التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چوتھی مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مع الصادقین


یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مع الصادقین
ایمان والوں کی صفات میں سے ایک صفت ہے وفائے عہد چنانچہ ارشاد قدرت ہے من المومنین وجال صدقو اما عاھدو اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلو ا تبدیلا سور ہ احزاب پ21 حضرت امیر المومنین علیہ السلام منبر کوفہ پر خطاب فرما رہے تھے کہ اسی آیت کے متعلق کسی شخص  نے سوال کردیا تو جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت مجیدہ میرے حق میں اور میرے عم محترم حضرت حمزہ اور میرے چچا زاد حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کے حق میں اتری ہے حضرت عبیدہ بن حارث جنگ بدر میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے اور حضرت حمزہ نے احد میں شہادت کامرتبہ حاصل کیا اور میں اس کی انتظار میں ہوں کہ اس امت کابد بخت ترین انسان میری ریش سفید کو خون سر سے خضاب کرےگا آیت مجیدہ فتمنو الموت الخ کے تحت علامہ رمخشری رقمطر از ہیں کہ جنگ صفین میں حضرت علی باریک لباس پہنے ہوئے دونو صفوں کے درمیان ٹہل رہے تھے تو آپ کے فرزند دلبند حضرت حسن مجتبی علیہ السلام نے عرض کی بابا  جان کنگ لڑنے والوں کا یہ طرز عمل تو نہیں ہوا کرتا آپ نے فرمایا بیٹا تیرے باپ کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ موت پر  خود جا پڑوں  یا موت مجھ پر آپڑے آپ ایک خطبہ میں ارشاد فرماتےہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں سوال کیا کہ حضور آپ نے احد کے دن جب کہ مسلمانوں میں سے درجہ شہادت پر فائز ہونے والے فائز ہو چکے اور مجھے یہ بات شاق گزری تو آپ نے فرمایا تھا تجھے شہادت کی بشارت ہو کہ شہادت تیرے پیچھے آرہی ہے تو پھر یا علی صبر کیسے کرو گے میں نے عرض کی تھی حضور یہ تو آپ خوشخبری سنا رہے ہیں لہذا مقام شکر ہے نہ کہ مقام صبر وفائے عہد کی شان میں دوسرے اکابر کا اگر جائزہ لیا جائے تو بڑے بڑوں کا دامن کو تاہ نظر آتا ہے صحیح بخاری مسلم میں کئی ایک کا غادر ہونا ثابت ہوتا ہے جو لوگ بیعت رضوان میں شریک تھے جنگ حنین میں وہی پسپا نظر آتے تھے چنانچہ حضرت عباس ان کو یا اصحاب شجرہ کے لفظ سے آواز دے کر بلاتے تھے بیعت غدیر ہوئی لیکن باوجود تاکید حضرت جبریل کے ایسی مخالفت کی کہ خدا کی پناہ حضرت  سیدالشہدا علیہ السلام نے عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر سن کرسورہ احزاب کی یہی آیت مجیدہ تلاوت فرمائی تھی جو ابتدا میں ذکر کی  گئی ہے آئیے میں آپ کو ایک عجیب ایفائے عہد دکھلاوں یہ تو سن چکے کہ آپ کو برابر ہر طرف سے وحشت ناک خبریں آرہی تھیں عالم خواب میں بھی واقعات ہائلہ نظر آ رہے تھے ہائف کی زبان پر بھی یہی  مضمون تھا مگر سیدا لشہدا علیہ السلام کی حالت یہ تھی کی طرماح بن عدی سے  مروی ہے کہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہو ا اور عرض کی خدا کی قسم میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے پاس فوج نہیں اور یہی تھوڑی فوج جو اس وقت آپ کے گرد درپیش موجود ہے اگر آپ سے لڑ پڑے تو آپ کےمعدود ے چند ساتھیوں کے لئے تو ا آپ کے گرد درپیش موجود ہے اگر آپ سے لڑ پڑے تو آپ کےمعدود ے چند ساتھیوں کے لئے تو ا ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍن کے ساتھ مقابلہ بھی شاید مشکل ہو گا حالانکہ میں نے کوفے سے روانگی سے ایک دن پہلے کوفہ کے باہر اس قدر فوج کثیر دیکھی کی آج تک میری دونوں آنکھوں نے ایک میدان میں اتنا کثیر مجمع نہیں دیکھا تھا اور میرے  دریافت کرنے پر مجھے جواب دیا گیا کہ یہ سب حسین کےساتھ لڑنے کوجا رہے ہیں پس میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ ایک بالشت بھی آگے بڑھنے سے گریز فرمائیں اور اگر آپ اپنے نظر ئیے پر نٖظر ثانی کرنے کے لئے کوئی مقام امن جس میں رہ کر اس معاملہ کے نشیب و فراز پر غور کریں تو آپ میرے ہمراہ چلیں کیونکہ ہمارے پاس ایک پہاڑ ہے جو ہمار ا حفاظتی قلعہ ہے جسے ہم اجائ کہتے ہیں خدا کی  قسم اس پہاڑ کی بدولت ہم لو گ غسان و حمیر کے سلاطین اور نعمان بن منذر بلکہ ہر سیاہ و سفید کے حملوں سے محفوظ رہے ہیں اور جو بھی آگے بڑھا وہ وہاں ذلیل ہوا پسمیں آپ کو وہاں لے جاتا ہوں وہاں رہ کر اجادو سلمی کے اطراف میں جس قدر بنی طے کےلوگ موجود ہیں ان کو بھی ہم دعوت دیں گے اور بخدا دس دن کےا ندر اند ر طے کا پورا قبیلہ سوار اور پیادہ آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائے گا اور مزید  یقین دہانی کےلئے عرض کرتا ہوں کہ  ہمارے ہاں ٹھیریں تو بیس ہزار نبی طے کے جنگجو بہادروں کامیں ذمہ دار ہوں جو آپ کے سامنے مرد میدان بن کر تلوار زنی کریں گے اور جب تک ان میں کسی کی جان میں جان ہوگی تو مجال نہیں کہ کوئی دشمن آپ تک پہنچ سکے آپ نے یہ سب باتیں سن کر فرمایا خدا تجھے اور تیری قوم کو جزائے خیر دے میرا ان لوگوں سے ایک معاہدہ ہوچکا ہے کہ اس کے خلاف نہیں کر سکتا اور تجھے کیا معلوم کہ میرے اور ان لوگوں کے معاملہ کا انجام کیا ہو گا طرماح کہتا ہے کہ میں نے اجازت چاہی اور دعا کی کہ خدا آپ کو جن و انس کےشر سے محفوظ رکھے اور عرض کی کہ میں نے بیوی بچوں کے لئے خورد و نوش کاسامان خریدا ہے میں یہ سامان ان کے حوالےکر کے فورا واپس آوں گا اگر میں پہنچ گیاتو آپ کے انصار میں داخل ہوں گا آپ نے فرمایا اگر یہ ارادہ ہےتو خدا تجھ پر رحم کرے عجلت سے کام لینا طرماح کہتا ہے میں سمجھ گیاکہ آپ کافوری واپسی کا مطالبہ خطرے کی خبر  دیتا ہے پھر  میں نے گھر جا کر بیوی بچوں کو سامان دیا اوروصیتیں کی انہوں نے دریافت کیا کہ اب کی مرتبہ یہ نئی بات کیوں کہہ رہے ہو تو میں نے واقعات کی ان کو اطلاع دی اور جلدی سے واپس لوٹا جب مقام عذیب الہجانات کے قریب پہنچا تو سماعہ بن بدر سے ملاقات ہوئی اور حالات دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ آپ شہید ہوچکے ہیں طبری کامل ایمان والوں اور صادقین کی چٹھی صفت سختی اور تکلیف میں صبر کرنا چنانچہ مسیت بن نجہ سے مروی ہے کہ اپنی مظلومی پر رویا تو آپ نے اسے قریب بلا کر فرمایا کہ تیرے اوپر تو ایک ظلم ہوا ہے اور میرے اوپر ذرات ریگ کے برابر ظلم ہوئے ہیں اور ایک خطبے میں فرمایا کہ عام دستور یہ ہے کہ  رعایا حکمرانوں کے ظلم سے ڈرآتی ہے ب اور بخلاف اس کے  میں اپنی رعایا کے ظلم سے ڈرتا ہوں
