التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دوسری مجلس -- یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مو الصادقین


یاایھا الذین امنو ااتقو اللہ وکونو مو الصادقین

تقوی کی علامات

جو  قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوۃ  و مما رزقناھم ینفقون و الذین یومنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالاخرۃ ھم یوقنون اولیک علی ھدی من ربھم و اولیک ھم المفلحون
یہ کتا ب ہدایت ہے متقین کے لئے وہ وہ ہیں جوغیب سے ایمان رکھتے ہیں اورنمازیں قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں اور  وہ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو نازل  کی گئی طرف آپ کی اور وہ نازل کی گئی آپ سے پہلے اور آخرت کا وہ یقین رکھتے ہیں وہ لوگ ہی ہدایت پر ہیں اپنے پروردگار کی طرف سے اور وہی ہیں چھٹکارا پانے والے۔
زین للناس حب الشھوات من النساء و البنین و القناطیر المقنطرۃ من الذھب و الفضۃ والخیل المسومۃ و الانعام و الحرث ذلک متاع الحیوۃ  الدنیا و اللہ عندہ حسن الماب قل ء اونبئکم بخیر من ذلکم للذین اتقوا عند ربھم جنت تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا و ازواج مطہرۃ و رضوان من اللہ واللہ بصیر بالعباد والذین یقولون ربنا اننا امنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار الصابرین و الصادقین و القانتین و المنفقین و المستٖغفرین بالاسحار۔
زنیت دی گئی لوگوں کیلئے خواہشات کی محبت عورتوں اور بچوں سے اور سونے چاندی کی پُر تھیلیوں سے اور علامت دار گھوڑوں سے اور کھیتیوں سے یہ سب دنیا وی زندگی کے سامان ہیں اور اللہ کے نزدیک بہترین باز گشت ہے فرمادیجئے کیا میں تم کو بتاوں بہتر ان چیزوں سے وہ یہ کہ تقوی کرنے والوں کیلئے اپنے پروردگار کے نزدیک جنات ہیں  جن کے نیچے نہریں جاری      ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بیویاں ہیں پاک و پاکیزہ اور خوشنودی خدا اور اللہ اپنے بندوں سے آگاہ ہے وہ لوگ جوکہتے ہیں اے پروردگار ہم ایمان لائے پس بخش  ہمارے گناہ اور بچا ہمیں جہنم کے عذاب سے صبر کرنے والے  سچ بولنے والے قنوت کرنے والے خرچ کرنے والے اور سحور کے وقت استغفار کرنے والے ہیں۔
و سارعوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃ عرضھا السموات و الارض اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء و الضراء و الکاظمین الٖغیظ و العافین عن الناس و اللہ یحب المحسنین و الذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم و من یغفر الذنوب الا اللہ و لم یصروا علی ما فعلوا و ھم یعلمون اولیک جزائھم مغفرۃ من ربھم و جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا و نعم اجر العاملین
اورجلدی کرو طرف بخشش پروردگار کے اور ایسی جنت کے جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو تیار کی گئی ہے تقوی کرنے والوں  کیلئے وہ جو خرچ کرتے ہیں خوشحال اورتنگدستی کے زمانہ میں ضبط کرنے والے ہیں غصہ کو اور معاف کرنے والے ہیں لوگوں کو اور اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو اور وہ لوگ کہ جب کوئی برا کام کر بیٹھیں یا اپنے نفسوں پرظلم کریں تواللہ کو یاد کرکے اس سے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور کون گناہ بخشش سکتا ہے سوائے خدا کے اور وہ لوگ اصرار نہیں کرتے اوپر اس فعل بد کے جوکر چکے ہیں جان بوجھ کرایسے لوگوں کی جزا بخشش ہے خدا کی طرف سے اور جنات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ا س میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنے والوں کا اجر کیا خوب ہے۔
اس میں شک میں نہیں کہ اللہ سے خوف زدہ ہونا ایمان والوں کی نشانی ہے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:
انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم و اذا تلیت علیھم ایاتہ زادتھم ایمانا و علی ربھم یتوکلون۔
بجز اس کے نہیں کہ مومن وہ ہوا کرتے ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں اور جب ان پراس کی آیات کی تلاوت ہوں تو وہ زیادہ ہو ں ازروئے ایمان اور اوپر اپنے رب کے بھروسہ کرنے والے ہوں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
فلا تخافوھم و خافون ان  کنتم مومنین  ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
ایک اور مقام پر فرماتا ہے:
و اتقوا اللہ ان کنتم مومنین  اور اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
اسی بنا پر تو خواص کی دعا اس طرح پرہے کہ کہے:
اللھم ارزقنی خوف غم الوعید و شوق ثواب الجنۃ اے اللہ مجھے غم دوزخ کا خوف اور ثواب جنت کی شوق مرحمت فرما ۔
تقوی کرنے والوں کو خدا وند کریم نے بارہ خصلتیں کرامت فرمائی ہیں:
مدح و ثناء یعنی صاحبان تقوی کی اس نے مدح و ثناء کی ہے چنانچہ فرماتا ہے ان تصبروا  وتتقوا فان ذلک من عزم الامور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو یہ پختگی ارادہ  کی دلیل ہے۔
حفظ و حراست یعنی صاحب تقوی خدا کی حراست میں ہوتا ہے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے ان تصبروا و تتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا اگر تم صبر کرو اور تقوی کرو تو تم کو ان کی مکاریاں ذرہ بھر بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گی۔
تائید و نصرت یعنی اہل تقوی کی تائید خدا فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ہے ان اللہ مع الذین اتقوا
سختیوں سے نجات اور رزق حلال کی فراوانی چنانچہ فرماتا ہے  و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب اورجو اللہ سے تقوی کرے گا خدا سختیوں سے اس کی نجات کا راستہ بنا دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق کرامت فرمائے گا کہ اس کو خیال تک نہ ہوگا ۔
اصلاح عمل چنانچہ ارشاد ہے یا ایھا الذین امنو اتقو اللہ و قولو ا قولا سدیس ا یصلح لکم اعمالکم اے ایمان والو اللہ سےڈرو اور اچھی باتیں کہو۔ خدا تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا ۔
غفران گناہ فرماتا ہے ویغفر لکم ذنوبکم اور خدا تمہارے گناہ بخش دیگا اللہ کی محبت ان اللہ یحب المتقین اللہ تقو ی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ قبولیت اعمال انما یتقبل اللہ من المتقین خدا صرف تقوی کرنے والوں سے ہی قبول فرماتا ہے
اکرام خدا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم اللہ کے نزدیک زیادہ صاحب اکرام وہ ہے جو زیادہ ڈرنے والاہو ۔ موت کے وقت خوشخبری الذین امنو وکانو یتقون لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا والاخرۃ وہ لوگ جو مومن ہیں اور تقوی اختیار کرتے ہیں ان کو بشارت دی جاتی ہے دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ دوزخ سے نجات ثم ننجی الذین اتقو پھر ہم نجات دیں گے ان لوگوں کو کو تقوی کرتے ہیں۔ جنت میں خلود ۔ اعدللمتقین وہ جنت تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے ہی تیار کی گئی ہے ۔ علامات ایمان ما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ کسی مومن و مومنہ کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کرے ورسولہ امر اا ن یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعض تو پھر وہ اپنی پسند کو ان کے فیصلہ پر ترجیح دے اور جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی اللہ ورسولہ فقد ضل ضلا لا مبینا  کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے ۔
اس آیت پرجس طرح حضرت سیدالشہدا علیہ السلام نے عمل کیا اور کسی نے اس طرح نہیں کیاچنانچہ بوقت روانگی از مکہ جس قدر لوگ آپ سے ملے اور کوفہ جانے سےروکنے کی کوششیں کیں تو آپ نے ہر ایک کےجواب میں یہی ارشاد فرمایا کہ جباب رسالت مآب نے میرے لئے جوفیصلہ کردیا ہے اور مجھے جوامر ہوا ہے میں ضرور  اس پر عمل کروں گا خواہ اس میں میری بھلائی ہو یا میرا نقصان ہو۔
انما المومنون الذین امنو باللہ ورسولہ واذاکا نو سوائے اس کے نہیں کہ مومن وہ ہوتے ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان رکھیں اور معہ علی امر جامع لم یذھبو ا حتی لیستاذنو کسی اجتماعی معاملہ میں آپ کےساتھ ہوں تو کہیں چلے نہ جائیں جب تک کہ آپ سے اجازت نہ لے لیں ۔
قرآن مجید نے مومنوں کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی قرار دی ہے کہ جب وہ جناب رسالتمآب کے ہمراہ کسی ایسے کام میں ہوں جو اجتماع کا محتاج ہو تو آپ کی اجازت حاصل کئے بغیر چلے نہ جائیں تو جو لوگ کسی جنگ میں آپ کو تنہا  چھوڑ کر جانے کے عادی ہوں ان کا ایمان کا دعوی صرف زبانی ہی زبانی ہوتا ہے ایمان والے تو وہ ہیں جوایسے مقامات پر پہاڑ کی طرح جم کر رہیں نہ کہ پہاڑ پر بھاگ کر جائیں ۔
انما المومنون الذین امنو باللہ ورسولہ ثم لم یر تابوا سوائے اس کے نہیں کہ مومن وہ ہوتے ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان رکھنے کے بعد شک نہ کریں گویا اگرایمان لانے کے بعد شک کریں گے تو ان کا ایمان پختہ نہ ہوگا پس جن لوگوں نے صلح حدیبیہ کے وقت جناب رسالتمآب کی رسالت پر مشکوک کئے اس آیت کی رو سے وہ دائر ایمان سے خارج سمجھے جائیں گے۔
گریز مصائب
ہاں اگر ان صفات کا ملاحظہ کرنا ہوتو ذڑا میدان کربلا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھئے طائر موت سر پر منڈلا رہا ہے اور مصائب وا ٓلام کے بادل سر پر جھک چکے ہیں لیکن خدا اور رسول کے فیصلہ پر ذرا بھر شک نہیں اور عزم صمیم میں سر موفرق نہیں نہ دل میں گھبراہٹ ہے اور نہ قدموں میں لڑکھڑاہٹ ہے گویا ثابت قدمی کے لحاظ سے مصائب کے سامنے حسین ایک مضبوط چٹان بن کرکھڑےہیں ظلم و جور کی تیز سے تیز آندھیاں حسین کے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ لا سکیں زمین کربلا میں وار د ہوتے ہیں گھوڑا رک جاتا ہے پھر دوسرے پر سوار ہوتے ہیں وہ بھی رک  جاتا ہے وعلی ھذالتیاس چھ گھوڑے تبدیل کئے جب سب باری باری رک گئےتو آپ نے سوال کیااس زمین کا نام کیاہے اور نام بتلائے گئے آخر کار عرض کی حضور اس زمین کو کربلا بھی کہتے ہیں پس آپ نے ٹھنڈا سانس لیا اور بہت روئے اور فرمایا خداکی قسم یہ زمین کربلا ہے گویا کرب و بلا یعنی مصائب و آلام کی زمین ہے پھر حکم دیا کہ یہاں قیام کرلو اوار آگے نہ بڑھو فھھناواللہ متاحوکابنا وھھنا واللہ مسفک دمائنا وھھنا واللہ تسبی حریمنا وھھنا واللہ محل قبور نا وھھنا واللہ محشرنا ومنشرنا وھھنا وعدنی جدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ ولاخلف لقولہ۔
خدا کی قسم یہاں ہماری سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے خدا کی قسم یہ ہمارے خون گرائے جانے کی جگہ ہے اور خدا کی قسم یہ ہمارے پردہ داروں کے قید کئے جانے کا مقام ہے اور خدا کی قسم یہ ہماری قبروں کا مقام ہے اور خدا کی قسم یہاں سے ہم محشر میں اٹھ کر جائیں گے اور اسی جگہ کامجھ سے جناب رسالتمآب نے وعدہ لیا تھا اور آپ کے فرمان کے خلاف قطعا نہیں ہو سکتا ۔
موعظہ
ان الذین قالو ا ربنا اللہ ثم استقامو ا تتنذل علیھم تحقیق وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ خدا ہمارا ایک ہے اور پھر اس پر جم گئے تو الملائکتہ الا تخافو ا ولا تحذنو وابشرو بالجنۃ التی ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور غمزدہ ہو اور کنتم توعدون۔
تمہیں بشارت ہو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارہ لاالہ الا اللہ کہنا کہاںتک درست ہے اور صمیم قلب سے ہے یا نہ اور کیا ہمارا خدا وند عالم سے کوئی رابطہ بھی ہے یا نہ میرا روئے سخن ان لوگوں کی جانب نہیں جن کے خیال میں رابطہ نہ ہونا بھی ایک قسم کا رابطہ ہے  ہاں ہاں کوئی رابطہ نہیں جب ہم حکم خدا سے روگردانی کر کے اطاعت نفس و شیطان کرتے ہیں جو بفجوائے یا نبی ادم لا تعبدوا  لاشیطن عبادت شیطان ہے اور اگر ہم خواہش کو خدا وند کریم کی خواہش سے ترجیح دے کر نا فرمانی کے مرتکب ہوں ۔ ارایت من اتخذالھہ ھوۃ  کیا ان ان لوگوں کو تونے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو اپنا معبود جانتے ہیں تواس آیت مجیدہ کی رو سے یہ خواہش کی عبادت ہےپس باوجود ان باتوں کے ہما را لا الہ الا اللہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کیا یہ بندگا نہ حالت ہے ہرگز نہیں اور عام دستور ہے کہ ہم جب بھی کوئی برائی کرنے لگتے ہیں تو حتی المقدور لوگوں سے چھپ کرتے ہیں حتی کہ نوکروں سےبھی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا وند عالم سے یہ بے پر واہی کہ باوجود اس کے حاضر و ناظر ہونے کے ہم ذرہ بھر بھی نہیں جھجھکتے ۔ گویا خدا کی عظمت ہمارے دلوں میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک نوکر کی مگر خدا وند کریم کیسا حلیم و رحیم ہے وہ ہمارے گناہوں کودیکھتا ہے اور پھر پردہ پوشی کرتا ہے اور باوجود ہماری روسیاہی کے ہمیں رسوا تک نہیں کرتا ۔ہم اپنے نوکر کو تھوڑی سی گستاخی پر جو ہمارے سامنے کرے نکال دیتے ہیں حالانکہ ہم نہ اس کے خالق نہ رازق تو ہمارا برتاو عمر بھر سبکدوش نہ ہو سکیں گے اور خدا کے الطاف و نعمات غیر متناہیہ کاشکر تو بجائے خود اس کا دیا ہوا  رزق کھا کر اس کا مقابلہ اور اس سے بغاوت کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ ہیں ۔ آخر کیو ں اور کس بھروسے پر  یہ صر ف بے اعتقادی اور جرات ہے۔ ہم تمہیں اپنے مالک کے وفادار مگر خائف بندوں کا تذکرہ سناتے ہیں جناب رسول خدا ماہ مبارک میں مشٖغول وعظ تھے اثنائے وعظ میں سید الموحدین نے سوال کیا سوال بھی کیا خوب اور سوال کرنے والا بھی کیسا عظیم الشان اورجس سے سوال کیاگیا وہ بھی عظیم الشان فرمائیے اس ماہ میں بہترین عمل کونسا ہے تو آپ نے فرمایا اے ابو الحسن بہترین عمل ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سےرکنا یہ کہہ کرآپ نے رونا شروع کر دیا پس حضرت امیر المومنین نےدریافت کیا حضور آپ کیوں رو رہے ہیں تو فرمایا میں اس لئےروتا ہوں کہ اسی مہینہ میں تیرے اوپر ایک ناجائز حملہ ہو گا گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تو نماز خالق میں مشغول ہے تو اولین و آخرین میں سے بد بخت انسان اور ناقہ صالح کے قتل کرنے والے سے بھی بد تر انسان تیرے سر مبارک پر تلوار کا وار کر رہا ہے جس سے تیری ریش مبارک خون سے خضاب ہو چکی ہے باوجود اس کے جناب امیرالمومنین کوا پنی مصیبت کی پرواہ نہیں نہایت اطمینان و سکون سےسن رہے ہیں جان کی پرواہ نہیں البتہ جان سے عزیز تر ایک چیزآپ کی نظر میں ہے فرماتےہیں یا رسول اللہ یہ سب کچھ میری سلامتی دین کی صورت میں ہی ہو گا آپ نے فرمایا ہاں یہ سب آپ کی سلامتی دین میں ہی ہو گا یارسول اللہ ذلک فی سلامتہ من ذدینی قال فی سلامتہ من دینک سالار دین  کو دین کا اس حدتک خیال ہے اور ہمیں باوجود دعوی اتناع آنحضرت کے دین سے اس قدر انحراف ہے آج جس مظلوم کے مصائب کو یاد کر کے آپ رورہے ہیں کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ اس نے یہ سب مصائب کیوں برداشت کئے فقط اس لئے کہ گوجان جائے مگر اسلام نئی زندگی کاجامہ پہن لے اورحق و باطل میں بین تمیز نظر آنے لگے ایک غیر مسلم جرمنی فلاسفر جس کواسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ سید الشہدا کی شہادت اوراس کی ٖغرض و غایت کی فلاسفی کس وضاحت سے بیان کرتا ہے ۔
جو شخص اس زمانہ کے حالات اور نبی امیہ کے طرز معاشرت اور تمام اسلامی گروہوں پران کاغالب آجانا ان تمام باتوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو وہ بلا تا مل اس  کی تصدیق کرسکتا ہے کہ حسین نے اپنی جان دے کرا پنے ناناکےدین کواوراسلام کے قاعدوں کوزندہ کردیا اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور مادہ بصیرت آنحضرت کےشہید ہونے سے مسلمانوں میں پیدا نہ ہوتا تو ہر گز اسلام اپنی موجودہ حالت پر باقی نہ رہتا اورچونکہ ابھی ابتدائی زمانہ تھا اس لئے یہ بات ممکن تھی کہ اس کےرسوم و قوانین بالکل نابود ہوجاتے ؎
فلسفہ شہادت میسیوما ربین فلاسفر جرمنی کیا محبت سید الشہدا اسی کا نام ہے کہ آنحضرت تو اسلام کوزندہ رکھنے کےلیے اپنی زندگی سے دسست بردار ہوجائیں اور ہم جہان تک ہوسکے اسلام کی مخالفت کر کے اسکو نیست ونابود کرنے کی فکرمیں ہیں تو کیا باوجود اس کے کہ ہم سید الشہدا کے نقطہ خیال کے بالکل مخالف ہیں اس دعوی میں کہ ہم جب دار حسین ہیں صادق قرار پاسکتے ہیں حاشاوکلا
توپھر جب یہ صورت ہے تو اب ہمیں کیاکرنا چاہیے سوائے آنحضرت کی حقیقی پیروی کے ہماری حالت کبھی سدھر  نہیں سکتی سنیئے ان حضرات کی حالت کہ جناب رسالت مآب خوف خدا سے اس قدر گریہ کرتے تھے کہ آپ پرغشی طاری ہوجاتی تھی لہذا آپ ریش مبارک کے سفید ہوجانے کی وجہ بیان فرمائی کہ قرآن مجید کی چار سورتوں نے جن میں قیامت کا منظر پیش کیاگیا ہے مجھے بوڑھا کردیا  ہےاور شرح ابن ابی الحدید میں ہے کہ آنحضرت جب نماز کےلئے قیام فرماتے تھے تو جب وجھت وجھی پڑھتے آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اب ہم پھر علامات ایمان کی طرف غور کرتے ہیں ایک نشانی ہے ایمان کی خوف خدا اس کا بیان کسی قدر ہوچکا ۔ ایمان کی اور علامتیں بھی ہیں محبت خالصہ جناب سیدالشہدا کے متعلق جناب رسالت مآب نے ارشاد فرمایا ہے کہ مومنین کےدلوں کے وسط میں حسین کی محبت جاگزیں رہتی ہے نیز علامات ایمان میں سےہے کہ جب حسین کانام لیا جائے تو دل میں انکسار پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے جب پنجتن پاک کے اسمائے طاہر ہ زبان پر جاری فرمائے جن کے آخر میں حسین کا نام تھاتو جبریل سے کہنے لگے فی ذکر الخامس ینکسر قلبی و تجری د معتی ۔ یعنی پانچویں نام کے ذکر سے میرا دل گھبرا جاتا ہے اور آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور حضرت زکریا وباقی انبیا ئ کے متعلق بھی ایسے ہی کلمات وار د ہیں بلکہ دنیا میں کو ئی مومن ایسا نہیں جس کا دل حسین کے ذکر سے متا ثر نہ ہو تا ہو چنانچہ خود حضرت سیدالشہدا کے الفاظ ہیں انا قتیل العبرۃ لا یذکرنی مومن الابکی واغتم لمصابی۔
اور علامات ایمان میں سے ہے کہ جب حسین کانام آئے تو گریہ طاری ہو جائے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حسین کےذکر سے اگر پرمگس کےبرابر بھی آنسو آجائیں تو اس کا ثواب اللہ پرہے اور وہ ا س کے بدلہ میں اسکوجنت ہی کرامت فرمائے گا ۔ اور علامات ایمان میں سےہے کہ حضرت حسین کےمدفن پرپہنچتے ہی انسان مخروں ہوجائے اور اولین و آخرین میں سے جس قدر انبیا اوصیائ حضرت سیدالشہدا کے مدفن میں وار د ہوئے تو وہ محزوں ہوئے چنانچہ مروی ہے مامن نبی الا وزاد کربلا وقال فیک یدفن القمر الازھر ۔ ہرنبی وارد کربلا ہوا اوریہی فرمایا کہ اے زمین کربلا تجھ میں ایک روشن چاند دفن ہوگا خود جناب امیرالمومنین علیہ السلام بھی وارد کربلا ہوئے اور بہت روئے تھے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے انہی آجکل کےدنوں میں جب سےحضرت سیدالشہدا کی بہنیں صحرائے کربلا میں وارد ہوئیں تو عجیب خوف و حزن ان کو لاحق ہوا جناب علیا محذرہ ام کلثوم نےعرض کی بھائی جان اس صحرامیں آتے ہی میرا دل بہت گھبرا گیا ہے اور اس پر خوف طاری ہوگیا ہے ۔
علامات ایمان میں سے ہے کہ آنحضرت کی قبر کو دیکھ کر انسان ٖغمزدہ ہوجائے صادق آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ سید الشہدا علیہ السلام کے حرم پاک میں مخزون ہوجائے خصوصا جب آپ کی قبر اور آپ کے پاوں کی جانب آپ کے شہزادے کی قبر کودیکھے ایمان کی علامت ہے کہ جب انسان ٹھنڈا پانی پئے تو حسین علیہ السلا م کی پیاس کویاد کرے چنانچہ حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں جب بھی ٹھنڈا پانی پیتا ہوں تو حسین کویاد کرتا ہوں داود رقی بیان کرتا ہے کہ میں خدمت حضرت صادق علیہ السلام میں موجود تھا آپ نے پانی طلب فرمایا جب پی چکے میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسوں نکل آئے اور آنکھیں آنسووں سے ڈبڈبا گئیں پھر فرمایا اے داود لعن اللہ قاتل الحسین فما من عبد شرب المائ فذکر الحسین و قاتلہ الا کتب اللہ لہ ماۃ الف حسنۃ و حط عنہ ماۃ الف سیئۃ ورفع لہ ماۃ الف درجۃ وکما اعتق ماۃ الف نسمۃ و حشرہ اللہ یوما القیامۃ ثلج الفواد ۔  ترجمہ خدا قاتل حسین پر لعنت کرے جو بندہ پانی پی کر حسین اوراس کے قاتل کو یاد کرے یعنی حسین پردرود اور اس کے قاتل پرلعنت کرے خدا اس کے نامی اعمال میں ایک لاکھ  نیکی درج فرمائے اور ایک لاکھ برائی اس کی  مٹائے گا اور ایک لاکھ درجہ اس کو بلند کرے گا اور ایک لاکھ غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب اس کو مرحمت فرمائے گا اور قیامت کے دن جب وہ محشور ہو گا تو اس کا دل ٹھنڈا ہوگا ۔ حضرت سیدا لشہدا علیہ السلام پر تشنگی اور  پیاس کا بہت غلبہ تھا لیکن بایں ہمہ اپنی پیاس کو سمجھ گئے آپ نے نگا ہ حسرت سے پانی کودیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ پیاسے ہیں تو ایک ظالم نے آواز دی  حسین صاف پانی کی طرف نظر کیجئے کہ سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے لیکن خدا کی قسم آپ کو ایک قطرہ بھی نہ دیں گے یہاں تک کہ آپ پیاسے دنیا سے رخصت ہوں ایمان کی علامات میں سے ہے کہ جب محرم کا چاند نظر آئے تو انسان عام حالتوں سے اپنی حالت کو تبدیل کر دےیعنی غم کی حالت بنا لے اور پورا عشرہ اسی طرح رہے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسالت مآب منبر پر تشریف لائے اور حسین بھی آپ کی گود میں تھا آپ نے فرمایا میرا یہ فرزند حالت کس مپرسی میں قتل کیا جائے گا اے اللہ اس کو اس قتل کی بدولت با برکت قرار دےاور اس کو شہیدوں کا سردار بنا اور اس کے قاتل اور تارک نصرت کو برکات سے محروم رکھ آپ کےاس بیان سے مسجد میں کہرام بپا ہوا تمام لوگ رونے لگ گئے تو آپ نے فرمایا اب تو رو رہےہو لیکن موقعہ پر اس کی مدد نہ کرو گے ہاں ایسا ہی ہوا کہ اس موقعہ پر جو صحابہ موجود  تھے ان میں سے بعض نے آپ کی بیعت کی اور بعضوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی مناقب  میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ عراق آنےسے پہلے ایک مرتبہ حسین کعبہ کے دروازہ پر تشریف فرماہیں اور جبریل کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں ہے اورجبریل صداد دے رہا ہے لوگو اللہ کی  بیعت کی طرف جلدی آو یعنی حسین کی بیعت اللہ کی بیعت ہے آئیے آج ہم آنحضرت کی بیعت کرلیں آج کےدن کوفہ کی طرف سے دشت ہولناک میں ایک بڑا لشکر آتا ہوا دکھائی دیا جس سے اہلیبت کےدل بہت خوف زدہ ہوئے کوفہ کی جانب سے ایک مہمان آرہا ہے وہ کون ہے حرہے جو اپنے ساتھیوں سمیت آ پہنچا ابتدائی حالت یہ ہے کہ حسین چلنا چاہتے ہیں حر فورا رکاوٹ کاباعث بن جاتا ہے گویا ورد صحرائے کربلا تک حضرت حسین پرحر کے لشکرکی پابندی رہی اور آنحضرت ان کےہاتھوں ایک قیدی کی حیثیت سے تھے اور مجبوری کی حدیہ ہے کہ آپ دوردراز کاسفر کرکے زمین عراق پر وارد ہوئے ہیں دل چاہتا ہو گا کہ کوفہ کے قریب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر اقدس کی زیارت کر لیں لیکن مجبوری اس قدر زیادہ تھی کہ آپ اپنے بابا کی قبر اطہر کی زیارت تک نہ کر سکے۔
حر جب دسویں کے دن لشکر اشقیائ کو چھوڑ کر حسین کی فوج میں داخل ہواتو اس نے حضرت حسین علیہ السلام کے ساتھ اعداد کے سلوک کواس طرح بیان کیا چنانچہ فوج کوفہ سےمخاطب ہوکر کہتا ہے اے اہل کوفہ تمہاری مائیں تمہارے ٖغم میں روئیں اس عبد صالح کو تم نے خود بلایا پس جب وہ تشریف لائے تو تم لوگ ان سے متحرف ہوگئے حالانکہ تم کہتے تھے کہ ہم ان پر اپنی جانیں فداکریں گے اور اب خود ا س کے دشمن ہوگئے تم لوگوں نے ان کے سانس روک لئے اور ان کو ہر طرف سے محاصرہ کرکے مجبور کردیا حتی کہ وہ خدا کی لمبی چوڑی زمین میں کہیں دوسری طرف بھی نہیں جاسکتے گویا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قیدی کی حیثیت سے ہیں کہ وہ اپنے لئے نفع و نقصان کےمالک بھی نہیں رہے اور تم نے اس کی اہل بیت بیویوں اور بچوں سے دریائے فرات کا پانی بھی روک رکھا ہے جس کو یہود نصاری اور مجوسی تک پی رہے ہیں اور جنگلی سوروکتے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن دیکھو تو سہی کہ اہل بیت پیاس سے جان بلب ہیں ان کو جناب رسالت مآب ہم میں چھوڑ کرگئے ہیں خدا تم کو پیاس کے دن سیرابی سے محروم رکھے ۔   حر کی تمام تقریر جگر سو ز رہے لیکن حسین کے دشمنان دین کے ہاتھوں میں اسیری اور پابندی کا فقرہ نہایت دل گراز ہے ۔ حسین زمین کربلا وارد ہوئے چھ گھوڑے تبدیل کئے آخر زمین کا نام پو چھا جواب ملا اسے غاضر   یہ کہتے ہیں فرمایا کوئی اور نام تو جواب ملا اسے شط فرات کہتے ہیں فرمایا کچھ اور تو جواب دیا گیا اسے کر بلا بھی کہتے ہیں پس ٹھنڈا سانس لیا اور فرمایا  یہی کرب و  بلا کی زمین ہے اسی جگہ ہمارا قیام ہو گا یہیں ہمارے ناحق خون گرائے جائیں گے اور یہیں ہمارے ناموس کی ہتک ہو گی یہیں ہمارے مردذ بح ہوں گے اور یہیں ہمارے بچے شہید ہوں گے اور ہماری قبور کی زیارت کی جائے گی اور یہیں سے ہمارے پردہ داروں کوقیدی بنایا جائے گا  کربلا میں اترتے ہی آپ پہلے روز سے کربلا ئی ہوگئے زمین کوخرید لیا اور زائرین کے حق میں وصیتیں کیں گویا پہلے دن سے یہاں کی مستقل سکونت کا ارادہ فرما لیا تھا لیکن نہ معلو م نمازیں قصر تھیں یا تمام۔حضرت سیدالشہدا علیہ السلام نے اپنے صحابہ کو جمع کر کے فرمایا کہ جہاد میرے ساتھ مخصوص ہے اور راستہ میں بھی ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میرے صحابہ ہم نے یقینا قتل ہو جانا ہے آپ کی تقریر کے چند کلمات یہ ہیں تم لوگ حالات کا جائزہ لے چکے ہو معاملہ سب تمہارے سامنے ہے دنیا کا رنگ حالات کاجائزہ لے چکے ہومعاملہ سب تمہارے سامنے ہے دنیا کا رنگ بدل چکا ہے طبیعتوں میں انقلاب رونما ہو گیا ہے نیکیاں پس پشت ڈالی گئیں حق پر عمل کرنے والوں کی قلب ہے اور برائیوں سے اجتناب کوئی نہیں کرتا پس مومن کو خدا کی ملاقات کی طرف راغب ہونا چاہیے اور میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ناپسند کر تا ہوں ۔
زہیر بن قین نے کھڑے ہو کر عرض کیا فرزند رسول ہم آپ کی فرمائش سن  چکے اگر دنیا پائیدار بھی ہو جائے اور ہمیں بھی ہمیشہ کی زندگی مل جائے تاہم ہمارا نصب العین یہی ہو گا کہ ہم آپ کےہمرکاب ہو کر جہاد کو ترجیح دیں گے آپ نے اس کو جزائے خیرکی دعا دی اس کے بعد تمام جانثاروں نے یہی جواب دیا ینز زہیربن قین نے عرض کی فرزند رسول اگر آپ سے اور آپ کےجانثاروں قریبیوں اور بھائیوں اور جملہ اہل بیت سے قتل کو بھی اٹھا لیا جائے اور مجھے آپ لوگو ں کی معیت میں ایک دفعہ کا قتل تو بجائے خود قتل کے بعد اٹھا یاجاوں پھر قتل کیا جاوں اور زندہ کیا جاوں اور اسی طرح مجھے ہزا ر بار قتل کیا جائے تو مجھے اس کی  کوئی پرواہ نہیں خیام نصب کئے گئے آپ کے اہل بیت میں سے چالیس مرد تھے جن میں سے تیس شہید ہوگئے اور دس بچے جوحضرت سجاد کے ہمراہ قید کئے گئے شہید ہونے والوں میں سب سےبزرگ حضرت عباس تھے ان کی عمر شریف 34 برس تھی ان کے بعد 30 سالہ 25 سالہ 18 سالہ 13 سالہ 11 سالہ 3 سالہ اور شش ماہ تک تھے اور سب سے چھوٹا یہی شیر خوار اور ششماہہ تھا عورتوں میں تقریبا ساٹھ تھیں پس آپ نےاپنی اولاد بھائیوں اور جملہ اہل بیت کوجمع فرمایا اور ایک نگاہ حسرت سے ایک بار  سب کودیکھا اور اس کے بعد پورے ایک گھنٹہ تک روتے رہے پھر مناجات کےکلمات زبان درفشاں سے عرض کئے  میرے پروردگار ہم تیرے نبی کی عزت ہیں ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیاگیا ہے اور ہمیں اپنےجد بزرگوار کے حرم اطہر سے خوف زدہ کیا گیا ہے بنی امیہ نے ہم پر ظلم کیا  ہے تو ہی ان سے ہمار ا بدلہ لے اور ظالموں کے مقابلہ میں ہماری نصرت فرما لیکن ایک گھنٹہ تک روئے کیوں اور سب کوجمع کرکے ایک نظر دیکھے گا کیا مطلب تھا اسکی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔
ممکن ہے ورود کربلا سے جو اضطراب و گھبراہٹ سی قلوب پر طاری ہو چکی تھی اس اجتماعی صورت کو دیکھ کر قدرت تسکین حاصل  کرنا مطلوب ہو
یا ممکن ہے ان کی پیاس بھوک اور ذلت و پریشانی کی جملہ تقالیف کا تصور کرنا مقصود ہو کہ آج تو سب کے سب با امن وامان صحیح و سالم با عزت و احترام ایک جگہ موجود ہیں لیکن عنقریب یہ مجمع دو حصو ں میں تقسیم ہو جائے گا – ایک  گروہ اپنے خون میں غلطاں خاک کربلا پر تٹرپتا  ہوگا اور دوسرا گروہ انتہائی ذلت کی حالت میں اسیر ہو کر در بدر پھرایا جائے گا لیکن جس گروہ نے شہید ہونا ہے ان کو بھی تقسیم کیا جائے گا ان کے بدن نازنین تپتی ہوئی ریگ صحرا پر رہیں گے اور ان کے سرو ں کو نوک نیزہ پر بلند کر کے شہر بشہر سیر کرائی جائے گی اور بازاروں میں پھرایا جائے
نا نا کی سنت پر عمل چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت رسالتمآب ہمارے گھر تشریف لائے تو ہم نے کھانا تقدیم کیا ہمارے لیے ام ایمن کھجور  دودھ مکھن بطور ہدیہ کے طور لائی تھی وہ بھی ہم نے آپ سامنے پیش کیے پس آپ نے تناول فرمایا  جب فارغ ہوئے تو میں نے آپ کے ہاتھو ں پر ڈالا ہاتھو ں کو دھو چکنے کے بعد آپ نے منہ کو پونچھ لیا اور انہی ہاتھوں کی تری سے ریش مبارک مبارک پر بھی مسح فرما لیا پس اٹھ کھٹرے ہوئے اور گوشہ گھر میں جو مسجد بنائی ہوئی تھی اس میں داخل ہوئے اور سجدہ میں گر گئے اور بہت دیر تک رویا کئے پھر سر اٹھا یا لیکن ہم میں سے کسی کی جرات نہ ہوئی کہ آپ سے کچھ دریافت کر سکیں پس حضرت حسین اٹھے اورپاوں پاوں چلتے ہوئے نانا کے پاس پہنچ گئے پس آپ کے زانو مبارک پرسوار ہوکر کھڑے ہو گئے اور چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے نانا کےسرکو تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنی ٹھوڑی کو حضور کےسر پر رکھ دیا اور عرض کرنے لگے نانا جان آپ کیوں روتے ہیں پس فرمانے لگے بیٹا آج میں تمہیں دیکھ کر بہت خوشحال ہوا ہوں کہ اتنا خوش کبھی نہیں ہوا فورا میرے باس جبریل امین آئے اور اس نے مجھے تم لوگوں کےمقتول ہونے کی خبر دی اور یہ بھی کہا کہ تمہاری قبریں بھی ایک دوسرے سےجدا جدا ہوں گی۔ ممکن ہے آپ کی نگاہ حیرت و حسرت کامرقع ہو ممکن ہے آپ ابھی سے وداعی نظر کر رہے ہوں کیونکہ اب اطمینان وسکون سےوداع ہو سکتا ہے اور بعد میں ایسا نہ ہوسکے گا ممکن ہے اس اجتماع سے آپ نے کوفہ وشام کے اجتماعات کوملحوظ رکھا ہو یہاں گنج شہدار میں شہیدوں کی لاشوں کواجتماع ہوگا جو پردہ داروں کو دیکھنا ہو گا کوفہ میں پہنچ کر بازار میں اجتماع علیحدہ دربار عام میں ہجوم جدا دیکھنا ہو گا اوراسی طرح شام کے اجتماعا ت  پردہ داروں کودیکھنے ہوں گے اور اس کے بعد جوافراد بچ کر زندان شام تک پہنچیں گے  وہ اجتماعی صورت میں کیسے رہیں گے گویا یہی تصورات تھے جنہوں نے برابر ایک گھنٹہ تک حضرت سیدالشہدا علیہ السلام کو رلایا اور جملہ اہل بیت میں بھی گریہ طاری رہا آج عصر کے وقت حضرت تشریف فرماہیں ابھی جنگ کازمانہ دور ہے ادھر سے ایک تیر آیا جو آپ کےسینہ اقدس پر لگا دیکھئے یہ تیر سہ شعبہ نہیں بلکہ ہزار شعبہ ہے وہ کون سا تیر ہےکوفہ کی جانب سے ایک قاصد آیا جس نے حر اور اس کے لشکر کوسلام کیا  اور حسین کو سلام نہ کیا اس نے عبیداللہ  بن زیاد کا خط لاکر دیا مجھے یزید کا حکم پہنچا ہے کہ آپ اس کی بیعت میں داخل ہو کراس کی اطاعت قبول کر لیں اور میرے حکم کے نیچے آجائیں ورنہ آپ کو قتل کردیاجائے گا یہ خط کیا تھا یہ ایک درد آلود تیر تھا جس نے آنحضرت کے دل مبارک کو درمند کرلیا پس آپ نےخط کوپھینک دیااور فرمایا کہ وہ قوم قطعا کامیاب نہیں ہوسکتی جومخلوق کی رضا مندی کی خاطر اپنے خالق کوناراض کرےقاصد نے عرض کی حضور  خط کا جواب دیجئے آپ نے فرمایا یہ خط ا س قابل نہیں کہ میں اس کاجواب دوں کیامیں عرض کرسکتاہوں مولا فرزند رسول ابن زیاد کے خط سے تواسقدر رنجیدہ وملول خاطر ہو رہے ہیں کہ اس کا جواب دنیا بھی گوارا نہیں فرماتے لیکن آپ پر کیاگذری ہوگی جب سرمبارک اس ملعون کی مجلس میں پہنچا ہو گا وہ ملعون تخت پر تھا اور سر مبارک تخت کے نیچے تھا اس ملعون کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی کیا عرض کروں کہ اس نے کون سی بے ادبی کی ہاں اتنا کہتاہوں زید ابن ارقم صحابی رسول سے ضبط نہ ہو سکا اٹھ کھڑا ہوا  اور مخا طب ہو کر کہنے لگا اعل بھذا القضیب عن ھاتین الشفتین فوالذی الا الہ غیرہ لقد رایت شفتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ علی ھاتین الشفتین یقبلھما یہ چھڑی ان ہونٹوں سے اٹھا لے مجھے اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ کےلب ہائے مبارک کوان پاک لبوں کا بوسہ ہوئے دیکھا ہے
لیکن آپ پر اورآپ کے پردہ داروں پر کیا گذری ہوگی جب کہ وہ ملعون سر مبارک کودیکھ کر ہنستا تھا اور خوش ہوتا تھا ایک بوڑھا مرد آیا اور پردہ داروں کے قریب کھڑے ہو کر کہنے لگا اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں ہلاک کیا اور تمہارے مردوں پر بادشاہ وقت کو کامیاب کیا جونہی حضرت سجاد علیہ السلام نے یہ کلمات سنے اس بوڑھے کی طرف خطاب کر کے فرمانے لگے بتاو تم نے قرآن پڑھا ہے۔اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا مودت فی القربی والی آیت بھی تونے پڑھی ہے قل لااسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی اس بوڑھے نے جواب دیا بے شک میں نے یہ آیت پڑھی ہے پس آپ نے فرمایا نحن القربی یا شیخ اے شیخ وہ رسول کے قرابت دار ہم ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ سورہ نبی اسرائیل میں یہ آیت تونے پرھی ہے آپ نے فرمایا فنحن القربی یا شیخ اے شیخ وہ رسول کے قریبی ہم ہیں پھر فرمایا یہ آیت پڑھی ہے واعلموا انما غنمتم من شیئی فان خمسہ وللرسول ولذی القربی بوڑھے نے کہا کہ ہاں یہ بھی پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا فنحن القربی ہم ہیں رسول کے قرابتدار پھر فرمایا کیا یہ آیت تونے پڑ ھی ہےانما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا س بوڑھے نے عرض کی جی ہاں یہ بھی پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا منحن اھل البیت الذین خصنا اللہ بایۃ التطھیر یا شیخ ہم وہ اہل بیت رسول ہیں جن کوخدا نے آیت تطہیرسے مخصوص فرمایا ہے وہ بوڑھا یہ  سنتے ہی ششدر حیران سارہ گیاپھر کہنے لگا باللہ انکم ھم خدا کے واسطے بتلائے آپ وہی ہیں حضرت سجاد علیہ السلا م نے فرمایا باللہ انا لنحن ھم من غیرشک خدا کی قسم بلاشک ہم وہی ہیں وحق جد نارسول اللہ انالنحن ھم اپنے نانا رسول اللہ کے حق کی قسم کہ ہم وہی ہیں بس بوڑھے نے آسمان کی جانب ہاتھ بلند کئے اورکہنے لگا اے اللہ میں دشمن محمد و آل محمد سے بیزار ہوں خواہ جن ہوں خواہ انسان ہوں پھر عرض کی حضور میری توبہ کی گنجائش ہے آپ نے فرمایا ہاں اگرتو توبہ کرلےگا تو خدا تیری توبہ کو قبول فرمائے گا اور تو ہمارے سا   تھ محشور ہو گا پس فورا اس نے توبہ کرلی۔  بحار الانوار
اقول مولانا مرحوم عربی اردو پنجابی کے بلند پایہ شاعر بھی تھے چنانچہ داخلہ کوفہ کے موقعہ پر انہوں نے ایک ڈوہرہ نظم کیاتھاجسکووہ خود پڑھا کرتے تھے اوربہت روتے تھے اور وہ یہ ہے
آوڈے لوگو دیکھنی ہووے جے رب دی بے پروا ہی      کوفے دے وچ سیداں دی سرکار لیٹج کے آئی          تطہیر دے پردہ دار ودے منہ والاں نال لکائی      انوں محل دے وچ بہن رووے انوں سانگ دی چیخ تے بھائی

ایک تبصرہ شائع کریں