف جاو اور ڈرو مت کیونکہ میں تمہارے ساتھ ہوں ا س کی قوم کیطرف جاو اور ڈرو مت کیونکہ میں تمہارے ساتھ ہو ں اس کا جواب حضر  ت موسی نے جو دیا تھا اس کا ذکر تو خدا خود فرماتا ہے کہ میں ان میں سے ایک آدمی کو قتل کرچکا ہوں لہذا مجھے ان سے قتل کااندیشہ ہے لیکن اس طرف علی کو دیکھو کہ میں نےاس کو سورہ برات دے کر اہل مکہ کی طرف بھیجا ہے حالانکہ علی ان کے کافی آدمی قتل کر چکا ہے لیکن نہ ڈرا اور جھجکا اور نہ اللہ کے معاملہ میں کی ملامت کا خوف کیا مکہ والے علی پردانت پیستے رہے کیونکہ علی کےہاتھوں کسی کا باپ کسی کا بھائی قتل ہو چکا تھا لیکن خدا نےاس کومحفوظ کیا اور بخیریت مدینہ میں آگیا مناقب
مقام تعجب ہے جو شخص چند آیات اپنے اہل شہر کو پہنچانے کے قابل نہ سمجھا گیا وہ ریاست عامہ متضمنہ ادائے جمیع احکام شرائع کے لیے کیسے اہل قراردیا گیا تفصیل تفسیر انوار النجف میں ملاحظہ ہوا ج 8 مباہلہ  میں علی کی فتح مبین ملاحظہ ہو ازید بن ارقم سےروایت ہے کہ ہم حضور کے ہمراہ تھے آپ پر وحی ہو رہی تھی اور ہم انتظار میں تھے یہاں تک کہ گرمی تیز ہو اگئی حضرت علی جناب فاطمہ اور حسین کولائے اور حضور کے انتظار میں ایک دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے پس حضور باہر نکلے اور ان کے پاس پہنچے اور ہم اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہے پس وہ ہماری طرف اس حالت میں آئےکہ ان پر چادر کا سایہ کئے ہوئے ایک کنارہ چادر کا حضور نے پکڑا تھا اور دوسرا علی کے ہاتھ میں تھا اور آپ یہ دعا مانگ رہے تھے میرے اللہ میں ان کودوست رکھتا ہوں تو بھی انہیں دوست رکھ اے اللہ میری ان سے صلح ہے جو ان سے صلح رکھیں اور میری ان سے لڑائی ہے جو ان سے لڑیں آپ نے تین مرتبہ کلمات دہرائے شرح  نہج البلاغتہ ابن ابی الحدید لیکن امت نے کیا سلوک کیا میں کہتا ہوں تاریخ اسلامی اگرچہ ہزاروں انقلابات سے گزری لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح و عیاں ہےاور اسے کبھی صفحات تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکتا کہ جس طرح رسول کریم کی زندگی میں اسلامی فتوحات علی کی ممنون احسان ہیں اسی طرح جناب رسالت مآب کے بعد اسلام کی بقا علی کی ممنون احسان ہیں اسی طرح جناب رسالت مآب کے بعد اسلام کی بقا علی اور  اولاد علی کی قربانیوں کے صدقہ میں ہے جب یزید یت اسلام پر چھا رہی تھی تو علی کی اولاد نے اپنے امن و آرام چھوڑے وطن چھوڑا بیت اللہ کووداع کہا جنگل میں قیام کیا دریائے فرات سےالگ ہوکر یہاں رہنا گوارا کیا بچے دئیے جوان دئیے حتی کہ اپنا سب کچھ دیاسر د یا گھر دیا اور اپنی ناموس کی بھی پرواہ نہ کی لیکن اسلام کواس طرح سر بلند کیا کہ ہزاروں کوششوں کے باوجود تاقیامت یزیدیت میں ابھر نے کی تاب نہیں اور حسینی پرچم اب قیامت تک جھکا یا نہیں جاسکتا اور چونکہ اسلام پر یزیدیت کے دباو کو حسین نے ہی ختم کیابس اب تا قیامت اسلام اور حسینیت ایک ہی مقصد کی دو تعبیریں ہیں
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

ایک تبصرہ شائع کریں