حالانکہ شجاعت کی خدادا دیتا ہے چنانچہ حافظ ابو نعیم نے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت علی نے عمرو بن عبدود کو تہ تییغ کیا تو یہ آیت اتر کفی اللہ المومنین القتال بعلی وکان اللہ قویا عزیزا ابن مسعود اس آیت کو اس طرح پڑھا کرتے تھے
بحار الانوار میں ہے کہ کہ مصعب بن زبیر کہتا ہے حضرت علی میدان جنگ  میں نہایت ہوشیار رہتے تھے کہ کسی کو آگے بڑھنے کی ضرورت نہ ہو تی تھی اور آپ صرف اپنے سینے کی  کی ہی حفاظت کر تے تھے آپ سے دریا فت کیا گیا کہ آپ پیچھے کا فکر کیوں نہیں کرتے تو فرمایا خدا مجھے وہ دن نصیب نہ کرے جب دشمن کو پشت دکھاوں
شرح ابن ابی الحدید میں ہے کہ ھضرت علی نے ارباب شوری کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے قسمیہ ان سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا ایسا نہیں کہ کئی دفعہ اصحاب رسول حضور کو جنگ کی سختیوں میں چھوڑ کر بھاگ گئے اور صرف میں ہی وہ ایک شخص ہوں جو کبھی نہیں بھاگا تھا تو  سب نے آپ کے ان کلمات کی تئید کی تھی کل غزوات کی تعداد 26 ہے بڑی جنگیں ۹ ہوئیں بد احد، خندق ، قریظہ ، مصطلق، خیبر، فتح مکہ حنین ، طائف
ان تمام غزوات اور جنگوں میںکسی روایت میں نہیں ملتا کہ اول کے ہاتھوں کوئی دمشن دین قتل ہوا ہپو اور و اقدسی کی روایت کے مطابق ثانی کے ہاتھوں ضرور ایک دشمن دین قتل ہوا اور ثالث کا حال بھی اول کی طرح ہے اور شیر پیشہ شجاعت حضرت  علی کے ہاتھوں ان جنگوں میں 94 نامی گرامی آزمدو کاران حرب وضرب واصل جہنم ہوئے حضرت رسالت مآب نے جو لشکر گردونواح میں روانہ کئے  ان میں سے ایک میں حضرت ابو بکر کو روانہ فرمایا تھا جس میں وہ بخریت واپس آگئے تھے پھر حضرت عمر تشریف لے گئے اور وہ بھی واپس تشریف لائے اور حضرت عثمان کو تو تکلیف ہی نہ دی گئی اور پھر حضرت علی کو تین دفعہ بھیجا گیا جن میں آپ نے 21 شجاعان عرب کو تہ تیغ فرمایا اور فتح و ظفر سے مراجعت فرما ہوئے
بعثت کے چھ برس بعد جب قریش کی سختیوں سے تنگ آگر حضرت ابو طالب جناب رسول خدا کو شعب میں لے گئے اور چار سال انتہائی تنگی سے بسر کئے بتائیے کس نے مدد کی ؟ شب ہجرت کس نے مدد کی؟ اور باقی جنگوں میں کون تھا مد گار مطابق حضرت عمر نے خدمت نبوی میں عرض کی ا یا رسول اللہ یہ قریش ہیں انہوں نے جب سے عزت پائی رسوا نہیں ہوئے اور جب سے کف اختیار کیا ایمان کو ہر گز قبول نہ کیا وہ آپ  سے ضور لڑیں گے لہذا ٓپ کو ان کے مقابلہ کے لئے پوری تیار کرانی چاہیے آپ نے فرمایا پھر تمہاری کیا رائے ہے تو مقداد بن عمرو بولا ہم آپ کو قوم موسی کی طرح جواب دینا نہیں چاہتے کہ آپ اور ااپ کا خدا جا کر لڑیں اور ہم یہاں بیٹھیں رہیں گے بلکہ ہمرا جواب یہ ہے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں اور  ہم آپ کے پیچھے پیچھے آئیں گے ان کی قلبی حالت کی خدایوں ترجمانی فرما تا ہے  و ان فریقا من المومنین لکارھون یجادلونک فی الحق بعد ما تبین کا نما یساقون الی الموت و ھم ینظرون
