التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

استاذالعلما ء علامہ الحاج سید محمد باقرشاہ اعلی اللہ مقامہ


ویسےتو ہر دور میں خدا وند کریم کی جانب سے ایسے افراد معرض ظہور میں آتے ہیں جن کا وجود ارض کے لئے سایہ رحمت پروردگار شمار ہوتاہے نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن بفرمان رسالت ہم میں علمائے اعلام کا وجود امم سابقہ کے انبیا کا بدل ہے اہل پاکستان کے لئے تقسیم ملک سے پیشترعلمائے ایران و عراق کے بعد علمائے لکھنو مشکلات دینیہ میں ملجائ و مرجع رہے خدا ان کے مساعی کو شرف قبولیت بخشےمولانا سید گل محمد شاہ اعلی اللہ مقامہ کی قبر پر باران رحمت ہو جن کے دو لائق فرزند وں نے پوری قوم کی کایا پلٹ دی مولا ناسید طالب حسین اعلی اللہ مقامہ مولانا سید محمد باقر اعلی ان پر دو بزرگواروں نے قوت لایموت پرقناعت کرتے ہوئے فرزند ان قوم میں علم کی خیرات اپنامآل زندگی قرار دیا اوراس وقت پاکستان بھر میں جس قدر مدارس دینیہ نظر آرہے ہیں سب انہی کے چشمہ علم کی شفاف و شیریں شاخیں ہیں  ملک بھرکے  مدارس دبینی کے اساتذہ انہی کے بحرعلم سے چلو لینے والے اور انہی کے خوزن علم سےریزہ چینی کرنے والے ہیں مولانا سیدطالب حسین شاہ صاحب قبلہ مرحوم اپنے وطن مالوف چکڑالہ میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے اورمولانا سید محمد باقر شاہ صاحب اعلی اللہ مقامہ تقریبا20 برس چک نمبر 38 ضلع ملتان میں اور بیس برس بدہ رجباہ ضلع جھنگ میں تشنگان علوم کو سیراب فرماتے رہےدونو بھائیوں نےاسی سال سے زیادہ عمر پاکرپوری زندگی کوعلوم دینیہ کی نشرو اشاعت میں گذارا اور قیامت پوری قوم پر ایک احسان عظیم چھوڑ کر خداکو پیارے ہو گئے اس وقت جس قدر اہل علم حضرات خدمت ملت میں مصروف ہیں خواہ مدرس ومصنف ہوں یاخطیب و واعظ ہوں پیش نماز ونکاح خوان ہوں یہ سب کے سب ان کےشاگرد ہیں شاگردوں کے شاگرد
خدا وندکریم ان کے محنتوں کو قبول فرمائے ہم نےاپنی کتاب لمعتہ الانوافی عقائد الابرار میں ان کی زندگی کےمختلف شعبوں کا اجمالی تذکرہ کیا ہے اورمجھے چونکہ مولاناسید محمد باقرشاہ صاحب اعلی مقامہ سے شرف تلمند حاصل رہا ہے اس لئے انہی کے حالات ہی وہاں سپرد قرطاس کئے ہیں زیرنظر کتاب ان کی ان مجالس کا زریں مجموعہ ہے جوانہوں نے اپنے استاد علامہ مولینا شریف حسین خان کے امام باڑہ واقع جگراوں میں پڑھیں آپ تقسیم سے پہلے ہر سال محرم کی مجالس وہاں پڑھا کرتے تھے ان کی مجالس کامسودہ اگر پورا چھپ جائے تو یقینا ایک بیش بہا علمی ذخیرہ ہو گا میں نےان کے حین حیات یہ مجالس ان کے مسودہ سے نقل کی تھیں ابھی تک میری نقل شدہ مجالس ان کے مسودہ سے قطر از بحر ذخاریاذرہ از ریگزار کی حیثیت سے تھیں کہ ان کے فرزند ارجمند مولوی سید زین الدین حسین شاہ زید مجدہ نے مجھ سے مسودہ کسی ضرورت کیلئے طلب کر لیا اوراس کے بعد مولانا مرحوم کی