التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پچیسوایں مجلس -- یا ایھا الذین امنوا اتقو اللہ وکونو مع الصادقین


یا ایھا الذین امنوا اتقو اللہ وکونو مع الصادقین
ابن عباس سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کا مجمع تھا حضرت رسالت مآب پر جبریل کا نزول ہوا اور خدا وند کریم کی جانب سے تحفہ درود پہنچایا اور علی کواپنے سامنے بلانے کا حکم سنایا اس کے بعد جبریل ایک طبق لایا اوردونو کے درمیان رکھ دیا جب کھا چکے تو ایک طشت اورایک ابریق لایا کہ علی کے ہاتھ دھلاو جب حضور ہاتھ دھلانے لگے تو حضرت علی نے عرض کی آقا یہ میرا حق ہے کہ میں آپ کے ہاتھ دھلاوں تو  آپ نے فرمایا مجھے خداکا حکم ہے کہ ایساکروں لیکن جب دیکھا کہ پانی کا ایک قطرہ بھی طشت میں نہیں گرتا تھا تو دریافت کیاکہ حضور یہ پانی کہاں جارہا ہے تو حضور نے فرمایا یا علی فرشتے ایک دوسرے سے سبقت کرکے لے جا رہے ہیں تاکہ اس سے برکت حاصل کر کے اپنے اعضا ئ دھوئیں دمعہ ساکیہ
ہاں ایسا کیوں نہ ہوعلی نفس رسول ہے اور آیت مباہلہ اس پر شاید ہے کافی میں حسن بن  سعید سے مروی ہے کہ ایک شخص نےامام رضا علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حمل کے زمانہ میں اگر باپ نیت کرے کہ میں بچے کا نام محمد رکھوں گا لیکن جب بچہ پیدا ہوا تو وہ اس کا نام علی رکھ دے آیا اس میں کوئی حرج ہے تو آپ نےفرمایا علی محمد ہے اور محمد علی ہےاسی بنا ئ پر تو فرمان معصوم ہےکہ ہمارا اول آخر اوسط بلکہ سب کے سب محمد ہیں
جب جنگ احدمیں لوگ چھوڑ گئے اور رسول کے بلانے پر بھی کسی نے توجہ نہ کی توحضرت علی اور ابو دجانہ انصاری بچ گئے آپ نے ابود جانہ سےفرمایا کہ بےشک تو بھی جا سکتا ہے لیکن علی اور میں ایک ہی شیی ہیں
عمرو عاص سے مروی ہے کہ غزوہ ذات السلاسل سے واپسی پر میں نے حضور سے پوچھا کہ لوگوں میں سے آپ کوزیادہ محبوب کون ہے تو آپ نےایک صحابی کا نام لیا میں نے پوچھا کہ علی پھر کیسے ہیں تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ مجھ سے اپنے نفس کے متعلق پوچھتاہے قول مولف رسول کا معراج تھا عرش پر تشریف لے جانا اور نفس رسول کا معراج تھا کعبہ میں دوش پیغمبرپر قدم رکھنا
محمد داس البساط بنعلہ        کذالک کتف المصطفی داسھا علی
حضرت محمد نے اپنے جوتے سمیت عرش پر قدم رکھے اسی طرح دوش محمد پر علی نے قدم رکھے حسان کی طرف بعض اشعار منسوب ہیں روضتہ الاحباب
قیل لی لعلی مدحا ذکرہ یحمد نار اموصدہ قلت لا اقدم فی مدح امرئ جبرئیل والرسول حمدہ والنبی المصطفی قال لنا لیلتہ المعراج لما صعدہ وضع اللہ علی کتفی ید ا فاحس القلب ان تدبردہ وعلی واضع اقدامہ فی محل وضع اللہ یدہ  مجھے کہتے ہیں کہ علی کی تعریف کرو کہ اس کا ذکر جلتی ہوئی آگ کو بجھا دیتا ہے میں کہتا ہوں میں ایسے شخص کی کیا مدح کروں جس کی مدح جبریل و رسول کرنیوالے ہوں اور حضرت محمد مصطفی نے فرمایا تھا شب معراج جب مقام بلند پر پہنچا کہ خدا نے میرے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا تھا پس دل کو اس سے ٹھنڈک محسوس ہوئی تھی اور علی وہ ہے جس نے اپنے قدم اس مقام پر رکھے جہاں خدا نے اپنا ہاتھ رکھا تھا
قول مولف خدا جسم و جسمانیا ت سے پاک ہے اور یہ روایت کسی شعیہ معترک کتاب میں معصوم سے منقول نہیں ہے
بنی مخزوم میں سے ایک نوجوان نے حضرت امیر سے عرض کی کہ میرا بھا ئی مر گیا ہے جس سے میرادل بہت غمزدہ ہے تو آپ رسالت مآب کی چادر زیب دوش فرما کر قبر رسول پر پہنچے چند کلمات پڑھ کر ٹھوکر ماری وہ قبر سے نکلا تو اس کی زبان عربی سے بگڑ چکی تھی آپ نے وجہ پوچھی تو عرض کی آقا میں فلاں فلاں کی سنت پر ہوکر مراہوں اس لئے میری زبان بدل گئی ہے کافی
امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت ایک عورت کے پاس سے گذرے جو زاروقطار رو رہی تھی آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے عرض کی میری گائے  مر گئی ہے جس پر میراور میرے بال بچوں کا گذار ا تھا پس آپ نے  دورکعت نماز پڑھی اور دوست دعا بلند کئے پھر زبان سے دعا مانگی اور گائے کو آواز دی پھر  پاوں سے ٹھوکر ماری تو وہ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی عورت نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگی مجھے کعبہ کے پروردگار کی قسم یہ تو عیسی بن مریم ہے پس آپ وہاں سے چلے گئے کافی ایک مرتبہ حضرت رسالت مآب اپنی دختر نیک اختر بتول معظمہ کے پاس گھر پر تشریف لائے اورفرمایا بیٹی آج میں تمہارا مہمان ہوں تو شہزادی نے عرض کی باباجان آج تو حسین شریفین کے کھانے کا انتظام ہمارے پاس نہیں ہے پس جب بیٹھ گئے تو فرمایا مجھے وحی ہوئی ہے کہ جنت کے پھلوں میں سے جس پھل کی ضرورت ہو حاضر کیا جائے تو سب خاموش  ہوگئے اور اما م حسین نے خواہش کی کہ میں انتخاب کرتاہوں اگر تم سب کی اجازت ہوتو سب سے اجازت دی پس امام حسین نے تازہ کھجور کا مطالبہ کیا چنانچہ فرمان رسالت بتول جب حجرہ کے اندر داخل ہوئیں تو ایک طبق دیکھا جس کے اوپر سندس سبز کا غلاف تھااور اس میں  تازہ کھجوریں موجود تھیں اٹھاکر لائیں اور رسالت مآب کے آگے رکھ دیا آپ نے پوچھا کہاں سے آیا ہے توعرض کی اللہ کی جانب سے اور خدا رزق دیتا ہے جس کو چاہے بغیر حساب کے حضور نے بسم اللہ پڑھ کر ایک دانہ اٹھایا اور حسنین کے منہ میں رکھا اور فرمایا مبارک اور خوشگوار رہوتمہیں اے حسین پھر ایک دانہ امام حسین کے منہ میں دیا اور یہی فرمایا پھر ایک دانہ جناب فاطمہ کے منہ میں رکھا اور یہی فرمایا اور پھر ایک دانہ حضرت علی کے منہ پر رکھااور یہی فرمایا ا س کے بعد اسب نے کھایا جب فارغ ہوئے تو دستر خوان آسمان کی طرف بلند ہو گیا جناب فاطمہ نے عرض کی بابا جان آج آپ نے عجیب کام کیا ہے تو آپ نے فرمایا اے لخت جگر جب میں نے کھجور کا دانہ حسین کے منہ میں دیا تو جبریل و اسرافیل نے کہا مبارک و خوشگوار ہو تمہیں اے حسین تو میں نے بھی وہی لفظ کہے پھرایک دانہ حسن کے منہ میں دیا تو جبرئیل و میکائیل نے  آواز دی مبارک خوشگوار ہو تم کو اے حسن تو میں نے ان کی مطابقت کی پھرایک دانہ تیرےمنہ میں دیا تو حوران جنت نے دریچہ ہائے جنت کھول کر  کہا مبارک و خوشگوار ہو تم کو اے فاطمہ تو میں نے بھی ویسا ہی کہا اور جب چوتھا دانہ علی کے منہ میں دیا تواللہ کی جانب سے ندا پہنچی مبارک و خوشگوار ہو تجھے اے علی تو میں نے اپنے پروردگار کے قول کی موافقت کی تو ارشاد ہوا اگر قیامت تک آپ کھجور کےدانے علی کے منہ مین دیتے رہیں تو میں قیامت تک مبارک کہتا رہوں گا دمعہ ساکیہ
روز عاشور جب باری باری سے تمام پارو انصار و اقربا راہ خدا میں کام آگئے توا پنے صحابہ کو نام لے کر پکارا جیسا کہ مجلس نمبر 17 میں گذر چکا ہے روایت میں ہے کہ امام مظلوم کا درد بھر ا استٖغاثہ سن کر حضرت سجاد تڑپ گئے سہارا لینے کے لئے عصا اٹھایا اور تلوار کو حمائل کیا اور خیام سے نکل کھڑے ہوئے تو جلدی سے جنا ب ام کلثوم نے آواز دی بیٹا واپس آجاو تو حضرت سجاد نے فرمایا پھوپھی جان مجھے جانے دیجئے کہ میں فرزند رسول کی مدد کروں تو امام حسین نے دیکھ کر فرمایا اے ام کلثوم میرے بیٹے کوروک لو تاکہ زمین آل محمد کی پھر ایک ایسا درد بھر ا استغاثہ کیا کہ جناب زینب خاتون صبر نہ کر سکیں تو درپر آگئیں کہ سر پر برقعہ نہ سنبھالا اور پا برہنہ تھیں فرمایا یا ابن سعید یقتل ابو عبد اللہ وانت تنظر کہ وہ ملعون سن کر رونے لگا پھر امام مظلوم نے آخری استغاثہ ایک عجیب انداز میں فرمایا اما فیکم مسلم کیا تم میں کوئی مسلمان  نہیں ہے خاص وقت کا خاص استغاثہ خاص حالت میں ایسا اثر انداز ہواکہ اس نے تمام کائنات کو لرزا دیا دشمنوں نے تو کیا امداد کرنی تھی حضرت قائم کی روح نے ان الفاظ میں جواب دیا جو مجلس نمبر 17 میں گذر چکے ہیں پس گھوڑے پر سوار ہوئے دریائے فرات پر پہنچے گھوڑے نے منہ کو پانی کے قریب کیاتوآپ نےفرمایا انت عطشان وانا عطشان اے گھوڑا تو بھی پیاسا ہے اور میں بھی پیاسا ہوں تو گھوڑے نے منہ پانی سے اٹھالیااور زبان بے زبانی سے عرض کی اے مولا اب میں پانی نہ پیئوں گا اور باوجود ان مصائب و آلام کے اور باوجود شدید پیاس کے ا س زور سے حملہ کیاکہ میدان دشمنوں سے خالی ہوگیا اورمقام نخلیہ تک پہنچے اور لشکر کی تعداد بعضوں نے آٹھ لاکھ بھی لکھی ہے آخر جب گھوڑے سے اترے تو گھوڑے نےامام پاک کا طواف کرنا شروع کیا کسی کی مجال نہ تھی کہ امام کے قریب آئے تو عمر  بن سعد نے فوج کو آواز دی کہ امام کے گھوڑے کو پکڑ واور میرے پیش کرواور یہ گھوڑا جنا ب رسالت مآب کے عمدہ گھوڑوں میں سے تھا جب گھوڑے کو معلوم ہواتواس نے قوم اشقیا پرجملہ کیا یہاں تک کہ اس نے چالیس سوار اور دس گھوڑے مار دئیے پس ابن سعد نے فوجوں کو ہٹ جانے کا حکم دیا جب فوجیں دور ہوئیں تو گھوڑے نے مقتولین میں سےاپنا آقا و مولا کو تلاش کرنا شروع کیا یہاں تک کہ اپنے آقا کی لاش کو تلاش کر لیا تو خوشبو سونگھتا تھا اور اپنی پیشانی کو خون سے رنگین کرتا تھا اور لاش کو بوسے دیتا تھا اور بلند آوازسے روتا بھی تھااور خیمہ کی طرف متوجہ ہوا جب جنا ب زینب علیہا السلام نے گھوڑے کی آواز سنی تو سکینہ خاتون کو فرمایا وہ دیکھ دروازہ خیمہ پر تیر ا باپ پانی لایا ہے چنانچہ بیبیاں جلدی دروازہ پر پہنچیں اورزیارت ناحیہ میں جو الفاظ ہیں وہ مجلس نمبر 17 میں گذر چکے ہیں
ہاں اس وقت بےشک بیبیوں نے اپنے منہ پر طمانچے مارے اور گریبان چاک کئے اور زمین سے لے کر عرش تک تمام کائنات نے ماتم کیا
اناللہ وانا الیہ راجعون
اقول میں نے ایک واعظ سے سنا تھا کہ جب امام حسین کے گھوڑے نے اشقیائ پر حملہ کیاتھا لوگوں نے اس پر تیر برسائے تھے پس فورا عمر بن سعد نے حکم دیاکہ لوگو اس گھوڑے کو تیر نہ مارو کیونکہ یہ محمد کی سواری کا گھوڑا ہے تو لوگوں نے تیر بند کردئیے لیکن ہائے کس قدر ظالم تھے کہ رسول اللہ کی سواری پر تیر برسانے سے بازآگئے لیکن یہ کسی نے نہ کہا کہ حسین کو تیر نہ مارو کیونکہ یہ دوش محمد کاسوار ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں