التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ساتویں مجلس -- بنی عبادی انی انا الٖغفور الرحیم وان عذابی ھو لعذاب الالیم


بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنی عبادی انی انا الٖغفور الرحیم وان عذابی ھو لعذاب الالیم
خدا کی مغفرت کا عالم دیکھئے جناب سیدہ کی ایک تسبیح پڑھنا 2 ہزار رکعت نافلہ کے ثواب کے برابر ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا لکل شیی ثواب الا الدمعتہ یعنی ہر شے کے ثواب کی حد ہے سوائے آنسو کے یایہ کہ ہر شئی کا ثواب لکھا جاتاہے سوائے آنسو کے کہ ان کا ثواب لکھنے سے باہر ہے حدیث میں ہے جو شخص مومن کی میت کوغسل دے خدا اس کے بدن سے تمام گناہ اس طرح دھو دے گا جس طرح وہ شکم مادرسے پیدا ہوا تھا بشرطیکہ قربت کی نیت ہونیز وار د ہے کہ جو شخص ایک مرد مومن مسلمان کو کفن دے تو گویا وہ قیامت تک کے لیے اس کو لباس پہناتا رہا نیزجو شخص ایک مومن کی قبر کھو دے خدا اس کو جنت کا گھر دیگا جو شخص ایک مومن کے جنازہ کی تیشیع کرے تو جب مومن قبر میں سوتا ہےاسے ندا پہنچتی ہے کہ خدا کی طرف سے پہلا عطیہ یہ ہے کہ تیرے تشیع کرنے والوں کو میں نے بخش دیا اور جو شخص مومن کے جنازے کو اٹھائے اور ترتیب وارچاروں پایوں کے نیچے کندھا دے اس کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں اور ایک پائے کے نیچے کندھا دینے سےاس کے 25 گناہان کبیر ہ بخشے جاتے ہیں اور جو شخص مومن کی قبر پرپشت دست سے خاک گرائے تو اس خاک کے ہر ذرہ کے مقابلہ میں اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہےاور جو شخص ایک یتیم کو تسلی دے خدا اس پر درود و سلام بھیجتا ہے یہ تو ایک عام مومن کے لئے ہےاور اگر مومن مومن کا مل ہوپھر مسافر ہو پھر مظلوم ہوا اور پھر شہید بھی ہو بلکہ سیدالشہدا ہوتو کیا اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ تین روز تک اس کی لاش بے دفن صحرامیں پڑی رہے میدان کربلا میں آج تیسرا روز ہے کہ متعدد لاشیں موجود ہیں ان میں سے ایک حسین بن علی کسی طرف علی اکبر کسی طرف عباس
قاعدہ ہے کہ میت کے لئے آواز کی جاتی ہے لیکن ہائے ان شہیدوں کا کوئی  نہ تھا جوان کے لئے آواز کرتا البتہ علی کی شہزادی نے جب لاشوں سے جدا ہونا چاہا تو مہلت نہ ملی کہ کچھ کہتی ہاں اتنا ہی کہا اما فیکم مسلم کیا تم میں مسلما ن کوئی نہیں اب ان مقدس لاشوں کی تجہیز معنوی  کے لئے عالیہ بی بی کی نیا بت میں ہم ندا بلند کرتے ہیں حضرت ابوذر کی صاحبزادی کے کلمات سے جب کہ حضرت ابو ذر صحرائے رنجیدہ میں کوچ کرگئے واقعہ یہ ہے کہ ابوذر تنہا اپنی لڑ کی کے ہمراہ جنگل میں گھاس کی تلاش میں گئے تاکہ و ہ خود کھائیں آپ بیمار بھی تھے پس حالت موت طاری ہوگئ لڑکی نے باپ کے سرہانے ریگ صحراکو اکٹھا کر کے سرہانہ بنایا اور عرض کی بابا جان اس جنگل میں تیری لاش سے میں کیا کروں گی آپ نے فرمایا اے دختر مجھے پیغمبر نے اپنی موت کی خبر دی تھی بس ایک جماعت عراق سے آئے گی اور میری تجہیزکا سامان وہی کریں گے راستہ پر بیٹھ جانا اور ان کوا طلاع دینا