حجرت عمر نے جس ایک شخص کو قتل کیا تھا و اقدی نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے  اپنے مانوں کو ہی قتل کیا تھا لیکن اصحاب حدیث و اقدی کی روایات کو قابل قبول  نہیں سمجھتے چنانچہ یحیی بن معین کہتا ہے کہ و اقدی نے جناب رسالت مآب کی طرف 20 ہزار جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں امام احمد بن حنبل کو قول ہے کہ و اقدی حدیثیں  خود بناتا ہے ابن مدینی کہتا ہے کہ و اقدی کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ام شافعی کا قول ہے کہ و اقدی جھوٹا آدمی ہے (میزان)
اس کا نتجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر کی طرف ایک کافر کے قتل کی نسبت بھی تقریباً بے بنیاد ہے
جنگ احد جو اسلام کی موت وحیات کی لڑائی تھی ترایخ الخلفائ باب شجاعت ابی بکر میں مذکور ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب احد کے دن لوگ رسول خدا کو چھوڑ کو بھا گ گئے تھے تو میں ہی پہلے پہل واپس آیا تھا بے شک یہ ان کی بے نظیر شجاعت کی نا قابل تردید دلیل ہے اور ازالۃ اؒکلفائ میں ہے ہ جب کفار نے حضرت رسالتماب کو ازیت پہچائی تو حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر کہا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو اللہ کو پردگار کہتا ہے؟ ایسے مقعپ پر یہ کلمہ کسی شجاع کی زبان سے ہی نکل سکتا ہے
نیز عتبہ بن ربعیعہ کی حضرت ابو بکر  ح میں گستاخی اس لسلہ کی اہم کڑی ہے
معارج النبوۃ ، تاریخ الخفا، روضہ الاحباب ، زالۃ الخلفائ، نیز تاریخ الخلاف میں ہے کہ ایک دفعہ جب ھحجرت عقیل اور حضرت ابو بکر میں سخت کلامی ہوئی تو حضرت ابو برک سب کرنے میں زیادہ زبان رس تھے
برایت بخاری حضرت عمر بھی بھاگ کھڑے تھے اور تفسیر کبیر میں ہے کہ بھاگے تو تھے لیکن ان کا شمار پہلے بھاگنے والوں  میںس ے نہیں عذر گناہ بد تر از گناہ برویت دو مثور حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب میں احد کے دل بھاگا تو پہاڑ پر چڑھ گیا جس طرح کہ پہاڑی  بکرا کو د کر چڑھ  جا تا ہے
استیعاب میں ہے کہ ابن عمر کہتا ہے جنگ احد کے دن حضرت عثمان سے ایک گناہ عظیم سر زد ہوا تھا جس کو اللہ نے معاف رمایا اور تذکرہ کواس الامۃ میں ہے کہ وہ سب سے  پہلے بھاگے تھے اور مدینہ جا پہنچے تھے حضرت عمثان  ہمراہ دو انصاری بھی تھے ایک عقبہ بن عثمان اور دوسرا سعد بن عثمان یہ تینوں مدینہ کے قریب   ایک پہاڑی میں  پہنچے اور وہاں تین روز تک ٹھہرے رہے پھر واپس آئے  اور کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا تھا تم تو بہت دور نکل گئے تھے طبری جنگ خند میں صحابہ کی حالت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے از جائ و کم من فوتک و من افل منکم و از زاغت الابصار و بلغت القولب الحنا  جو وتظنون باللہ الظنو نا ھنا لک ابتلی المومنون و رزلولو زلزالاشدیدا
پ ۲۱ سورہ احزاب رکوع ۲ ترجمہ جب کفرا پر اور نیچے سے یعنی ہر طرف سے تم پر ٹوٹ پڑے تو تمہاری آنکھین کھلی کی کھلی رہ گئیں اور دل خنجروں تک پہچ گئے اور تم اللہ پر بد ظن ہو گئے تھے وہاں مونوں کو آزمایا گیا  اور ان کو سخت طریقہ سے جھنجھوڑا گیا تھا روضۃ الصفائ میں ہے کہ عمرو بن عبدود نے شیخین کا نام لے کر  پکارا تھا مگر کون جا تا ؟ بلکہ حضرت عمر  تو اس کی  داد شجاعت دینے لگ گئے تھے جنگ خیبر میں حضرت عمر علم لے کر گئے اور شکست خورد ہ واپس پلٹے اصحاب ان  کی بزدلی کی  شکایت کرتے تھے اور وہ اصحاب کی بزدلی کو شکوہ کرتے تھے تاریخ طبرھ ازالۃ الخفا لیکن مقام غور ہے کہ فوج کمانڈنگ آفسر کے تابع ہوا کرتی ہے فوج پر بزدلی کا الزام اس وقت عائد ہوسکتا ہے جب کمانڈر ثابت قدم رہے اور فوج بھاگ جا ئے جیسا کہ جنگ احد میں ہوا کہ جناب رسالت مآب باقی رہے اور فوج بھاگ گئی لیکن جب کمانڈر فوج سمیت بھاگ جائے توبزدلی کمانڈرکی طرف ہی منسوب ہوا کرتی ہے
جنگ حنین کے متعلق ارشاد قدرت ہے کہ یاد کرو جب تمہیں اپنی کثرت ناز تھا لیکن تمیئں کام نہ آئی اورزمین باوجود کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی اور تم پشت دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے تاریخ خمیس میں ہے کہ صرف چار آدمی ثابت قدم رہے حضرت علی عباس ابو سفیان بن حارث اور عبداللہ بن مسعود باقی سب کےسب بھاگ گئے تھے اگرچہ یا اصحاب الشجرہ کہہ کر عباس نے ندائیں دیں مگر جان جو کھوں کے وقت کون کسی کی سنتا ہے یہ جادو جابس گئے اورسب سے آخری موقع کنز العمام ج 3 ص140 پر ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضر ت عمر جناب رسالت مآب کےدفن میں شریک نہ ہوئے تھے فرار کرنے والوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص کفار کو پشت دکھا کر بھاگ جائے اور عذ ر مقبول نہ رکھتا تواس کی باز گشت اللہ کی عضب ہے گویا مغضوب علیہ اور منعم علیہ کے درمیان فرار اور ثبات قدم ایک امتیازی نشان ہے حضرت علی کے متعلق ومن الناس من یشری الایتہ موجود ہے اور فرماتا ہے کہ جوا للہ کی رضا جوئی کرے اس جیسا نہیں سکتا جواللہ کے غضب میں گھر گیا ہوا او ر اس کا ٹھکانہ جہنم بن چکا ہو
بدر میں علی  دلید کا خالو اسی دن علی کے ہاتھوں قتل ہوا اور حضرت علی جوآئندہ زمانہ میں بلحاظ شجاعت عالم میں مشہور ہونے والےتھے آج ان کی شجاعت کا پہلا موقع تھا بقول مولف تاریخ اسلام علی کےاوسط بدن میانہ قد اور بہادری پر لوگ غش غش کرتے تھے دشمن کے ستر آدمی مارے گئے جن میں سے 32 کودین اسلام کےاسی پر جوش نوجوان بہادرنے ہی قتل کیاتھا اثنائے جنگ میں حضرت علی نوفل کے سامنےگئے تو نوفل علی کو آتے دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہنے لگے کہ کوئی شخص ہمارے قصد سے آرہاہے ساتھی نے جواب دیا ہاں یہ علی بن ابی طالب ہے تو نوفل نےکہا میں تقسیم کہتاہوں کہ مارنے والوں میں میں نے اس سے زیادہ شریف کوئی نہیں دیکھا بالآخر نوفل حضرت علی کےہاتھوں مارا گیا اور اس بڑے دشمن کے اپنے بھائی کے ہاتھ سے قتل ہونے پرجناب رسالت مآب نے نعرہ تکبیر بلند کیا ۔
