التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تیرہویں مجلس -- کونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم کونو امع الصادقین
ہم نے گذشتہ سال کی مجالس میں بیان کیاتھا کہ صادقین کےساتھ ہونےکا کیا مطلب ہے اب ہم بتائیں گے کہ صادقین کون ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کا امر کیوں ہے حق کی ترجمانی کا نام صدق کے مصداق کا نام حق ہے شہر بن حو شب سےمروی ہے کہ میں ام المومنین جنا ب ام سلمہ کے پاس موجود تھا جب کہ ایک شخص نے اند ر آنے کی اجازت چاہی تو ام سلمہ نے پوچھا تو کون ہے جواب دیا میں غلام علی ابو ثابت ہوں ام سلمہ نے آنے کی اجازت دی  پھر پوچھا اے ابو ثابت جب لوگوں کے حواس باختہ ہوگئے تھے اور دل ٹھکانے نہ رہے تو تیرا دل کہاں تھا اس نے جواب دیا علی کے پیچھے تھا توام سلمہ نے کہا کہ توفیق تیرے شامل حال رہی میں نے بخد ا جناب رسالت مآب سے سناہے فرماتے تھے علی مع الحق والقرآن والحق والقرآن مع علی ولن یفتر قاحتی یروا علی الحوض وفی روایتہ الحق مع علی حیث داد علی حق اور قرآن کے ساتھ ہے اور حق و قرآن علی کے ساتھ ہیں یہ آپس میں جدا نہ ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پردارد ہو ں گے اور دوسر ی روایت میں ہے کہ حق علی کےساتھ ہے علی کا رخ جس طرف ہو حموینی موفق بن احمد مطالب السئول ترمذی وغیرہ
جنگ جمل کے روز محمد بن ابی بکر نے اپنی بہن عائشہ کو سلام کہا توا س نےجواب دیا محمد نےکہا میں کلمہ توحید کےبعد تجھ سے سچ پوچھتا ہوں کیا تجھ سے میں نے یہ نہیں سنا تھا کہ علی کی اطاعت کولازم رکھنا کیونکہ میں نے رسول اللہ سے سناہے الحق مع علی مع الحق لا یفترقان حتی یروا علی الحوض قالت بلی قد سمعت ذالک منہ حق علی کےساتھ اورعلی حق کے ساتھ ہے آپس سےجدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ کوثر پر پہنچیں گے تو عائشہ نےجواب دیا بیشک میں یہ بات حضور سے سنی تھی مناقب ابن شہرآشوب
قرآن مجید میں حق کا اطلاق بہت سے مقامات پر ہوا ہے بروایت ابو ہریرہ  جابر بن عبداللہ کہتاہے ہم جناب رسالت مآب کے ہمراہ بیت اللہ میں داخل ہوئے وہاں 320 بت تھے جو حضور کے حکم سے منہ کے بل گرادئیے گئے اور بیت اللہ پر ایک بڑا بت تھا جسے پہل کہتے تھے حضور نےعلی کو دیکھ کر فرمایا یا علی تو میرے اوپر سوار ہوگا یا میں تجھ پر سوار ہوں تاکہ کعبہ کی پشت سے اس بت کو گرایا جائے حضرت علی نے عرض کی حضور آپ مجھ پر سوار ہوں جب حضرت علی بیٹھے اور جناب رسالت مآب سوار ہوئے توعلی میں رسالت کے بوجھ کی قوت برداشت نہ تھی اور عرض کی کہ آپ جھکیں اور میں سوار ہوتا ہوں تو حضور ہنس پڑے اور کندھا جھکا دیا پس علی سوار ہوئے اور فرمایا دانہ چیرنے اورروح پیدا کرنے والے کی قسم اگر چاہوں تو آسمان کو پکڑ سکتا ہوں پس ہبل کوپشت کعبہ سے نیچے گرایا تو یہ آیت نازل ہوئی جای الحق وذھق الباطل ان الباطل کان زھوقا مطالب السئول
مدینہ کا حاکم محمد بن حرب ہلالی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی یا بن رسول اللہ میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو تیر ے پوچھنے سے قبل میں تجھے اپنا مسئلہ بتا دوں اور نہیں تو تو خود پوچھ لے میں نے عرض کی فرزند رسول آپ دل کی باتیں کیے جان لیتے ہیں فرمایا تو سم اور تفرس سے کہ خدا فرماتا ہے ان فی ذالک لآیات للمتوسمین کہ تم سم کرنےوالوں کےلیے اس میں نشانیاں ہیں اور جناب رسالت مآب نے فرمایا مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے پس میں نے عرض کی حضور مجھے اپنا مسئلہ بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو یہی پوچھنا چاہتا ہے کہ پشت کعبہ سے بت شکنی کے لئے علی جناب رسول خدا کو کیو ں نہ اٹھا سکے تھے باوجود اس قدر قوت و طاقت کےکہ خیبر کے باب قموص کو اکھاڑ پھینکا جو چالیس گز دور جا پڑا اور پھر چالیس آدمی نہ اٹھا سکے حالانکہ جب رسول خدا گھوڑے خچر گدھے اور براق پرشب معراج سوار ہوئے اور یہ سب علی سے طاقت و قوت میں کمزور تھے میں نے عرض کی فرزند رسول بخدا پوچھنا تویہی چاہتا تھا پس آپ اسکا جواب مرحمت فرمائیں پس آپ نے فرمایا علی نےجو شرف اور بلند ی حاصل کی وہ بوجہ رسول تھی اور رسول کے واسطہ سے ہی علی آتش شرک کے بجھانے اور ہر باطل خدا کے مٹانے پر کامیاب ہوئے اگررسول علی پر سوار ہوکر یہ کام انجام دیتے توگویا رسول علی کے وسیلہ وواسطہ سے بلند ہوجاتے اور رسول فرع ہوجاتے پس علی کورسول سے افضل ماننا پڑتا ۔
دیکھئے علی رسول کے دوش پرسوار ہو کر فخریہ کہہ رہے تھے کہ مجھے شرافت مل گئی اور میں بلند ہو گیا اور چاہوں تو آسمان کو ہاتھ لگاوں تم دیکھتے نہیں کہ چراغ سے اندھیرے میں راہ معلوم کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی فرع ایک اصل کی وجہ سے ہوتی ہے تم جانتے نہیں کہ محمد وعلی خدا کے سامنے باقی مخلوق کی پیدائش سے دو ہزار برس  قبل تھے اور جب ملائکہ نے دیکھا کہ اس نور کی ایک اصل ہے جس سے کئی شعائیں پھوٹتی ہیں تو کہنے لگے اےمعبود و مولا یہ نور کیا ہے تو خدا نے ان کو  وحی کی یہ نور میرے نور سے ہے جس کی اصل نبوت ہے اور فرع امامت ہے نبوت میرے عبد محمد کےلئے جومیرا عبدورسول ہےاور امامت میرے عبد علی کے لئے جو میری حجت اور ولی ہے اگر یہ دونو نہ ہوتے تو میں مخلوق کو پیدا نہ کرتا کیاتم دیکھتے نہیں کہ بروز عذیر خم حضرت رسول خدا نے علی کوا تنا بلند کیا کہ دونو کی بغل کی سفیدیاں ظاہر ہو گئیں پس علی کو تمام مسلمانوں کو ولی وامام قرار دیا نیز آپ نے حدیقہ بنی النجار سےاما م حسن وامام حسین  کو اٹھایا تھا ور فرمایا تھا کہ دو اٹھا نے والے بھی خوب ہیں اور دوراکب بھی خوب ہیں اور ان دونو کا باپ ان سے افضل ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جناب رسالت مآب نے اما م حسن کو اور حضرت جبریل نے امام حسین کو اٹھایا تھا اسی لئے آپ نے فرمایا کہ وہ اٹھانے والے خوب ہیں
ایک دن حضور مسجد پاک میں صحابہ کونماز پڑھا رہے تھے کہ ایک سجدہ کو طول دیا جب دریافت کیا گیا کہ حضور نے سجدہ طولانی کیوں کیا ہے تو فرمایا کہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہو گیا تھا پس میں نے ناپسند کیا سر اٹھانا جب تک کہ خود نہ اتر جائے یہ سب کچھ ان کی رفعت شان اور شرافت کی خاطرتھا کہ حضور کی وجہ سے یہی یہ سب کچھ ہوا پس نبی رسول بھی نبی بھی اور امام بھی ہے اور علی امام ہے نہ رسول ہے نہ بنی لہذا وہ ثقل رسالت کو برداشت نہ کرسکے محمد بن حرب ہلالی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی حضور کچھ اور بھی وضاحت فرمائیے آپ نے فرمایا بے شک تومزید سننےکے اہل ہے اور فرمایا کہ حضور نے حضرت علی کو اپنے دوش اطہر پرسوار کیاتھا اور یہ اشارہ تھا اس  امر کی طرف کہ حضرت علی ان کی ذریت کے باپ اوران کی صلب میں سے ہونے والے آئمہ کےامام ہیں جس طرح نماز استغاثہ کے بعد آپ نے اپنی ردا مبارک کو الٹا کردیا تاکہ صحابہ اور قوم یہ تصور کرلیں کہ قحط سالی کو خوشحالی سے تبدیل کردیا گیا ۔
میں نے عرض کی کچھ اور بھی فرمائیں تو آپ نے فرمایا ۔
ایک وجہ یہ ہے کہ قوم کوبتلانا چاہتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو میری گردن کے بوجھ کو ہلکا کرے گا مثلا دشمنوں کی دشمنی اور تکلیفوں کا بوجھ وغیرہ میں نے عرض کی کچھ اور بھی ارشاد ہو تو فرمایا ایک وجہ یہ بھی ہےکہ علی کو دوش مبارک پراٹھانے سے معلوم ہوجائے کہ علی معصوم ہے تاکہ ان کے افعال لوگوں کے نزدیک درست قرار فرمائیں پھرآپ نے اس کو ذرا اور وضاحت سے بیان کیا محمد بن حرب کہتا ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا اے میرا اگر علی کے دوش نبی پر سوار ہونے کے جملہ وجوہ میں تیرے سامنے بیا ن کروں تو تم کہوگے کہ یہ دیوانہ ہے پس اسی کو کافی سمجھو پس میں اٹھ کھڑا ہوا او ر سر مبارک کو بوسہ دیا اورعرض کی اللہ یعلم حیث یجعل رسالت غایتہ الحرام مصنعہ سید ہاشم بحرینی نقلا عن ابن بابویہ۔
حضرت صادق سے منقول ہےکہ علی نے فرمایا میں وہ حق ہوں جس کا خدا نے حکم دیا ہے فما ذا بعد الحق الا الضلا ل مراۃ الا نوار
حضرت علی سے مروی ہے کہ آیتہ بخوی کے اترنے کے بعد میں نے دس مرتبہ جناب رسالت مآب سے صیغہ راز میں گفتگو کی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ میں نے دریافت کیا ماالحق حق کیا ہے آپ نے فرمایا اسلام قرآن اورولایت جب تجھ تک پہنچ جائے کتاب حافظ ابو بعیم تفسیر مدارک ۔
یرید اللہ ان یحق الحق بکلماتہ کلمات سے مراد آئمہ ہیں چنانچہ درمنثور میں فتلقی آدم کی تفسیر مرقوم ہے حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے مدینہ سے روانگی کے وقت ایک وصیت نامہ تحریرفرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وصیت ہے حسین بن علی کی طرف سے اپنے بھائی محمد بن حنیفہ کے لئے حسین شہادت دیتا ہے کہ خدا کے  سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ واحد ہےجس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد مصطفی اس کا عبد و رسول ہے جو حق لے کر حق کی طرف سے آیا جنت و نار حق ہے قیامت کےآنے میں کوئی شک نہیں اور خدا اٹھائے گا تمام کو جو دفن کئے جاچکے ہیں میں کسی اور اچھے برے یا فساد ظلم کے نظریہ کے ماتحت نہیں جا رہا بلکہ اپنے نانا کی امت میں اصلاح کے خیال سے ترک وطن کر رہا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چاہتا ہوں اور یہ کہ اپنے باپ اور نانا کی سیرت پر عمل پیرا ہوں جو قبول حق کرے گا تو اللہ حق کا زیادہ سزاوار ہے اور جو رد کریگا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ خدا میرے او رقوم کے درمیان حق کا فیصلہ کرے گا اور بہترین حکم کرنے والا ہے اے بھائی یہ میری وصیت ہے اور میری توفیق اللہ سے ہے اوراسی پر توکل ہے اور اسی کی طرف باز گشت ہے حضورنے کوفہ والوں کو ایک خط لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم حسین بن علی کا خط جملہ مومنین و مسلمین کی طرف امابعد ہانی اور سعید تمہارے خطوط لے کر پہنچے اوریہ تمہارے آخری خطوط ہیں میں نےتمہارے تمام خطوط کا مطلب سمجھا اوراکثر کا مطلب یہ ہے کہ ہمار امام کوئی نہیں ہے آپ جلد تشریف لائیں تاکہ شاید ہم حق پر جمع ہوجائیں اور میں تمہاری جانب اپنے موثق بھائی اپنے اہل بیت میں سے مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں اگر اس اس نے مجھے لکھا کہ تمہارے ارباب بست و کشاد اورصاحبان عقل و دانش کی رائے تمہارے خطوط و پیغامات کے مضمون سے متفق ہے تو میں فورا پہنچ جاوں گا امام وہی ہو سکتا ہے جو کتاب اللہ سے حکم کرنے والا ہو اور انصاف پرقائم دین حق پر عامل اور اپنے نفس کوا ن چیزوں کا پابند کرنے والا ہو والسلام
جب آپ مکہ سے روانہ ہوئے تو راستہ میں عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی اس نے پوچھا اے فرزند رسول میں قربان جاوں کہاں کا ارادہ ہے ہاں اہل کوفہ سے بچنا و ہ غدار ہیں جیسا کہ آپ کےوالد اور بھائی سے ان کا برتاو ظاہر ہے پس آپ حرم میں رہیں آپ عرب کےسردار ہیں اورکوئی بھی آپ کی ہمسری نہیں کرسکتا ہرجانب سے لوگ آپ کے پاس پہنچ جائیں گے بخدا اگر بنی امیہ نے آپ کو قتل کردیا تو پھر وہ کسی سے نہ ڈر یں گے اور وہ تشریف مردوں کو اپنا غلام بنالیں گے آپ نے یہ سب کچھ سن کر فرمایا کیا موت سے ڈر کر ایسا کروں خدا کی قسم الموت علی الحق اولی من الحیوۃ علی الباطل حق کی موت باطل کی زندگی سے بہتر ہے واللہ لجھاد یذید علی الذین احق من جھاد المشرکین خدا کی قسم دین کی حفاظت کے لئے یزید سے جہاد کرنا مشرکین کے جہسد سےزیادہ ضروری ہے ۔
جب لشکر حرسے ملاقات ہوئی تو بوقت عصر کی اذان واقامت ہوئی امام نے آگے کھڑے ہو کر نمازپڑھائی سلام کے بعد حمد و ثنائے پروردگار کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا لوگو اگر تم اللہ سے خوف کرو اورحق اور اہل حق کو پہنچا نو تواللہ تم سے راضی ہوگا ہم اہل بیت محمد ان ظلم و عدوان کرنے والے ناحق مدعیان حکومت سے ولایت کے زیادہ سزاوار ہیں اور اگر تم ہمارے حق کا انکار کرو اور ہمیں ناپسند کرواور تمہار ی رائے اپنے خطوط و پیغامات کے خلاف قائم ہوچکی ہو توواپس جاتاہوں۔
حراپنے لشکر سمیت امام کے ہمراہ سفر کر رہاتھا کہ حرنے عرض کی اے فرزند رسول میں تجھے اپنی ذات کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر آپ لڑیں گے تو مارے جا ئینگے آپ نے فرمایا کیا تو مجھے موت سے ڈراتا ہے کیا مجھے قتل کر کے تم مصیبت سے بچ جاو گے میں تو وہی بات کہتا ہوں جوایک اوسی نے اپنے چچا زاد کو کہی تھی جب کہ نصرت رسول کے لئے وہ تیار تھا اور اس کو اپنے چچا زاد نے کہا تھا کہ کیوں جاتے ہو وہاں مارے جاوگے تواس نےاس کے جواب میں کہا تھا
سامضی وما بالموت عاد علی الفتی      میں جاو نگ اور موت جو انمردی کے لئے عارنہیں جب کہ نیت حق ہواور مسلمان ہوکر جہاد کرےاور نیک لوگوں کی جان سے ہمدردی کرے
اذا مانوی حقا وجاھد مسلما قدواسی الرجال الصالحین نبفسہ وفاروق میثورا وباعد مجرما فان  عشت لم اندم وان مت لم الم کفی بک ذلاان تعیش وترغما     اور غلط کار اور مجرم لوگوں سے کنارہ کش ہو ا گر زندہ رہوں گا تو پیشمان نہ ہوں گا اور اگر مرجاوں گا تو علامت نہ کیا جاوں گا انسان کی پست ہمتی کے لئے یہ کافی ہے کہ ذلیل زندگی بسر کرے
راستہ میں امام عالی مقام نے خواب سے بیدار ہو کر اپنے اہل  بیت کو اپنا خواب بیان کیا جس میں موت کی بشارت تھی تو آپ کے جوان شہزادے حضرت علی اکبر نے دریافت کیا یا ابت لا ارک اللہ سوئ الستاعلی الحق بابا جان خدا آپ کوئی غم نہ دکھائے کیاہم حق پرنہیں تو فرمایا بلی والذین الیہ مرجع العباد ہاں ضرور ہم حق پرہیں قسم اس ذات کی جسکی طرف بندوں کی باز گشت ہے تو شہادت نے سن کر عرض کی فائنا اذا الا بنالی ان نموت محقین کہ ہمیں موت کی پھر کوئی پرواہ نہیں جب کہ ہم حق پر ہوں جب حرکے لشکر نے راستہ روک لیا تو آپ نے ایک خطبہ میں حمد و ثنا ئے پروردگار کے بعد اپنے جد پاک پردرودبھیجا اور فرمایا وہ بات جو تمہاری سامنے ہےہے اس کا نتیجہ ظاہر ہے دنیا میں تغیر آچکا ہے اور وہ بدل گئی ہے اس سے نیکی منہ موڑ چکی ہے اوراس میں اس قدرباقی ہےجس طرح پانی پلٹنے کے بعد برتن میں کچھ رہ جاتا ہے اور ذلیل زندگی مثل بد ہضم گھاس کے ہوتی ہے تم دیکھنے ہو کہ حق پرعمل نہیں کیا جاتا اور باطل سے کوئی رکتا نہیں تاکہ مومن حق کی طرف ہوکر اپنے رب سے ملاقات کرے میں موت کوسعادت سمجھتاہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا برا جانتا ہوں پس زہیرین قین نے کھڑے ہو کر عرض کی اے فرزند رسول ہم نے آپ کا فرمان سن لیا اگردنیا غیر فانی ہوتی اور ہمیں موت سے چھٹکار ا بھی ملتا ہم تب بھی دنیا وی زندگی سے آپ کی معیت میں مرمٹنے کو ترجیح دیتے پھر نافع بن ہلال بجلی نے اٹھ کر عرض کی اے فرزند رسو ل خدا کی قسم ہم پروردگار کی ملاقات کو ناپسند نہیں کرتے اور ہم اپنی نیتوں اور بصیرتوں پر ثابت ہیں تم تیرے دوست کے دوست اور تیرے دشمن کے دشمن ہیں پھر بریرین خضیر ہمدانی اٹھا اورعرض کی بخدا اے فرزند رسول تیری بدولت ہم پر اللہ کا احسان ہے کہ تیرے سامنےلڑیں اور ہمارےاعضا ٹکڑے ٹکڑے ہوں پھر بروز محشر تیرا نانا ہمار ا شفیع ہو پس آپ نے فرمایا خدا تمہیں جزائے خیر دے ۔
ہاں آپ نے حق کی طرف بلایا اور پوری طرح اتمام حجت کی طلب نصرت کیلئے استغفاثہ فرمایا آو ہم بھی آپ کی آواز پر صدائے لبیک بلند کریں اور اپنی جان کا فدیہ دیں اور آپ پرروئیں ان کے غم میں حضرت رسالت مآب روچکے ہیں اور ان کے لئے طلب نصرت کر چکے ہیں چنانچہ فرمایا تھا میرا یہ فرزند بے ناصر قتل کیا جائے گااے اللہ اس کوا پنے مقتول ہونے میں برکت دے اور س کو شہیدوں کی سرداری عطا فرما اور اس کی مدد سے منہ موڑنے والوں اور قاتلوں سے برکت سلب کرراوی کہتا ہے کہ مسجد میں گریہ و بکا کا شور بلند ہوا توآپ نے فرمایا ہیہات تم لوگ روتے تو ہولیکن مدد نہ کرو گے اے اللہ توہی اسکا ولی و ناصرین
جب آپ حسین کے جسمکے مختلف اعضا کو بوسہ دیتے تھے تو روتے تھے جب پوچھا جاتا تھا تو فرماتے تھے اقبل موضع السیوف منک وابکی بیٹا میں تیرے جسم سےتلواروں کی جگہوں کو بوسہ دیتا ہوں اورروتا ہوں ابن عباس سے منقول ہے کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے میں حضرت علی کے ہمرکاب تھاجب آپ کا گزر نینوی پر جو کہ شط فرات ہے ہو ا تو اترے اور بآواز بلند کہا اے ابن عباس تو اس جگہ کو پہچانتا ہے میں نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا اگر تو اس جگہ کوا س طرح پہچانتا جس طرح میں پہچانتا ہوں تو میری طرح بغیر گریہ کئے آگے نہ جاتا پھر بہت دیر تک روتے رہے یہاں تک کہ ریش اقدس آنسووں سے تر ہوگئی اور سینہ مبارک پر آنسو ٹپکنے لگے اور ہم بھی روئے آپ بار بار فرماتے تھےہائے ہائے میرا  آل سفیان سے کیا واسطہ میرے ساتھ آل حرب کوکیا ہوگیا ہے جو شیطان کی جماعت اور کفر کے ہمنوا ہیں ہاں اے فرزند اے ابو عبداللہ صبر کرنا تیرے باپ پر بھی مصائب گزرے جو تجھ پرآرہے ہیں پھر وضو کیا اور بہت دیر تک نماز میں رہے پھر پہلے جیسی تقریر فرمائی مگر نماز کے اختتام اور اس تقریرکے بعد تھوڑا سا سو گئے  جب بیدار ہوئے تو فرمایا ابن عباس کہاں ہے میں نے عرض کی قبلہ میں حاضر ہوں فرمایا میں تجھے بتاوں کہ میں نے ابھی خواب میں کیادیکھاہےتو میں نے عرض کی آپ نےعالم خواب میں کوئی خیر دیکھی ہے فرمایا ابن عباس میں نےدیکھا ہے کہ جانب آسمان سےسفید جھنڈوں کے ساتھ کئی لوگ اترتے ہیں جنہوں نے گلے میں چمکدار تلواریں لٹکائی ہیں اور اس زمین کے اردگرد انہون نے ایک خط کھینچا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کھجورں کی شاخیں زمین پر آگئی ہیں اور سرخ خون میں تیرتی ہیں پھر میں نے اپنے فرزند لخت جگر حسین کو دیکھا کہ اس میں غرق ہیں اور آواز استغاثہ بلند کرتے ہیں لیکن کوئی فریاد رسی کرنے والا نہیں اور گویا نورانی چہروں والے کئی جوان جانب آسمان سے اترے ہیں اور کہتے ہیں اے آل رسول صبر کرو کہ تم بد ترین لوگوں کے ہاتھوں قتل کئے جاو گے اور اے حسین جنت تیری مشتاق ہے اور وہ مجھے پرسا دیتے ہیں اورکہتے ہیں اے ابو الحسن خدا تیری اس دن آنکھ ٹھنڈی کرے گا جس روز پروردگار کے سامنے پیشی ہوگی وربعینہ اسی طرح بخدا مجھے رسول صادق نے خبردی تھی کہ میں باغیوں سے لڑنے کے لئے اسی زمین یعنی کرب وبلا سے گزر ونگا یہ زمین وار آسمان میں معروف  ہے جس طرح حرمین کی زمین اور بیت المقدس کی زمین پھر آپ بہت دیر تک روتے رہے اور ہم بھی روتے رہے یہاں تک کہ آپ منہ کے بل غش کھا کر گئے بے شک اس مظلوم کواس کی مادر طاہرہ ہر روز گریہ کرتی ہے اور حضرت سجاد اپنے بابا کے ماتم میں چالیس سال تک گریہ کرتے رہے حالانکہ دن کو روزہ اوررات کو عبادت میں گزارتے تھے بےشک رونے والوں میں سے جناب زینب بھی بہت روئیں بعداز قتل و اسیری اہل بیت جب لا شہائے شہدا پر پہنچی تو بھا ئی کی لاش کی طرف غمزدہ حالت غبار آلود چہرہ بھوکی پیاسی محزو ں و مکروب روتی ہوئی آئیں اور بوسہ دینے کا ارادہ کیا اور ایک بین کیا خاک عالم بسرم کا زوم شمشیر و سنان جائے یک بوسہ من درہمہ اعضائے تو نیست وامحمد اہ صلی علیک ملیک السمائ وھذا حسین مرمل بالدمائ مقطع الاعضا ئ فابکت واللہ کل عدوو صدیق ہائے نانا تجھ پر خدا کا درودوسلام ہویہ دیکھ کر حسین خاک وخون میں غلطاں ہے جس کے اعضا قطع کئے گئے راوی کہتا ہے خداکی قسم اس مخدومہ کے اس بین سے دوست و دشمن رو پڑے اہل حرم میں اگر کسی کو ہوش آتا تو جناب زینب کی صدائے گریہ اس کے کانوں میں گونجتی تھی پس روتے تھے انا للہ وانا الیہ راجعون اقوک لاشہ ہائے شہدا سے اسیران اہلبیت کاوداع بہت پردرد تھا ہائے جس بہن نے بھائی کو نانا کی پشت سینہ اور دوش پرسوار دیکھا کبھی بتول معظمہ کی گود کی زینت اور کسی وقت پرجبریل پرمقام رکھتا ہو آج اسی بھائی کو خدا جانے کس طرح دیکھ کر برداشت کیا ہو گا کہ ریگزار کربلا میں بے گوروکفن سو رہے ہیں گرم ریت اڑ اڑ کر زخموں پر پڑ رہی ہے پھر ظلم بالائے ظلم گھوڑوں کے دوڑ جانے کے بعد لاشو ں کی جو حالت ہوئی جیسا کہ روایا ت میں ہے رضو اصدرہ بظھرۃ یہی کہا عمر نحن رضضفا الصدر بعد الظہر کہ ہم نے امام مظلوم کے سینے اور پشت کی ہڈیوں کی کچل ڈالا ہے یہی وجہ ہے کہ بابا کی لاش کو حضرت سجاد دیکھ کر غش کر گئے اور جناب زینب عالیہ نے تسکین و تسلی دیکر اٹھایا اس کے بعد بی بی عالیہ چونکہ ایک وقت تک سربراہ امامت تھیں اس لئے اپنے گریہ کو ضبط کر لیتی تھیں تاکہ چھوٹے بچوں اور بیواوں کے غم و اندوہ میں ان کی تسکین دے سکیں اور غالبااسی عظمت کا مظاہرہ ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے بھائی کی لاش کو دیکھ کر پورے صبرو سکون اور اطمینان قلب سے اپنے جگر کو قابو کر کے بارگاہ ربوبیت میں اپنی قربانی کی قبولیت کے لئے دعا کی اللھم تقبل منا ھذا القربان اوکما فالت  اے پروردگار ہماری یہ  قربانی قبول فرما ۔
میں بالعموم مجالس میں یہ بات کہا کرتا ہوں کہ لوگ شیعوں کے رونے پر تعجب کرتے ہیں حالانکہ جب شیعہ خوش ہوں تو لوگوں کوان کی خوشیوں پر تعجب کرنا چاہیے اور ایک روایت میں معصوم نے فرمایا کہ مسلمانوں نے ہمارے لئے کوئی عید نہیں رہنے دی اسی طرح سادات کے ماتم پر تعجب نہیں کرنا چاہیے بلکہ تعجب توا س بات پر ہونا چاہیے کہ اس قدر مصائب کے پہاڑ سروں سے گزارنے کےبعد یہ قوم زندہ کیوں ہے میں نفسیاتی پہلوسے یہ بات کیا کرتا ہوں کہ اگر کسی غیرت مند شریف اور باعزت نوجوان کے سامنے دشمن کے بھرے مجمع میں اس کی ماں بہن کے سروں سے چادریں چھن جائیں تو ایسی حالت میں اس نوجوان کے رونے پر تعجب نہیں کیونکہ اس کے بس میں ہو تو دیواروں سے ٹکڑا کر مرجائے اور یقین جانئے کہ مردوں کے قتل ہو جانے سے ناموس کا درد زیادہ ہوتا ہے اور سجاد ایسا غیور کجا اور پھوپھیوں ماوں اور بہنوں کا سر پر ہنہ حالت میں بازاروں درباروں میں جاناکجااسی طرح شریف زادیاں کجا اور فاسقوں اور فاجروں کے درباروں میں پیش ہونا کجا اور یہی وجہ ہے کہ مدینہ میں جب حضرت سجاد سے مصائب کی زیادتی اور گریہ کی فراوانی کا مقام پوچھا جاتا تو بقول مشہور وہ کربلا کےبجا ئے شام کانام لیتے تھے حالانکہ دل و ہلا دینے والے اور عرش کوہلا دینے والے روح فرسا مصائب کا طوفان بے پایاں کربلا میں تھا اسی بنا ئ پر ایک معصومہ نے فرمایا کہ جب ہم پرمصائب لگا تار آنا شروع ہوئے تو ہر بعد میں آنے والی مصیبت کودیکھ کرہمیں پہلی مصیبت بھول جایا کرتی تھی اورجناب زینب عالیہ کالقب ام المصائب بھی اسی بی بی کا ہی کام تھا جبھی تو کہنے والے کہتے ہیں کہ حسین نے اپنے خون سے اسلام کو زندہ کیا تو زینب خاتون نے اپنے عزم و ثبات قدمی سےجو رواستبداد کےطوفانوں کا رخ موڑ کر حسین کو زندہ کر دیا اور قیامت شریف زادیوں کے پردہ و ناموس کی بقا جناب زینب خاتون کی مرہون منت ہے حسینیت زندہ باد ۔

ایک تبصرہ شائع کریں