التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چھٹا باب -- واقعاتِ شہادتِ سیّدالشہدأ علیہ السّلام -- شجا عت امام حسین ؑ

12 min read
سرچشمۂ ظلم واستبداد۔۔ سگِ وادیٔ کفروالحاد۔۔ عبیداللہ بن زیاد کی کثیر التعداد فوجیں جب عرصہ کارزارِ کربلامیں جمع ہوئی تھیں اورگھوڑوں کی ٹاپیں۔۔ ڈھول وطبل کی تھاپیں۔۔ تلواروں کے چمکار۔۔نیزوں کے لسکار۔۔ تیروتفنگ کے جھنکار اورلوگوں کی چیخ وپکارکے درمیان شجاعانِ عرصہ کارزار کی للکار کا دل ہلادینے والاسماں یہ تاثردے رہاتھا کہ اس ہائو ہوکے مقابلہ میں قدم جمانا کسی غیر معمولی شخصیت کاہی کام ہے، اس وقت کس کی جرأت تھی کہ ان آہنی دیواروں سے ٹکرائے؟ اورکس کی مجال تھی کہ ان فولادی شکنجوں میں جکڑے جانے کے لئے اپنے قیمتی وجود کو پیش کرے؟ بیشک تاریخ بتلاتی ہے اورتجربہ شاہد ہے کہ ایسے پُرخطر ماحول میں بڑے بڑے شجاع اور نامور بہادر بھی صاحب اقتدار کی ہاں میں ہاں ملانے پرمجبور ہوجاتے ہیں اوروقتی طور پراپنے حریف کی ہرجائز وناجائز خواہش پر صاد کرنے میںہی بھلائی اور اپنی خیر سمجھتے ہیں اور اپنے نظریہ کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں اپنے مشن کا گلا کاٹنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
یقین جانئے کہ حضرت امام حسین ؑ وقت کی نزاکت کو بھانپ چکے تھے انہیںاپنے حریف کے ارادوں کی خبر تھی اور ظاہری لحاظ سے اپنی بے بضاعتی کا بھی اعترا ف تھا لیکن آپ ؑ کو معلوم تھا کہ میرے مشن کی کامیابی صرف اسی میں ہے کہ اپنے پاس موجودہ قلت کو حریف کی کثرت سے ٹکرایا جائے تاکہ یہ نتیجہ روز روشن کی طرح واضح ہو جائے کہ:
حق پر جم کر ایک ذرّہ کم مقدار باطل کے ریگزار کوگمنام بلکہ بے نام و نشان کر سکتا ہے اور صداقت کے بل بوتے پر ایک قطرہ باطل متلاطم سیلاب کا منہ موڑ سکتا ہے۔
پس ان کے خود دار نفس نے باطل کے سامنے جھکنے اور استبداد کے آگے سر نگوں ہونے کی بجائے اپنے بہادر باپ اور غیور دادا کی سیرت پر اپنے لئے کٹھن راستہ تجویز کیا اور ہاشمی جرأت کو لبیک کہتے ہوئے ذلت کی زندگی کو ٹھکرا کر موت کی آنکھ میں آنکھ ملانے کیلئے آگے بڑھنا پسند فرمایا پھر اپنی تھوڑی مقدار کے ساتھیوں کو اپنے سامنے ریگزار صحرا میں ایڑیا ں رگڑتے دیکھااپنے جواں سال بیٹوں۔۔ بھتیجوں۔۔ بھانجوں۔۔ بھائیوں اورعزیزوں کو خون میں نہاتے ہوئے دم توڑتے ہوئے دیکھا، عباس کے کٹے ہوئے بازو دیکھے۔۔ علی اکبر کے سینے میں زخم دیکھا۔۔ علی اصغر کے گلوئے نا زنین میں تیرپیوست دیکھا اوریہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود جرأت وشجاعت کا بے جگری سے ایسا مظاہرہ کیا جیساکہ کچھ نہ دیکھا ہو؟
علاوہ ازیں تین دن کی پیاس تھی حالانکہ آپ ؑ فطری وطبعی طورپر پیاس کوزیادہ محسوس فرماتے تھے اوریہی وجہ ہے کہ خاندانِ عصمت کی تمام شہزادیوں کو حسین ؑ کی پیاس کا اپنی پیاس سے زیادہ احساس تھا اورپیا س کے تمام اسباب آپ ؑ کے پاس موجود تھے، دن گرم ۔۔ موسم گرم۔۔ ہوا گرم۔۔ زمین گرم پھر زخموں کی حرارت۔۔ عزیز واقارب کی اپنے سامنے موت کی حرارت۔۔پردہ داروں کے متعلق فکروتشویش کی حرارت اورتین دن کی پانی کی بندش کے ساتھ آپ ؑ کی فطری وطبعی پیاس کو ملا کراندازہ کیجئے کہ آپ ؑ پر پیاس کا کیا عالم ہوگا؟ ہاں جب شہزادہ علی اکبر نے ایک مرتبہ باپ کی خدمت میں پہنچ کرپیاس کی شکایت کی تو امام ؑ نے بڑھ کراپنے جوان سال بیٹے کو سینے سے لگایا اورمنہ سے منہ ملاکرفرمایایہ لو میری زبا ن کو چوس لو شاید کچھ تسکین ہوجائے؟ توشہزادے نے اپنے منہ میں باپ کی زبان لی پس فوراً اپنا منہ پیچھے ہٹا لیا! باپ نے پوچھا کیوں بیٹا؟ تو عرض کیا باباجان آپ ؑ کی زبان میری زبان سے زیادہ خشک ہے؟ اندازہ کیجئے کہ حسین ؑکی پیاس کس قدر تھی؟
اوریہ چیزیں کسی شجاع اوربہادر کی شجاعت کے لئے قطعاً سدِّراہ ہیں بلکہ ان میں سے ایک بھی ہوتوبہادر سے جوہر شجاعت گم ہوجایا کرتے ہیں، یہی توفرق ہے علی ؑ اورحسین ؑکی شجاعت میں کہ:
٭      علی ؑ پانی پی کرلڑے اورحسین ؑ پیاسے لڑے۔
٭      علی ؑ بے فکر لڑے اورحسین ؑنے ہزار ہا فکر وتشویش کی موجود گی میں
         جوہرشجاعت دکھائے۔
٭      علی ؑنے لڑنے کے بعد ز خم کھائے اورحسین ؑزخمی وجود سے آمادہ حرب ہوئے۔
٭      علی ؑکے سامنے عزیزوں کی لاشیں نہ تھیں اورحسین ؑتمام جانثاروں
        عزیزوں اورجگر گوشوں کو گرم زمین پردیکھ کومیدان میں آگے بڑھے۔
٭      علی ؑایک ایک سے لڑتے رہے اورحسین ؑبیک وقت ہزاروں سے لڑے۔
٭      علی ؑ کودادشجاعت دینے کے لئے پیغمبر اوراصحاب موجود ہواکرتے
 تھے اورحسین ؑکو خیمے کی طرف واپس بلانے کے لئے یتیم وبے وارث بچے اور سادانیاں دروازۂ خیام پرتھیں پھر بھی آپ ؑ نے اصول جنگ کے پیش نظر مبارزطلبی بھی کی اورہر مقابلہ میں آنے والے کوشیر خداکے شیرفرزند نے دارالبوار بھی پہنچایا، جب کافی تعداد میں نامی گرامی پہلوان لقمہ اجل ہوچکے تو کسی کو علی ؑکے اس زخمی شیردل فرزندکے سامنے آنے کی جرأت نہ تھی جبھی تو کہنے والے کہہ اٹھے:
مَا رَاَیْتُ مَکْثُوْراً قَطُّ قَدْ قُتِلَ وُلْدُہُ  وَاَھْلُ بَیْتِہٖ وَاَصْحَابُہُ اَرْبَطَ جَاشًا مِنْہُ وَاِنْ کَانَتِْ الرِّجَالُ لَتَشُدُّ عَلَیْہِ فَیَشُدُّ عَلَیْہِمْ بِسَیْفِہٖ فَیَکْشِفُوْنَ عَنْہُ انْکِشَافَ الْمِعْزٰی اِذَا شَدَّ فِیْھَا الزِّئبُ وََ لَقَدْ کاَنَ یَحْمِلُ فِیْھِمْ وَقَدْ تَکَمَّلُوْا ثَلاثِیْنَ اَلْفاً فَیَنْھَزِمُوْنَ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ کَاَنَّھُمُ الْجِرَادُ الْمُنْتَشِرُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی مَرْکَزِہٖ وَ ھُوَ یَقُوْلُ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِّیِ الْعَظِیْمِ۔
ترجمہ:  راوی کہتاہے میں نے آج تک کوئی زخمیوں سے چور انسان نہیںدیکھا جس کے سامنے اپنے بیٹے۔۔ عزیزو اقارب اور دوست قتل کئے جاچکے ہوں اور بایں ہمہ حسین ؑکی طرح دلیر اور ثابت القلب ہو؟ ان مصائب میں گھِر جانے کے باوجود حسین ؑ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ لوگ یکبار گی حملہ آور ہوتے تھے پس آپ ؑ شیر غضبناک کی طرح تلوار آبدار کومیان سے نکال کر ان کو للکار تے تھے پس صفوں میں انتشار پڑجاتاتھا اوربکریوں کی طرح لوگ بھاگتے نظر آتے تھے، وہ پورے تیس ہزار تھے جب آپ ؑ حملہ کرتے تھے تو مکڑی کی طرح لوگ اڑتے نظر آتے تھے پس شیر کی طرح ان کوبھگا کرواپس اپنے مرکز پرپلٹ آتے تھے۔
حاشیہ ’’تذکرۃ الخواص ص۱۴۱‘‘ نقلاًعن ابن طائوس اوربروایت ابن شہر آشوب اسی حالت میں ایک ہزار نوسو پچاس ملاعین کوتہِ تیغ کیا۔
امام مظلوم ؑ کی بے پناہ شجاعت دیکھ کرعمر سعد شقی کے حوصلے پست ہوگئے اور اسے اپنی شکست کا احساس ہونے لگا، لہذابآوازبلند صدادی:
اے اہل کوفہ! کیا تم لوگ نہیں جانتے کس مرد میدان سے نبرد آزما ہو رہے ہو؟ تمہیںنہیں معلوم کہ یہ شخص اس کا سپُوت ہے جس کی تلوار نے صنادید عرب کے تکبر کوخاک میں ملا دیا؟ ہاں ہاں بیشک یہ الانزع البطین کا فرزند ہے اورشجاعت میں اُس باپ کا وارث ہے جس کی تلوارنے عرب کے نامی پہلوانوں کا خون مزے لے لے کے چوسا، لہذا ناممکن ہے کہ مبارزطلبی کے طریقہ سے تم اس پرفتح پاسکوکیونکہ اس طریقے سے اس کی نیام سے نکلی ہوئی تلوارمیدان کا رزار میں حاضر ہونے والے تمام شجاعانِ حرب وضرب کویکے بعد دیگرے دارالبوار پہنچاکے ہی دم لے گی، بس بھلائی اس میں ہے کہ اس پر ہرطرف سے یکبار گی حملہ کرو۔
 چنانچہ فوجِ اشقیا ٔ کے چار ہزار تیراندازوں نے امام عالیمقام ؑ کا ہرچہار طرف سے احاطہ کرلیا اورتیر بارانی شروع کی، تاہم امام عالیمقام ؑ نے نہایت حوصلہ اورپامردی سے ان کا مقابلہ کیا اورشجاعت کے وہ جوہردکھائے کہ بناپرایک حکایت کے لوگوں نے واقعہ ہائلہ کربلاکے بعد گذشتہ بہادروں کی شجاعت کو یکسر بھلادیا، حتیٰ کہ جب شجاعانِ عرب کا ذکر ہوتاتو حضرت علی ؑ کی بجائے جگہ جگہ امام حسین ؑ اوران کے اصحاب واحباب کی شجاعت کے تذکرے ہوتے، محمد بن طلحہ شافعی نے ’’مطالب السئوول ص۷۲‘‘ میں لکھا ہے کہ آپ ؑ نے عرصہ کارزار میں یہ اشعارپڑھے:
اَنَا ابْنُ عَلِیِّ الْخَیْرِمِنْ آلِ ھَاشِمٍ
کَفَانِیْ بِھٰذَا مُفْخَرًا حِیْنَ اَفْخَرُ
 میں بنی ہاشم میں سے حضرت علی ؑکاسپُوت ہوں اورمقام فخر میں میرے لئے یہی کافی ہے۔
 وَجَدِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَفْضَلُ مِن مَّشٰی
 وَنَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِی الْخَلْقِ یَزْھَرُ
میرا نانارسول تمام زمیں پرچلنے والوں سے افضل ہے اورہم اللہ کی مخلوق ہیں اس کی جانب سے ہدایت کی روشن قندیل ہیں۔
وَ فَاطِمَۃُ  اُمِّی سُلَالَۃُ اَحْمَدٍ
وَعَمِّیَ یُدْعٰی ذَالْجَنَاحَیْنِ جَعْفَرُ
رسول کی شہزادی فاطمہ ؑ میری ماں ہے اورمیراچچا جعفر طیارہے جسکوجنت میں دو پر عطا ہوئے ہیں۔
وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ صَادِقًا
وَفِیْنَا الْھُدٰ ی وَالْوَحْیُ وَالْخَیْرُ یُذْکَرُ
اللہ کی سچی کتاب ہمارے حق میں ہے،  ہدایت۔۔ وحی اورنیکی ہم میں ہی موجود ہے۔
وَنَحْنُ وَلاتُ الْاَرْضِ نُسْقِیْ وُلَاتَنَا
بِکَاسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَا لَیْسَ یُنْکَرُ
 ہم زمین میں اُولوالامر ہیں اور موالیوں کوبلاریب رسالتمآب کی طرف سے جام بھر بھر کر پلائیں گے۔
وَشِیْعَتُنَا فِی النَّاسِ اَکْرَمُ شِیْعَۃٍ
وَمُّبْغِضُنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَخْسَرُ
ہمارے شیعہ بہترین شیعہ ہیں اورہمارے دشمن بروزقیامت خسارے میں ہوں گے۔
یہ اشعار پڑھ کر آپ ؑ نے مبارزہ طلبی کی اورجوبھی مقابلہ کیلئے آگے بڑھا اس کو تہِ تیغ کیا حتیٰ کہ کافی تعدادمیں فوجِ اعدأ کے نامی بہادروں کو واصل جہنم کیا اورآپ ؑ نے جس جس پر تلواراٹھائی وہ موت کے پنجہ سے جان برنہ ہوسکا اورصرف یہی بات ان کی شجاعت اورخوداعتمادی پردلیل قاطع ہے۔
 بروایت ’’مخزن البکا‘‘ تمیم بن قحطبہ نامی گرامی پہلوان تھا آپ ؑ کے مقابلہ میں آیا اورامام نے ایک ہی ضربت سے اس کا کا م تمام کردیا اورایسی زورسے تلوار ماری کہ اس کا سر پچاس ذراع دور جاپڑا، پھر جوش انتقام میں یزید ابطحی لاف وگزاف مارتاہوا میدان میں آیا یہ ملعون شجاعت میں شہرہ آفاق تھا لیکن امام عالی نے اس کا وار ردّکرکے اس کی کمر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گر گیا۔
نیز ’’مطالب السئوول‘‘ میں ہے:  باَرَزَ بِنَفْسِہٖ اِلٰی اَنْ اَثْخَنَۃُ الْجَرَاحاَتُ وَ السِّھَامُ تاَخُذُہُ مِنْ کُلِّ جاَِنبٍ آپ ؑ اس حد تک لڑے کہ زخموں سے چور ہو گئے اور تیر ہر طرف سے آپ ؑ پر برس رہے تھے، اتنے میں بعض ملاعین نے اہل حرم کا رخ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا اے گروہ ِشیطان اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت کا ڈر تمہارے دل میں نہیں تو شرافت نفس کو سنبھالو اور غیرت عرب کا خیال کرو؟ میں تم سے لڑ رہا ہوں بس تم میرے ساتھ جنگ کرو اور اہل حرم کو ستانے سے باز آجائو اور تم عورتوں بچوں کو پریشان نہ کرو؟ چنانچہ وہ رک گئے۔
’’مخزن البکأ‘‘ بروایت بحارالانوار امام ؑ نے یہ اشعار پڑھے:
فَاِنْ تَکُنِ الدُّنْیَا تُعَدُّ نَفِیْسَۃً
فَاِنَّ ثَوَابَ اللّٰہِ اَعْلیٰ وَ اَنْبَلُ
اگرچہ دنیا مرغوب چیز ہے لیکن اللہ کا ثواب بلند و بالاتر ہے۔
وَاِنْ تَکُنِ اْلاَبْدَانُ لِلْمَوْتِ اُنْشِأَتْ
فَقَتْلُ امْرَئٍ باِلسَّیْفِ فیِ اللّٰہِ اَفْضَلُ
اگر بدن موت کیلئے پیدا ہوئے ہیں تو اللہ کی راہ میں انسان کا تلوار سے قتل ہونا افضل ہے۔
وَاِنْ تَکُنِ اْلاَرْزَاقُ قِسْمًا مُقَدَّرًا
فَقِلَّۃُ سَعَیِ الْمَرْئِ فِی الْکَسْبِ اَجْمَلُ
اور اگر رزق تقسیم شدہ ہیں تو کسب میں تھوڑی کوشش ہی زیادہ سزاوار ہے۔
وَاِنْ یَکُنِ الْاَمْوَالُ لِلْمُوْتِ جَمْعُھَا
فَمَا بَالُ مُتْرُوْکٍ بِہِ الْمَرئُ یَبْخَلُ
اور اگر فنا کی خاطر ہی مال جمع کرنا ہے تو چھوڑ جانے والی چیز پر انسان کیوں بخل کرے؟
پس حملہ آور ہوئے اور میدان کو خالی کر دیا اور اثنائے حرب آپ ؑ کی زبان پر یہ شعر جاری رہا:
اَلْمَوْتُ خَیْرٌ مِنْ رَکُوْبِ الْعَارِ
وَالْعَارُ اَوْلیٰ مِنْ دَخُوْلِ النَّارِ
شرمساری کی زندگی سے موت بہتر ہے اور جہنم کے دخول سے دنیا کی شرمساری کا برداشت کرنا بہتر ہے۔
بروایت ’’بحار الانوار‘‘ لشکر کے میمنہ پر حملہ کیا اور جنگ میں حیدر کرّار کا نقشہ پیش کیا پھر میسرہ پر حملہ کیا اور یہ رجز پڑھا:
اَنَا الْحُسَیْنُ ابْنُ عَلِیّ
اٰ لَیْتُ اَنْ لا  اَنْثَنِیْ
میں حسین ؑبن علی ؑہوں اور میں نے قسم کھائی ہے کہ واپس نہ جائوں گا۔
اَحْمِیْ عِیَالاتِ اَبِیْ
اَحْمِیْ عَلٰی دِیْنِ النَّبِیّ
 اپنے باپ کے اہل حرم کی حفاظت کروں گا اور اسی حال میں دین پیغمبر پر گامزن ہوں گا۔
پس میمنہ کو میسرہ پر اور میسرہ کو میمنہ پر مارتے رہے اور اسی حالت میں آپ ؑ نے یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے۔۔۔۔ حمید بن مسلم کہتا ہے خدا کی قسم میں نے اس وقت آپ ؑ کو دیکھا کہ آپ ؑ کی ریش اقدس خون سے تربتر تھی اور میں نے زرّہ کو دیکھا اس قدر تیراس میں پیوست ہو چکے تھے کہ زرّہ نظر نہیں آسکتی تھی اور باوجود اس کے آپ ؑ حملہ پر حملہ کر رہے تھے اور آپ ؑ کے سامنے کسی کو ثابت قدم رہنے کی جرأت نہ تھی،  تب عمر سعد نے کہا:  لا شَکَّ اِنَّہُ ضِلْعٌ مِنْ اَضْلاعِ النُّبُوَّۃ  کہ بے شک یہ نبوت کا جزو ہے اور حکم دیا کہ فوج دو حصوں میں بٹ کر اس تنہا سے لڑے۔۔ ایک حصہ تلواروں اور نیزوں سے اور دوسرا حصہ تیروں اور پتھروں سے!؟
امام مظلوم ؑ نے عمر بن سعد کی فوج سے فرمایا کہ میں نے کونسا شرعی جرم کیا ہے جس کی پاداش میں میرا قتل تم لوگوں نے حلال جانا ہے؟ تو بروایت ابومخنف انہوں نے کہا صرف تیرے باپ کی دشمنی کی وجہ سے ہم آپ ؑ سے لڑتے ہیں اور اپنے بدر و حنین کے مقتولین کا ہم بدلہ لیتے ہیں، پس آپ ؑ نے عمربن سعد کو بلا کر فرمایا کہ تین باتوں میں سے ایک کو اختیار کر لو:
تَتْرُکْنِیْ حَتّٰی اَرْجِعَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ اِلَی حَرَمِ جَدِّیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔
مجھے چھوڑ دو کہ واپس مدینہ چلا جائوں۔۔۔ تو عمر سعد نے انکار کیا۔
اَسْقُوْنِیْ شَرْبَۃً مِّنَ الْمَائِ
فَقَدْ نَشَفَتْ کَبِدِیْ مِنَ الظّمَائِ
مجھے ایک گھونٹ پانی پلا دو کہ پیاسا ہوں۔۔۔ کہ پیاس سے میرا جگر کباب ہو گیا ہے۔۔۔ عمر سعد نے جواب دیا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔
امام ؑ نے فرمایا:  اِنْ کَانَ وَلا بُدْ فَلْیَبْرُزْ اِلَّی رَجُلٌ بَعْدَ رَجُلٍ۔
 اگر یہ بھی نہیں تو میرے مقابلے میں ایک ایک آدمی آنا چاہیے۔۔۔ ابن سعد نے اس بات کو ظاہراً قبول کر لیا لیکن وفا نہ کی!
جب وہ ملاعین فرداً فرداً جنگ کرنے سے عاجز آگئے تو ہر جانب سے حملہ آور ہوئے اور امام ؑ نے خوب جہاد کیا، حتیٰ کہ بروایت ’’منتخب‘‘ متعدد حملوں میں دس ہزار سے زیادہ ملاعین کو دارالبوار پہنچایا لیکن فوج کی کثرت کی وجہ سے ان میں اس مقدار کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی، ایک مرتبہ حملہ کرتے ہوئے دریائے فرات پر جا پہنچے اور گھوڑے کو پانی میں داخل کیا اور فرمایا گھوڑا تو بھی پیاسا ہے اور میں بھی پیاسا ہوں پس گھوڑے نے پانی سے منہ اٹھا لیا اور آپ ؑ نے چلّو بھر کر ارادہ کیا کہ پانی پئیں لیکن ایک ملعون نے آواز دی کہ حسین ؑتو پانی پی رہا ہے حالانکہ دشمن تیرے خیام میں گھس رہے ہیں؟ پس غیور امام ؑ نے جونہی اہل حرم کا نام سنا تو پانی گرا دیا اور تشنہ کام واپس پلٹے اور ایک مرتبہ پھر خیام میں تشریف لائے (مخزن البکأ)
دوسری روایت میں ہے کہ چونکہ تشنگی کا غلبہ تھا اس لئے امام ؑ نے دریا کا رخ کیا، بروایت ابن شہر آشوب۔۔ اعورسلمی اور عمروبن حجاج زبیدی جو چار ہزار کی فوج کے ساتھ دریا پر مسلط تھے ان سے لڑائی اور فتح حاصل کر کے کنارۂ دریا پر قبضہ کر لیا اور گھوڑے کو پانی میں داخل کیا اور گھوڑا بھی چونکہ پیاسا تھا پس امام نے فرمایا:
اَنْتَ عَطْشَانٌ وَ اَنَا عَطْشَانٌ وَاللَّہِ لَا اَذُوْقُ الْمَائَ حَتَّی تَشْرَب۔
تو بھی پیاسا ہے اور میں بھی پیاسا ہوں خدا کی قسم میں پانی نہ پئوں گا جب تک کہ تو نہ پئے گا؟
 پس جونہی حیوان نے یہ کلام سنا تو پانی سے منہ اٹھا لیا اور امام ؑ نے گھوڑے سے فرمایا:  اِشْرِبْ فَاَنَا اَشْرَب  تو بھی پی اور میں بھی پیتا ہوں، چنانچہ گھوڑے کی دلجوئی کی خاطر چلّو بھرا اور پینے کا ارادہ کیا کہ بروایت ’’بحارالانوار‘‘ ایک کلبی شخص نے ایک تیر مارا جو امام مظلوم ؑ کے دہن اقدس پر لگا اور ایک روایت میں ہے کہ یہ تیر حصین بن نمیر نے مارا تھا، امام ؑ نے وہ تیر کھینچ کر پھینک دیا اور خون کا فوارہ جاری ہوا پس اتنے میں ایک شخص نے صدا دی اے حسین ؑ تجھے پانی یاد ہے حالانکہ دشمن تمہارے خیام میں گھس رہے ہیں؟ غیور امام ؑ نے خیام کا رخ کیا۔

1 تبصرہ

  1. اللہ اکبر
    یہ کلام بہت اعلیٰ ہے کیونکہ اس میں امام حسین علیہ السلام کی شجاعت بیان کہ گی ہے جزاک اللہ خیرا