التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سترہویں مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم          یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو امع الصادقین
پچھلی مجلس میں یہ بتایا گیاہےکہ حضرت علی کے ساتھ ہونےکا مطلب وہی ہے جو رسول کے ساتھ ہونے کاہےکیونکہ قرآن جس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور خداوند عالم نے باربار چیلنج کیاکہ  اگر تمہیں اس کےکلام اللہ ہونے میں کچھ شک ہے توتم بھی اس جیسی کوئی کتاب لاو یا ایک سورہ ہی لاو اور باوجود فصاحت و بلاغت پر ناز کرنے کے قرآن کے مقابلہ کی جرات نہ کرنا انکا عملی اعتراف تھاکہ یہ کلام کلام بشر نہیں بلکہ کلام خدا ہے اسی کلام مقدس میں جناب علی کو نفس رسول کہا گیا جیسا کہ آیت مباہلہ میں انفسنا اس امر کاشاہد بین ہے پس علی کی اطاعت رسول کی اطاعت ثابت ہوئی جب کہ جناب رسالت مآب نے جناب علی کو جامع کمالات ابنیا فرمایا چنانچہ ارشاد ہے من ارادا ان ینظر الی ادم فی علمہ والی نوح فی عذمہ والی ابراھیم فی حلمہ والی موسی فی ھیبتہ والی عیسی فی زھدہ فلینظر الی علی بن ابی طالب جو چاہےکہ آدم کواپنے علم میں اور نوح کواپنے عزم میں اورابراہیم کواپنے حلم میں اورموسی کواپنی ہیبت میں اورعیسی کواپنے زہد میں دیکھوں تو علی بن ابی طالب کی طرف دیکھے۔
اے احمد بن حنبل ابو نعیم درفضائل صحابہ بیہقی ابن مغارلی فردوس الاخبار خصائص نطزی مناقب اخطب خوارزم مطالب السئول الریاض النفرہ مودۃ القربی ہدایتہ السعدائ الفصول المہمہ قرۃ العین شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی یہ حدیث منقول ہے۔
جابر سے منقول ہے کہ جناب رسالت مآب نے ارشاد فرمایا ۔
من ارادان ینطرالی اسرافیل فی ھیبتہ والی میکائیل فی رتبتہ والی جبرائیل فی جلالتہ والی آدم فی علمہ والی نوح فی حسنہ و الی ابراھیم فی خلتہ والی یعقوب فی حلمہ والی یوسف فی جمالہ والی موسی فی مناجاتہ والی ایوب فی صبرہ والی یحمی فی ذھدہ و الی عیسی فی سنتہ والی یونس فی ورعہ والی محمد فی حسنبہ و خلقہ فلینظر الی علی فان فیہ تسعین خصلتہ من خصال الانبئا ئ جمع اللہ فیہ ولم یجمع فی احد غیرہ وعد جمیع ذلک فی جواھر الاخیار مورۃ القربی
جو چاہے کہ اسرافیل کواپنی ہیبت میں دیکھوں اور میکائیل کواپنے رتبہ میں اور جبرئیل کواپنے جلال میں اور آدم کوا پنے علم اور نوح کو اپنے حسن میں اور ابراہیم کو اپنی خلت میں اور یعقوب کو اپنے حوصلے میں اور یوسف کوا پنے جمال میں اور موسی کواپنی مناجات میں اورایوب کواپنے صبر میںاوریحیی کو اپنے زہد میں اور عیسی کوا پنے طریقہ میں اور یونس کواپنے تقوی میں اور محمد کواپنے حسب و خلق میں تو وہ علی کو دیکھے کیونکہ اس میں انبیا کے کمالات میں سے نوے کمال ہیں جو خدا نے ا س میں جمع  کئے ہیں کہ اس کے غیر میں وہ جمع نہیں کئے اور جواہر البیان میں ان تمام کو شمار کیاگیا ہے۔
حضرت علی کی فوج کے علمبردار حارث اعور سے منقول ہے کہ ہم نے سنا ہے ایک مرتبہ حضرت رسالت مآب مجمع اصحاب میں تشریف فرما تھے اور فرمایا کہ اریکم ادم فی علمہ ونوحا فی فھمہ وعیسی فی حکمتہ یعنی میں تم کوایک شخص دکھاتا ہوں جوعلم میں آدم فہم میں نوح اور حکمت میں عیسی ہو تو اتنے میں حضرت علی بھی تشریف لے آئے حضرت  ابو بکر نے عرض کی حضور آپ نے ایک ہی شخص کو تین رسولوں کے برابر قرار دے دیا واہ کیا کہنے اس شخص کےجس کی شخصیت اس قدر عظیم ہو ذرا فرمائیے تو سہی کہ وہ کون ہےآپ نے فرمایا کیا تو اس کو نہیں پہچانتا عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے تو آپ نے فرمایا وہ ابو الحسن علی ابن ابی طالب ہے یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر نے حضرت علی کو مخاطب کرکے کہا بخ بخ لک یا ابا الحسن من مثلک یا ابا الحسن مبارک مبارک اے ابوالحسن اور تجھ جیسا کون ہو سکتا ہے اےابو الحسن کتاب المناقب اخطب خوارزم توضیح الدلائل شہاب الدین احمد
یدل بمعنی واحد کل فاخر      وقد جمع الرحمن فیک المعالیا
ہر صاحب فخر کی ایک صفت سے پہچان ہوتی ہے لیکن تجھ میں تو خدا نے تمام کمالات جمع فرمادئیے
حسن یوسف دم عیسی ید بیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضر ت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا کہ خدا وند کریم نے میرے بھائی علی کو اس قدر فضائل عطا فرما ئے ہیں کہ وہ  شمار نہیں کئے جاسکتے پس جو شخص اس کےفضائل میں سے ایک فضیلت کا ذکر کرے خدا وند کریم اس کے تمام سابق و لاحق گناہ بخش دے گا اور جو شخص حضرت علی کے فضائل میں سےایک فضیلت کو سنے تو اس کے کانوں کے گناہ معاف ہوں گے اور جوشخص حضرت علی کے فضائل میں سے ایک فضیلت کی طرف نظر کر ے تو اس کی آنکھوں کے گناہ معاف ہوںگے پھر فرمایا علی کی طرف دیکھنا عبادت ہےاور اس کا ذکر عبادت ہے خداکسی عبد کے ایمان کو قبول نہیں فرماتا جب تک کہ اس میں ولا  علی نہ ہوا ور اس کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو ابن عباس سے منقول ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا اگر تمام درخت  قلمیں تمام سمندر سیاہی تمام جن حساب کرنےوالے اور تمام انسان لکھنے والے ہو جائیں توعلی بن ابی طالب کے فضائل ختم نہ ہو سکیں گے مناقب خوارزمی
برا ہو حسد کا جب دیکھا کہ حضرت علی کے متعلق اس قسم کے فضائل منسوب ہیں تو ان کے منہ میں بھی پانی بھر آیا پس حدیثیں بنانا شروع  کر دیں چنانچہ حضرت  علی کی اخوت والی حدیث کے مقابلہ میں حدیث گھڑدی کہ حضور نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو فلاں بڑے میاں کو بناتا  اسی طرح سد ابواب والی حدیث بھی ان کے لئے وضع کرلی حتی کہ کاٖغذ و قلم دوات والی حدیث بھی ان کے حق میں لکھ ڈالی کہ آپ نے فرمایا میں بڑے میاں کےلئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم میں اختلاف کا دروازہ بند ہوجائے رسول کی اتباع کرنے والوں کے خدا وند کریم نے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں فرمایا والذین معہ وہ لوگ جو رسول کےساتھ ہیں یعنی ان کے اطاعت گذار ہیں انکی علامتیں یہ ہیں اشد اعلی الکفار وہ کافروں پر بہت سخت ہیں اب ذرا جائزہ لیجئے جنگ احد کا نقشہ پیش کرتے ہوئے طبری اپنی تاریخ میں رقم طراز ہے فانحازابو بکر الی اجمتہ فاستتربھا ثم ھزم اللہ المشرکین کہ حضرت ابو بکر کچھ جھاڑیوں کی طرف چلے گئے اور وہاں چھپے رہے یہاں تک کہ خدا نے مشرکین کو پسپا کردیا اس پہلی وصف میں پہلے بزرگوار کی حالت معلوم ہوگئی اب دوسری وصف میں ایک دوسرے صاحب کو ملاحظہ فرمائیے رحما ئ بینھم کہ وہ آپس میں رحیم ہیں اور حسن سلوک کے حامل ہیں ابن ابی الحدید نہج البلاغتہ کے خطبہ شقشقیہ کی شرح میں لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ چند عورتیں حضرت رسالت مآب کی خدمت میں حاضر تھیں اور ان کی آواز  قدرے بلند ہوئی تو حضرت عمر آگئے جو نہی انہوں نے دیکھا بھاگ کھڑی ہوئیں تو انہوں نے کہاکیا تم مجھ سے ڈرتی ہواور رسول خدا سے نہیں ڈرتیں وہ کہنے لگیں ہاں بےشک ایسا ہی ہے کیونکہ تواٖغلظ ہے۔
تاریخ خمیس میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر آرہے تھے ان کے ہاتھ میں درہ تھا تو سعد بن ابی وقاص ان کی تعظیم کےلئے کھڑا نہ ہوا پس اس کے سرپر درہ مارنا شروع کیااور فرمایا کہ اگر تیرے دل میں خلافت کارعب نہیں تو میں تجھے بتانا چاہتاہوں کہ خلافت تجھ سے مرعو ب نہیں ہے اسی طرح ایک دفعہ ابی ابن کعب کسی طرف جارہا تھا اور اس کی قوم اس کے پیچھے تھی تو اس کو بھی درے مارے شرح ابن ابی الحدید میں ہے کہ حضرت عمر نے درہ کو سب سے پہلے حضرت ابو بکرکی بہن ام فروہ بنت ابی قحافہ پراستعمال کیا جب ابو بکر کی وفات ہوئی تو عورتیں رو رہی تھیں اور ام فروہ بھی ان میں شامل تھی تو حضرت عمر نے ان کو کئی مرتبہ رونے سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئیں پس ام فروہ کوعلیحدہ کر کے اس پر جب درہ رسید کیا تو عورتیں بھا گ گئیں اور یہ مثل مشہور تھی کہ حجاج بن یوسف کی تلوار سے حضرت عمر کا درہ زیادہ خوفناک تھا ہاں بے شک اسی کی ہمت سے حضرت ابو بکر کی خلافت پروان چڑھی اور سقیقہ میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ تاریخ میں موجود ہے اورحضرت علی کے گھر میں جن لوگوں نے پناہ لی تھی ان کو وہاں سے زبردستی نکالا بلکہ نفس رسول اور بضعتہ الرسول کو دھمکیاں بھی دیں لوگوں نے کہا اس گھر میں فاطمہ ہے تو کہا ہےکہ ہوا کرے پس لوگ نکلے اورانہوں نے بیعت کر لی سوائے حضرت علی کے انہوں نے فرمایا میں نے قسم کھائی ہےکہ اپنے کندھے پر ردا نہ ڈالوں گاجب تک قرآن مجید کو جمع نہ کر لوں الامامتہ والسیاستہ ان کو جلانا چاہا جن کےمتعلق رسول خداکا فرما ن تھا علی مع القرآن والقرآن مع علی اور ثقلین کی ہتک حرمت پر لوگوں کو جرات دلائی اور اہل بیت پر ظلم و جور کی بنیاد اس نےہی رکھی اور اہل بیت پر وارد شدہ تمام مصائب درحقیقت رسالت مآب پر وارد تھے کیونکہ علی نفس رسول جناب بتول بضعتہ الرسول اور حسنین ریحان رسول تھے جیسا کہ منقول ہے ہاں اسی بی بی کے دروازہ پرآگ لگائی گئی جو  عالمین کی عورتوں کی سردار تھی اور جس کے حق میں آپ نے فرمایا تھاکہ یہ میرا ٹکڑا ہےجس نے اس کوا ذیت  دی گویا اس نے مجھے ایذا پہنچائی جب صحن رسول میں آتی تھیں تو حضور تعظیم کےلئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے مرحبا کہتے بوسہ دیتے اورا پنی مسند پر جگہ دیتے تھے آج اسی بی بی کی آواز آرہی ہے صبت علی مصائب لوانھا  صبت علی الایام صرن لیا لیا
میرے اوپر وہ مصائب آئے ہیں کہ اگر دنوں پر آتے تووہ  سیاہ  راتیں بن جاتے مجبور ہوکر حجرہ مبارکہ سے قدم باہر رکھا اور مسجد کا قصد فرمایا جناب زینب روایت فرماتی ہیں کہ جب سنا کہ میرا حق فدک غصب ہوا ہے برقعہ پہنا اور چند کنیزوں اور اپنی قوم کی مستورات کے زمرہ میں مسجد کی طرف روانہ ہوئیں کہ چادر کا دامن زمین پر خط دے رہا تھا اور رفتار بعینہ رسول کی رفتار معلوم ہوتی تھی جب قریب پہنچیں دیکھا کہ مسجد مہاجر وانصار سے پر ہے پس سامنے چادر تان کر پردہ بنا لیا پھر بلند آواز سےرونا شروع کیا کہ تمام حاضرین پر گریہ کا عالم طاری ہو گیا پھر جب لوگوں میں سکونت ہوا نہ معلوم بی بی کے لئے کوئی شخص اٹھا بھی سہی یا نہیں پس بی بی نے خطبہ شروع فرمایا جس میں اپنا تعارف کرالیا اور فرمایا یابن ابی قحافہ افی کتاب اللہ ترث اباک ولا ارث ابئ اے ابن ابی قحافہ کیا قرآن مجید کی روسے تواپنے باپ کا وارث ہوسکتا ہے اورمیں اپنے باپ کی وارث نہیں ہو ں یقینا تو جھوٹ کہتا ہے ابن ابی الحدید
کسی کے مر جانے کے بعد تعزیت سنت ہے اور طعام بھیجنا بھی سنت ہےلیکن حسنین کی طرف طعام  اور تعزیت کا پیغام وہ آگ تھی جو دروازہ کو لگائی گئی نفس رسول کومسجد کوفہ میں پھر امام حسن کو زہرا سے اورامام حسین کو کربلا میں تیغ ستم سے شہید کر ڈالا اورجناب سیدہ طاہرہ کی قبر اسی بنا پر معرض خفا میں رکھی گئی نیزحضرت امیر علیہ السلام ک قبر پاک بھی مخفی رہی یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نےنشاندہی فرمائی امام حسن کے جنازہ پر تیر برسائے گئے اور حضرت سیدالشہدا کےجنازہ کےساتھ جو کچھ ہواور نطاق بیان سے باہر ہے
ابن زیاد نے عمر سعد کو لکھا کہ قتل کے بعد امام مظلوم کی لاش پرگھوڑے دوڑائے جائیں کیونکہ وہ ہمارا نافرمان تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ مرنے کے بعد ان باتوں سے تکلیف تو نہیں ہوتی لیکن چونکہ میں کہہ چکا ہوں لہذا ضرور پورا کرونگا عمر سعد نےاپنی فوج میں ندا بلند کی تودس گھوڑےسوار اٹھےاورانہوں نے اس ظلم کےسر انجام دینے کا ارادہ کیا یہی وجہ ہےکہ روایت میں ہے جناب فاطمہ زہرا امام حسین کو ہر روز روتی ہے اور بی بی کا گریہ قیامت تک رہے گا اور وہ حسین پر رونے کی آخری مجلس ہوگی چنانچہ ندا آئے گی غضو اابصار کم حتی تجوز فاطمتہ بنت محمد اےہاں محشر آنکھیں بند کر لو تاکہ فاطمہ بنت محمد گذر جائے پس جب تشریف لائیں گی اورجنت میں داخل ہونے کا حکم ہو گا تو بی بی عرض کرے گی لا ادخل حتی اعلم ما صنع بولدی من بعدی میں جنت میں داخل نہ ہوں گی جب تک دیکھ نہ   لوںںں کہ میرے بعد میری اولاد سے کیا کیا گیا ہے پس آواز آئے گی انظری فی قلب المحشر محشر کےوسط میں دیکھو فاذالحسین قائم بلا راس واود اجہ تشحب دما پس نظر کریں گی تودیکھیں گی کہ حسین سر کے بغیر کھڑے ہیں اور انکی رگ ہائے گردن سے تازہ خون جاری ہے فاذاراتہ صرخت صرختہ وزخت نفسھا عن ناقہ پس دیکھتے ہی ایک آواز گریہ بلند کریں گی اور ناقہ سے گر جائیں گی حضرت رسالت مآب فرماتے ہیں ان کے گریہ سے میں بھی گریہ کروں گا اور ملائکہ بھی گریہ کریں گے پھر حسین کی قمیض کو ہاتھوں پر رکھ کر بی بی فریاد کرے گی میرے اللہ ھذا قمیص ولدی یہ میرےفرزند کی قمیض ہے ہاں زہرا کےدل کوجو چیز زیادہ درد ناک کرتی ہے کہ مقام شہادت میں قمیض حسین کو پیش فرمایا یاتوا س لئے کہ خون سے ملطخ ہو گی یا اس لئے کہ اس میں تیروں تلواروں نیزوں پتھروں اور گھوڑوں کےسموں کی وجہ سے جگہ جگہ شگاف ہوں گے اوریا اس لئے کہ باوجود اس قدر خستہ حال ہونےکے بھی جسد اطہر سے اتار لی گئی۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

ایک تبصرہ شائع کریں