التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پہلی مجلس -- یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین پ ۱۱ سورہ توبہ


در بیان تقوی محرم الحرام 1332
یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین پ ۱۱ سورہ توبہ
تمام انبیاء اپنی امتوں کو تقوی کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں کیونکہ خدا وند کریم کی جانب سے ان کو تعلیم یہی دی گئی چنانچہ ارشاد باری ہوتا ہے ان انذروا ان لا الہ الا انا فاتقون ترجمہ  اپنی  امت کو انذار  کرو یعنی ڈراو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں لہذا مجھ سے ڈرو، ایک  اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے  و لقد وصینا الذین اوتو الکتاب من قبلکم و ایا کم ان اتقوا اللہ و ان تکفروا فان للہ ما فی السموات و ما فی الارض و کان اللہ غنیا حمیدا  ترجمہ ہم نے ا ن لوگوں کو وصیت کی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی وصیت کی جاتی ہےکہ اللہ سے ڈرو اور اگر تم کفرکرو گے تو اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے کیونکہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں تو اسی کی ملکیت میں داخل ہیں اور اللہ لائق حمد و ستائش ہے اور جناب رسالتمآب کو اول بعثت میں یہی حکم ہوا یا ایھا المدثر قم فانذر ترجمہ اے لحاف اوڑھنے والےپیغمبر اٹھواور ڈراو ۔اور اس کی آخری آیت جو آپ نے تلاوت فرمائی وہ یہ تھی  و اتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت و ھم لا یظلمون پ3 ترجمہ اورڈرو اس دن سے جس دن تم اللہ کی جانب پلٹا ئے جاو گے اور ہر نفس کو اپنی کمائی کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کو خسارہ نہ دیا جائےگا ۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے یا عباد فاتقون  میرے بندے مجھ سے ڈرو۔ نیز فرماتا ہے ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم میرے نزدیک تم میں سےزیادہ لائق عزت وکرامت وہی ہےجوزیادہ ڈرنے والا ہو ۔
اقول:  اعمال میں سےجو عمل تقوی سے ہوتا ہے وہ قابل قبول ہوتا ہے اور جو عمل روح تقوی سے خالی اور ظاہر داری پر مبنی ہوتا ہے  وہ خالی از فائدہ ہوا کرتا ہے۔
چنانچہ ہر عمل کا ایک ظاہر ہوتا ہے اورایک باطن اور صرف ظاہری عمل کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اس کا باطن درست نہ ہو مثلا ایک طرف اشارہ ہے الصلوۃ معراج المومن  نماز مومن کی معراج ہے۔ اور دوسری جگہ خدا خود فرماتا ہے  ویل للمصلین الذین ھم عن صلوتھم ساھون پ 30 ۔ ان نماز گزاروں کےلئے ویل ہے جو نماز میں بےتو جہی کرتے ہیں ۔ یعنی وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی نماز روح تقوی سے خالی ہوتی ہے اسی طرح روزہ کے متعلق ایک مقام پر حدیث قدسی میں ہے الصوم لی انا اجازی بہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خودہی اس کی جزا دوں گا یعنی یہ میری  پسندیدہ عبادت ہے اور اس کی جزا بھی بہترین جزا ہوگی ۔ اور دوسرے مقام پرحدیث میں ارشاد  ہے  رب صائم لیس حظہ من الصوم الا الجوع والعش  یعنی بعض روزہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ روزہ سے اس کا  حصہ بھوک اور پیاس کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہواکرتا ۔ حج کے متعلق ایک جگہ فرماتا ہے  للہ علی الناس حج البیت پ 4 الخ ۔ لوگوں پراللہ کے لئے ہی حج بیت اللہ ضروری ہے اور دوسرے مقام پر ابو بصیر روایت کرتا ہے کہ اس نے حضرت صادق آل محمد علیہ السلام سے عرض کی ما اکثر الحجیج حضور اس سال حاجی کس قدر زیا دہ ہیں؟ تو آپ نے جواب میں ارشادفرمایا  لا بل مااقل الحجیج واکثر الضجیج نہیں بلکہ حاجی تھوڑے ہیں اور شوروغل زیادہ ہے، قربانی کےمتعلق ارشاد فرماتا ہے لن ینال اللہ لحومھا و لا دماء و لکن ینالہ التقوی منکم یعنی گوشت و خون اللہ کی بارگاہ میں نہیں پہنچا کرتا بلکہ اس کی بارگاہ قبولیت میں تمہارا  تقوی ہی پہنچتا ہے اور فرمایا  انما  یتقبل اللہ من المتقین  بجزاس کے نہیں کہ خدا تو تقوی والوں سے ہی قبول کیا کرتا ہے ۔
عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو خدا سے خوفزدہ نہ ہو آپ اگر عالم سفلی سے لیکر عالم علوی تک کی تمام مخلوق خواہ مادی ہوں یا روحانی اور خاکی ہوں یا نورانی کا جائزہ لیں گے تو آپ کو ہیبت پروردگار سے عالم کا ہرفرد خوف کرتا ہوا نظر آئے گا ، مثال  کے طور پر آپ ملاحظہ فرمائیں:

خوف ملائکہ

ارشاد قدرت ہے  یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ رعد اس کی حمد کی تسبیح کرتاہے اور ملائکہ اس کے خوف سے اس کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں  یسبحون اللیل و النھار و لا یفترون شب وروز اس کی تسبیح کرتے ہیں اورسستی نہیں کرتے  و ھم من خشیتہ مشفقون  درحالیکہ وہ اس کے رعب و جلال سےخوفزدہ ہیں ۔

خوف انبیاء واصیا ء

ارشاد قدرت ہے  اذا تتلی علیھم آیات الرحمن خرو سجد ا وبکیا  جب ان پرآیات خداوندی کی تلاوت کی جائے توسجدہ کرتے ہوئے اور گریہ کرتےہوئے جھک جاتے ہیں جناب رسالتمآب کے متعلق ارشاد ہے  قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم فرما دیجئے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں اوصیا ئے طاہرین کے متعلق ارشاد فرماتا ہے  انا نخاف من ربنا یوما عبوسا قمطریرا  ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو سخت و دشوار ہو گا ۔

