التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

گیارہویں مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین


یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع  الصادقین
صادقین کے ساتھ ہونے سے مراد ان کی اطاعت و پیروی ہےنہ کہ پاس بیٹھنا اطاعت کےلئے جزئی امور کی معرفت ضروری ہے اور ان کے احکام کا دریافت کرنا ضروری ہے جو بغیر سوال کے حاصل نہیں ہوسکتے اور مسائل شرعیہ کا دائرہ بہت کچھ وسیع ہے چنانچہ زراہ نے ایک مرتبہ حضرت صادق آل محمد کی خدمت  میں عرض کی اے فرزند رسول میں آپ پرفدا ہوں چالیس سال سے میں آپ سے مسائل حج دریافت کر رہا ہوں اور آپ فتوی دیتے چلے جارہے ہیں آپ نےفرمایا جس گھر کی حج حضرت آدم علیہ السلام سے دو ہزار پہلے شروع ہوئی ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے مسائل چالیس برس میں ختم ہوجائیں اعتقاد ات و اصول کے بعد تمام فروغ دین میں سے نماز کو زیادہ اہمیت حاصل ہےکیونکہ باقی اتمام اعمال کی مقبولیت کا معیار نماز ہے پس نماز کا درست پڑھنا تمام اعمال کی صحت و درستی کےلئے از حد ضرور ی ہے او ر اس میں کوتاہی کرنا بالکل ناجائز ہے۔
حماد کہتا  ہے ایک دفعہ مجھے حضر ت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اے حماد کیاتو نماز درست پڑھ سکتا ہے میں نے عرض کی حضور حریز کی کتاب صلوۃ مجھے یاد ہے آپ نے فرمایا اس میں حرج کوئی نہیں اٹھ کر میر ے سامنے نماز پڑھو پس میں نے قبلہ روہو کر نماز شروع کردی اور رکوع سجود تمام کیا آپ نےفرمایا اے حماد تجھے نماز پڑھنا نہیں آتی اور کس قدر بری بات ہے کہ انسان کی ساٹھ ستر برس عمر ہو جائے اور ایک نماز بھی صبح ادا نہ کر سکے حماد کہتے ہے  میں اپنے جی میں نہایت شرمسار ہوا اورعرض کی حضورآپ مجھے تعلیم فرمائیں تو حضور خود قبلہ رو کھڑے ہوئے اور خود پڑھ کرمجھے نماز کا طریقہ سکھایا الحدیث
جس طرح تمام لوگوں کی تین قسمیں ہیں ادنی اوسط اعلی اسی طرح تمام امور جزئیہ شرعیہ کے بھی تین مراتب ہیں عام خاص اور خاص الخاص نماز عام تو وہی ہے جس میں شرائط واجبات موجود ہوں اور مبطلات سے خالی ہو اورنماز خاص جو مقبولیت خاص سے روکنے والی چیزوں سے مبر ا ہو مثلا حسد بخل غیبت وغیرہ اور اسباب مقبولیت موجود ہوں مثلا تقوی معرفت اور ظاہر میں اس کےکمال کے وجوہ پائے جائیں جیسے اذان اقامت جماعت مسواک وغیرہ اور نماز خاص الخاص وہ ہے کہ ان تمام امور کے علاوہ خداکی  طرف توجہ ہو اوراس توجہ کے بھی کئی مراتب ہیں اور اس کا کم ا زکم مرتبہ یہ ہے کہ وہ سمجھے کہ میں کس ذات سے ہمکلام ہورہا ہوں اور اس سے بلند مرتبہ ہے کہ غیر از خدا ہرچیز سے بے خبر ہوکہ نوک تیر پاوں سے نکالی جائے او ر اس کے خیال میں تبدیلی نہ آئے روزہ عام وہ روزہ جو تمام ان چیزوں سے بچے جن سے روزہ باطل ہوتاہے اور روزہ خاص تمام اعضائے بدن کاروزہ شرعی گناہوں سے بچے اور روزہ خاص الخاص کہ دل بھی روزہ دار ہونا حق امور سے بعض روایات میں ہے کہ ایک دن حضرت عیسی نےمناجات میں عرض کی پروردگار مجھے اپنےدوستون میں سے ایک دوست کی زیارت نصیب کر خطاب ہواکہ فلاں مقام پر جاوں وہاں میرا ایک دوست ہےوہاں پہنچے دیکھا ایک عورت نابینا ہاتھ پاوں سے معذورہےجس کےاوپر مکھیاں جمع ہیں لیکن زبان پر ذکر خدا جاری ہےاور شکرگزاری میں مشغول ہے آپ نےآگے بڑھ کرسلام کیاتو ا س عورت نےجواب میں کہاوعلیک السلام پاروح اللہ آپ نے فرمایا اے عورت تونے کبھی دیکھا نہیں پھریہ کیسے پہچانا کہ میں عیسی ہوں عورت نے جواب دیاکہ جس دوست نے تجھے میرا پتہ دیا ہے اس نے مجھے بھی بتایا ہے فرمایا اے عورت نہ تیری آنکھ نہ ہاتھ نہ پاوں پھرشکر کونسی نعمت کا کرتی ہے عور ت نے جواب دیا بحمداللہ  دل ذاکر زبان شاکر اور جسم صابر مجھے  خدا نے عطا فرمائے  اور شکر کرتی ہوں کہ گناہ میں پڑنے کے ذرائع اس نے مجھ  سے لے لئے ہیں  اگر آنکھ  ہوتی تو نا محرم پر نگاہ پڑتی اگر ہاتھ ہوتے تو لقمہ حرام کی طرف بڑھتے اگر پیر ہوتے  تو لذت دنیاوی کی طرف بڑحتے یہ تعمت جو خدا نے مجھے دی ہے کسی کو نہیں دی حضرت عیسی نے پوچھا اس جگہ  اس حالت میں تیری خبر گیری کون کرتا ہے ؟ جواب دیا کہ وہ ات جس  نے ساتوں آسمانوں کو لا ستون کھڑا کیا ہے فرمایا تیری کوئی خواہش بھی ہے ؟ جواب دیا ہاں ایک لڑکی ہے جو اب بالغ ہو چکی ہے دل میں بعض اوقات اس کا فکر رہتا ہے پس خدا سے دعا طلب کرتی ہوں کہ مجھ سے غم دور کرے تا کہ صرف اس کی طرف توجہ کے سوا اور کسی طرف دل متوجہ نہ رہے حضرت عیسی فرماتے ہیں جب تھوڑی دو راہ چلا دیکھا ایک لڑکی پڑی ہے جس کو شیر نے پھاڑ کھایا ہے میں نے دل میں کہا سبحان اللہ اس عورت کی یہ مراد بھی پوری ہو گئی ہے
حسن بصری کہتا ہے ایک شب میں مسجدالحرام یں تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ چلے جائیں اور میں طواف کروں اور یہ رات میری عبادت خاصہ ک کی رات ہو میں نے سنا کہ ایک آدمی اپنی مناجات میں کہہ رہا ہے
یا زا المحالی علیک معتمدی طوبی لعبد تکون مولا  طوبی لمن بات خائفا و جلا یشکو الی ذی الجلالی بلواہ ازا خلافی الظلا متعمھلااکرہ معہ ربہ و لباہ
اے بلندیوں کا مالک تجھ پر ہی میرا بھروسہ  ہے طوبی اس بندے کے لئے  جس کا تو مولا ہو طوبی اس کے جعدات خوف میں گزارے کہ اپنے مصئاب کو شکوہ اپنے مالک ذوالجلال سے کرے جب تاریکی میں عجزو انکساری سے پکارے تو اس کا رب اس کا اکرام کرے اور اسے جواب دے پس میں  نے سنا کہ خانہ کعبہ کے اندر سے جوا ب آیا
لبیک لبیک انت فی کنفی و کل ما قلت قد سمعناہ صوتک لشتک قدہ ملائکتی و عذرک اللیل قد قبلناہ سل  بلاحشمۃ ولو رھب ولا تخف انی ان اللہ لبیک لبیک تو میری حفاطت ہے  اور تو نے جو کچھ کہا ہے ہم نے سن لیا تیری آواز کے میرے ملائکہ شائق ہیں آج شب تیرا عر مقبل ہے بلا خوف و ہراس مانگ اور ڈر نہیں میں ہی تیرا رب ہوں
میں تعجب کیا کہ یہ کون ہے جس کمقام اس قدر بلند ہے کہ خدا جواب میں لبیک کہتا ہے  میں ڈھونڈنا شروع کیا دیکھا ایک شخص گوشہ مسجد میں سر بسجود ہے میں نے جانا کہ مناجات کرنے والا یہی تھا جب سجدہ سے سر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت امام حسین ہے مسلمانو وہی حسین جس کی آواز کے فرشتے مشتاق او ر خدا جس کی آواز پر لبیک کہتا تھا آج روز عاشور ھل من ناصر ینصرنا کی آواز بلند کر تا ہے اور اس کو جواب دینتے ولاا کوئی نہیں ہے ہاں اس کا بیمار فرزند بستر بیماری سے ٹرپ کر اٹھا اور صدائے لبیک بلند کی ۔  مجمع النورین
تمام اعمال افعال اقوال و آرا کےتین مراتب ہیں اور اس طرح زیارت سید الشہدا اور بکا مظلوم ان کے بھی تین مراتب ہیں عزاداری کی ایک قسم یہ ہے کہ ہم اور تم قائم کرتے ہیں اور ایک قسم تھی جو حضرت سجاد کرتے تھے کہ  چالیس سال برابر اپنے باپ کےغم میں گریہ کیا دن کو روزہ اور رات کو عبادت میں بسر کرتے تھے اور حضرت رباب بھی عزاداری کر گئیں کہ مولا حسین کے بعد ایک سال تک زندہ رہیں اور اسی درد سے عالم فانی سے کوچ کیااور حسین کےبعد سایہ پر نہ بیٹھیں تذکرہ خواص الا متہ
اور ایک عزاداریکی قسم یہ ہے جو سیدا لمرسلین کر گئے جو سیدالشہدا پر رونے والوں میں سے گویا اعظم الباکین ہیں وہ مظلوم کی ولادت کےوقت روئےاور آخری وقت بھی فرمایا مالی ویزید لا بارک اللہ فی یزید وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبون اقول بیشک مولا ئے مظلوم کی عزاداری جو جناب فاطمہ زہرا نے کی ہے اس کی برابر ی نہیں ہو سکتی بلکہ آج تک محو گریہ ہیں منقول ہے کہ قبر میں چین سےنہیں بلکہ حضرت حسن مجتبی کی زہرا آلود قمیض ایک کندھے پراور حضرت حسین کاخون آلود کر تہ دوسرے کندھے پر رکھ کر کبھی بیٹھ جاتی ہیں اور کبھی کھڑی ہو جاتی ہیں اور بابا کی قبر کی طرف منہ کر کے فریاد کرتی ہیں روایا ت سے معلوم ہوتاہے کہ بی بی نے ہر اس مقام پرگریہ کیا ہے جہاں جہاں اس کی اولاد کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا گیا پس کربلا میں روئیں کوفہ کے بازاروں میں روئیں خولی کے تنور پرآکر ماتم کیا دروازہ شام کے پاس روتی رہیں حتی کہ ایک دفعہ دروغہ قید نے حضرت سجاد سےعرض کی کہ رات کو مکان کادروازہ بند کرنےسے پہلے بیبیوں اور بچوں کو سنبھال لیاکرو کیونکہ چند راتوں سے میں سنتا ہوں کہ دروازہ کے پاس ایک بی بی ساری رات روتی ہے آپ نے روکر جواب دیاکہ اے دروغہ وہ میری دادی جناب فاطمہ ہیں کو ہر وقت اپنی اولاد کی مطلومی پر آنسو بہاتی ہیں علی مانقل
جناب بتول معظمہ کا حسین کے غم میں رونا اس وقت سے ہے جب حسین شکم اطہر میں تھے چنانچہ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ بعض اوقات شکم اطہر سے آواز آتی تھی یا اما ہ انا عویان اماں جان میں لباس سے محروم ہوں اور بعض اوقات آواز آتی تھی انا عطشان میں پیاسا ہوں اورکسی وقت آواز آتی تھی انا سحقان میں کچلا جا چکا ہوں جب مخدومہ طاہر ہ اپنے اباجان حضر ت رسالت مآب سے یہ حقیقت بیان کرتی تھیں تو  آپ بھی روتے تھےاور بی بی بھی رویا کرتی تھیں بوقت ولادت حسین جب جبریل مبارکباد کےساتھ شہادت کی خبر بھی لائے تو حضور دردولت عصمت پر مبارکباد کے لیے تشریف لائے پس رودئیے اور بی بی عالیہ کےدریافت کرنے پر جبریل کی زبانی واقعات کربلا میں سے بعض کاذکر فرمایا تو بی بی پاک نے سخت گریہ کیا اورا ایک واعظ نے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ حضرت امیر المومنین عالم خواب میں بی بی کوروتے ہوئے دیکھا جب اس گریہ کا سبب دریافت کیاتو بی بی عالیہ نے جواب دیا کہ میراحسین پیاسا ہے جاکر اسے پانی دیجئے چنانچہ آپ فورا گھر میں تشریف لائے تودیکھاحسین اپنے بستر پر پانی مانگ رہے ہیں پس آپ نے پانی پلایا اوروہ سو گئے اورجناب بتول معظمہ کا حسین پر آخری گریہ بروز محشر ہوگا جب حاضر بارگاہ توحید ہونگی اور حکم  ہوگا کہ جنت میں داخل ہو جاو پس عرض کریں  گی میں اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوں گی جب تک میرے حسین کے قتل کا فیصلہ نہ ہو پس حکم ہوگا کہ وسط محشر میں نگاہ کیجئے تو دیکھیں گی کہ حسین بغیر سر کے موجود ہیں اور کٹی ہوئی رگوں سے خون جاری ہے پس گریہ کریں گی اور ناقہ جنت سے نیچے عرصہ محشر پرآجائیں گی اور تمام اہل محشر میں آہ و گریہ بلند ہو گا پس بی بی اپنے فرزند کے غم میں رونے والوں کے حق میں شفاعت کرینگی اور وہ ان کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوں گے اللھم صل علی محمد و آل محمد

ایک تبصرہ شائع کریں