ابو ذر قبلہ رخ ہوگئے او ر اس عالم فانی سےکوچ کر گئے لڑکی نے باپ کی لاش پرعباکو پھیلا دیا اور باپ کی وصیت کے مطابق راستہ پر بیٹھ گئی کچھ دیر کے بعد قافلہ کو آتا دیکھا ان میں ابن مسعود اور مالک اشتر اور دیگر صحابہ بھی تھے ابوذر کی لڑکی نے آواز دی اے اللہ کے بندہ صحابی رسول حضرت ابوذر کا اس جنگل میں بعالم غربت انتقال ہو گیا ہے میراکوئی نہیں جو باپ کی تجہیز و تکفین میں میری امداد کرے ابھی دو گھنٹے ہوئے ہیں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اہل قافلہ نےجو نہی یہ خیر و حشت اثرسنی سواریوں سے اتر پڑے اور حضرت ابوذر کی لاش پر پہنچے اور ابو ذرکےکفن میں ایک دوسرے سے نزاع کرنےلگے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ اس مقدس صحابی رسول کو کفن میں دوں۔
آج میں آواز دیتا ہوں اے مسلمانو کربلامیں حسین بن علی کی لاش بے دفن ہے علی اکبر کی لاش ہے عباس کی لاش ہے یہ سب عالم مسافر ت میں نےجرم وگناہ شہیدکر دئیے گئے ہیں عمر سعد نے اپنے مقتولین کاجنازہ بھی پڑھا اور انہیں دفن بھی کیا لیکن حسین او ر اس کے ساتھیوں کی لاشوں کودفن کرنے والا کوئی نہیں آج میں جس کی طرف سےندا کررہا ہوں وہ ایک اور مصیبت میں گرفتارہے یہ نہ خیا ل کرنا کہ ان لاشوں کی تجہیز کسی نے نہیں کی بلکہ جو تجہیز ان کی ہوئی وہ کسی کی آج تک نہ ہو سکی آج تقریبا 1287 سال ہو چکے ہیں لوگ اب تک انکی تجہیز میں برابر مشغول ہیں ان کی تجہیز میں خدا اور رسول اور ملائکہ کرام سب شامل ہیں ان کی اہل بیت نے اپنے مخصوص حالات میں تجہیز کی اور تمام مخلوق نے ان کی تجہیز میں حصہ لیا خداکی تجہیز سےمراد ایک نور ساطع ان کے ہمراہ تھا چنانچہ ایک اسدی روایت کرتا ہے کہ میں نے جسموں میں ایک جسم دیکھا جو مثل آفتاب کے روشن تھا زید بن ارقم کہتا ہے کہ میں بالا خانہ پربیٹھا تھا میں نے کمرہ کی کھڑکی سے دیکھا کہ اند ر ایک نور داخل ہوا اوردریافت سے معلوم ہواکہ حسین بن علی کا سر تھا اور اس کانور تھا اور ان پر اللہ کا درود وسلام ہے چنانچہ ہر ایک کہتا ہے صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ بلکہ کہا جاتا ہے کہ صلی اللہ علی البالین علی الحسین یعنی حسین پر بلکہ حسین کےرونے والوں پربھی اللہ کی طرف سےدرود وسلام ہے ان ارواح مقدسہ کی روحین خداوند کریم نے اپنے ید قدرت سے قبص کیں تجہیز نبوی یہ ہے کہ حضورچالیسیویں تکاس لاش کی تشییع کرتے رہے اور حسین کی قبر کو خود اپنے ہاتھوں سے کھودا چنانچہ اسی روز جب نبی اسد آئے اور حضرت سجاد بھی خفیہ طور پرپہنچے تو جو نہی بنی اسد نے کلنگ زمین پرمارا تو کھودی ہوئی قبر موجود پائی جب ام سلمہ کو عالم خواب میں زیارت سےمشرف فرمایا تو دریافت پر جواب دیا میں حسین کی قبرکھودتا رہا ہوں اور ماذلت التقط دمائھم اور ان کاپاک خون اپنے ہاتھوں پر روکتا رہا ہوں
تجہیز ملائکہ
وقت شہادت آپ کےجسداطہر کو پانچویں آسمان پر لےگئے جہاں علی کی صور ت موجود ہےاور پھر واپس لائے اس کی وجہ معلوم نہیں اور معنوی طور پر چشمہ تسنیم سے پانی لائے اور ان پاک جسموں کو غسل دیا اور کفن پہنایا
تجہیز سیدالشہدا
آپ اپنی خود تجہیز فرمارہے تھے اور اپنی قبر کی خود نشاندہی فرماتے تھے چنانچہ ام سلمہ سےفرمایا تھا من ذایکون ساکن حفرتی اور آخری وقت میں اپنی بہن سےفرمایا ایتینی نثوت عتیق لا یرغب فیہ احد مجھے پرانا لباس لا دیجئے جسے کوئی پسند نہ کر تا ہو جب وہ لایا گیا تو آپ نےاسکی بھی جگہ جگہ سے پارہ پارہ کیاور پھر اپنے جسد کو خون سے غسل دیااور فرمایا ھکذا حتی القی اللہ وانا مخضب بدمی میں اپنے خونسےاپنے آپ کو خضاب کر کے بارگاہ خدا وندی میں پیش ہوںگا ہاں ہاں بے شک آپ کا خون خلد کا ساکن ہے لوگوں نےآپ کے جسد اطہر کو خاک و خو ن میں غلطاں چھوڑ دیا آپ کےخون کا رنگ سرخ تھا اور خوشبو کستوری کی تھی
تجہیز اہل بیت
یہ تھی کہ لاشوں پر پہنچ کراپنے تئیں لاشوں پر گرادیا اور اپنی بہتی ہوئی آنسو سے غسل دیا اور کربلا سےکوفہ تک اور کوفہ سے شام تک تشییع کی
تجہیز تمام مخلوق شہادت کے بعد صحرا کےجانور آئے وحوش و طبور آئے بلکہ ہوا نے آکر سامان تجہیز کیا حضرت امیرعلیہ السلام نےفرمایا تھا میرا ماں باپ قربان ہو حسین پر جو کوفہ کے قریب شہید ہوں گے گویا میں دیکھتا  ہوں کہ وحوش صحرانے اپنی گردنیں اس کی قبر پر لمبی کی ہیں اور رو رہے ہیں اور ساری رات صبح تک ماتم کرتے رہے ہیں جب یہ وقت آجائے تو ظلم نہ کرنا ۔
تجہیز بنی اسد
ہاں اس دن نبی اسد بھی آئے وہ زمین کربلا سے کچھ فاصلہ پر اپنی کھیتیوں میں تھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو عورتوں نےغیرت دلائی اور کہا کہ اگر تمہیں ابن زیاد کا ڈر ہے تو ہم جا کر ان پاک بدنوں کودفن کرتی ہیں پس وہ لوگ ابن زیاد کا ڈر ہے تو ہم جا کر ان پاک بدنوں کو دفن کرتی ہیں پس وہ لوگ ابن زیاد کے خوف سے اسطرح آئے کہ کچھ لوگوں کو حفاظت کیلئے ادھر ادھر کھڑا کر دیا اسی اثنا میں دیکھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جو کوفہ کی طرف سے دکھائی دیاپس وہ گھوڑے سےاترا اور حالت رکوع کی طرح کمر جھکا کر حسین کی لاش پر گیا اور لاش سے لپٹ گیا لاش کو بوسے دیتا تھا اور خوشبو سونگھتا تھااور اس قدر رویا کی تحت الحنک آنسو سے تر ہو گیا بنی اسد سےدریافت کیا کہ تم لوگ کیوں آئے ہو انہوں نےجواب دیا کہ لاشوں کےدفن کےلیے آئے ہیں پس حکم دیا کہ ان کی قبریں کھودو اور یہ بتایا کی اس کی پہلے اور اس کو بعد میں بالترتیب قبروں میں اتارو پھر وہ آپ کی مدد کے لئےلاش حسین پر گئے لیکن آپ نے نہایت دھیمی آواز میں ان کو کہا تم سب ہٹ جاو اس لاش کو میں خود تنہا دفن کروں گا وہ کہتے ہیں ہم نے عرض کی مولا آپ تنہا کس طرح دفن کریں گے حالانکہ ہم سب کوشش کرچکے ہیں لیکن اس کے بدن مطہر کے ایک عضو کو بھی ہم حرکت نہیں دےسکتے تو آپ سخت روئے اور  فرمایا کہ اس معاملہ میں میری امداد کرنے والے موجود ہیں پس اپنے دونوں ہاتھ مبارک لاش مطہر کی کمر کےنیچے رکھے اور زبان پریہ کلمات جاری فرمائے بسم اللہ وباللہ وعلی ملتہ رسول اللہ ھذا ما وعداللہ ورسولہ وصدق اللہ وسولہ ما شائ اللہ وال حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم پس تنہا لاش مطہر کو  قبر میں اتارا اورکسی کو ہاتھ تک نہ لگانےدیا پھر اپنے رخسار کو گلوئے بریدہ پر رکھا اور  بہت دیر تک روئے اور یہ لفظ کہے۔
طوبی لارض تضمنت جسدک الشریف اما الدنیا فبعدک المنطلتہ و اما الاخرۃ فبنورک مشرقہ اما الحزن فسرمد واللیل فمسھد حتی یختار اللہ لی دارک التی انت مقیم فیھا فعلیک منی السلام یا بن رسول اللہ ورحمتہ اللہ و برکا تہ ۔
ترجمہ
یعنی پا ک ہے وہ زمین جس نے تیرے پاک جسم کو اپنی گود میں لیا ہمارے لئے دنیا تیرے بعد تاریک ہو گئی اور آخرت تیرے نورسے روشن ہوگئی میرا غم دائمی ہوگا اور رات بیداری میں گزرے گی یہاں تک کہ خدا میرے لئے وہ گھر اختیار کر ے جس میں آپ مقیم ہیں پس اے فرزند رسول میرا سلام قبول ہو اس کے بعد قبر کو بند کردیا پھر اپنے ہاتھ مبارک کو قبر پر رکھا اور انگشت مبارک  سے قبر کے اوپر یہ الفا ظ لکھے ھذا قبر حسین بن علی بن ابی طالب الذی قتلوہ عطشانا غریبا یہ حسین بن علی کی قبر ہے جس کو لوگوں نے عالم مسافر ت میں پیا سا کر کے شہید کیا اس کے بعد حضر ت عباس کی قبر کی طرف متوجہ ہو ئے اورلاش سے خطاب کیا علی الدنیا بعد ک العفا یا قمر بنی ھاشم تیرے بعد دنیا پر خاک ہے لاشوں کے دفن سے فارغ ہو کر بنی اسد سر فرمایااگر کوئی زائر آیا تو ان کو قبروں کی نشاندہی کرنا انہو ں نے عرض کی تجھے اس جسم مطہر جس کو آپ نے تنہا دفن کیا ہے آپ کون ہیں تو فرمایا میں تمہارا چوتھا امام علی بن حسین ہوں انہوں نے دوبارہ پو چھا کہ آپ ہمارے چوتھے امام ہیں تو فرمایا ہاں اور آنکھو ں سے غائب ہو گئے لیکن تجہیز نہ کر سکے کیونکہ جوا شرف اعضا ہے وہ چالیس روز تک نوک سسنان رہا ولا حول وال قوۃ الا باللہ العلی العظیم ملحض کلام شیخ جعفرشو ستری اعلی اللہ مقامہ اقول حضرت سجاد علیہ السلام نےاعجاز امامت کے ذریعے کوفہ سے تشریف لا کر لاشہ ہائے شہدا کو دفن کیا لیکن بہن تو بھا ئی کو گرم زمین کر بلا پر بے گور و کفن دیکھ آئی تھی یہ بات یاد رہے کہ شہید کا کفن اس کا اپنا لباس ہوا کر تا ہےاور حسین علیہ السلام کو بے کفن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پرانا لباس جو مظلوم نے اپنی بہن سے آخری وقت طلب کیا تھا تاکہ لوٹا نہ جائے مسلمانوں نے وہ بھی اتارلیا تھا اب یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ حضرت سجاد نے اپنے  بابا کو کو نسا کفن پہنایا ہوگا البتہ جب فوج اشقیا نے اپنے نجس مردوں کو دفن کر نے کی تجو یز کی تھی اس وقت بنت علی نے جنا ب فضہ کو بھیج کر عمر سعد سے پوچھا تھا کہ اگر ہمیں اجازت ہوتو کم از کم ہم بھی اپنے شہدا کو خصوصا حسین کے جسد مبارک کو دفن کر دیں تو فضہ روتی ہو ئی واپس آئی اور یہ جواب لائی کہ ہم تو صرف مسلمانو ں کی لاشوں کو دفن کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں علی اماروی
ہائے کس قدر ظالم و بے درد تھے وہ لوگ جو اپنے آپ کو تومسلمان سمجھتے تھےاور بانی اسلا م کے فرزند کو خارج ازاسلام اور باغی کہتے تھے ہائے سا دانتوں نے یہ فقر ے کس طرح سنے ہوں گے سیعلم الذین ظلمو ای منقلب ینقلبون ۔

ایک تبصرہ شائع کریں