خوف جمیع اشیاء

جناب رسالتماب ارشادفرماتے ہیں کوئی ملک مقرب اورآسمان وزمین ہوا و پہاڑ اور بحروبرمیں سےکوئی ایسی چیز نہیں جو بروز جمعہ قیام قیامت سے خوفزدہ نہ ہوئی ہو )بحارالانوار( حتی کہ شیطان بھی ایک مقام پر اپنے اللہ خوف محسوس کرتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کمثل الشیطان اذ قال للانسان اکفر فلما کفر قال انی بری منک انی اخاف اللہ رب العالمین )شیطان کی طرح کہ جب وہ انسان کو کفر کی تعلیم دیتا ہے پس جب وہ کفر کرتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں تو خدا سے ڈرتا ہوں جو عالمین کا پرودگار ہے لیکن صد افسوس  ہم پر کہ کسی وقت بھی ہم اپنے اندر اپنے پروردگار کا ذرہ بھر افسوس نہیں کرتے۔

تقوی کی علامات

خداوندکریم  نے چندعلامتیں بیان فرمایئ ہیں:
1  و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب    )اور جوبھی شعائراللہ کی تعظیم کرےتودل کےتقوی میں سےہی ہے (کعبہ اور مسجدالحرام وغیرہ کوخداوندکریم نے اپنے شعائرقراردیاہے لیکن عین وقت حج میں حضرت سیدالشہداء نےاحرام حج کھول کروہاں سے   روانگی اختیارفرمائی اورارشادفرمایا  انی اخاف ان یستباح بی حرمۃ البیت  الحرام     مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری وجہ  سےبیت اللہ کی حرمت    ضائع نہ کر دی   جائے۔
2 ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم وہ لوگ جوجناب رسالتمآب کےحضور میں اپنی آوازوں کو نیچا رکھتے ہیں وہ ہیں کہ تقوی کی کسوٹی پران کے دل پرکھے جا چکے ہیں ایک اور مقام پر صریح لفظوں میں رسول پراپنی آوازوں کو بلند کرنے سے روک دیا گیا ہے  چنانچہ فرماتا ہے لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی و لا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم بعضا ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ان کو بآواز بلند پکارو جس طرح ایک دوسرے کو پکارتے ہو ورنہ تمہارے عمل ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو گی مروی ہے کہ اس آیت کے نزول  کے بعد جناب رسالتمآب نے اپنے حسن خلق اور کمال  مہربانی کے پیش نظر یہ دستوربنا لیا تھا  اگر کوئی شخص آنحضرت  سے اونچی آواز میں بات کرتا تو آپ اس کی آواز سے بلند آواز میں اس کوجواب مرحمت فرماتے  تاکہ اس کی آواز رسول سےاونچی نہ رہ جائے اور  وہ اس معاملہ میں اللہ کے نزدیک گنہگار نہ ہو-
پس ایسے مجسمہ رحمت اور سراپا شفقت رسول کی اس قسم کی مہر بانیو ں اور دلداریوں کے باوجود پھر بھی کوئی شخص اگر ان کے فیوض سے استفادہ  نہ کرسکے تو اسکی عین بدبختی اور کمال نالائقی ہے اور اس قدر رحمت وشفقت کے باوجود  اگر کسی کو فرمادیں قوموا عنی  چلے جاو  توایسے انسان کا کیاحشر ہوگا؟ آیت مجیدہ میں توصرف آوازکے بلندکرنےکی نہی ہے  خواہ وہ آواز  لہجہ محبت میں ہی ہو-لیکن اگر آواز بلند بھی ہو اور لہجہ بھی اس قدر کرخت ہو جوکسی شریف انسان کے لئے قابل برداشت  نہ ہو کہنے والے مہربان  کی بات جو مبنی برخلوص ونصیحت ہو اس کوتسلیم کرنا تودرکناراگرسنجیدگی سےٹال دیا جائے توشایداس قدردل  شکنی نہ ہولیکن  اگراسےصاف صاف لفظوں میں نہایت نڈر اور بے باک ہوکر کہا جائے   ان الرجل لیھجر  تحقیق یہ شخص ہذیان  کہہ رہا ہے(نسیم الریاض، نہایہ ابن اثیر) تو شریف انسان کی طرف سے یہی جواب ہو سکتا ہے کہ نکل جاو  حالانکہ قرآن مجید میں تمام اہل اسلام کو اپنے تنازعات میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے-

تقوی کی حقیقت

ایک مرتبہ  ہمام نامی ایک شخص  نے حضرت  امیرالمومنین   علیہ السلام سے عر ض کی کہ حضور  آپ مجھے متقین کے اوصاف اس طرح سنائیں کہ گویااس کا منظر میرے سامنے آجائے  آپ نے اس کے جواب کو ٹالتےہوئے  فرمایا ہمام  اللہ سے ڈرو اور نیکی اختیار کرو  تحقیق اللہ ڈرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہوتاہے  لیکن ہمام  اس جواب سے مطمئن نہ ہو اور آپ سے دوبارہ قسم دیکرخواہشمند ہوا آپ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا اور درودمحمد وآل محمد کے بعد فرمایا' خدانے جس قدرمخلوق جس جس وقت میں پیدافرمائی ہے نہ وہ ان کی اطاعت کا  محتاج ہے اور نہ ان کی نافرمانی سے خوفزدہ ہے کیونکہ جس طرح اس کو کسی کی نافرمانی ذرہ بھر نقصان نہیں دے سکتی اسی طرح اس کو کسی کی اطاعت نفع نہیں پہنچا سکتی اس نے مخلوق میں رزق کو تقسیم فرمایا اور ہر ایک کو اپنی اپنی جائے رہاِئش عطافرمائی-
پس اس سے تقوی کرنے والے ہی فضائل کے مالک ہیں جس کی گویا ئی  صحیح  لباس درمیانہ اور رفتار خاکسار انہ  ہے انہوں نے اپنی آنکھوں کو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بچا رکھا ہے اور اپنےکانوں کو صرف نفع رساں علم تک محدود  کردیا ہے ان کے نفوس بدحالی اور خوشحالی میں یکساں رہتے ہیں اور اگر موت کے لئے ایک مقررشدہ وقت نہ ہوتاتو ان کے ار واح اجسام عنصریہ سے کوچ کر جاتے اور پلک جھپکنے تک بھی نہ ٹھہرتے اس لیے کہ ان کے دلوں میں ثواب  کا اشتیاق اور عذاب کا حقیقی خوف موجود ہے  اور  چونکہ ان کے نفسوں میں خالق کی  عظمت گھر   کرچکی ہے لہذا  باقی تمام   چیز یں  ان  کی  نظروں میں حقیر ہیں ان کی نگا ہیں جنت پر اس طرح  جمی ہیں  کہ  گویا  وہ اسے دیکھ چکے ہیں اور  اس میں رہ  رہےہیں اور دوزخ  ان کے سامنے اس طرح ہے کہ گویا اسے دیکھ رہے ہیں اور اس میں جل رہے ہیں ان کے دل مغموم رہتے ہیں اور ان کے شر سے لوگ محفوظ ہیں ان کے جسم کمزور طلب معمولی اور نفس پاکباز ہوتے ہیں وہ تھوڑے دن صبر کی زندگی گزارنے کے بعد ایک طویل عیش و آرام  کی زندگی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں یہ خوف نفع مند تجارت ہے جس کےلئے خدا نے ان کو موفق کیا ہے ان کو دنیا چاہتی ہے لیکن وہ دنیاکو نہیں چاہتے ان پر دنیا نے اپنا پھندا ڈالا لیکن وہ فدیہ دیکر اس کی قید سے بچ نکلے رات کے وقت ان کے قدم صف بستہ رہتے ہیں اور وہ رات بھر اجزائے قرآن کی ترتیل سے تلاوت کرتے ہیں وہ اپنے نفسوں کو غمزدہ کرتے ہیں اور اپنی بیماریوں کا علاج وہ اسی سے ہی چاہتے ہیں جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں نعمات جنت کی طرف دعوت ہوتی ہے تو اس کی طرف جھکتے ہیں اور کثرت شوق سے ان کے نفوس اس کی طرف جھا نکنے لگتے ہیں  پس وہ اسی کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں لیکن جب کسی آیت پرپہنچتے ہیں جہنم کی تخریف ہوتی ہے تو اپنےگوش ہوش سے اس طرف متوجہ ہوتے ہیں اور  وہ جانتے  ہیں  کہ گویا  جہنم  کے شعلوں   کی  آواز اور دھڑک ان  کے  کانوں تک پہنچ رہی ہے   پس وہ   کمر     بستہ ہو کر  اپنے منہ ہتھیلیاں گھٹنے اور پاوں کی انگلیاں زمین پر ٹیکتے ہوئے اللہ سے جہنم سے آزادی کی دعائیں مانگتے ہیں اور دن کے وقت وہ لوگ حلماء علماء ابرار اور اتقیاء کے رنگ میں ہوا کرتے ہیں خوف خدا نے ان کا گوشت گھلا دیا ہے دیکھنے والا یوں سمجھے گا کہ یہ لوگ بیمار ہیں حالانکہ ان کو کوئی بیماری لاحق نہیں ہوا کرتی ہاں ایک امر عظیم نے ان کے اندر جگہ لے لی ہے وہ اپنے  عمل میں سے تھوڑے پر راضی نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ سمجھتے  نہیں اور اپنے نفسوں کو کوتاہ ہی سمجھتے ہیں اور وہ بالاخر اپنے عمل سے خوفزدہ ہی رہا کرتے ہیں اگر ان کی تعریف کی جائے تو  اپنی تعریف کئے جانے سے خوفزدہ ہی رہا کرتے ہیں  لہذا )ازروئے تردید( کہہ دیتے ہیں میں اپنے آپ کو خود اچھا جانتا ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی مجھے خوب جانتا ہے اے پروردگار ان لوگوں کی باتوں سے مجھے گرفت نہ کرنا اور مجھے توفیق مرحمت فرما کہ ان کے گمان سے بھی میں اچھا ہو جاوں اور میرے وہ گناہ بخش جن کو لوگ نہیں جانتے اور ایسے لوگوں کی علامات یہ ہوں گی:
۱۔ دین میں قوت  ۲۔ نرم مزاجی کے ساتھ پختگی ارادہ ۳۔ ایمان جو یقین کے ساتھ ہو ۴۔ علم میں حرص ۵۔ حلم در علم ۶۔ غنا کے باجود میانہ روی ۷۔ عبادت میں خشوع ۸۔ فقرو فاقہ میں خودداری ۹۔ سختی میں صبر ۱۰۔ طلب حلال  ۱۱۔ ہدایت میں نشاط ۱۲۔ لالچ سے پرہیز ۱۳۔ اعمال صالحہ بجا لائے گا لیکن پھر بھی ڈرتا رہے گا ۱۴۔ شام کرے گا اور اس کا مقصدا ہم شکر پروردگار ہی ہو گا  ۱۵۔ صبح اٹھے گا تو اس کا اہم مقصد ذکر پروردگار ہی ہوگا ۱۶۔ رات کو غفلت سے خوفزدہ ہو گا  ۱۷۔ صبح کو تجدید نعمت و فضل  پر مسرور ہو گا  ۱۸۔ اگر اس کا نفس کسی نا پسندید چیز پر شدت سے خواہش کرے تاہم یہ اس کو اس کی مرغوب چیز دینے کو تیار نہیں ہوتا   ۱۹۔ اس کی آنکھ ان چیزوں سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہے جو پائیدار  ہوں ۲۰۔ وہ ان چیزوں سے پرہیز کرتا ہے جو فانی ہوں  ۲۱۔ وہ علم و حلم دونوں کو پاس رکھتا ہے لہذا اس میں جاہلانہ طیش نہیں آسکتا  ۲۲- اس کا قول وفعل متحد ہوا کرتا ہے ۲۳- اس کی خواہشات کم ہوں گی ۲۴- لغزشیں تھوڑی ہوں گی ۲۵- دل میں خضوع ۲۶- نفس میں قناعت ۲۷- کھانا کم۲۸-اسباب زندگی مختصر ۲۹- دین محفوظ۳۰- شہوت مردہ ۳۱- غصہ میں ضبط ۳۲- اس سے اچھائی متوقع ہوگی۳۳- اس سے برائی کا امن ہوگا  ۳۴- اگر وہ غافلین سے ہوگا تاہم ذاکرین میں اس کا نام لکھا جائے گا اگر ذاکرین سے ہوگا تو قطعا  غافلین میں نہ لکھا جائے گا  ۳۵- اپنے ظالم سے در گزر کرے گا  ۳۶- محروم کرنے والے کو عطا کرے گا  ۳۷-قاطع الرحم سے صلہ رحمی کرے گا ۳۸-فحش گوئی اس سے دور ہو گی ۳۹- اس کی بات نرم ۴۰- اس کی برائیاں غائب ۴۱- اس کی نیکیاں حاضر ۴۲-اس کی خیر سامنے ۴۳-اس کا شرپیچھے کی طرف ۴۴- لغزشوں کے مقام پر وہ باوقار ۴۵- مقام تشدد میں صبر ۴۶خوشحالیوں میں شاکر ۴۷- اپنے دشمن پر زیادتی نہیں کرتا ۴۸- اور اپنے محبوب کے بارے میں مبتلائے گناہ نہیں ہوتا ۴۹-گواہی دینے سے پہلے حق کو پہچان لیتا ہے ۵۰- جس کو محفوظ کرتاہے اس کو ضائع نہیں کرتا ۵۲- کسی کو برے یا ادھورے نام سے نہیں پکارتا ۵۳- ہمسایہ کو ضرر نہیں پہچاتا ۵۴- کسی کے دکھ پر خوشی کا اظہار نہیں کرتا ۵۵- باطل میں داخل نہیں ہوتا ۵۶- حق سے خارج نہیں ہوتا ۵۷- اگر وہ چپ ہو تو اپنی چپ سے ملول نہیں ہوتا ۵۸- اگر ہنسے تو اس کی آواز بلند نہیں ہوتی ۵۹- اگر اس پر بغاوت کی جائے تو وہ صبر کرتا ہے یہاں تک کہ خداہی اس کا انتقام  لے لیتا ہے ۶۰- اس کا نفس اپنی روش سے تنگ ہوتا ہے لیکن لوگ اس سے راحت میں ہوتے ہیں ۶۱-وہ آخرت کی خاطر ہی اپنے نفس کو تنگی میں رکھتا ہے اور لوگوں کو راحت دیتا ہے ۶۲-اس کی کسی سے دوری زہد کی بنا پر ہوگی ۶۳-اور اس کا کسی سے قرب رحمت ونرمی کی بنا پر ہوگی ۶۴-اس کی کسی سے دوری تکبر و بڑائی کی بدولت نہیں ہوتی ۶۵- اس کاکسی سے قرب ہونا مکرو فریب کے پیش نظر نہیں ہوا کرتا –
پس آپ کا بیان اس مقام تک پہنچا ہی تھا کہ ہمام نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور اسی میں اس کی روح پر وازکر گئی  حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرمانے لگے بخدا میں ایسی بات سے ڈرتا  تھا پھر فرمایا مواعظہ بالغہ اپنے اہل پر یہی اثر رکھتے ہیں ایک شخص نے وہیں سوال کر دیا کہ یا امیرالمومنین پھر آپ پر ان چیزوں کا اثر کیوں  نہیں ہوتا ؟ آپ نے فرمایا تیرے اوپر وائے ہو موت کے لئے ایک وقت ہوتا ہے کہ اس سے تجاوزنہیں کیا جا سکتا اور ہر شئے کے لئے سبب ہوتا ہے کہ اس سےعلیحدہ نہیں ہوسکتا خبردار ایسی بات نہ کہنا کیونکہ تیری زبان پر شیطان بول رہا ہے۔
متقی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ باوجود یکہ وہ اعمال صالحہ کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ خوفزدہ رہتا ہے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام علی زین العابدین دوران حج سواری پر سوار ہوکر مشغول تلبیہ تھے کہ بے ہوش ہوکر زمیں پر گر پڑے جب افاقہ ہوا  آپ سے سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ تصور آگیا کہ  لبیک کہتے ہوئے کہیں مجھے  لا لبیک ولاسعدیک نہ کہا جائے۔
اندازہ فرمائیے – حضرت امیرالمومنین کی عبادت کی حد کیا بیان کی جائے جس کے ہاتھ کی ایک ادنی ید اللہیٰ جنبش اوپر سے نیچے  کی طرف  ہوئی جس میں شاید ایک سیکند کا وقت خرچ ہوا ہو وہ قیامت تک کے جنوں اور انسانوں کی عبادت سے بڑھ گئی اور اس کے علاوہ دیگر شب وروز کے اعمال کا بھی پھر جائزہ لیجئے  اور ان تمام باتو ں کے با وجود شب تاریک میں گھر سے نکل پڑتے ہیں اور جنگل کا رخ کر لیتے ہیں اور ریش مبارک کو ہاتھ میں پکڑ کر فرماتے ہیں آہ من قلۃ الزادوبعد الطریق ہائے زادراہ کم اور راستہ لمبا ہے۔
بہائی نے کامل میں اور نیز صاحب استیعاب نے بھی ذکرکیا ہے ضرار جب معاویہ کے ہاں وارد ہوا تو معاویہ نے اس سے خواہش ظاہرکی کہ میرے سامنے کچھ علی کی تعریف کیجئے ضرارنے کہا پھر اگر میں علی کے متعلق کہہ دوں تو برا نہ منانا اور معاف کرنا معاویہ نے کہا  میری طرف سے معافی ہے بلکہ تجھے سوگند ہے کہ جس قدر علی کی تعریف تجھ سے ممکن ہے اس میں کمی نہ کرنا، ضرار نے کہا کہ پس اب مجھ پر واجب ہو گیا ہے کہ کچھ کہوں پس شروع ہوگیا کہ وہ وہ شخص تھا جس کے ارادے بلند، قوت مضبوط تھی، اس کی بات ایک ہوتی، اس کا فیصلہ عادلانہ ہوتا تھا، اس کے پہلووَں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے،اس  کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا، وہ دنیا اور اس کی بہاروں سے  غیرمانوس تھے اور بجائے اس کے رات اور اس کی تاریکی سے ان کو انس تھا، وہ گہری سوچ بچار کے مالک تھے، خوف خدا میں ان کے آنسو نہیں رکتے تھے، کبھی اپنے نفس سے خطاب فرماتے اور کبھی خدا سے مناجات کرتے تھے، سخت لباس ان کو پسند تھا اور خشک روٹی کے دلدادہ تھے، خدا کی قسم انہوں نے ہم میں عام زندگی بسر کی تھی جب ہم ان کے پاس آتے تھے تو وہ ہمیں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے اور جب ہم ان کے پاس آتے تھے تو وہ ہمیں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے اور جب ہم ان کو دعوت دیتے تھے تو وہ بھی  ہمارے ہاں بنفس نفیس تشریف لانے سے گریز نہ فرماتے تھے اور باوجود ہم سے ا س قدر قریب ہونے کے ان کی جلالت قدروہیبت کی وجہ سے ہم  میں جرات نہ ہو سکتی تھی کہ ان سے آزاد بات کر سکیں، وہ جب مسکراتے تھے تو ان کے دہان اقدس سے موتیوں کی بارش ہوتی معلوم ہوتی تھی، وہ دیندار لوگوں کوشرف  قرب بخشے اورمسکین آدمیوں کو نوازتے تھے، کوئی طاقتور غلط طریق سے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور  کوئی کمزور ان کے عدل سے مایوس نہیں ہوتا تھا اور خد ا کی قسم میں نے بعض حالات میں ان کو دیکھا ہے:
قد ارخی اللیل سدولہ وغارت بخومہ وھو قائم فی محرابہ قابض علے لحیتہ وھو یتململ السلیم و یبکی بکاء الوالہ الحزین فکانی الان اسمعہ وھو یقول فی بکائہ یادنیا الیک عنی ابی تعرضت ام الی تشوقت لا حان حینک ھیھات ھیھات حری غیری لا حا جۃ لی فیک و قد طلقتک ثلاثا لا رجعۃ لی فیک فعیشک قصیر و خطرک یسیرو املک حقیر آہ آہ من قلتہ الزاد و طول الطریق و بعد السفر و عظیم المورد و خشونۃ المضجع۔
کہ رات اپنے پردے ڈال چکی ہے ستارے محو خاموشی ہیں اور آپ ) یعنی حضرت علی (محراب عبادت میں اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اس طرح روتے ہیں جس طرح کو ئی غم کا مارا رویا کرتا ہے گویا اب بھی آپ کے پردہ کلمات میرے کا نوں میں گونج رہے ہیں کہ وہ اپنے گریہ میں کہتے ہیں اے دنیا دفع ہو جا کیاتجھے مجھ سے مطلب ہے یا تجھے میری شوق ہے وہ وقت خدا کرے نہ آئے اور یقینا نہ آئے گا میرے علاوہ کسی اورکو دھوکا دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے میں تجھے تین طلاقوں سے آزاد کر چکا کہ مجھے تجھ میں رجوع کا حق بھی نہیں رہا تیری زندگی تھوڑی تیری بڑی نعمت بھی معمولی اور تیری امیدیں حقیر ہیں ہائے ہائے زاد کم اورراستہ لمبا اور سفر دور اور جائے ورود بہت بڑی اور سونے کی جگہ بہت سخت ہے۔
معاویہ نے جب یہ کلمات سنے تو اس کے چہرے پر آنسووں کی ایک تار بندھ گئی اور حاضرین مجلس بھی رو دیئے معاویہ نے کہا  واللہ کان ابوالحسن کذلک خدا کی قسم ابو الحسن یعنی علی ایسا ہی تھا لیکن میں حکم دیتا ہوں کہ میرے اصحاب میرے بعد ایسی باتیں نہ کریں رات کا وقت ہے سب آدمی سو رہے ہیں مگر حضرت امیر خوف خدا سے مضطرب ہیں،  ہم آپ کی توجہ ایک اور مقام کی طرف منعطف کرانا چاہتے ہیں جو عامہ خلق کے لیے مقام اضطراب ہے  فرشتے کہہ رہے ہیں  تھدمت واللہ ارکان الھدی  خدا کی قسم دین کے ستون گر گئے  مگر علی کو کوئی اضطراب نہیں انیسویں ماہ رمضان کی صبح سجدے سے سر اٹھا تے ہیں اوپر تلوار زہر آلود کاوار پڑتا ہے اور ابرو پرجا کروہ وار رکتا ہے مگر اس نازک اورخوفناک حالت میں علی نہایت اطمینان سے فرماتے ہیں فرت برب الکعبۃ  کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوا اس کانا م ہے تسلیم و رضاواستقلال، موقع ہے کہ ہم  ایک نفس مطمئنہ راضیہ کے کلمات تسلیم و رضا مختلف مقامات سے آپ کے سامنے پیش کریں۔

روانگی  ازمدینہ

سید الشہداء وداع  قبر رسول کے لئے جاتے ہیں چند رکعات نماز پڑھی اور دست مناجات بلند کئے  ترجمہ: اے اللہ یہ تیرے نبی کی قبر ہے اور میں تیرے نبی کی شہزادی کافرزند ہو ں  اور میرے سامنے جو معاملہ درپیش ہے اسے تو خوب جانتا ہےمیں معروف کو محبوب رکھتا ہوں اور منکر سے نفرت کرتا ہو ں اے جلال و اکرام کے مالک میں اس قبر اور صاحب قبر کے واسطے سےسوال کرتا ہوں کہ تو مجھے ایسے امر کی توفیق مرحمت فرما جس میں تیری اور تیرے رسول کی خوشنودی ہو۔

روانگی مکہ معظمہ

اور یہ وہ مقام ہے جس کے متعلق ارشاد قدرت ہے  و من دخلہ کان امنا اس میں جو داخل ہو گا باامن رہے گا لوگ عرفات کا احرام باندھ رہے ہیں مگر حضرت احرام سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور ان الفاظ میں اپنی روانگی کا اعلان فرماتے ہیں  بسم اللہ الرحمن الرحیم  الحمداللہ ماشاء اللہ ولا قوۃ الا با اللہ صلی اللہ علی رسولہ اما بعد  ترجمہ: بنی آدم کیلئے  موت کو گلے کا ہار بنا دیا گیا  ہے ، مجھے اپنے اسلاف کی خدمت میں پہنچنے کا ایسا ہی اشتیاق ہے  جس طرح حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کی طرف تھا میرے لیے دائمی خواب گا ہ جس کی تجویز کی جاچکی ہے میں نے وہاں ضرور پہنچنا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے اعضاء کونانے کی امت کے انسان نما جنگلی خونخوار درندے صحرائے کربلا میں ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور میرے خون سے اپنی ہوس کی خالی اوجھڑیوں اور انتڑیوں کو پر کر رہے ہیں مجھے اس دن سےچھٹکارا نہیں جو قلم قضا سے میرے لئے مقدر کیاگیا ہے، ہم اہل بیت اللہ کی رضا پر راضی اور اس کی آزمائش پر صابر ہیں خدا ہمیں صابرین کا پورا اجر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا جو شخص ہماری محبت میں اپنی جانیں پیش کرنے والا ہو اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو تو وہ ہمارے ساتھ چلے میں انشاء اللہ کل صبح یہاں سے چلا جاوں گا  حضرت سید الشہداعلیہ السلا م کے ان فقرات میں ا س ظاہری زندگی سے ناامیدی کا اظہار بھی ہے اور جو انمردی اور ثبات قدم سے موت کی طرف اقدام کی جرات کا اظہار بھی اس میں غیب کی خبر بھی ہے اورامر خدا وندی کی تسلیم اور قضائے خالق پر رضا مندی کا اعلان بھی ہے۔
 حضرت سیدالشہدا علیہ السلام کا یہ فقرہ کہ میرے اعضاء کو  جنگلی خونخوار درندے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اس میں کئی چیزوں کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے:
1                   ممکن ہے اس جگہ اعضاء کے ٹکٰڑے ٹکڑےہونے سے مراد اولاد و برادران اصحاب کی شہادت آپ مراد لے رہے ہوں۔
2                    یہ بھی ممکن ہےکہ اپنے اعضا ء کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی طرف اشارہ ہو کہ میرے ہاتھ میری انگلی میری رگ ہائے گردن اور باقی اعضاء کو قطع کر ڈالیں گے۔
3                    شاید اس فقرہ میں آپ لاشوں کی پامالی کی طرف اشارہ فرما رہے ہوں۔
ملہوف سے مروی ہے کہ عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس دونوں حضرت کے پاس آئے اور دو نوں نے حضرت کو اپنے ارادہ سے روکناچاہا تو آپ نے فرمایا مجھے اپنے نانا نےجو حکم دیا ہے میں اسےکر گزروں گا پس ابن عباس  واحسینا کی صدا بلند کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔
اور مدینۃ المعاجز سے مروی ہے کہ ابن عباس نے عورتوں کے ساتھ جانے سے روکا تو آپ نے جواب میں اشارہ فرمایا میں نے خواب میں اپنے ناناجناب رسالتمآب کو دیکھا ہے اور انہوں نے مجھے جو حکم دیا ہے۔ ایک اورروایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اے ابن عم یہ رسول اللہ کی امانتیں ہیں میری نظر میں کوئی ایسا آدمی موجود نہیں جوان کا شایان شان احترام کر سکے اور ساتھ یہ بات بھی ہے کہ وہ میری  جدائی کو بھی برداشت نہیں کر سکتیں اتنے میں ابن عباس نے پس پردہ رونے کی آواز سنی اور صدا آئی اے ابن عباس  کیا تو ہمارے آقا ومولا کو ہمیں ساتھ نہ لے جانے کا مشورہ دے رہا ہے؟ کہ وہ ہم کو چھوڑکر تنہا چلا جائے؟ خدا کی قسم یہ ہرگز نہ ہوگا ہم نے جینا بھی ان کے  ساتھ ہے اور ہم نے مرنا بھی ان کے ہمراہ  ہے کاش  حسرت پوری نہ ہو سکی  کیا زمانہ میں ان کے علاوہ ہمارا کوئی دوسرا سہارہ ہے؟ پس ابن عباس روتا ہوا واپس آیا۔
ملہوف سے منقول ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آپ کو صلح کرنے اور قتل و قتال سے باز رہنے کا مشورہ دیا تو آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ دنیا کی بے قدری کی دلیل ہے کہ حضرت یحیی بن زکریا کا سر ایک بد کردار عورت کو ہدیہ بھیجا گیا تھا اور بنی اسرائیل طلو ع فجر سے طلو ع آفتاب   تک ستر ستر نبیوں کو قتل کرتے تھے اور پھر بازار میں خرید و فروخت میں اس طرح مشغول ہو جاتے تھے جس طرح کہ انہوں نے کچھ کیا بھی  نہیں ہے تاہم فوراً خدا نے ان کو عذاب میں گرفتار  نہیں کیا اور اس کے بعد جب ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا تو اس طرح کہ جس طرح کوئی طاقتور اپنا انتقام لیا کرتا ہے اے ابو عبدالرحمن اللہ سے ڈرو اور میری نصرت سے کنارہ کشی نہ کرو اس کے بعد ابن عمر نے آپ سے خواہش  ظاہر کی کہ آپ مجھے اس جگہ کا بوسہ لینے دیں جہاں رسول اللہ بوسہ لیا کرتے تھے تو آپ نے اپنی قمیض مبارک اپنے بطن مبارک سے اٹھائی اور ابن عمر نے آپ کی ناف مبارک پر تین مرتبہ بوسہ دیا اور بہت رویا اور وداع کرتے ہوئے آپ کو شہادت کی خبر سنا کر چلا گیا۔
نیز ملہوف سے مروی ہے کہ سحر کے وقت حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے تیاری فرمائی جب محمد بن حنفیہ کو یہ خبر پہنچی تو حاضر ہوئے اور آُ کر ناقہ کی مہار کو تھام کر عرض کرنے لگے بھائی جان میں   جو گزارش کی تھی   آپ نے بھی نظر ثانی کو وعدہ فرمایا تھا پھر کیوں اس قدر عجلت فرما رہے ہیں؟ آُپ نے فرمایا تیرے چلے جانے کے بعد مجھے نانا  کی زیارت ہوئی تو انہوں نے فرمایا حسین چلے جاو خدا کو تیری شہادت محبوب ہے محمد بن حنفیہ نے   انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے عرض کی پھر اپنے ساتھ پردہ داروں کو لے جانے کا کیا مقصد ہے؟ منتخب  میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے نانا نے  یہ بھی خبر دی ہے کہ مصلحت ایزدی میں یہی ہے کہ وہ قید و بند کی صعوبتیں دیکھیں اور نیز وہ مجھ  سے جدا ہو نا بھی پسند نہیں کرتیں جب تک میں زندہ ہوں یہ سنتے ہی محمد بن حنفیہ نے بہت سخت گریہ کیا اور آخر کار یہی کلمات عرض کئے حسین ! اللہ کے حوالے۔
حسین کے ثبات و استقلال کو ملاحظہ فرمائیے علاوہ ان اخبار صادقہ کے جو آپ کو اپنے جد بزرگوار سے پہنچی تھیں جو شخص بھی مخالف یا موافق آپ کی خدمت میں پہنچتا  ہے اس کی زبان سے آپ کے قتل کا لفظ ہی نکلتا،  جیسا کہ ابن عمر کے متعلق بھی روایت گوش گزار کی جا چکی ہے لیکن  آپ اپنے عزم کو پورا کرنے میں کسی مصیبت کی پرواہ نہیں فرماتے۔
کتاب ارشاد میں منقول ہے کہ توجہ الحسین مغذا لا یلوی الی شیء حتی نزل ذات عرق حسین نے بہت تیزی سے سفر کیا اور کہیں نہ  رکے یہاں تک  کہ منزل ذات عرق پر نزول اجلال فرمایا گویا مکہ کے بعد آپ کی پہلی منزل ذات عرق تھی اس مقام پر آپ کو ایک خط پہنچا اوروہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار نے لکھ کر اپنے دونوں شہزادوں عون و محمد کو دے کر روانہ کیا تھا جس کا مضمون  یہ تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد میں آپ کو اللہ کاواسطہ دے کرعرض کرتا ہوں کہ آپ جس طرف جارہے ہیں اس میں آپ کی ہلاکت اور اہل بیت کی بربادی کا خطرہ ہے لہذا آپ ذرا صبر فرمائیں یقینا آپ کی موت  سے زمین خدا آپ کے نور سے محروم ہوجائے گی کیونکہ آپ طالبان ہدایت کے لئے علم ہدایت اور ایمان والوں کی امیدوں کا سہارا ہیں پس آپ عجلت سےکام نہ لیں اور میں اس خط کے پیچھے خود بھی حاضر ہو رہا ہوں والسلام۔
 ملہوف و کامل سے مروی ہے کہ عراق سے آتے ہوئے بشر بن غالب آپ کو  ملا اور آپ نے اس سے عراقیوں کی احوال پرسی کی تو اس نے جواب دیا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہوں گی۔
ارشاد میں فرزدق شاعر سے مروی ہے کہ 20 ہجری میں اپنی ماں کو حج کرانے جا رہا تھااور اپنی ماں کی سواری کو ہانک رہا تھا کہ مکہ سے باہر میں نے امام حسین سے ملاقات کی تلواریں  اور ڈھالیں بھی آپ کے ہمراہ تھیں تو میں نے دریافت کیایہ کون لوگ ہیں؟ مجھے جواب دیاگیا کہ یہ حسین بن علی کاقافلہ ہے پس میں نے حاضر خدمت ہو کر سلام عرض کیا اورگزارش کی کہ  خدا آپ کو اپنے مقاصد میں کامیا ب فرمائے اور میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں فرزند رسول آپ حج سے پہلے کیوں کوچ فرما رہے ہیں؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اگر نہ جاوں تو گرفتار کرلیا جاوں گا فرمایا تو کون ہے؟ تو میں نے عرض کی کہ عرب کاباشندہ ہوں خدا کی قسم آپ نے مجھ سے مزید دریافت کرنے کی زحمت نہ فرمائی ہاں اتنا فرمایا کی لوگوں کے نظر یات کس قسم کے ہیں تو میں نے عرض کی حضور دل آپ کےساتھ ہیں اور تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہوں گی قضا کا فیصلہ ہو کر رہتا ہے اور خدا جوچاہتا ہےسو کرتا ہے آپ نے فرمایا تو نے بجا کہا اور اللہ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے جس مقصد کےلیے ہم جارہے ہیں اگر فیصلہ قضا ایسا ہی ہو ا تو اس کی نعمات پرشکرکریں گے اور ادائیگی شکر میں بھی اسی سے ہی مدد درکار ہے اور اگر امیدوں کے آگے قٖضا حائل ہوگئی تو جس کی نیت حق اور باطن تقوی ہو تو ا س کو کیا پرواہ ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں آپ درست فرماتے ہیں  خدا وند کریم آپ کو اپنےمقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور خطرات سےمحفوظ رکھے، اس کے بعد میں نے مناسک حج کے متعلق کچھ مسائل دریافت کئے جن کا آپ نے جواب دیا اوراس کے بعد اپنی سواری کوحرکت دی اورسلام علیک کہہ کر  چلے گئے ہائے میرے مولا  ایسے وقت میں آپ کے قلب مبارک پر مناسک حج ادا نہ کرسکنے کاکتنا صدمہ پہنچا ہوگا؟
جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر پہنچنے کے بعد جو کلمات آپ کی زبان درفشاں سے سرزد ہوئے ملہوف میں ہے کہ آپ نے فرمایا خدا مسلم پر رحم کرے وہ اللہ کی روح و ریحان اور جنت ورضوان میں پہنچ گیا وہ اپنا فریضہ اداکر چکا اور ہم پرباقی ہے۔
 دیکھئے استقلال اور  ثبات قدم کاکس شان سے مظاہرہ فرما رہے ہیں اور سنیئے حضرت عبداللہ بن یقطر کی موت کی خبر پہنچتی ہے تو فرماتے ہیں میرے اللہ ہمارے اور ہمارے شیعوں کےلئے اپنے پاس منزل کریم  قرار دے اور ہمیں اور ہمارے شیعوں کو اپنی رحمت کی قرار گاہ میں جگہ عنایت فرما تحقیق تو ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے یہ ہے وہ استقلال اور تسلیم و رضا کا پیکر جس کی نظیر زمانہ پیش نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سنیئے ۔ خاک و خون میں غلطان ہیں لیکن زبان درفشاں پر یہ کلمات جاری ہیں  چنانچہ ابو مخنف کہتا ہے:
بقی الحسین مکبوبا علی الارض ملطخا بد مہ ثلث ساعات من النھار رامقا بطرفہ الی السماء و ھو یقول صبرا علی قضائک لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین  کہ حسین منہ کے بل زمین پر خون میں غلطان پورے تین گھنٹے دن کے پڑے رہے اور کنارہ چشم سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے عرض کر رہے تھے اے اللہ میں تیری رضاپرراضی ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں اے فریادیو ں کے فریاد رس۔
غالبا حضرت قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ کے الفاظ ہیں لقد عجبت من صبرک ملائکۃالسموات  تحقیق آپ کے صبر کے مظاہرے سے ملائکہ آسمان بھی محو حیرت ہیں ۔ آپ نے تسلیم ورضا کے اس بلند زینے پر قدم رکھا ہے کہ اس کو سوچنے سے عقول دریائے دہشت میں ڈوب جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مدارج تمام سے بلند تر اور ان کی مصیبت تمام سے عظیم تر ہے۔
فوائد المشاہد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت حسین اپنے نانا کی خدمت میں حاضر تھے حضور ناز برداری میں مصروف تھے اور حسین کے ساتھ مسکرا رہے تھے  حضرت عائشہ نےسوال کیا آپ اس بچہ کو بہت زیادہ چاہتے ہیں آپ نے فرمایا کیوں نہ ہو یہ میرے دل کامیوہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ہاں میری امت اس کو بے جرم قتل کرے گی جس نے اس کی وفات کے بعد اس کی زیارت کر لی تو اس کے نامہ اعمال میں میری حجوں میں سے ایک حج لکھی جائے گی حضرت عائشہ نے عرض کی ازراہ تعجب آپ کی حجوں میں سے ایک حج آپ نے فرمایا دو حج پھر اس طرف سے سوال ہوا تو جواب میں آپ اضافہ فرماتے گئے یہاں تک کہ فرمایا میری حجوں میں سے نوے حج اور عمرہ کاثواب اس کے نامہ اعمال میں در ج ہو گا لیکن اس کی وجہ میں آپ کی خدمت میں عرض کروں ۔
امام حسین علیہ السلام بڑے حج گزار تھے آپ نے پچیس حجیں پا پیادہ کی تھیں حالانکہ سواریاں ساتھ ساتھ ہانکی جایا کرتی تھیں اور ا ن حجوں کے علاوہ حسین نے ایک حج وہ کی جو اول سے آخر تک کوئی نہ کر سکا بلکہ ایک نہیں پانچ حجیں کیں جواپنے اپنے مقام پر بے نظیر تھیں:
1                   پہلی حج حسین کی مدینہ منورہ کو خیر باد کہہ کر رحلت کر کے مکہ معظمہ کی طرف تشریف آوری ۔
2                   دوسری حج مکہ سے ظاہری حج کے احرام سے سبکدوش ہو کر روانگی اور کربلا تک سفر
3                    تیسری حج یارو انصار کی شہادت کے بعدخیام سے پردہ داروں اور بچوں کیساتھ وداع کر کے روانگی بسوئے مقتل گاہ۔
4                   چوتھی حج شہادت کے بعد نوک نیزہ پرسواری کر کے مقتل گاہ سے روانگی بسوئے کوفہ ۔
5                   پانچویں حج نوک نیزہ پر سوار ہو کر کوفہ سے شام تک کا سفر
 اور ان ہر پانچ مرحلوں میں آپ نے تسلیم و رضا کے جو نمونے پیش فرمائے وہ صرف آپ ہی کا کمال تھا، آپ کی تیسری حج جوخیام سے مقتل گاہ تک آپ نےانجام دی ہے اس میں آپ کااحرام بھی ایک عجیب قسم کا تھا خیام میں تشریف لاتے ہیں اوراپنی ماں جائی سے خطاب کرکے فرماتے ہیں ایتینی بثوب عتیق لا یرغب فیہ احد لئلا اجرد مجھے ایک پرانا لباس لادیجیے جس کی طرف رغبت کرنے والا کوئی نہ ہو میں اس کو اپنے لباس کے نیچے پہن لوں تاکہ میری لاش کو عریاں نہ کیاجائے۔ آپ نے وہ لباس منگوایا اور روایات میں ہے فخرقہ و مرقہ کہ آپ نے ا س کو اور بھی پھاڑ دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ پس جب وہ پھٹا ہوا لباس پہن کر روانہ ہوئے تو پردہ داروں اور بچوں سے وداع کر کے اس طرح روانہ ہوئے جس طرح واپس نہ آنے والا انسان وداع کرکے جاتا ہے اور فرمایا  اللہ خلیفتی علیکم آپ کا خدا نگہبان ہو گا ۔
حسین نے دنیا کی ہر شئے کوا لوداع کہہ دیا اور وہ صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر:
پہلے پہل ا پنے نانا کے حرم کو الوداع کہا،پھر اللہ کے حرم کو الوداع کہاجو ہر چیز کےلئے باعث امن قرار دیا گیا تھا،پھر کربلا پہنچ کر اپنے خیام اور مال و متاع کو الوداع کیا،اصحا ب و اقرباء اور اولاد کو الوداع کیا،تنہا میدان میں پہنچے تو تلوار کو الوداع کیا،پھر گھوڑے کوالوداع کرکے رخصت کر دیا،اور اس کے بعد زینت کی کون سی چیز ہے جس سے حسین نے الوداع نہ کیا ہو ہاں آپ نے ایک انگوٹھی پہنی تھی وہ بھی اتار دی صرف انگوٹھی نہیں بلکہ انگوٹھی کے ساتھ انگلی بھی دےدی بدن کے کپڑے بھی دے دئیے وہ پرانی قمیض جو آخری وقت پہن کر آئے تھے وہ تو زخمی بدن پر رہ جاتی۔
البتہ حسین نے اس لباس کے بدلہ میں دو لباس پہن لئے تھے ایک صحرائے کربلا کی اڑتی ہوئی گرم خاک کالباس اور دوسرا سر سے پاوں تک خون سرخ کا رنگین لباس حتی کہ محشر میں انہی دو لباسوں کے ساتھ آئیں گے ارشاد ہوگا اے فاطمہ آپ جنت میں داخل ہوجائیں تو عرض کریں گی لا ادخل حتی اعلم ما صنع بولدی میں جنت میں داخل نہ ہوں گی جب تک معلوم نہ کرلوں کہ میرے فرزند کے ساتھ کون سا برتاو کیاگیا ہے پس ارشاد ہوگا اے فاطمہ انظری الی قلب المحشر  آپ محشر کے وسط کی طرف نگاہ کریں جب دیکھیں گی تو کیا ہوگا  فاذا لحسین قائم بلا راس و اوداجہ تشخص دما فاذا راتہ صرخت صرخۃ پس دیکھیں گی کہ حسین کے بدن پرسر موجود نہیں اور رگ ہائے گردن سے تازہ خون بہہ رہا ہے پس یہ حالت دیکھ کر ایک چیخ ماریں گی اور اپنے آپ کوناقہ سے گرا دیں گی  پس رسالتمآب بھی ان کے گریہ سے متاثر ہوکر آہ وبکا کریں گےاور ملائکہ میں ماتم بپا ہوگا پھر حسین کی وہی خون آلودہ قمیض ہاتھوں پر اٹھا کر عرض کریں گی الہی ھذا قمیص ولدی  میرے اللہ یہ میرے فرزند حسین کی قمیض ہے آپ سمجھے کہ جناب زہرا میدان محشر میں حسین کی قمیض کو کیوں پیش کریں گی؟  غالبا وجہ یہ ہے کہ قمیض پر تیروں کے بے شمار زخم ہوں گے اور خاتون اپنے بیٹے کی مظلومی کی گواہی کےطور پر ا س کو پیش کریں گی یا اس لئے کہ حسرت ظاہر کرتی ہوں گی کہ کاش یہ پرانی قمیض تو میرے فرزند کے بدن سے جدا نہ کی جاتی۔ بعض ذاکرین و واعظین بیان کرتے ہیں کہ عالیہ  بی بی کے پاس اس وقت حضرت علی کاخون آلود عمامہ حضرت حسن مجتبیٰ کی زہر آلود قمیض اور حضرت عباس کے بازو بھی ہوں گے نیز گود میں حضرت محسن کی لاش بھی ہوگی جب آپ بارگاہ پروردگار میں مقدمہ پیش کریں گی تو ان چیزوں کو بطور گواہ پیش کریں گی پس عرصہ محشر میں کہرام ماتم بپا ہوگا اور آخر میں حضرت امام حسین کے رونے والے شیعان علی کے حق میں شفاعت کریں گی جو مقبول ہوگی
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

ایک تبصرہ شائع کریں