التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بیسویں مجلس -- کونو امع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم کونو امع الصادقین
ہر چیز کی زیادہ وضاحت اس کی ضد کو دیکھنے سے ہوتی ہے اگر رات نہ ہوتی تو دن کی خوبیاں معلوم نہ ہو سکتیں اگر بزدلی نہ ہو تو دلیری و شجاعت کی فضیلت واضح نہیں ہوتی وعلی ھذا القیاس اسی طرح حضرت امیر علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا دیگر صحابہ رسو ل کی سیرت کا جائزہ لینےسے خوب اندازہ لگ سکتا ہے حضرت ابو بکر جب مسند خلافت پرجلوہ گر ہوئے تو بیت المال سے ان کے گذارے کے لئے دو ہزار درھم مقرر ہوئے لیکن انہوں نے کہا کہ میں کثیر العیال شخص ہوں اور تم لوگوں نے مجھے تجارت وغیرہ سے بھی روک دیا ہے لہذا اس مقدار سے زیادہ کیا جائے پانچسو کا اضافہ کیا گیا اور سردی و گرمی کا لباس اور آدھا بکر ا روزانہ بھی مقرر ہوا  تاریخ الخلفائ حضرت امیر علیہ السلام نے خطبہ شقشقیہ میں سابقہ خلافت پر خوب روشنی ڈالی ہےجس کے آخر میں اپنی دنیا سے کراہت و ناپسند یدگی کا اعلان فرمایا ۔
اطاعت رسول میں دیکھا جائے تو خدا وند کریم کا صاف فرمان ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ امور اختلافہ میں آپ کو حاکم نہ تسلیم کریں ور پھر وہ آپ کا فیصلہ سے نہ کڑھیں اور اسے اس طرح مان جائیں جس طرح ماننے کا حق ہے پ5 لیکن اس طرف رسول کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بعض صحابہ کی طرف سے آواز اٹھتی ہے ان الرجل لیھجر یہ شخص معاذ اللہ بہکی باتیں کر رہا ہے نسیم الریاض نووی شرح مسلم نہایہ ابن اثیر خدا تواپنی اور رسول کی اطاعت کو ایمان والوں کی علامت قرار دے رہا ہے تو جو لو گ ایسے کی اطاعت کریں جو خدا رسول کے اطاعت گذار نہ ہوں وہ کیسے مومن کہلانے کے حقدار ہو سکتے ہیں چنانچہ ارشاد قدرت ہےکیا ان لوگوں کو نہیں دیکھتے ہو جو ایسے لوگوں کےساتھ محبت کرتے ہیں جن پر اللہ ناراض ہے اور فرمایا کہ ایسے لوگوں پر شیطان مسلط ہو چکا ہے ایک مقام پر فرمایا ایسے لوگ شیطان کے گروہ ہیں اور اس قسم کی آیات بہت سی ہیں ۔
اور ایسے واقعات شمار سے باہر ہیں جن سے لوگوں کی آل رسول سے عداوت اور دنیا طلبی کا خوب پتہ چلتاہے جناب رسالت مآب کے بعد جناب بتول معظمہ کے گھر کا جو احترام ہوا ان واقعات کی سیاہی صفحات تاریخ میں اب تک موجود ہے چنانچہ تاریخ امامت و ایسا ست میں ہے حضرت عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہنے لگے مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں جان ہے باہر نکلو ورنہ میں آگ لگا دوں گا اسے کہا گیا ا س گھر میں تو جناب فاطمہ دختر رسول بھی ہیں  تو جواب دیاکہ ہے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں جنا ب فاطمہ اندر دروازہ پر کھری تھیں فرمایا اے لوگو آج تک تم سے بد ترین لو گ  میرے دروازہ پر نہیں آئے تم ایسے لو گ ہو کر جناب رسول پاک کا جنازہ چھوڑ کے چلے گئے اور خلافت کے لئے تعین کر لیا اور ہمار ا اس بارہ میں مشورہ تک لیا اور نہ ہمارے حق کی رعایت کی حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی طرف خطاب کر کے کہا کہ اس شخص یعنی علی سے بیعت کیوں نہیں لیتے ہو آخر کافی لے دے کے بعد حضرت عمر خود روانہ ہوئے اور دروازہ بتول پر پہنچے دق الباب کیا اور خوب آوازیں بلند کیں بی بی نے کہا اے رسول خدا تیرے بعد میں بے ان دشمنوں سے کیاکیا دیکھا ہے یعنی بہت تکلیفیں دیکھی ہیں جب حضر ت ابو بکر کےسامنے گئے تو حضرت علی نے فرمایا اگر بیعت نہ کروں تو کیا ہوگا توا نہوں نےجواب دیا کہ خداکی قسم ہم آپ کو ضرور قتل کر دیں گے آپ نے فرمایا کہ عبد خدا اور رسول کو قتل کرو گے تو حضرت عمر نے کہا عبد خدا تو ٹھیک ہےلیکن ہم آپ کو برادر رسول نہیں تسلیم کرتے حضرت ابو بکر نے جواب دیاکہ جب تک جناب فاطمہ زندہ ہیں میں حضرت علی کو کسی نا پسندیدہ امر کے لئے مجبور نہیں کر سکتا پس حضرت علی روتے ہوئے قبر رسول پر آگئے اورعرض کی یا رسول اللہ اس قوم نے مجھے ذلیل کیا ہے اور میرے قتل کے درپے ہو گئے ہیں مختصرا یہی وجہ ہےکہ مرنے سے قبل جب سابقہ اعمال پرنظر کی تو کوئی کہتا  تھاکہ میں ایک تنکا ہوتا اور کوئی  کہتا تھا میں ایک دنبہ ہوتا کہ ذبح کرکے مجھے کھا لیا جاتا لیکن حضرت امیر علیہ السلام  کا اطمینان ملاحظہ فرمائیے انیسویں کی صبح کو مسجد کوفہ میں پہنچے پس نماز کےلئے محراب مسجد میں کھڑے ہوئے ادھر وہ ملعون یعنی عبدالرحمن بن ملجم اٹھا اور جلدی سے پیچھے چلا اور  وہ اس اسطوانہ کے سامنے کھڑا ہو گیا جس پرامام نماز پڑھتے تھے اور اس قدر دیر کی کہ امام نے ایک رکعت پڑھ لی جب دوسری رکعت کے رکوع کے بعد سجدہ اول میں گئے اور سر اٹھا یا توا س ملعون نے تلوار سے حملہ کیا اور تلوار اس مقام پر پڑی جہاں عمرو بن عبدود کا خندق  کے روزانہ پڑا تھا صابر امام نے آہ تک نہ کی اس وقت کوئی بھی دوسرا پاس موجود نہ تھا منہ کے بل گر گئے اور زبان سے یہ کلمات جاری فرمائے بسم اللہ وباللہ وعلی ملتہ رسول اللہ فزت برب الکعبتہ یہاں علی کی پیشانی زخمی ہوئی اور مظلوم کربلا کو پیشانی اقدس پرا یک زہر آلود تیر لگا تھا جس سے پر نالہ کی طرح خون پیشانی اقدس سے نکلتا تھا یہ ملعون حضر ت علی پر حملہ کرکے بھاگ کھڑا ہوااور مسجد سے نکلا ادھر لو گ حضرت امیر کے ارد گرد جمع ہو گئے آپ محراب میں اپنے زخم سر کا علاج کر رہے تھے اور آیت قرآن مجید پڑھ رہے تھے منھا خلقنا  کم وفیھا نعید کم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری پھر فرمایا بس اللہ کا امر آگیا اور رسول نے جو کچھ فرمایا تھا وہ سچ تھا راوی کہتا ہے کہ مسجد کےتمام دروازے ایک دوسرے پر لگ رہےتھے ملائکہ نے آسمان پر کہرام بپا کیا ایک تیز آندھی چلی فضا میں تاریکی سخت چھا گئی اور جبریل نے آسمان و زمین کے درمیان منادی کی جس کو ہر بیدار آدمی نے سنا تھدمت واللہ ارکان الھدی وانظمست واللہ  العروۃ الوثقی قتل ابن عم المصطفی قتل الوصی المجتبی قتل علی ن المرتضی قتل واللہ سید الاوصیا ی قتلہ اشقی الاشقیائ۔
جب ام کلثوم  نے جبریل کی آواز سنی تو چہرہ اور رخساروں کو پیٹ لیا اور گریبان چاک کیا پس واعلیا ہ وابحمداہ واسیداہ کے آوازے کر کے رونے لگ گئیں جب حسنین شریفین مسجد ہوئے تو دیکھا کہ ابو جعدہ بن ہیرہ مخزومی جو حضرت علی کا بھا نجا تھااور ان کےساتھ چند آدمی خون کے روکنے کی تدابیر کر رہے ہیں تاکہ آپ نماز پڑھ سکیں لیکن آپ میں کمزوری اس قدر آچکی تھی کہ اٹھ اور کہنے لگے ہم آپ پر فدا ہوجائیں اے بابا جان کیا حالت ہے آپ نے شہزادوں کو دیکھا اور  رودئیے اور پھر امام حسن سے فرمایا اے بیٹا تو میرے بعد لوگوں کا  امام میرا وصی اور خلیفہ ہے مسلمانوں کی جماعت کو نماز پڑھا و پس سب لو گ پیچھے ہٹ گئے اور حضرت  امام حسن نے نماز پڑھائی اور حضرت امیر نے بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا فرمائی آپ اپنے چہرہ اقدس اور ریش مبارک سے خون صاف کرتے تھے جو کسی وقت جاری ہو جاتا تھا اور کسی وقت رک جاتا تھا نماز کے بعد امام حسن نے اپنے بابا کا سر گود میں لیا دیکھا کہ آپ حالت غشی میں ہیں تو چہرہ اقدس پر بوسہ دیا اور بہت روئے پیشانی پر اور آنکھو ں کے درمیان بوسے دئیے آنسو کے چند قطرات جب چہرہ انور پر پڑے تو آنکھیں کھولیں تو فرزند کوروتے دیکھا فرمایا بیٹا حسن کیوں روتے ہو آج کے بعد تیرے بابا کو کوئی گھبراہٹ نہیں یہ تیرا نانا محمد مصطفی تیری نانی خدیجہ الکبری اور تیر ی والدہ فاطمہ زہرا اور حوران جنت میرے ارد گرد موجود ہیں اور میری انتظار میں ہیں پس تم تسلی کرو اور رونا بندکر و کیونکہ فرشتوں کے رونے کی آسمان تک آوازیں بلند ہیں بیٹا آج تو مجھ پر رو رہا ہے او ر کل تو خود زہر ستم سے شہید ہو گا اور تیرا بھا ئی تلوار سے جام شہادت نوش کرے گا اور اس حال سے تم دونو اپنے نانا کے پاس پہنچو گے اور ماں اور باپ سے ملاقات کرو گے ۔
امام حسن نے دریافت کیا یہ توفرمائیے آپ کو کس نے قتل کیا ہے اور یہ ظلم کس نے کیا ہے تو فرمایا بیٹا مجھے یہودی عورت کے بیٹے عبدالرحمن بن ملجم نے قتل کیا ہے پھر پوچھا کہ وہ کس راستہ سے گیا ہے فرمایا اس کو ڈھونڈنے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ابھی اسی دروازہ سے یعنی باب کندہ سے آجائے گا چونکہ زہر سر اور بدن میں اثر کر رہی تھی اس لئے پھر دوبارہ غشی طاری ہو گئی وہ ملعون گرفتار ہو گیا اور مسجد میں لایا گیا جب آپ نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ شانے بندھے ہوئے گرفتار سامنے کھڑا ہے اور اس کی تلوار گردن میں حمائل ہے نہایت کمزور آوازمیں نرمی اور مہربانی کے لہجہ سے ارشاد فرمایا اے شخص تونے بڑا کام کیا ہے کیا میں تیرا برا امام تھا جس کی پاداش میں تونے یہ ظلم کیا ہے کیا میں تیرے اوپر مہربان  نہ تھا اور احسان و اکرام میں تجھے دوسروں سے اچھا نہ سمجھتا تھا اور تجھے وظیفہ نہ دیتا تھا کہ تیرے بارے میں مجھے لوگ یہ یہ باتیں نہ کہتے تھے لیکن میں نے تجھے کچھ نہ کہا اور تجھے اپنا مقررہ وظیفہ بھی دیتا رہا میں یہ چاہتا تھا کہ شاید تو اپنے ارادہ فاسدہ سے باز آجائے لیکن تیرے اوپر بد بختی غالب ہوئی اور  تو میر ا قاتل ہو گیا راوی کہتا ہے امیر علیہ السلام کی یہ تقریر سن کر ابن ملجم کی آنکھیں آنسو سے ڈبدبا گئیں اور عرض کی اے مولا جہنم میں جانے والوں کو آپ کیسے نکال سکتے ہیں فرمایا بےشک توسچ کہتا ہے پھر اپنے فرزند حسن مجتبی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے بیٹا اپنے اسیر پر زمی کرنا اور اس پر احسان کرنا اس کی آنکھوں کی طرف دیکھتے نہیں ہو کر دھنس گئی ہیں اور اس کا دل رعب خوف اور گھبراہٹ سے پھڑک رہا ہے اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ جب ابن ملجم نے ظلم کیا تو میں اور حارث  اور سوید بن غفلہ اور چند آدمی دروازہ پر پہنچے اندر سے رونے کی آواز سنی ہم بھی رو دئیے امام حسن تشریف لائے اور فرمایا واپس چلے جاو پس باقی لوگ توچلے گئے اور میں کھڑا رہا پھر گھر سے سخت رونے کی آواز بلند ہوئی اور میں بھی سخت رویا امام حسن علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کیا میں نے تمہیں جانے کو نہیں کہا تو میں نے عرض کی اے مولا خدا کی قسم جانے کودل نہیں چاہتا اور قدم حرکت نہیں کرتے جب تک کہ اپنے امام عالی مقام کی زیارت نہ کرلوں اور پھر میں  رویا تو امام حسن اندر گئے اور واپس آکر مجھے اندر آنے کی  اجازت دی میں پہنچا تو امیر علیہ السلام سہار ا لگا ئے  ہوئے تھے زرد رنگ کے عمامہ سے سرکو باندھا ہوا تھا کمزوری سخت تھی اور چہرہ پر زردی چھائی ہوئی تھی لیکن ہائے امام مظلوم جب خاک و خون میں غلطان تھے تو کوئی پاس موجود نہ تھا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام کا چہرہ زیادہ ررد تھا یا عمامہ کارنگ زیادہ زرد تھا میں نے جھک کر امام کے چہرہ کا بوسہ لیااور رو دیا پھر فرمایا اے اصبع رو نہیں میں تو جنت کی طرف جارہا ہوں میں نے عرض کی یہ تو مجھے یقین ہےکہ آپ جنت کی طرف جارہے ہیں میں تو اپنی محرومی کے لئے رو رہا ہوں کہ آپ ایسے امام کی زیارت نہ ہوگی ۔
حضرت محمد بن حنیفہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بابا نے حکم دیا کہ مجھے اپنے مصلائے عبادت پر لے جاو پس ہم لے گئے آپ بہت کمزور ہو چکے تھے لوگ  ارد گر د جمع تھے ان پر پڑی دہشت طاری تھی شدت حزن سے رو رہے تھے پھر امام حسین روتے ہوئے آگے بڑھے اور عرض کی بابا جان آپ کے بعد ہمارا کون ہو گا آپ کا یہ دن رسول خدا کے دن سے کسی طرح کم نہیں ہے ہم پر بہت شاق ہے کہ اس حالت میں آپ دیکھیں پس حضرت نے آواز دی اور فرمایا بیٹا میرے قریب آپس حسین قریب گئے درحالیکہ آنکھیں رورو کر زخمی ہو چکی تھیں حضرت امیر نے شہزادے کے آنسو پونجھے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خد اآپ کو صبر عطا فرمائے اور تیرے بھائیوں کے اجر میں اضافہ فرمائے پس تھوڑا گریہ کرو خدا اس مصیبت میں تیرا اجر زیادہ عطا فرمائے پس آپ کو حجرہ میں لے جایا گیا اور آپ محراب میں بیٹھے جناب زینب اور ام کلثوم تشریف لائیں اور پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں اور عر ض کی باباجان ہمارا غم طویل ہو گا اور آنسو نہ رکیں گے پس حجرہ کے باہر لو گ سن کر رونےلگے اور حضرت امیر علیہ السلام بھی رو پڑے اپنی اہل و اولاد پر ایک نظر دوڑائی پھر حسنین کو پاس بلایا ان کو سینہ سے لگایا اوربوسہ دیا پھر ایک گھنٹہ تک آپ پر غشی طاری ہو گئی اور پھر افاقہ ہوا حضر ت رسالت مآب کے بعینہ یہی حالت تھی کہ ان پر غشی طاری ہوتی تھی اور پھر افاقہ ہوتا تھا کیونکہ آپ کو زہر دی گئی تھی حضرت  امیر کو جب افاقہ ہوا تو امام حسن نے دودھ کا پیالہ پیش کیا آپ نے تھوڑا سا نوش کیا ور باقی کو منہ سے ہٹا دیا اور فرمایا یہ اپنے قیدی کو دے دو محمد بن حنیفہ کہتے ہیں کہ ہم نے بیسویں کی رات اپنے باپ کے پاس گذاری زہر کا اثر قدموں تک پہنچ چکا تھا حضرت نے اس رات نمازیں بیٹھ کر ادا کیں پس وصیتیں فرماتے رہے اور تسلیاں دیتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوئی پھر  لوگوں نے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دی پس اندر آئے انہوں نےسلام دیا اور آپ نے جواب سلام دیا اور فرمایا ایھا الناس سلونی قتل ان تفقد ونی لیکن سوال کم کرناکیونکہ میں تکلیف میں ہوں پھر لوگوں میں سخت گریہ طاری ہوا بےشک ایسی حالت میں تکلم اوریہ دعوی خالی از اعجاز امامت نہیں آپ نے دودھ طلب فرمایا جب لایا گیا تو ا ٓپ نے نوش فرمایا لیکن اس دفعہ قاتل کو کچھ نہ دیا فرمایا یہ میرا آخری رزق ہے لیکن بیٹا اپنے اسیر کو بھی اتنا دودھ دےدینا تو امام حسن نے اس ملعون کو بھی دیا حضر ت محمد بن حنیفہ فرماتے ہیں کہ اکیسویں کی رات تاریک ہوئی آپ نے اپنے  تمام اہل بیت کو جمع کیا اوران سے وداع کیااور فرمایا اللہ تمہارا نگہبان ہو گا اور وہی کافی ہے پھر ان کو ایمان اور احکام کی وصتیں فرمائیں جس طرح رسول اللہ نے فرمائی تھیں اور من جملہ دیگر وصایا کے یہ بھی تھا کہ شرک نہ کرنا اور سنت رسول کو ضائع نہ کرنا ان دو عمودوں کو  قائم رکھنا اور ان دو چراغوں کو روشن رکھنا کل میں تمہارا ساتھی تھااور آج تمہاری عبر ت گاہوں کل جدا ہو جاوں گا الخ پھر اثر زہر پرھ گیا اور آپ کے پاوں مبارک سرخ ہوگئے پس آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور من جملہ وصایا کے تھا کہ میری قبر کو غائب کر دینا حضرت بتول کی قبر بھی اسی طرح غائب کر کر دی گئی امام حسن کےجنازہ پر تیر برسائے گئے لیکن ان سب میں امام حسین پرجو ٖظلم ہوا اس کی نظیر نہیں مل سکتی کیونکہ امام مظلوم کےعلاوہ کسی کی لاش پر گھوڑے دوڑانے کا ظلم نہیں ہوا اور اس کی پردہ دار بہنوں بیٹیوں و دیگر اہل حرم کو تو رونے سے بھی روک دیا گیا اور یتیم بچوں کو تسلی کی بجائے طما نچے مارے گئے اور انتہائی بے دردری سے ان کو دربدر پھرا یا گیا
انا للہ وانا الیہ راجعون
ہائے حضرت علی کےزخموں پر پٹی کےطور عمامہ باندھا گیا لیکن حسین مظلوم زخمی پیشانی پر پٹی باندھنے والا کوئی نہ تھا حضرت علی کےپاس آخری وقت بیٹیاں بیٹے اور  اہل حرم سب موجود تھے لیکن حسین مظلوم کے پاس کوئی نہ تھا بلکہ بعد از شہادت بھی لاش کے پاس بیٹھنے کی کسی کو اجازت نہ تھی نہ کفن ملا نہ دفن ہو سکا اور نہ یتیم بچوں کو کوئی تسلی دینےوالا رہا کہتے ہیں کسی طرح سکینہ خاتون جو بابا کی لاش پر پہنچی تو شمر نے جھڑک کر اور تازیانہ دکھا کرچھوٹی بچی کو بابا کی لاش سے الگ کر دیا راہ شام میں بھی کھلے طور پر رونے کی اجازت نہ تھی چنانچہ جناب فاطمہ بنت حسین سے روایت ہے کہ جب ہم میں سےکسی کی آنکھ میں آنسو آتے تھے اور رونے کی صدا بلند ہوتی تھی تو ظالم لو گ ہمیں نیزوں کی انیوں کےذریعے خاموش کرا دیتے تھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں