التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چودہویں مجلس -- کونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کونو امع الصادقین
قرآن کی اطاعت جبھی ہو سکتی ہے جب صادقین کی صحبت ہو یہی وجہ ہے کہ جناب رسالت مآب نے ہر مقام پر ثقلین سے تمسک کا حکم صادر فرما یا صراط سوی محمود قادری میں ہےکہ ہر  مرض موت میں ایک مرتبہ حضور کےپاس صحابہ کا کثیرالتعداد مجمع تھا توارشاد فرمایا عبقریب میں تم سے جدا ہو جاوں گا آگا ہ رہو میں تم میں اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں پھر علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا ھذا علی مع القرآن مع علی لایفترقان حتی یروا علی الحوض الحدیث یہ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کےساتھ ہے یہ آپس سےجدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پروار ہوں گے اور میں ان کے بارے میں پوچھوں گا کہ تم نے ان سےکیا سلوک کیا ۔
حدیث ثقلین کو مسلم ابو داود ابن ماجہ ترمذی مسند احمد طبرانی خصائص نسائی دار  قطنی مستدرک حاکم خصائص کبری سیوطی صواعق محرقہ وغیرہ نے نقل کیا ہے یہ حدیث متواتر ہےاور مسلم بین الفریقین ہے بحرالانساب میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ تمہیں قرآن واہل بیت کا فی ہیں ہداتہ السعدائ پس جنہوں نے کہاہمیں صرف کتاب خدا کافی ہے تو گویا انہوں نے عہد خدا کو توڑ اور خدا  و رسول کے عہد کو توڑنے والے باصطلاح قرآن ملعون و خاسر ہو ا کرتے ہیں اہل بیت نبوۃ قرآن کے ساتھ معیت مکانی اور زمانی رکھتے ہیں معیت مکانی کے متعلق ارشاد ہے بل ھوآیات بیتات فی صدور الذین اولو العلم ااور معیت زمانی کے متعلق ارشاد نبوی ہے حتی یروا علی الحوض
حضر ت علی  قرآن کےساتھ
آپ نے بوقت ولادت سورہ مومنون کی تلاوت کی تھی اور بوقت شہادت بھی زبان پر  قرآن تھا کہ ان اللہ مع الذین اتقو ا والذین ھم محسنون اسی طرح خدا کی جانب سے سورہ برات کی تبلیغ کے لیے علی کو ہی نامزد کیا گیا تھا ۔تما م مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جناب رسالت مآب کے زمانہ میں علی ہی قرآن کے حافظ تھا اور دوسرا کوئی حافظ نہ تھا اور علی ہی پہلا جامع ہے ) شرح ابن ابی الحدید اتقان ازالتہ الخفائ (
حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب کی وفات کے بعد میں نے قسم کھالی کہ دوش پر ردا نہ لوں گا جب تک قرآن کوجمع نہ کر لوں گا پس ایک عرصہ تک آپ صحابہ کےمجمع میں تشریف نہ لے گئے اور قرآن کے جمع میں مشغول رہے پھرایک چادر میں لپیٹ کر لے گئے جب کہ مسجد میں صحابہ کا کثیر التعداد مجمع تھا توایک مدت کے بعد جو علی کو آتے دیکھا کہنے لگے کسی خاص بات ک لئے ہی ابوالحسن تشریف لائے ہیں پس آپ نےان کے وسط میں پہنچ کرقرآن ان کے درمیان رکھااور فرمایا کہ جناب رسالت مآب گئے تھے میں دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن دوسرے اہل بیت لو یہ قرآن ہے اور میں اہل بیت سے ہوں پس حضرت عمرنے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ اگر آپ کے پاس قرآن ہے تو ہمارے پاس بھی قرآن موجود ہے ہم کو تم دونوں کی ضرورت نہیں پس آپ اتمام حجت کے بعد قرآن مجید کو اٹھا کر واپس گھر تشریف لائے مناقب ابن شہر آشوب
علی کا ختم قرآن
حضرت علی ہی کے متعلق وارد ہے کہ ایک رکاب میں پاوں ڈالتے تھے اوردوسری رکاب تک پاوں پہنچنے سے قبل ختم قرآن کر لیتے تھے بلکہ ایک روایت میں ہے ملتزم کعبہ سے دروازہ کعبہ  تک ختم قرآن کرتے تھے فاضل دہلوی درشرح مشکوٰۃ
علی کا مقابلہ میں آنے والے دوسرے حضرات کی قرآن دانی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایک عبرتناک منظر سامنے آجاتا ہے اورمسلمانوں کے انتخاب کی داد دئیے بغیر رہا نہیں جا سکتا اورکہنا پڑتا ہے کہ انصاف کا خون کرنا انہی کا ہی حصہ ہے ابن عمر سے مروی ہےکہ حضر ت عمر نے سورہ بقرۃ آٹھ برس میں پڑھی اور ختم پرایک اونٹ قربان کیا اور مالک نے موطا میں ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر آٹھ برس تک سورہ بقراہ پڑھتا رہا اور طبقات بن سعد میں مروی ہے کہ اس نے چار برس میں سور ہ بقرہ تمام کر لی درمنثور بہر کیف کم از کم چار برس ہی سہی ذہن و ذکا کی داد ضرور دینی پڑتی ہے اور جب اس قسم کے ذکی و ذہین لیڈر اہل اسلام کو نصیب ہو جائیں تو کیوں نہ انہیں اہل بیت سے مستغنی کریں لیکن علی کی شان کے قربان راوندی نےذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ آپ گزار رہے تھے کہ ایک شخص کپڑے سی رہا تھا اور ساتھ ساتھ گا رہا تھا آپ نے فرمایا اے جو ان اگر گانے کی بجائے قرآن خوانی کرتا تو زیادہ خوب ہوتا اس نے عرض کی حضور مجھے نہیں آتا آپ نے فرمایا میرے قریب ہو جب وہ قریب ہو اتو آپ نے اس کے کانو ں میں کچھ پڑھا تو خدا وند کریم نے اس کے دل میں قرآن ڈال دیا اور وہ حافظ قرآن ہو گیا مدینہ المعاجز
بے شک قدر والی چیز کی قدرومنزلت قدر شناس کے پاس ہواکرتی ہے قدر زرزرگر شناسد قدر جو ہر جوہرہ
قرآن مجید کی جو قدرومنزلت اہل بیت نبوت کے پاس تھی وہ کوئی دوسرا کیا کرسکتا ہے آئیے بڑے بڑوں کی قدر وانی ملاحظہ ہوا ۔
بروایت حضرت  عمر حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب آیتہ رحم اتری اور بڑے آدمی کی رضاعت کے متعلق د س مرتبہ دودھ پینے سے محرم ہونے والی آیت نازل ہوئی تو ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر کے نیچے پڑی تھی جناب رسالت مآب کی وفات ہوئی اور ہم اس طرف مشٖغول ہو گئے تو ایک بکری آکر کھا گئی
ابن ماجہ محاضرات راغب اصفہانی
اس سے بڑھ کر خدا اور رسول اور شریعت طاہرہ پر جرات کا مظاہر ہ دیکھئے بلکہ شریعت کے ساتھ تمسخر دیکھئے کہ جب  کوئی آدمی حضر ت عائشہ کی زیارت کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا تو حضر ت عائشہ اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں کو حکم دیتی تھی کہ اس کو اپنا دودھ پلاو اگرچہ پانچ مرتبہ ہی سہی پس وہ اس کے بعد حضرت عائشہ کی بے جھجھک زیارت کر سکتا تھا فتح الباری جلد   21 ص41
حالانکہ جناب ام سلمہ اور باقی ازواج نبی اس قسم کےدودھ پینے سے کسی کواپنا محرم نہیں سمجھتی تھیں جب تک کہ مہد میں دودھ نہ پیئے اس قسم کےامور قرآن کی ناقدر شناسی کی وہ دلیل ہیں جسے رد نہیں کیا جا سکتا ۔
بس دنیا میں اہل بیت سے بڑھ کرنہ کوئی عالم قرآن ہے اور نہ کوئی عامل قرآن پس یہی حقیقی قدردان تھے اللہ کی کتاب کےاور یہی وجہ ہے کہ حضر ت امیر نے ہر ہر مرحلہ پراپنے مقابلہ والوں کو کتا ب اللہ کی طرف رجوع کی پیش کش کی لیکن نہ مانی گئیں جنگ صفین میں جب قرآن کو بلند کیا گیاتو آپ نے فرمایاکلمتہ حق یراومنھا الباطل یعنی اہل شام حق کا کلمہ کہہ کر باطل مراد لے رہے ہیں یعنی دھوکا دینا چاہتے ہیں اور باوجود اس کے آپ نے جنگ کوروک دیا ۔
جنگ جمل میں حضر ت عائشہ نے حضرت امیر کو دونو صفوں کے درمیان پھرتا ہو ا دیکھا تو کہنے لگی دیکھو یہ ایسا کر رہا ہے جیسے جناب رسول نے جنگ بدر کےدن کیا تھا لیکن خداکی قسم تم کو زوال تک مہلت نہ دی جائے گی تو حضرت علی نے فرمایا عنقریب تو پچھتائے گی پھر لوگوں نے لڑائی میں عجلت کا ارادہ کیاتو آپ نے منع فرمایا اور دعا مانگی اے میرے پروردگار میں نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے اور ان کو زور کو توڑ دیا ہے تو میرا گواہ رہنا پھر قرآن مجید کو ہاتھ میں لیا اور فرمایا کوئی ہے جو قرآن کی یہ آیت ان لوگوں کو سنا ئے وان طائقتان الخ تو مسلم مجاشعی نے کہا میں حاضر ہوں آنحضرت نے فرمایا کہ یکے بعد دیگرے تیرا دایاں پھر بایاں ہاتھ کٹ جائے گا اور پھر تو قتل کیا جائے گا تو اس نےجواب دیا اللہ کی ذات کی خوشنودی  کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں پس وہ قرآن کو لے کر ا ن کی طرف بڑھا تو اس کا دایاں ہاتھ قلم ہوا پس قرآن کو بائیں ہاتھ میں لیا پھر بایاں ہاتھ کٹا تو قرآن کو دانتوں میں پکڑ لیا پھر خود قتل ہو کر شہید ہوا۔
مسلم کی شہادت کے بعد حضرت علی نے اپنی فوج کی جنگ کی اجازت دیدی اسی طرح حضرت سیدالشہدا نے جب دیکھا کہ لوگ میرے قتل سے باز نہیں آتے تو آپ نے قرآن مجید کھول کر اپنے سر پررکھا اور فرمایامیرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہےاے لوگو میراخون کیوں حلال سمجھتے ہو کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں کیا میرے اورمیرے بھائی امام حسن کے متعلق میرے نانا نے نہیں فرمایا تھا یہ دونو جوانان جنت کے سردار ہیں اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو جابر زید بن ارقم اور ابو سعید حذری سے دریافت کر لو کیا حضرت جعفر طیار میرے چچا نہیں یہ سن کر شمر نے اپنی زبان نجس سے گستاخانہ کلمہ نکالا توآپ نے فرمایا اللہ اکبر میرے نانا نے مجھے خبر دی تھی کہ میں نے ایک کتے کو دیکھا ہے جو میری اہل بیت کے خون کو چاٹتا ہے اور تو وہی ہے تذکرہ خواص الامتہ
9 محرم کوجب فوج اشقیار نے حملہ کیا تو حضرت عباس سے فرمایا اگر ہو سکے توجا کر ان سے آج رات مہلت لو اور جنگ کو کل تک موخر کراو تاکہ ہم نماز پڑھ لیں اور دعا و استٖغفار کرلیں اور وہ جانتا ہے کہ میں نماز تلاوت قرآن اور  دعا و استغفار کو محبوب رکھتا ہوں ملہوف میں ہےکہ جناب عباس نے جب ان سے یہ سوال کیا تو عمر بن سعد نے توقف کیا
منتخب میں ہے کہ ابن سعد نے شمر سے پوچھا تیری کیا رائے ہے اس نےجواب دیا اگر میں ہوتا توان کی مہلت نہ دیتا ملہوف میں ہے کہ عمرو بن حجاج زبیدی نے کہا اگر ترک ودیلم کے باشندے ہوتے اور ہم سے یہ سوال کرتے تو ہم ضرور مان لیتے لیکن یہ تو آل محمد ہیں ان کو اجازت کیوں نہ دی جائے پس انہوں نے مان لیا توامام حسین اور آپ کے اصحاب نے رات گزاری تو ساری  رات ان کی تسبیح و تقدیس کی اور آواز مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح سنائی دیتی تھی بعض قیام میں بعض قعود میں کئی رکوع میں اور کئی سجود میں تھے اور شہادت کے بعد قرآن پڑھ کر جناب رسالت مآب کی حدیث کی عملا تصدیق کی کہ دیکھو ہم قرآن سے جدا ہونےوالے نہیں ہیں اور سورہ کہف کی تلاوت سے شاید اپنی تشبہیہ مقصود ہواوران کا قصہ اصحاب کہف کے قصہ سےزیادہ عجیب اس لئے ہے کہ وہ ایک غار میں اور سائے میں پڑے ہیں اوران کے جسم کو تغیرنہیں آتا لیکن سیدالشہدااور ان کے ساتھیوں کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے خاک و خون میں غلطان اور دھوپ میں برہنہ تھے اور گرد اڑ اڑ کر ان پر پڑتی تھی اور باوجود اس کے ان میں تغیر تو بجائے خو د ان کے ابدان طاہرہ سے مشک و عبنر کی خو شبو آتی تھی جس طرح ایک اسدی کی روایت میں ہے غلام حبشی نے اجازت مانگی اور امام نے تاخیر کی تھی توا س نے عرض کی تھی مولا چونکہ میرا خون بد بودار ہے اس لئے مجھے اجازت نہیں ملتی چنانچہ اصرار کے بعد وہ اجازت لے کر گیا توجون کو دس دن کے بعد دیکھا گیا تو اس کے بدن سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی آئیے اس غلام حبشی کی طرح حسین کی غلامی کا عہد کریں انا للہ وانا الیہ راجعون
اقول جون کو امیر علیہ السلام نے ایک سو پچاس دینار میں خرید کو ابوذر کو بخش دیا تھا ابو ذر کی وفات کے بعد حضرت امیر کی خدمت میں واپس آیا پھر امام حسن کی غلامی میں رہا اور آخر میں حضر ت سیدالشہد اکے قدموں پر نثار ہوا جون اسلحہ جنگ کی شناخت میں مہارت کا ملہ رکھتا تھا اسی لیے خیام حسینی میں شب عاشور آلات جنگ کی اصلاح اوردیکھ بھال جون کے ذمہ تھی بروایت ملہوف امام حسین نے جون کو چلے جانے کی اجازت دیدی تھی لیکن اس وفادار نے کہا اے فرزند رسو ل خوشحالی کے زمانہ میں آپ کا کاسہ لیس رہوں اور مصیبت میں چھوڑ جاوں یہ ہر گز نہ ہو گا میرا حسب و نسب پست ہے اور میرا خون بد بودار ہے آپ مجھے بہشت میں جانے دیں تاکہ میری بو پاکیزہ حسب شریف اور رنگ نورانی ہوجائے پس اجازت لے کر بحر جنگ میں غوطہ لگا یا 25 ملاعین کو قتل کرکے شہادت نوش فرمایا حضرت حسین نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کی بو کو پاکیزہ کر اور اس کی شکل کو نورانی کر اور ابرار میں اس کو شامل فرما آپ کی دعا مقبول ہوئی پس دس دن کے بعد جو جون کی لاش ملی تو اس سے عطر اورعنبر کی خوشبو مہک رہی تھی ۔

ایک تبصرہ شائع کریں