التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

کوفہ سے شام تک

19 min read
ابن زیاد نے یزید کو واقعہ کربلاکی اطلاع بذریعہ ہر کارہ کے بھیجی تووہاں سے حکم پہنچا کہ شہدأ کے سروں کو بمعہ قافلہ اسیرانِ اہل بیت کے شام لے جائیں، چنانچہ زجربن قیس کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ سروں پر نگران کرکے شام کو روانہ کیا، حضرت سجاد ؑکے ہاتھوں میں زنجیرڈالے گئے اورایک طوقِ گراں گردن میں ڈالاگیا۔
اوربروایت ’’مخزن البکأ‘‘ اہل حرم عورتوں۔۔ بچوںکو رسیوں سے باندھاگیا اورنہایت بے دردی سے ان کو برہنہ پشت اونٹوں پرسوار کیا گیا کہ ہردیکھنے والاان کی حالت زار کو دیکھ کررو رہاتھا، بیبیوں کے سروں پرچادریں نہ تھیں؟ اور بروایت ابو مخنف حضرت سجاد ؑبھی ایک برہنہ پشت اونٹ پرسوار تھے کہ ان کے قدموں سے خون جاری تھا اورقا فلے کے آگے آگے تھے اوران کے پیچھے شمر۔۔ شبث بن ربعی۔۔ خولی اورعمروبن حجاج زبیدی کو ایک ہزار کی فوج دے کر حفاظت کے لئے بھیجااوروہ پہلی منزل میں ہی زجربن قیس سے جاملے، مروی ہے کہ سروں کو نیزوں پرسوار کرکے اسیرانِ اہل بیت کے اونٹوں کے آگے آگے رکھتے تھے اوراسی حالت میں شہر بشہر تشہیر کرتے جاتے تھے۔
بروایت سید بن طائووس ایک آدمی کومکہ میں دیکھا گیا جوغلافِ کعبہ سے چمٹ کرکہہ رہاتھا اے اللہ مجھے بخش دے لیکن میں جانتاہوں کہ تومجھے نہ بخشے گا، لوگوں نے اس کو سرزنش کی کہ گناہ اگربارش کے قطرات اوردرختوں کے اوراق سے بھی زیادہ ہوں تب بھی رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہوناچاہیے، توکون ہے؟ جو اس مقدس مکان پر آکر رحمت پروردگار سے مایوس ہے؟ اس نے جواب دیا میں سر مبارک کے پچاس موکلین میں سے ایک ہوں جن کو سرِحسین ؑ کے ہمراہ شام بھیجاگیا تھا، جب کوفہ سے ایک منزل کے فاصلہ پرپہنچے اوروہ پہلی ہی منزل تھی سراطہر کو صندوق میں رکھ کر میرے ساتھیوں نے شراب پی اورمستی میں سوگئے لیکن میں نے شراب نہ پیا۔۔ لہذا بیداری میں دیکھ رہاتھا کہ آسمان کے دروازے کھلے اوربجلی کی چمک اور رعد کی گرج سی معلوم ہوئی اور آواز سنی کہ آدم ؑ صفی اللہ ۔۔نوحؑ۔۔ ابراہیم ؑ۔۔ اسمٰعیل ؑ ۔۔ اسحقؑ اورخاتم الانبیا ٔ علیہم السلام تشریف لائے ہیں، پس جبرائیل ایک جماعت ملائکہ کے ہمراہ اورجماعت انبیا ٔ حضرت رسولؐ خدا کو تعزیت دینے کے لئے اُترے ہیں، چنانچہ سب کے سب بہت روئے جبرائیل نے عرض کیا کہ میں آپؐ کا فرمانبر دار ہوں اگر حکم ہو تو تیری امت پر زمین کو اُلٹا دوں جیسے قوم لوط پر الٹائی تھی؟ آپؐ نے فرمایا چھوڑو میں اللہ کی بار گاہ میں خود ہی ان سے حساب لوں گا؟ پس فرشتوں نے عرض کیا کہ ہمیں پروردگار کی جانب سے ان پچاس مردوں کے عذاب کا حکم ہوا ہے؟ پس آپؐ نے اجازت دی اورفرشتوں نے حربوں سے ان کا کا م تمام کیا، جب میری باری آئی تو میں نے فریاد کی یارسول اللہ مجھے بچائیے؟ تو آپؐ نے فرمایا اس کو چھوڑدو خدا اس کو نہ بخشے، چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑدیا اورجب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی سب کے سب خاکستر ہوچکے تھے۔
’’قمقام‘‘ میں ’’صواعق محرقہ‘‘ سے منقول ہے کہ ملاعین پہلی منزل پر شراب نوشی میں مشغول تھے کہ دیوار سے ایک ہاتھ ظاہر ہوا جس نے آٓہنی قلم سے دیوار پر شعر لکھا:
اَتَرْجُوْا اُُمَّۃٌ قَتَلَتْ حُسَیْنًا شَفَاعَۃَ جَدّہٖ یَوْمَ الْحِسَابِ
 کیا وہ امت جس نے حسین ؑ کو شہید کر ڈالاہے بروزقیامت اس کے نانا کی شفاعت کی امید رکھ سکتی ہے؟
ابن شہر آشوب نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ اہل نجران نے زمین کھودی توایک تختی برآمد ہوئی جس پر یہ شعر لکھا تھا اوراس زمانہ کے ماہرین آثار قدیمہ سے دریافت کیا گیا توانہوں نے جواب دیا کہ یہ بعثت سرور کائنات سے تین سوبرس قبل کا لکھاہوا ہے اوربعض کتب میں ہے کہ پانچ سوبرس پہلے کی تحریر تھی۔
’’تذکرہ خواص الامہ‘‘ سے بروایت سلیمان بن یسار منقول ہے کہ ایک پتھر پر لکھا ہوا پایا گیا:
لا بُدَّ اَنْ تَرِدَ الْقِیَامَۃ فَاطِمَۃ
وَقَمِیْصُھَا بِدَمِ الْحُسَیْنِ مُلَطَّخُ
یقینا قیامت کے روز جب جناب فاطمہ میدانِ محشر میں تشریف لائیں گی تو ان کی قمیص خون حسین ؑسے آلودہ ہوگی۔
 نیز مروی ہے کہ چونکہ ان لوگوں کو ڈر تھا کہ مبادا عرب قبائل قتل حسین ؑ سے ہیجان میں آجائیں اورلڑائی چھیڑ دیں؟ اس لئے سروں کو بمعہ قافلہ اسیرانِ اہل بیت کے شہروں اورآبادیوں سے کنارہ کرتے ہوئے جنگلات۔۔ ویرانیوں سے لے جایا گیا (شاید پہلی منزل قادسیہ ہو)
بروایت ابومخنف جانب شرقی حصاصہ سے گذرے اور تکریت (بغداد سے تیس فرسخ کے فاصلے پر ہے) کا رُخ کیا، شہر کے عامل کوخط لکھا کہ ہمارے لئے خوردو نوش کا انتظام کیا جائے اور استقبال کی تیاری کی جائے کیونکہ ہمارے پاس ایک خارجی کا سر ہے؟ پس شہر کو مزیّن کیا گیا اور جو پوچھتا تھا کہتے تھے کہ ایک خارجی کے سر ہے؟ اس وقت ایک نصرانی نے کہا کہ یہ غلط کہتے ہیں بلکہ امام حسین ؑ بن علی ؑکا سر ہے اور میں اُس وقت کوفہ میں تھا جبکہ ان کوشہید کردیا گیا ہے؟ لوگوں جب سنا تو ماتم کرنے لگے اور حکومت کے مخالف ہوگئے، چنانچہ نصرانی بھی ان کے ساتھ متفق ہوگئے اور اوس و خزرج کے قبیلوں میں سے چار ہزار آدمی جمع ہوگئے اور ابن زیاد کے لشکر کے ساتھ جنگ کرنے کا آپس میں عہد کرلیا اور ارادہ کیا کہ ان سے سرہائے شہدأ کو چھین لیا جائے، جب کوفیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے فوراً کوچ کر لیا اور وہاں سے اعمی پھر دیر ا عور پھر وادی صلب اوراس کے بعد وادی النخلہ پر پہنچے تو قوم جنّ کا نوحہ سنا:
 نِسَائَ الْجِنِّ اَسْعِدْنَ نِسَائَ الْھَاشِمِیَّاتٖ
بَنَاتُ الْمُصْطَفٰی اَحْمَدَ یَبْکِیْنَ شَجِیّاتٖ
اے جنّ کی عورتو!  ہا شمی عورتو ںکے ساتھ شریک غم ہو جائو؟کہ مصطفی کی شہزادیاں فرطِ غم سے رو رہی ہیں؟
یَبْکِیْنَ وَیَنْدُ بْنَ بُدُوْرَالْفَاطِمِیَّاتٖ
وَ یَلْبَسْنَ ثِیْابَ السُّوْدِ مِنْ عَظْمِ الرَّزِیَّاتٖ
وہ جناب فاطمہ ؑ کے چاند سے فرزندوںکے غم میں آہ وبکاکر رہی ہیں اور انہوںنے سیاہ لباس پہنے ہوئے ہیں کیونکہ مصائب ان کے بہت بڑے ہیں۔
وَیَلْطَمْنَ خُدُوْدًا کالدَّنَانِیْرِ نَقِیَّاتٖ
وَ یَنْدُبْنَ حُسَیْنًا عَظُمَتْ تِلْکَ الرّزِیَّاتٖ
اور سونے کی مانند صاف چہروںپیٹ رہی ہیں اور حسین ؑ کا ماتم کر رہی ہیں اور یہ مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑی ہے۔
اس کے علا وہ اس مقام پر قوم جنّ کے دیگرمرثیے بھی منقو ل ہیں پس یہاں سے کوچ کرکے مقام لبنا پر(جوشہرمرصادکے قریب ہے) پہنچے، یہاں بھی محبان حسین ؑ کی تعداد اچھی خا صی تھی جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے آلِ محمد پر درود پڑھا اور قاتلین امام مظلوم ؑ پر لعنت بھیجی، جب کو فیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو فوراً وہا ں سے چل دئیے، پس مقام کحیل پرپھر مقام جہنیہ پر پہنچے اور یہاں سے موصل کے عامل کو اپنی آمد کی اطلاع دی، حاکم موصل نے شمرکا خط اہل موصل کو سنایاتو وہ لوگ برہم ہوئے چنانچہ حاکم موصل نے شمر کو خط لکھاکہ موصل والے علی ؑ کے شیعہ اور آل محمد کے دوست ہیں اگر تم لوگ یہاں آئے تو ممکن ہے جنگ ہو جائے پس مجبوراً موصل سے ایک فرسخ کے فاصلے پر قیام کیا گیا اور موصل کے حاکم نے سامان خوردو نوش وہاںپہنچا دیا اور چار ہزارکے قریب لوگوںنے جنگ لڑنے کا ارادہ بھی کیا لیکن وہ کوفی موصل میں نہ آئے اور وہاں سے آگے چلے گئے ۔
اس مقام پر امام مظلوم ؑ کے سرکو نیزہ سے اُتار کر ایک پتھر پر رکھا گیا اور خون کا ایک قطرہ اس پتھر پر ٹپکا، چنانچہ ہر سال بروز عاشور اس پتھر سے تازہ خون جوش مار کر نکلتا تھا پس لوگ اکھٹے ہوتے تھے اور رسم عزاداری بجالاتے تھے اوریہ معجزہ بنی اُمیہ کے آخری بادشاہ مروان حمار تک قائم رہا اور اس جگہ کو مشہدالنقطہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، مروان نے وہ پتھر وہاںسے اُٹھوا کر اس معجزہ کو ختم کر دیا۔
یہاں سے روانہ ہو کر مقام تل اعفر پر پہنچے، پھر مقام سنجار پر، پھر منزل نصیبین  پرپہنچے اس شہر میں بھی اسیران اہل بیت ؑکی تشہیر کی گئی اور سر امام ؑ کو نوکِ نیزہ پر سوار کر کے بازار میں پھرایا گیا، اس کے بعد دعوات کے حاکم کو اپنے آنے کی اطلاع بھیج دی، حاکم دعوات نے فوجیوں کے لیے خوردو نوش کا انتظام کیا اور شہر کے اُمرأ و رئوسا کے ساتھ استقبال کے لیے شہر سے باہر آیا، سامنے فوج تھی پھر سر ہائے شہدأ جو نیزوں پر سوار تھے اور پھر قافلہ مستورات تھا، باب الاربعین سے داخلہ ہوا اور امام ؑ مظلو م کے سر کو ایک بلند جگہ پر نصب کر دیا گیا اور ایک ملعون باآواز بلند سارا دن سارا دن ندا کرتا رہا کہ   ھٰذَارَأسُ الْخَارِجِی  یہ ایک خارجی کا سر ہے، بعض لوگ ہنستے تھے اور تھوڑے روتے بھی تھے۔
جس مقام پر امام مظلوم ؑ کا سر رکھا گیا تھا کافی عرصہ تک لوگ اپنی حاجات لاتے تھے اور وہاں دعا ئیں مانگتے تھے اور سر حسین ؑ کی نسبت کی عظمت کی وجہ سے لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی تھیں، پس دعوات سے روانہ ہو کر عین الوردہ پہنچے اور یہاں سے دوغان میں گئے، پس شہرکے حاکم نے استقبال کیا اورسرہائے شہدأ کی تشہیر کی گئی اور یہاں سے حلب کوروانہ ہوئے، اہل حلب نے شہر کی آئینہ بندی تھی اور خوب سجا رکھا تھا، طبل بجائے گئے اور آلِ محمدکی آمد پر خوشیاں کی گئیںاور سرہائے شہدأ کی بمعہ قافلہ اسیراں کی تشہیر کی گئی، حلب میں ان لوگوں نے شراب نوشی میں رات گزاری۔
’’قمقام‘‘ میں ’’معجم البلدان‘‘ سے مروی ہے کہ حلب کے مغرب میں ایک پہاڑ ہے جس کانام جوشن لکھاہے، وہاں مس کی کان تھی جس دن خاندانِ عصمت کی قیدی شہزادیوںنے وہاںسے عبور کیا تو امام مظلوم ؑ کے حرموں میں سے ایک بی بی حاملہ تھی اور سفر کی تکلیف کی وجہ سے اسی پہاڑکے نزدیک حمل ساقط ہوگیا اس کان کے کارندوں سے بی بی نے کھانا و پانی طلب کیا لیکن ان حرامزادوں نے بجائے رحم کرنے کے گالیاں دیں؟ پس بی بی نے ان کو بددعا کی پس وہ کان ختم ہو گئی، اسی پہاڑ کے دامن میں ایک زیارت گاہ موجود ہے جس کو مشہدالسقط کہتے ہیں اور وہ بچہ محسن بن حسین ؑ تھا اور اس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔
یہاں سے روانہ ہو کر قنسرین آئے اوریہ شہر شیعانِ علی ؑسے پُر تھا، جب انہوں نے حالات سے آگاہی حاصل کی تو شہر کے دروازے بند کرلئے اور بنوامیہ پر نفرین و لعنت کی اور دشمنانِ اہل بیت پر پتھر برسانے شروع کیے، پس وہاں سے چل کر معرۃ النعمان میں آئے اور اس جگہ آرام کیا، کھانے پینے کا بندوبست ہوا لوگ تماشائی بن کر سب کچھ دیکھتے رہے، پس یہاں سے کوچ کرکے شیرز پہنچے تو وہاں کے ایک سن رسیدہ بزرگ نے لوگوں کو حقیقت حال کی خبر دی چنانچہ وہ لوگ لڑائی پر آمادہ ہوگئے اور اہل کوفہ کو وہاں سے کوچ کرنا پڑا۔۔۔۔۔ بروایت ’’مخزن البکأ‘‘ شیرز کے نوجوانوں نے تلواریں علم کر لیں اور جنگ پر آمادہ ہوئے تو بعض لوگوں نے اس اقدام سے ان کو روکا لیکن وہ نہ رکے اور اہل کوفہ پر حملہ آور ہوگئے اور اس لڑائی میں ۷۶ملاعین مارے گئے اور ستر مومن شہید ہوئے۔
پس کفر طاب پہنچے یہاں ایک چھوٹا قلعہ تھا، جب ان لوگوں کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے دروازے بند کرلئے، کوفیوں نے پانی مانگا تو انہوں نے جواب دیا تم لوگوں نے فرزند پیغمبر کو پیاسا شہید کرڈالا ہے لہذا ہم تمہیں قطعاً پانی نہ دیں گے؟ پس وہاں سے چل کر سیبور میں پہنچے جب اہل سیبور نے سنا تو تمام جوان و ضعیف یکجا جمع ہوئے، ان میں سے ایک بوڑھا مرد جو عثمانی تھا اس نے کھڑے ہو کر تقریر کی کہ سر امام حسین ؑکو کوفہ سے یہاں تک ہر شہر میں پھیرایا گیا ہے اور کسی شہر والوں نے ان کو نہیں روکا لہذا تم بھی ان کے ساتھ مقابلہ نہ کرو اور جو کچھ کرنا چاہیں تم نہ روکو؟ تو نوجوانوں نے کہاہم یہ بے غیرتی ہر گز برداشت نہ کریں گے اور اس پلید قوم کو ہر گز اپنے شہر میں نہ آنے دیں گے؟ پس فوراً شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور نہر کی پل کو توڑ دیا جس سے ان لوگوں نے عبور کرنا تھا اور خود پار ہو کر لڑائی میں مصروف ہو گئے، پس خولی کے لشکر سے چھ سو ملاعین قتل ہو گئے اور اہل ایمان کے جوانوں میں سے بھی کافی آدمی شہید ہو گئے۔
پس یہاں سے کوچ کر کے حماہ میں پہنچے ان لوگوں نے بھی داخل شہر نہ ہونے دیا، نا چار وہاں سے روانہ ہو کر حمص پہنچے اس جگہ خالد بن نشیط حاکم تھا اس نے شہر کو خوب سجایا اور اہل کوفہ کا تین میل تک استقبال کیا، جب خالد سرہائے شہدأ اور قافلہ اسیرانِ اہل بیت کو لے کر واپس پلٹا تو حمص کے باشندوں نے شہر کا دروازہ بند کر لیا اور ابن زیاد کے سپاہیوں پر پتھر برسانے شروع کر دیئے حتی کہ ان کے ۲۶آدمی مارے گئے اور شہر والوں نے قسم کھا لی کہ ہم ابن زیادکے لشکر سے لڑیں گے اور سرہائے شہدأ بھی ان سے چھین لیں گے، جب اہل کوفہ کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے وہاں سے کوچ کیا۔
بمطابق روایت ’’مخزن البکأ‘‘ سوق الطعام، پھر حرسہ، اور پھربعلبک گئے، حاکم بعلبک نے قافلہ کے آنے کی اطلاع پا کر شہر کو خوب سجایا اور دو فرسخ تک استقبال کو نکلے، لوگوں میں عطر تقسیم ہوا۔۔ اچھے فاخرہ لباس پہنے گئے۔۔ ڈھول طبل بجائے گئے اور گانے والی عورتوں کو ساتھ لے کر تالیاں بجاتے ہوئے نکلے، جناب امّ کلثوم نے پوچھایہ کون ساشہر ہے؟ تو جواب ملا یہ بعلبک ہے، بی بی نے ان کو بددعا کی، اہل کوفہ نے شب بھر شراب نوشی کی، پس یہاں سے روانہ ہو کر دیر راہب میں پہنچے، بنابر تحقیق آقا شیخ ذبیح اللہ محلاتی اس جگہ کا پانی نہایت خوشگوار تھا، امام مظلوم ؑ کا سر ایک صندوق میں بند کیا گیا (جیسا کہ ان کاہر منزل پر دستور تھا) کوفیوں نے ایک حصہ شراب نوشی اور غنا کی مجلس میں گذارا۔۔ پھر کھانا کھا یا، اچانک سامنے دیوار سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جس نے فولادی قلم سے راہب کی دیوار پر جلی طور پر خون کی سیاہی سے تحریر کیا:
أَ تَرْجُوْا اُمَّۃً قَتَلَتْ حُسَیْنًا
شَفَاعَۃَ جَدِّہٖ یَوْمَ الْحِسَابٖ
وہ ڈر گئے اور چاہا کہ ہاتھ پکڑیں لیکن ہاتھ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا، پس دوبارہ ہاتھ ظاہر ہوا اور دوسرا شعر لکھا:
وَقَدْ قَتَلُوْ الْحُسَیْنَ بِحُکْمِ جَوْرٍ
وَخَالَفَ حُکْمُھُمْ حُکْمُ الْکِتَابٖ
پھر دوبارہ انہوں نے ہاتھ اور قلم کو پکڑنا چاہا لیکن وہ غائب ہو گئے اور سہ بارہ ہاتھ ظاہر ہوا اور تیسرا شعر لکھا:
فَلا وَاللّٰہِ لَیْسَ لَھُمْ شَفِیْعٌ
وَ ھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الْعَذَابٖ
ابو مخنف نے یہ اشعار معمولی ردّوبدل کے ساتھ اپنے مقتل میں درج کئے ہیں۔
القصد:  سرِ شہدأ کے پاسبانوں نے کھانا چھوڑ دیا اور ترساں و لرزاں سو گئے، نصف شب راہب کے کانوں میں ایک صداآئی جب کان دھر کر سنا تو تسبیح و تقدیس کی آواز تھی، اپنے دیر کی کھڑکی سے دیکھا کہ دیوار کی قریبی صندوق سے آسمان تک ایک نور ساطع ہے اور آسمان کے دروازے کھلے ہیں جوق در جوق فرشتے نازل ہو رہے ہیں اور صندوق کے پاس پہنچ کر  اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَلسَّلَام عَلَیْکَ یاَ اَبَا عَبْدِاللّٰہ کہتے ہیں، راہب خوف اور تعجب میں گھِر کر رات بھر جاگتا اور روتا رہا، صبح سویرے دیر سے باہر آکر اشقیا ٔ سے پوچھا تمہارا سردار کون ہے؟ تو جواب ملا خولی بن یزید اصبحی ہے، راہب نے پوچھا یہ صندوق کیسی ہے؟ اور اس میں کونسی چیز بند ہے؟ انہوں نے جواب دیا ایک خارجی کا سر ہے جس نے سر زمین عراق میں یزید پر خروج کیا تھا اور ابن زیاد نے اس کو قتل کیا ہے، پوچھا اس کا نام کیا ہے؟ جواب دیا حسین ؑ بن علی ؑبن ابیطالب ؑ، کہا اس کی ماں کا نام کیا تھا؟ جواب دیا فاطمہ زہرا ؑ بنت رسولؐ خدا، راہب نے کہا کہ تم لوگ اپنے اس کرتوت کی وجہ سے برباد ہوگے، ہمیں اپنے علمأ و احبار نے سچ بتایا ہے کہ جب یہ شخص قتل ہوگا تو آسمان سے خون برسے گا اور یہ نہیں ہوسکتا مگر نبی یا وصی ٔ نبی کے قتل سے، پھر کہا کہ ایک گھنٹہ کے لئے یہ سرمجھے دے دو پھر واپس لے لینا؟ خولی نے انکار کیا اورکہا یزید سے انعام لے کریہ صندوق کھولیں گے، اس نے پوچھا اس کا انعام کیا ہے؟ توخولی نے کہا دس ہزار درہم کی تھیلی، راہب نے کہا یہ تومیں دوں گا، خولی نے کہا پھر لے آئو، چنانچہ وہ لایا اورخولی نے اس کو دوتھلیوں میں بند کرکے اپنے خزانچی کے حوالے کیا اورسرِ امام مظلوم ؑ راہب کودیا، راہب نے سر کو مشک وکافور میں معطر کرکے ریشمی غلاف میں رکھا اوربہت رورو کر شفاعت کی درخواست کی، پس بنابر روایت شافیہ سرمبارک سے آواز آئی کہ ہماری شفاعت صرف مسلمانوں کے لئے ہی مخصوص ہے، پس فوراً راہب نے کلمہ شہادتین وکلمہ ولایت زبان پرجاری کیا اورمسلمان ومومن ہوگیا، اس کے بعد سر کو واپس کیا جب ان لوگوں نے کوچ کیا اوردرہموں کو تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تووہ سب کے سب ٹھکریاں بن چکے تھے؟
اور ’’بحار الانوار‘‘ سے مروی ہے کہ قنسرین میں راہب کا واقعہ پیش آیا کہ جب راہب سرِ مظلوم ؑ کربلا لے آیا تو غیب سے ایک آواز سنی کہ طوبیٰ ہے اس کے لئے جو اس کی معرفت حاصل کرے، پس اس نے دعا کہ اے پرودرگار تجھے عیسیٰ کی نبوت کا واسطہ اس سر کو میرے ساتھ کلام کرنے کا اذن دے، چنانچہ سر پاک سے آواز آئی، راہب نے کہا آقا مجھے بتایئے آپ ؑ کون ہیں؟ تو سر سے آواز آئی میں محمد ؐ کا نواسہ ہوں۔۔ علی مرتضیٰ کا شہزادہ ہوں اور فاطمہ زہرا ؑ کا لخت جگر ہوں، پھر فرمایا میں مقتول ہوں کربلا کا میں مظلوم ہوں اور میںپیاسا ہوں، پس راہب نے کہا ا ٓپ ؑ مجھے اپنی شفاعت کا وعدہ دیں؟ تو سر مبارک سے آواز آئی تو مسلمان ہو جا تو میں شفاعت کروں گا، پس راہب نے اقرارِ شہادتیں کیا اور حضور نے شفاعت کا وعدہ کیا۔
براویت ’’روضۃالاحباب‘‘ دیر راہب سے روانہ ہو کرحر ان ۱؎  کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک بلند ٹیلے پر ایک یہودی عالم کا گھر تھا جس کویحییٰ حرانی کہتے تھے اس کو معلوم ہوا کہ کچھ سر بریدہ نیزوں پر سوار ہیںاور کچھ بوڑھی اور جوان عورتیں بھی ہیں جو مقیّد ہیں اور ان کو حران لے جا یا جارہا ہے، پس وہ اس ٹیلے سے اُترا اور لب سڑک کھڑا ہو گیا، دیکھا کہ سروں کو نیزوں پر بلند کیا ہواہے اور اونٹوں پر قیدی مستورات سوار ہیں جن کو پیچھے سے مار مار کر دوڑایا جا رہاہے، پس اس کی نظر ایک نوارنی سر پر پڑی جس کے لب حرکت کر رہے تھے اور تلاوت قرآن کر رہا تھا، پس متعجب ہو کر ایک سپاہی سے پوچھا؟ تو اس نے بتایا کہ ایک خارجی کا سر ہے، اس نے پوچھاکون تھا؟ جواب دیا اس کا نام حسین ؑ بن علی ؑ تھا اور اس کی ماں فاطمہ زہرا ؑ بنت رسول تھی اور یہ قیدی مستورات حسین ؑ کے پردہ دار ہیں، یحییٰ نے کہاکہ یہ مقتول تمہارے نبی کی شہزادی کا بیٹا تھا؟ اس نے کہا کہ ہاں، پس راہب زاروزار رویا، پھر سرا طہر کا معجزہ دیکھ کر ایمان واسلام کی حقیقت اس پر منکشف ہوئی اور مسلمان ہو گیا اور اس نے چاہا کہ بطور اعانت و امداد کے کچھ سامان قافلہ سادات کو ہدیہ کرے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)   آتش نمرود سے رہا ہو کر حضرت خلیل ہجرت کر کے پہلے پہل اسی جگہ پر پہنچے تھے۔۔ اور کہتے ہیں یہ وہ شہر ہے جو طوفانِ نوحؑ کے بعد تعمیر ہوا (فرسان الہیجا)  لیکن لشکریوں نے اس کو منع کیا تو اس نے تلوار نکال کر جنگ شروع کر دی او رپانچ ملاعین کو دارالبوار پہنچا کر درجہ شہادت پر فائز ہوا اور حران کے دروازہ پر دفن ہوا، اس کے بعد یہ شخص یحییٰ شہید مشہور ہو گیا، اس کا ذکر ص۲۳۴ پر گزر چکا ہے۔
اس کے بعد قافلہ اسیرانِ اہل بیت عسقلان پہنچا، بمطابق روایت ’’مخزن البکأ‘‘ یعقوب عسقلانی یہاں کا حاکم تھا اس نے ابن زیاد کی خوشامد میں شہر کو خوب سجایا اور لشکریوں کا بڑا استقبال کیا اور شہر والوں کو خوشی کرنے اور جشن کا حکم دیا، زریر خزا عی اس دن بازار میں کھڑا تھا جب اس نے عید وجشن کا سامان دیکھا شہر کو سجا دیکھا اور عورتوں مردوں کو نئے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو حیران ہو کر ایک شخص سے اس کا سبب دریافت کیا؟ تو اس نے پوچھا کیا تو مسافر ہے؟ تو زریر نے جواب دیا ہاں میں مسافر ہوں اور کل ہی اس شہر میں وارد ہوا ہوں، اس شخص نے کہا یزید کے مخالف نے بغاوت کی تھی اور فوجِ یزید نے اس کو قتل کیا ہے آج اسی شہر میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے سروں کو لایا جارہا ہے، نیز ا س کے اہل حرم بھی اسیر کر کے بے پردہ آج اسی شہرمیںلائے جارہے ہیں، زریر نے پوچھا کیا وہ  مسلمان تھے؟اس نے جواب دیا ہاں وہ مسلمان تھے، زریر نے پوچھا ان کا بزرگ کون تھا؟ کہا علی ؑ بن ابیطالب ؑ کا فرزند ہے جس کا نام حسین ؑ ہے اوررسول کا نواسہ ہے، زریر سن کر متعجب سا ہو گیا، جب فوجی گذر گئے اورسرہائے شہدأ بھی گذر گئے اورقیدیوں کی باری آئی توگریاں آنکھوں سے آگے بڑھا جب اس کی نظر حضرت سجاد ؑ پر پڑی اوربحالت بیماری اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا تو زاروقطار رویا حضرت سجاد ؑ نے دیکھ کر دریافت کیا کہ توکون ہے؟ اس نے عرض کیا میں ایک مسافر ہوں، آپ ؑ نے فرمایا یہاں کے لوگ ہماری حالت کو دیکھ کو ہنستے ہیں توروتا کیوں ہے؟ زریر نے عرض کیا میں آپ ؑ کو پہچانتا ہوں، اے کاش کہ اس شہر میں نہ آیا ہوتا اورآپ ؑ کو اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا، ہائے آج یہاں میرا قبیلہ ہوتا توآپ ؑ دیکھتے کہ میں آپ ؑ کے ساتھ وفاداری کیسے کرتا؟ میں ان ظالموں سے وہ عبرتناک سلوک کرتا کہ رہتی دنیا تک اسلامی تاریخ اس پر ناز کرتی، آپ ؑ نے فرمایا اے جوان تجھ سے مجھے محبت کی بو آرہی ہے خدا تجھے جزائے خیر دے، زریر نے عرض کیا مولا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو فرمایئے؟ آپ ؑ نے فرمایا اگر ہو سکے تو ان ظالموں سے کہہ دو کہ میرے بابا کے سر کو حرموں کے کجاووں سے دورلے جائیں تاکہ تماشائیوں کا ہجوم پردہ داروں سے الگ ہوجائے، چنانچہ زریر نے ان ظالموں کو پچاس مثقا ل سونا دیا کہ سروں کو ذرا دور لے جائیں، پھر واپس حضرت سجاد ؑ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا مولا کوئی اورمیرے لائق حکم ہو توفرمائیے؟ آپ ؑ نے فرمایا اگر تیرے پاس کوئی زائد کپڑے موجود ہوں تو میرے پردہ داروں کے لئے کچھ لے آئو، چنانچہ وہ اسی وقت گیا اورمستورات کے لئے کچھ کپڑے لایا اورحضرت سجاد ؑ کے لئے بھی ایک عمامہ اورجبّہ لایا۔
اتنے میں طبل اورباجوں کا شور زیادہ ہوا اورلوگوں میں آمدآمد کی آوازیں بلند ہوئیں، دیکھا کہ شمرحرامزادہ چند اشقیا ٔ کے ہمراہ خوشی میں جھومتا ہوا آن پہنچا، زریر حمیت اسلامی اورجوشِ ایمانی سے آگے بڑھا اورشمر کے گھوڑے کی لگام تھام کرپوچھا کہ اے ملعون یہ سر کس کا ہے جونیزہ پر سوار ہے؟ اوریہ قافلہ کون ہے جوقیدی ہے اوربرہنہ پشت اونٹوں پر سوار ہے؟ شمر نے اس کو جھڑک کر کہا کہ دور ہو جا پس اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ اس کو اپنی بے ادبی کی سزادو، چنانچہ شمر کے غلام خنجر لے کر آگے بڑھے اوراہل شہر نے بھی اینٹ اور پتھر اس مسافر پر برسانے شروع کئے، پس وہ بیچارہ زخمی ہوکر مد ہوش فرش بازار پر گرگیا، انہوں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا اورچلے گئے، جب نصف شب کے وقت زریر کی آنکھ کھلی تو کوئی آدمی نظر نہ آیا، پس اُٹھا اورمسجد کی طرف روانہ ہوا جس کو حضرت سلیمان پیغمبر نے بنایا تھا اوربہت سے انبیا ٔاس میں مدفون بھی ہیں، وہاں ایک جماعت کو دیکھا جن کے سرننگے گریبان چاک ہیں اورمحو گریہ ہیں، زریر نے پوچھا شہر کے لوگ خوش ہیں اورتم غمزدہ ہو؟یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جولوگ خوش ہیں وہ خارجی ہیں اورہم لوگ محبّانِ خاندانِ رسول ہیں، اگر تودشمنوں میں سے ہے تو نکل جا اوراگر دوستوں میں سے ہے توبیٹھ جا، زریر نے اپنا سارا واقعہ بیان کیا چنانچہ سب نے مل کر ماتم کیا، اس کے بعد زریر نے اپنا تمام مال واسباب فروخت کر کے ہتھیا ر خرید کر لئے اورایک سود و آدمیوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اورجمعہ کے روز خروج کرکے وہاں کے خطیب کو قتل کرڈالا اورحاکم کو گرفتار کرلیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں