التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تئیسویں مجلس -- یا ایھا الذین امنو ا اتقو اللہ وکونو ا مع الصادقین


یا ایھا الذین امنو ا اتقو اللہ وکونو ا مع الصادقین
علی قرآن کےساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے حضرت علی کا فرمان ہے انا کلام اللہ الناطق یعنی میں اللہ کا کلام ناطق ہوں ارشاد خدا وندی ہے قد جائکم من اللہ نور وکتاب مبین دوسری جگہ فرماتا ہے فامنو ا باللہ ورسول والنور  الذی انزلنا ابن عباس سے مروی ہے کہ اس آیت مجیدہ میں نورسے مراد ولایت علی بن ابیطالب ہے ابو جعفر محمد بن جریر طبری چنانچہ اطلاقات قرآنیہ  ملاحظہ فرمائیے جن میں ولایت کو نعمت کہا گیا ہے لتسلن نومیذ عن النعیم حافظ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ یہاں نعیم سے مراد ولایت امیر المومنین ہے اور بحا ر الانواورجلد 7 میں ہے حضرت علی نے فرمایا نحن النعیم یعنی وہ نعمتیں ہم ہے  یعرفون نعمتہ اللہ ثم ینکوونھا یعنی لوگ اللہ کی نعمتوں کو پہچان کر اس کا انکار کرتے ہیں بحارالانوار جلد 7 میں ہے نعمت سے مراد آئمہ  میں حضرت رسالت مآب نے ارشاد فرمایا خدا نے میرے بھائی علی کواس قدر فضائل عطا فرمائیے ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا اور بروایت ابن عباس حضور سے مروی ہے لو ان الغیاض اقلام والبحر مداووالجن حساب والانس کتاب ما احصو ا فضا ئل علی بن ابی طالب علیہ السلام یعنی اگر تمام درخت قلمیں ہوں سمندر سیاہی ہوں جن حساب کرنے والے ہوں اورانسان لکھنے والے ہوں تب بھی علی  بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل کا احاطہ نہ کرسکیں گے مناقب خوارزمی
ارشاد خدا وندی ہے ان تعدو انعمتہ اللہ لا تحصرھا اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہ کر سکو گے قل لو کان البحومد اد الکممت ربی لنفدالبحر قبل ان تنفد کلمت ربی ولو جئنا بمثلیہ مددا کہہ دیجئے اگر سمندر سیاہی بن جائیں کلمات رب کے لئے تو سمندر ختم ہوجائیں گے قبل اس کے کہ کلمات پروردگار ختم ہوں اگرچہ ان کے ساتھ اتنے اور بھی ملا دیں دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے  ولو ان مافی الارض من شجرۃ اقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعتہ ابحرما نفدت کلمت اللہ یعنی روئے زمین کے تمام درخت اگر قلمیں ہو جائیں اور سمندر کے ساتھ سات سمندر اور بھی بطور سیاہی جمع کر دئیے جائیں تو پھر بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے جبھی تو فرمایا ان تعدوانعمتہ اللہ لا تحصو ھا ان الانسان لظلوم کفار  ارشاد خداوندی ہے اما بنعمتہ ربک فحدث بحار الانوار جلد 9 میں تفسیر و کیع سے منقول ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد لوگوں میں حضرت ابو طالب کے احسانات کا تذکرہ کیجئے اس کتاب اللہ میں حضرت علی کے جو فضائل ہیں بیان کیجئے تاکہ ان کی ولایت کا اعتقادہ رکھیں بنا بریں مناقب ابن مغازلی میں حضرت عائشہ سےمنقول ہے رینوا مجالسکم بذکر علی بن ابیطالب یعنی وہ فرمایا کرتی تھیں کہ اپنی مجلسوں کو علی کےذکرسے زینت دیا کرو خدا فرماتاہے الم تر الی الذین بدلو انعمتہ اللہ کفر ا واحلو ا قومھم دار البوار کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں جااتارا تفسیر عیاشی میں حضر ت امیر  علیہ السلام سے منقول ہے کہ وہ نعمت خدا ہم ہیں تفسیر درمنثور سورہ ابراہیم میں ابن ابی الحاتم سے مروی ہے کہ حضرت عمرنے دعا مانگی اے اللہ میرے ظلم اور کفر معاف کر دے تو سائل نے دریافت کیا یہ کون ساظلم اور کفر ہے جس کی معافی چاہتے ہوتو حضرت عمر نے جواب دیا خدا جو فرماتا ہے ان الانسان لظلوم کفار
مقدار بن اسود کندی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسالت مآب امام حسن و امام حسین کی تلاش میں نکلے میں ساتھ تھا دیکھا کہ ایک بڑا اژدہا سامنے بیٹھا تھا جب اس نے حضور کی آواز کو محسوس کیا تو سیدھا ہو گیا میں نے دیکھا کہ وہ بہت موٹا اور قد میں کھجور سے بھی بلند تھا اور اس کے منہ سے آگ نکل رہی تھی پس حضور کو دیکھتے ہی تا گے کی طرح باریک ہو گیا حضور نے مجھے خطاب کر کے فرمایا کہ تجھے معلوم ہےاس نے مجھے کیا کہا ہے تو میں نے عرض کی خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے پس آپ نے فرمایا یہ اژد ہا اللہ کا شکر کر رہا ہے کہ اس نے مجھے اس وقت تک موت نہیں دی جب تک کہ مجھے اولاد نبی کا نگہبان نہیں بنا لیا پس وہ اژد ہا زمین میں غائب ہو گیا میں نے ایک درخت کو دیکھا جو نہ اس وقت سے پہلے دیکھا تھا اورنہ بعد میں دیکھا ہے وہ درخت ان پر سایہ کئے ہوئے تھا پس رسالت مآب بیٹھ گئے حسن کا سر اپنے دائیں زانو پررکھا اور حسین کا سر اٹھا کرا پنے پا ئیں زانو پر رکھا پھر جھک کر حسین کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کی تو حسین ایک مرتبہ بیدار ہو کر پھر سو گئے اسی طرح حسن ایک مرتبہ بیدار ہو کر  سو گئے اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ مومنین کے دلوں میں حسین کی معرفت موجود ہوتی ہے تو بھی اللہ سے اسی کا سوال کر پھر جب شاہزادے بیدار ہوئے تو حضور نے ان کے اپنے کندھوں پرسوار کیا اور واپس تشریف لائے خصائص ہائے کس طرح اس شہزادے نے روضہ رسول کو ہمیشہ کے لئے وداع کیا ہو گا جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو مسلمان جنوں کی فوجیں حاضر ہوئیں اور عرض کی اے آقا ہم آپ کے شیعہ  ہیں آپ ہمیں حکم دیں تاکہ آپ کے تمام دشٍمنوں کو ختم کر دیں اور آپ کو اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی ضرورت بھی  نہ ہو حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان کو چار جواب دئیے کہ کیا تم نے کتاب خدا نہیں پڑھی کہ تم اگر چہ پختہ مکانات میں بھی ہو گئے اورجہاں بھی ہو گئے تمہیں موت پا لے گی اور نیز فرمایا کہ جن لوگوں پر قتل ہونا حتمی ہے وہ ضرور اپنی خواب گاہوں کی طرف جائیں گے اگر میں یہاں ٹھہر جاوں توا س مخلوق کا امتحان کیسے ہو گا اگر میں نہ جاوں تو کربلا میں میری  قبر کا ساکن کون ہو گا جو وحوالارض کے دن سے میرے لئے مخصوص ہے اور ہمارے شیعوں کے لئے جائے پناہ اور دنیا و آخرت میں ان کے لئے دارالامان ہو گا ہاں عاشور کے دن آنا جس کے آخر میں میں قتل کیا جاوں گا اور اس وقت میر ے اہل بیت اور برادری سےکوئی بھی  نہ بچے گا  اورمیرا سر یزید بن معاویہ کی طرف بھیجا جائے گا اس وقت جنوں نے عرض کی اے آقا اے حبیب خدا اور حبیب خدا کے فرزند اگر آپ کے امر کی اطاعت واجب نہ ہوتی تو ہم آپ کے سب دشمنوں کو تباہ کر دیتے اور آپ کو ذرہ بھر تکلیف نہ ہوتی تو امام نے فرمایا خدا کی قسم ان کے ہلاک کرنے رہیں تم سے زیادہ قادر ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ امتحان تمام ہو اور جو شخص ابدی زندگی چاہے توسوچ سمجھ کر اورجو ہلاک ہو وہ بھی جان بوجھ کر آپ مکہ میں پہنچے اوریہ وہ مقام ہے جس کے متعلق  ارشاد ہے من دخلہ کان امنا پس احرام حج کو عمرہ مفروہ سے تبدیل فرمایا اور مکہ امن کی بجائے مقام خوف بن گیا صواعق میں ہے کہ جب محمد بن حنیفہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے سامنے ایک  طشت رکھا ہوا تھا آپ وضو فرما رہے تھے آپ اس قدر روئے کہ برتن آنسو سے پر ہو گیا ملہوف میں ہے۔ آپ نے سحر کے وقت وہاں سے کوچ فرمایا تو محمد بن حنیفہ حاضر ہوئے آپ کی سواری کی مہار تھا م کر عرض کی آقا پھر اس قدر تعمیل کیوں فرما رہے ہیں تو فرمایا مجھے ڈر پیدا ہوا ہے کہ یزید بن معاویہ دھوکے سے مجھے یہاں قتل نہ کر دے مبادا میری وجہ سے بیت اللہ کی حرمت ختم ہو جائے نیز تمہارے جانے کے بعد جنا ب رسالت مآب کی مجھے زیارت ہوئی اور انہوں نے مجھے جانے کا حکم دیا ہے کیونکہ خدا نے میرے لئے شرف شہادت وہاں مقرر فرمایا ہے تو محمد بن حنیفہ نے عرض کی پھر ایسی حالت میں آپ پردہ داروں کو کیوں ساتھ لے جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا مجھے نانا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کے قید ہونے ہیں مصلحت خدا وندی ہے اور نیز وہ بھی مجھ سے جدائی کو پسند نہیں کرتیں جب تک میں زندہ ہوں پس محمد بن حنیفہ رو رو کر نہایت کبیدہ خاطر رخصت ہوئے بہر کیف امام نے 8 یا 9 ذوالحجہ کو وہاں سے روانگی فرمائی اور جانے سے پہلے خون کی قربانی دے سکے اوراللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہوں تو وہ بےشک ہمارے ساتھ جا سکتا ہے ہم سویرے  جارہے ہیں اس خطبہ میں آپ نے اپنی شجاعت ثبات قدمی اور تسلیم امر خدا کا اظہار  فرمایا نیز آپ نے غیب کی خبر دی جو بالکل حرف بحرف درست ثابت ہوئی اور امر بالمعروف کا فریضہ بھی ادا فرمایا اور ان سب واقعات پر صبر و ثبات اور عزم و استقلال کا مظاہرہ بھی فرمایا پس آپ نے وہاں سے کوچ فرمایا اور نہایت تیزی سے سفر کیا اور متواترچلتے رہے یہاں تک کہ منزل ذات عرق پر نزول اجلال فرمایا تو بشر بن ٖغالب کئے تو اس نے جواب دیا کہ واقعی لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں آپ نے فرمایا یا اس اسدی نے سچ کہاہے اور اللہ وہی  کرے گا جو چاہے گا
فرزوق شاعر کہتا ہے کہ 20 میں میں نے اپنی ماں کو حج کرانے کے لئے جا رہا تھا جب حرم میں داخل ہوا تو امام حسین بمعہ اپنے قافلہ کے مکہ سے آرہے تھے میں نے کسی سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت حسین ہیں تو میں نے جاکر سلام کیا اور عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو کیوں جلدی کر رہے ہیں اور حج بھی ادا نہیں کی تو فرمایا اگر میں جلدی نہ کروں  تو گرفتار ہو جاوں گا آپ نے پوچھا تو کون ہے تو میں نے جواب دیاکہ ایک عربی ہوں پس اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ پوچھا صرف یہ کہا کہ لوگوں کے حالات کیاہیں تو میں نے عرض کی دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں میں نے مسائل حج دریافت کئے اور آپ نے وہ سمجھائے پھرا ٓگے روانہ ہو گئے راستہ میں حضرت مسلم ہانی اور عبدا للہ بن یقطر کی موت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا حضرت مسلم خد ا کی رضا کی طر ف منتقل ہو گئے اور جوان پر فرض تھا انہوں نے ادا کر دیاہے اورجو ہم پر ہے وہ  باقی ہے پھراپنے ساتھیوں کو حقیقت حال سے دی اور فرمایا تم میں سے جو شخص جانا چاہے میری طر ف سے اجازت ہے پھر اس وقت بہت سے لوگ ساتھ چھوڑکر چلے گئے اور وہی بچے جو خالص تھے آپ نے ی اشعار زبان پا ک پر جاری فرمائیے فان تکن الدنیا تعد نفیستہ فدار ثواب اللہ اعلی وانبل وان تکن الابد ان للموت انشات فقتل امرا بالشیف فی اللہ وان تکن الارزاق قسما مقدر ا فقلتہ حرص المرائ فی التسعی اجمل وان تکن الاموال للترک جمعھا فما بال متروک بہ المرائ ینجل  افضل اگرچہ دنیا نفیس چیز شمار ہوتی ہے لیکن اللہ کا بدلے کا گھر اعلی اور زیادہ قیمتی ہے اور اگر بدن موت کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں تو انسان کا اللہ کی راہ میں تلوار سے قتل ہو نا افضل ہے اور  اگر رزق مقرر شدہ او ر تقسیم شدہ ہیں تو کوشش میں حرص تھوڑا کرنا ہی زیادہ خوب ہے اور اگر اموال کا جمع  کرنا چھوڑ جانے کےلئے ہے تو جس چیز کو چھوڑ جانا ہواس پر انسان کے بخل کرنے کا کیا مطلب ہے
حسین کیا کہنا آپ کے استقلال کا جب روز عاشور اصحاب وا قربا کی شہادت کے بعد میدان میں تشریف لےگئے اور گھوڑے سے گرے بقی الحسین مکبوبا علی الارض ملطحا بدمہ ثلث ساعات اپنے خون میں غلطان تین گھنٹے دھوپ میں منہ کے بل زمین پر رہے رامقا بطرفہ الی السمائ آنکھ آسمان کی طرف تھی اور عرض کر رہے تھے اے اللہ میں تیری قضا پر صابر ہوں تو تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور فرما رہے تھے
ترکت الخلق طرافی ھوا کا وایتمت العیال کے اراکا فلو قطعتنی بالحب اربا لما جن الفواد الی سواکا میں نے تیری محبت میں تمام مخلوق کو چھوڑ دیا ہے اور تیری ملاقات کیلئے اپنے بچوں کی یتیمی کا بار اٹھایا ہے اگر تیری محبت میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاوں  تب بھی دل تیرے غیر کی طرف نہ جھکے گا
بے شک حسین تو نے صبر کا وہ مظاہرہ فرمایا لقد عجبت من صبرک ملائکتہ السموات تحقیق تیرے صبر کو دیکھ کر آسمان کے فرشتے بھی محو حیرت ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا امام حسین علیہ السلام کے آخری وقت کو دیکھ کر ملائکہ نے روتے ہوئے بارگاہ پرور دگار میں فریاد کی کہ یہ حسین تیر ا برگز تیرے برگزیدہ ولی اور نبی کا فرزند ہے تو خدا نے حضرت قائم آل محمد کی نورانی تصویر کو ان کےسامنے کیا اور فرمایا میں اس کے ذریعے سے اس کے قاتلوں سے انتقام لو نگا امالی طوسی انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

ایک تبصرہ شائع کریں