التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اہلِ حرم سے وداع کی تیسری روایت

4 min read
فرمایا  یَا زَیْنَبُ وَ یَا اُمّ کلثُوْمٍ وَ یَا سُکَیْنَۃُ وَ یَا فَاطِمَۃُ عَلَیْکُنَّ مِنِّی السَّلامُ وَاسْتَوْدِعکُن اے زینب۔۔ اے امّ کلثوم۔۔ اے سکینہ اوراے فاطمہ تم پر میرا سلام اورخداحافظ، بہنوں کو گلے لگایا اورشہزادیوں کوپیا رکیا اورسب کو تسلی دے کر روانہ ہوئے، لیکن وہ کیا تسلی تھی بلکہ یہ تسلی اضطرب کا پیش خیمہ تھی اوریہ تسکین آنے والے مصائب کی پیشین گوئی تھی، ایک مرتبہ کہرام ماتم بپاہوا۔
مروی ہے کہ جناب سکینہ خاتون نے چادر سرسے اُتاری اورعرض کیا باباجان آپ ؑ مرنے کوجارہے ہیں تو ہمارا اس دشت غربت میں کون پرسان حال ہوگا؟ پس کتب مقاتل میں ہے کہ امام ؑ نے اپنی خوردسال بچی کے سرپردست شفقت  پھیرا اورتسلی دی اوریہ شعرپڑھے (مخزن البکأمجلس نہم )
سَیُطُوْلُ بَعْدِیْ یَا سُکَیْنَۃُ فَاعْلَمِیْ
مِنْکِ الْبُکَائُ اِذَ الْحَمَامُ دَھَانِیْ
اے سکینہ میری شہادت کے بعد تیراگریہ طویل ہوگا۔
لَا تُحْرِقْیِ قَلْبِیْ بِدَمْعِکِ حَسْرَۃً
مَادَامَ مِنِّی الرُّوْحُ فِیْ جُسْمَانِیْ
جب تک میں زندہ ہوں اپنے آنسووں سے میرے دل کوحسرت کی آگ میں نہ جلانا۔
فَاِذَا قُتِلْتُ فَاَنْتِ اَوْلٰی بِالَّذِیْ
تَاتِیْنَہُ یَا خَیْرَۃَ النِّسْوَانِ
جب میں شہید ہوجائوں توتجھے رونے کا حق حاصل ہے اے عورتوں کی سردار۔
پس اپنی ہمشیرہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
 اِیْتِیْنِیْ بِثَوْبٍ عَتِیْقٍ لَا یَرْغَبُ فِیْہِ اَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ اَجْعَلُہُ تَحْتَ ثِیَابِیْ لِئَلَّا اُجَرَّدَ مِنْہُ بَعْدَ قَتْلِیْ۔
مجھے پرانا لباس لادو جوکسی کے کام کا نہ ہومیں اس کو اپنے کپڑوں کے نیچے پہنتا ہوں تاکہ وہ لباس میرے بدن سے اُتارانہ جائے۔
ایک  روایت میں ہے:  فَاِنِّیْ مَقْتُوْلٌ مَسْلُوْبٌ کیونکہ قتل کے بعد میرالباس اُتار لیا جائے گا؟  یہ سنتے ہی پھر ایک مرتبہ اہل حرم سے صدائے گریہ بلند ہوئی، آپ ؑ نے فرمایا رونا فی الحال بند کردو کیونکہ  اَلْبُکائُ اَمَامَکُنُّ  رونے کی منزلیں تمہارے آگے بہت ہیں، چنانچہ ایک لباس لایا گیا وہ آپ ؑ نے پسند نہ فرمایا، پھر ایک لباس حاضرکیا گیا جوآپ ؑ نے قبول فرمایا اورروایت میں ہے فَخَرَّقَہٗ  وَمرَّقَہٗ آپ ؑ نے اس کواورزیادہ پارہ پارہ کرکے زیب تن فرمایا؟ خود ہی اندازہ کیجیے جب اہل حرم نے امام مظلوم ؑ کے تن نازنین پر یہ خستہ لباس دیکھا ہوگا تودل پرکیا گزری ہوگی؟ بہن نے کہا ہوگا کہ ایک وہ وقت تھا کہ لباس جنت سے سل کرآتاتھا اورآج یہ حالت ہے! ممکن ہے عرض کیا ہو جس طرح کسی ایرانی شاعر نے کہاہے:
ترا کہ شاہِ حجازی ! یا برادر من
نہ زیبت کہ جامۂ کہن پوشی
پس باقی لباس درست کیا اوربروایت ’’مخزن البکأ ص ۱۵۰‘‘ عمامہ رسول سر پر باندھا اور ذوالفقار حیدر کرّارگردن سے حمائل کی اور حمزہ کی سپرکوڈھال بنایا، پس خیام میں اَلْوِدَاع  اَلْوِدَاع  اور  اَلْفِرَاق  اَلْفِرَاق  کی فلک شگاف صدائیں بلند ہوئیں۔
اب غلام توکوئی موجود نہ تھا جوذوالجناح کی لگام کوپکڑتا اور سوار کراتا؟ ہاں قضا نے گھوڑے کو آگے بڑھایا، ممکن ہے کہ بہنوں نے بھائی کوسوارکیا ہو؟ آپ ؑ نے میدانِ کارزارکا رخ کیا اوراِتمام حجت کی، لیکن شبث بن ربعی نے جواب دیا حسین ؑ ہم سب کچھ جانتے ہیں لیکن جب تک یزید کی بیعت نہ کروگے نہ پانی ملے گا اورنہ تمہارے قتل سے ہم باز آئیں گے؟ پس آپ ؑ مصروفِ جہاد ہوئے اورحید ر کرّار کی طرح ایسی جنگ کی کہ ملاعین کے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔
امام مظلوم ؑ نے اپنی جانب سے کافی اہتمام کیا لیکن امت نابکار نے اپنی انتہائی خست اوردرندگی کا مظاہرکرتے ہوئے وہ لباس کہنہ بھی امام ؑ کے تن اطہر سے بعد ازشہادت اُتار لیا؟ چنانچہ ’’مخزن البکأ‘‘ میں بروایت طریحی منقول ہے:
فَلَمَّا قُتِلَ عَرّیَ رَجُلٌ جِسْمَہٗ مِنْہُ وَتَرَکَہُ عُرْیَانًا بِالْعرلِ مُجَرَّدًا عَلَی الرَّمَضَائِ وَشَلَّتْ یَدَاہُ فِی الْحَال وَحَلَّ بِہِ الْعَذَابُ وَالنَّکالُ۔
یعنی امام ؑ کی شہادت کے بعد ایک ملعون نے آپ ؑ کے جسم اطہر سے وہ پرانا لباس بھی اُتارلیا؟ پس آپ ؑبے لباس گرم ریگِ صحرا میں رہے اوراس ملعون کے دونوں ہاتھ اسی وقت شل ہوگئے اوراس پرعذاب خداوندی نازل ہوا۔
 ہائے کیا حال ہوگا اس بہن کا جس نے وداعِ لاش کی خاطر بھائی کوپرانا لباس پہنایا تھا تاکہ لاش مستورہے؟ اب خدا جانے بہن نے بھائی کو کس طرح دیکھا ہوگا؟ اورکیسے وداع کیا ہوگا؟ ہاں خاکِ شفا کا لباس تو ضرور موجود تھا:
مَنْ مُخْبِرُالزَّھْرَائِ اَنَّ حُسَیْنَھَا
بَیْنَ الْوَرٰی عَارٍ عَلٰی تَلْعَاتِھَا
کوئی زہرا ؑ کوخبردے کہ تیراحسین ؑگرم ریگِ صحراپربے کفن پڑا ہواہے۔
وَرُؤُسُ اَبْنَاھَا عَلٰی سُمْرِ الْقَنَا
وَ بَنَاتُھَا تُھْدٰی اِلٰی شَامَاتِھَا
تیرے بچوں کے سرنیزوں پر اورتیری شہزادیاں شام کی طرف روانہ کی جارہی ہیں۔
یَا فَاطِمُ الزَّھْرَائِ قُوْمِیْ وَانْدَبِیْ
اَسْرَاکِ فِیْ اَشْرَاکِ ذُلِّ عَدَاتِھَا
اے فاطمہ اُٹھ کرماتم کرکہ تیری قیدی بیٹیاں دشمنوں کے درمیان ذلیل کی گئی ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ؑ نے اپنے فرزندحضرت امام زین العابدین ؑ کو وصیتیں کیں، اسرارِ امامت سپرد کئے اورتبرکات بھی ان کے حوالے کئے اورایک روایت میں ہے کہ امام سجاد ؑاس وقت بیمار تھے لہذا اپنی شہزادی جناب فاطمہ کوبلایا اوروصیت نامہ اورجملہ تبرکات اس کے حوالے فرمائے تاکہ بعد میں اپنے بھائی کو دے دیں اورمفصل وصیتیں اورانبیا ٔ کی امانتیں آپ ؑ بوقت روانگی ازمدینہ جناب امّ سلمہ کے حوالہ کر آئے تھے جو قیدسے رہائی کے بعد امام سجاد ؑ نے وصول کی تھیں پس خاندانِ عصمت کی شہزادیوں کوایک ایک کرکے الوداع کیا اور بیبیوں کاحلقہ امام ؑ کے گرد اس طرح تھا جس طرح چاند کے ارد گرد ھالہ ہوا کرتاہے، پس سب بیبیوں کودیکھ کرامام ؑ بہت روئے اورخدا حافظ کرکے روانہ ہوئے:
شبیر برآمد ہوئے یوں خیمہ کے درسے
جیسا کہ نکلتاہے جنازہ کسی گھر سے
 لشکراشقیا ٔ کے سامنے کھڑے ہوکراپناحسب ونسب بیان فرمایا اورعترتِ نبوی کے حقوق بیان کئے۔۔ اپنی اوراپنی عیال کی شدت پیاس کا احساس دلایا، حتیٰ کہ امام مظلوم کی تقریرسے بعض سنگدل کوفی رونے لگ گئے، شمر نے کہا بغیربیعت کے اورکوئی چارہ نہیں ہے۔۔ آپ ؑ نے فرمایا فاسق وفاجر کی بیعت میں ہرگز قبول نہ کروں گا پس مصروف جہاد ہوئے۔