احد میں علی
جب سب لوگ بھاگ گئے تو حضرت علی ہی تھے کہ یکہ و تنہا حمایت رسول میں لڑرہے تھے جب فوج کفار کے علمبردار مارے گئے تو کفار کی ایک جماعت کو آنحضرت نے اپنی جانب آتے دیکھا اور فرمایا یا علی ان پر حملہ کیجیئے پس آپ نے ان کو مار بھگایا اور عمرو بن عبداللہ حجی کو قتل کیا پھر حضور نے مشرکین قریش کی اور جماعت کو بڑھتے دیکھا تو حضرت علی کو ان کی سر کوبی کا حکم دیا پس آپ نے ان پر حملہ کرکے پسپا کیا اور نبی عامرین لوئی کےایک آدمی شیبہ بن مالک کو تہ تیغ کیا تو جبریل نے بآواز بلند کہا کہ جاں نثاری اسے کہتے ہیں پس حضور نے فرمایا وہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں تو جبریل نے کہا میں تم دونوں میں سے ہوں اور یہ آواز لوگوں نےسنی لاسیف الا ذوالفقار ولا فتی الاعلی طبری مطالب السئول مدارج النبوۃ وسیرت بن ہشام حسان بن ثابت نے اپنے قصیدہ مدحیہ میں اسے یوں تضمین کیا ۔جبریل نادی معلنا       والمقع لیس بمنجلی والمسلمون قد الحد قو ا       حول النبی المرسل      لا سیف الا ذوالفقار ولا فتی الا علی  ترجمہ ابھی غبار جنگ نہیں پھٹا تھا کہ جبریل بآواز بلند کہہ رہے تھےاور مسلمان حضرت رسالتمآب کے ارد گرد جمع ہو چکے تھےتلوار ذوالفقار کے علاوہ کوئی نہیں اور جو انمرد علی کےسوا کوئی نہیں اسی جنگ میں آپ مصروف کا ر  زار تھے کہ حضرت علی سےاپنے مد مقابل نے تلوار مانگی پس آپ نے اس کو تلوار دےدی کافر نے کہا آپ دیوانے تو نہیں آپ نے فرمایا کیوں عقلمند ایسے وقت میں اپنا ہتھیار دشمن کونہیں دیا کرتے  آپ نے فرمایا تیرے سوال کو رد کرنا میری جوا نمردی کےخلاف تھا اور اب تیرا مجھے زخمی کرنا تیری جوانمردی کے خلاف ہے پس میرا ناجوانمردی کےہاتھوں زخمی ہونا مجھے اس سے محبوب ہےکہ خود نا جوانمرد بن کر تجھے زخمی کروں ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ شاہان ترک کی ایک جماعت اورا ٓل بویہ ظفر و نصرت کے لئے اپنی تلوار وں پر حضرت علی کی تصویر نقش کرواتے تھے یہ تھیں حضرت علی کی ظاہری فتوحات اور اگر روحانی لڑائی میں حضرت علی کا مقام دیکھنا ہو تو میدان مباہلہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھئے جب مباہلہ کی تاریخ اورمیدان مقرر ہوا تو آنحضرت نے حضرت علی فاطمہ حسن و حسین کواپنی عبامیں داخل فرمایا اور جبریل نے آیہ تطہیر پڑھی پس حضور اصحاب عباکے ہمراہ میدان مباہلہ میں تشریف لائے اور نصاری نےجزیہ قبول کرلیا یہ اسلامی مباہلہ نصاری کے ساتھ تھاایک اور مباہلہ کوفہ وشام کے مسلمانوں کے ساتھ حضرت سیدالشہدا کاہوا اس مباہلہ میں نصاری چاہتے تھے کہ ہمارے ساتھ جنگ نہ ہوا ور اس مباہلہ میں حضرت حسین چاہ رہے ہیں کہ مجھے چھوڑدو تاکہ میں جنگلوں پہاڑوں کیطرف چلا جاوں اورتمہارے اسلامی شہروں کوچھوڑ کرکفار کے علاقوں میں ہجرتکرجاوں لیکن انہوں نے نہ مانانصاری نے ان نورانی چہروں کے ساتھ مباہلہ پسند نہ کیا تھالیکن کوفہ کے مسلمان تلوار کھینچ کر سامنے آگئے یہاں حضرت سیدالشہدا نے کئی قسم سے