وفات ہو ہو گئی پھر مجھے وہ مسودہ دستیاب نہ ہوسکا میں کوشش کرکے مسودہ سے ان کی تمام مجالس کو منظر عام پرلاوں گا اگرمجھے وہ مل گیا آج وہ ہم سےجداہو گئے ہیں لیکن ان کے فیوض و برکات کا سایہ اب بھی ہم پر موجود ہے خدا وند کریم ان کو اپنے طل عاطفت میں رکھے اوراس مجموعہ کی اشاعت اورمحنت کا ثواب ان کی روح پر فتوح کو عطا کرے میں تما م قارئین کرام سےمولانا موصوف کیلئے ایک فاتحہ پڑھ لینے کی درخواست کرتا ہوں والحمد للہ رب العالمین
میں نے آج شب اتوار 9 مئی 1976 قبل اذان صبح خواب میں دیکھا ہے کہ استاد العلمائ حضرت مولانا سید محمد باقرشاہ صاحب اعلی اللہ مقامہ ایک کرسی پرتشریف فرمائیں اور میں ان کے سامنے ایک دوسری کرسی پر بیٹھا ہوں سرکار قبلہ کے کپڑے بالکل صاف سفید اجلے تھے اور بینائی درست تھی مجھے فرمایا کہ اپناعمامہ اپنے سر پر رکھ لیا اورچند منٹ کے بعد فرمایا کہ تم میرے قریب آجاو جب میں نےقریب جا کر بیٹھا تو انہوں نے اپنےدونو ہاتھوں سے عمامہ اپنے سر سے اٹھایااورمیرے سر پر رکھ کر مجھے گلے سے لگا لیا اوردائیں کندھے پر بوسہ دیتے ہوئے رونے لگ گئے اور حالت گریہ میں یہ الفاظ کہے اللھم قومہ مقامی یا اقمہ مقانی وسددامرۃ ونور قبلہ اس کے بعد والے جملے مجھے یاد نہیں رہے بہت دیر تک دعا مانگتے رہے اور روتے بھی رہے اورمیں بھی روتا رہا اور ان کی دعا عربی میں تھی میں نےاس کے بعد دستار بندی کی خوشی میں تقسیم کرنے کے لیے مٹھائی منگوائی اوراس دوران میں اذان صبح شروع ہو گئی اورمیں بیدار ہو گیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی محمد والہ الطاھرین اما بعد زیرنظر کتاب حضرت استاد العلماء علامہ مولاناسیدمحمد باقر اعلی اللہ مقامہ کی گرانقدمجالس کا مجموعہ ہے جو انہوں نے جگراوں میں اپنے استاد مولاناشریف العلماء کے امام باڑہ میں پڑھی تھی مولانا کی ساری زندگی دین و ملت کی خدمات تدریسہ و تبلغیہ میں گذری اس وقت پورے پاکستان میں علم کی جس قدر شعائیں نظر آرہی ہیں اکثر و بیشتر ان ہی کی سعی مشکور کا نتیجہ ہیں مومنین کرام کے استفادہ کے لئے ان کو شائع کیاگیا ہے اورمیں اس کی اشاعت کو مولانا مرحوم کی خدمت میں ایک ہدیہ کی حیثیت سے پیش کرتاہوں خدا ہمیں ان کے نقش قدم پر صحیح چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ان کواعلی علیین میں جگہ کرامت فرمائے ۔
میں ہوں مولانا مرحوم کے علمی بحرذخارسے اعتراف کرنے والا ان کا نیازمند
حسین بخش بقلمہ
قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا 4 دسمبر 1990 کوجامعہ امامیہ لاہور میں 4,1/2بجے شام اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جن کو 5دسمبر 1990 کو درسگاہ امامیہ دریاخان میں سپرد خاک کر دیا گیا لہذا قارئین سےاستدعا ہے کہ سورۃ فاتحہ پرھ کر مرحوم کی روح کو بخش دیں
محمد باقرجاڑا   اثنائی پریس سرگودھا


ایک تبصرہ شائع کریں