مباہلہ کیا عطابن سائب سے مروی ہے کہ میرا بھائی کہتاہےمیں کربلا میں موجود تھابنی تمیم کا ایک شخص عبداللہ بن جویریہ نے امام حسین کوا ٓکر آواز  آپ نے فرمایا کیا کہنا چاہتا ہے تواس نے جواب دیاکہ تمہیں دوزخ کی بشارت ہوآپ نے فرمایا میں ااپنے رب غفور کی طرف جا رہا ہوں پس آپ نے اپنے دونو ہاتھ بلند کئے کہ سفیدئ بٖغل نمودار تھی پس دعا مانگی اےاللہ اس شخص کوجہنم رسیدا کریہ سن کر ابن جویریہ کوغصہ آیا اورفورا آپ پر حملہ آور ہواتو ایک نشیب میں اس کے گھوڑے کاپاوں پھسلا اور اس کاپاوں رکاب میں پھنس گیا اور خود گر گیا پس گھوڑے کےدوڑے سےاس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اوروہ  اصل جہنم ہوا ابن بابویہ نےاپنی امالی میں بسند مفضل  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت کی ہے کہ پھر ایک شخص آیاجس کا نام امام تمیم بن حصین فرازی تھا اس نے امام حسین اور آپ کے جانثاروں کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھو فرات کاپانی کس طرح صاف و شفاف شکم مارکی طرح بل کھا رہا ہے لیکن خدا کی قسم تم ایک قطرہ نہ چکھو گے اور اسی حالت پیاس میں تمہاری موت واقع ہوگی یہ کہہ کر وہ چلا گیا آپ نے پوچھا یہ شخص کون تھاتوکہاگیا کہ یہ تمیم بن حصین ہےآپ نےفرمایا یہ اور اس کا باپ دونوں جہنمی ہیں اوردعا کی اے اللہ ا س شخص کوآج ہی پیاس کی موت کاذائقہ چکھا پس اس پرپیاس کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ وہ گھوڑے سے گرااور دوسرے گھوڑوں سےاسے اپنے میں کچل کروا صل نار کیا آہ جناب رسالت مآب نے اہل بیت کےمتلعق کیا کہ وصیتیں فرمائی تھیں اورامت نےکیا سلوک کیا حضرت ام سلمی کو خاک کربلا دی گئی تھی امام حسین علیہ السلام نےفرمایا جب یہ سرخ خون ہو جائے توسمجھ لینا کہ میں شہید ہوگیا ہوں ہائے عصرعاشورہ کوجب ام سلمہ نے اس خاک پر نظر کی توآہ و فغان بلند کیا ابن عباس نےوجہ پوچھی تو واقعہ بیان کیا اوراولاد عبدالمطلب سے فرمایا کی صف  ماتم بپاکر د کیونکہ حسین کربلا میں شہید ہو گیا ہےجب ابن عباس نےدوبارہ دریافت کیا  توفرمایا کہ میں نے جناب رسول خدا کودیکھا ہےکہ بال پریشان تھےا ور سر مبارک اور ریش مبارک میں خاک تھی اورفرمایا کہ میرے فرزند پر امت جفا کار نے حملہ کرکے شہید کردیا اور جناب بتول معظمہ کی حالت یہ ہے کہ واقعہ کربلا کویاد کر کے ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے پس آسمانوں میں کوئی  ایسا فرشتہ نہیں جوا ن کی آواز گریہ سن کر روتا نہ ہوبس جناب رسالت مآب تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں بیٹی تیرے رونے نے اہل آسمان کو رلا دیاکہ ان سے تسبیح و تقدیس چھوٹ گئی ہے پس تم اپنا گریہ بند کرو تاکہ وہ اپنا فریضہ تقدیس اداکریں حضرت جب مکہ سے روانہ ہوئے تھے تولوگوں کواپنی نصرت کے لیے دعوت دیتے تھے لیکن لوگ وہ راستہ بھی ترک کردیتے تھے جس پر حضرت گامزن تھے تاکہ ہمیں نصرت کےلیے نہ کہا جائے چنانچہ زہیرین قین کاواقعہ کتب مقاتل میں موجود ہے شب عاشور عمر سعد کی طرف پیغام بھیجا کہ دونوں لشکروں کےدرمیان میں اور تم دونواکیلے باتیں کریں بس آپ نے بوقت خلوت فرمایا اےابن سعداللہ سے ڈر میرے ساتھ کیوں لڑتا ہے حالانکہ توجانتا ہے کہ میں کسکابیٹاہوں دشمنوں کوچھوڑ کرمیراساتھ دے تاکہ اللہ کا قرب تجھے حاصل ہوا س نےجواب دیا اگر میں ایساکروں تو میرے گھر کومنہدم کرایا جائےگا آپ نے فرمایا میں بنوادوںگا اس نے کہا میری جائیداد ضبط کی جائے گی آپ نے فرمایا میں اسکےبدلے میں اپنی حجاز کی جائیداد پیش کروں گااس نے کہامجھے اپنی بیوی بچوں کافکر ہےپس آپ خاموش ہوگئے اور آخرکار فرمایا خداکی قسم تجھے عراق کی گندم نصیب نہ ہوگی تواس بد بخت نے ازراہ تمسخر جواب دیاکہ پھر جو پرگذارا کرلوں گا آپ نے صبح عاشور مباہلہ کیا پیغمبر کی شبیہہ علی اکبر کی شبہیہ حضر ت عباس حضرت فاطمہ کی شبہیہ جناب زینب امام حسن کی شبہیہ شہزادہ قاسم موجود تھے جو آپ کے گردوپیش موجود تھے نتیجہ یہ ہوا کہ آخر اکار تنہا بچ گئے اور پھر فرمایا کہ میرا چونکہ یار وناصر کوئی نہیں رہا لہذا مجھے اتنی مہلت دو کہ اہل حرم کوکہیں چھوڑ آوں لیکن کسی نے نہ مانا پھرلباس پیغمبر زیب تن فرماکر مباہلہ کیا کہ شاید پیغمبر کاشرم کریں پھر شیر خوار بچہ کو لے کر مباہلہ کیا آخر وہ وقت آیا کہ آخری مباہلہ کےلئے خیمہ گاہ سے باہرتشریف لےگئے اور واپس نہ پلٹےچھوٹی شہزادی نے عرض کی بابا جان تھوڑا سا ٹھہر جائیے کہ میں آخری بار سیر ہوکر آپ کی زیارت کرلوں آپ رودئیے اور بچی کوگود میں بٹھا لیا اور اپنی آستین سے بچی کی آنکھوں سے آنسووں کو پونچھا اور فرمایا سیطول بعدی یاسکینتہ فا علمی  منک البکاح اذا لحمام دھانی لا تحرقی قلبی بد معک حسرۃ مادام منی الروح فی جثمانی فاذا قتلت فاتت اولی بالذی تاتینہ یا خیرۃالنسوان ترجمہ جان لے اےسکینہ میرے مرنے کے بعد تیرا گریہ طویل ہوگا جب تک میں زندہ ہوں اپنی بہتی آنسو سےمیرے دل کو بے چین نہ کر جب میں مارا جاوں توجس قدرگریہ کرےتیرا حق ہے اے بہترین زنان تنہا میدان میں پہنچےاور مباہلہ کیا زمین پر گرے کہ پھر اٹھ نہ سکے اور آخری بار سو گئے کہ تمام موجودات عالم سے آہ وفغان کی صدائیں بلند ہوئیں جواب تک ہیں دنیا تاریک ہوئی زلزلہ آیا تمام موجودات میں کہرم بپا ہواجو ہمیشہ تک رہیگا  اناللہ وانا الیہ راجعون اقول یہ کہہ دنیا اورسن لینا آسان ہےکہ حسین مارےگئے اور بیبیاں لٹ گئیں لیکن بسمل کےتڑپنے کی کسی دل کو کیا خبر کشتی کے ڈوب جانے کی ساحل کوکیا خبر کس کے گلے چھری چلی قاتل کو کیا خبر غربت میں کون لٹ گیا منزل کو کیا خبر زہرا سے پوچھیئے یہ قلق نورعین کا  لپٹا زمین کا اور تڑپنا حسین کا           پارے مصحف ناطق دے جاں اترے وچ صحرائے باد سموم دی تیزی نوں تیزی نوں تھئے اکثر ورق جدا ئے سرنامے ہر ہر آیت دےجان نوک سناں تے آئے  تفیسر کھلی بازاراں وچ جدوں خطبے سین سنائے  گل نازک چمن رسالت دے جدوں جھنڑ پئے وچ صحرائے ہک ریت گرم بپاگرم ہواگئے اکثر گل کملائے بہوں غنچے بر گ و برگ تھئے جدوں گھوڑیاںقدم ودھائے پارات دا برقعہ نکھڑیاں کلیاں رہی چندی عون دی مائے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں