التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انیسویں مجلس -- یا ایھا الذین امنوا اتقو اللہ وکونوا مع الصادقین


بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ یا ایھا الذین امنوا اتقو اللہ وکونوا مع الصادقین
ایمان والو ماہ مبارک رمضان ایمان کی بہار ہے روزہ رکھنا ہر مومن عاقل و بالغ پرواجب ہےلیکن حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ صرف کھا نے اور پینے سے منہ بند کر لینے کا نام روزہ نہیں بلکہ اپنی زبانوں کو بد گوئی سے اور آنکھوں کواوچھی نظر سے روکو نہ ایک دوسرے سے حسد کرو او ر نہ آپس میں جھگڑا کرو فان الحسد یا کل الایمان کما یاکل النار الحطب کیونکہ حسد ایمان کو اس طرح کھاتا ہےجس طرح خشک لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے منابر
ایک مرتبہ جناب رسالت مآب نے ایک روزہ دار عورت کو سنا کہ اپنی ہمسائی کو گالیاں دے رہی تھی آپ نے طعام منگوا کر ا س کی پیش کیا کہ اسے کھاو اس نے عرض کی کہ میرا روزہ ہے آپ نے فرمایا تیر ا روزہ کس طرح ہے جب کہ تو اپنی ہمسائی کو گالیاں دے رہی تھی روزہ صرف پینے کھانےسے منہ بند کر لینے کا نام نہیں ہوا کرتا  منابر
روزہ دار  کے منہ کی سانس اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے منابر
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رمضان میں سدیر میرے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا اے سدیر تجھے کچھ خبر ہے کہ آج کل کونسی راتیں ہیں اس نے عرض کی حضور ماہ رمضان کی راتیں ہیں آپ نے فرمایا کہ تو ہررات اولاد اسمعیل میں سے دس غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہے اس نے عرض کی نہیں حضور آپ نے ایک ایک عدد کم کرنا شروع کیا آخر میں پوچھا کہ تجھے ہر شب ایک غلام اولاد اسمعیل میں سے آزاد کرنے کی طاقت ہے اس  نےہر بار نہیں میں جواب دیا پس آپ نے فرمایا کیا تیری طاقت ہےکہ ہر روز ایک مر د مومن کا روزہ افطار کرائے اس نےجواب دیاایک تو بجائے خود میں تو دس آدمیوں کو بھی افطار کراسکتاہوں آپ نے فرمایا بس یہی میں چاہتا ہوں اے سدیر ایک مومن بھائی کا روزہ افطار کرانا اولاد اسمعیل میں سے ایک غلام کےآزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہے منابر
حضرت امام رضا علیہ السلام بسند آبائے طاہرین حضرت امیر علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسالت مآب نے خطبہ میں ارشاد فرمایا اے لوگو تمہارے درمیان اللہ کا مہینہ برکت رحمت اور مغفرت لے کر آرہا ہے یہ مہینہ اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سےافضل ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اس کی راتیں تمام راتوں سے خوب تراور اس کی گھڑیاں تمام گھڑیوں سے برترہے اس ماہ میں تم اللہ کی ضیافت کی طرف بلائے گئے ہو اور تم اللہ کےاکرام کےاہل قرار دیئے گئے ہو اس میں تمہارے سانس تسبیح نیند عبادت عمل مقبول اوردعا مستجاب ہے پس اللہ سے پاک دل نیک نیت ہو کر سوال کر و کہ تمہیں اس کے روزوں پر موفق فرمائے اور تلاوت قرآن کی ہمت دے وہ انسان بد بخت ہے جو اس عظمت والے ماہ میں بھی اللہ کی بخشش سے محروم ہو اس کی بھوک و پیاس سے قیامت کی بھوک پیاس کویاد کرو فقرا و مساکین پر صدقہ کرو بڑوں کی عزت چھوٹوں پر رحم کرو قریبیوں سے صلہ رحمی کرو آنکھ اور زبان کی ناجائز باتوں سے حفاظت کرو کانوں کو حرام آوازوں سے بچاو لوگوں کے یتیموں پر رحم کرو تاکہ تمہارے یتیموں پر رحم کیا جائے گناہوں سے توبہ کرواور اوقات نماز میں اس کی طرف دست دعا بلند کرو کیونکہ یہ وہ بہترین اوقات ہیں جن میں خدا اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے دعائیں قبول کرتا ہے بلانے پر لبیک فرماتا ہے اور سائلین کو عطا فرماتا ہے لوگو تمہارے نفوس تمہارے اعمال کے مرہون استغفار کے ذریعے ان کو چھڑاو تمہاری پشت گناہوں کے بھار سے بوجھل ہے ان کو لمبے سجدوں سے ہلکا کرواور یقین کرو کہ خدا نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نمازیوں اورسجدہ گزاروں کو عذاب نہ کروںگا اوربروز محشر کا خوف نہ دوں گا ۔
اے لوگو جواس مہینہ میں ایک روزہ دار مومن کوا فطار کرائے اس کا ثواب اللہ کے نزدیک ایک غلام کے آزادکرنے کے برابر ہے اوراس کےسابقہ گناہ بھی بخشے جائیں گے لوگوں نے عرض کی حضور ہم سب میں تو طاقت  نہیں ہے پس آپ نے فرمایا خدا سے ڈرو اگرچہ ایک کھجور کی دْلی سے ہی سہی اور اللہ سے ڈرو اگر چہ ایک گھونٹ پانی سے ہی سہی اے لوگو جو شخص اس ماہ میں اپنے اخلاق کو درست رکھے وہ پل صراط سے نآسانی گذرے گاجب کہ قدم پھسل رہے ہوں گے اور جو شخص اس ماہ میں اپنے غلام کے کاروبار میں تخفیف کرے گا خدا بروز قیامت اس کا حساب آسان کرے گا اور جو  شخص اس ماہ میں یتیم پرور ی کریگا بروز محشر خدا اسکی عزت کرے گا جوا س ماہ میں صلہ رحمی کرے گا اسے خدا اپنی رحمت سے دور کرے گا اورجو اس ماہ میں ایک سنتی نماز پڑھے گا خدا اس کے لئے دوزخ سے آزادی فرض کرے گا اورجو ایک فرض ادا کرے گااس کے لئے باقی مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ثواب دیگا اور جو اس ماہ میں میرے اوپر زیادہ درود پڑھے گا قیامت کے دن اسکا میزان عمل بھاری ہو گا اور جواس میں قرآن مجید کی ایک آیت پڑھیگا تو اس کو باقی مہینوں کے ختم قرآن کے برابر ثواب دے گا
لوگو جنت کے دروازے اس ماہ میں کھلے رہتے ہیں خداسے دعا مانگو کہ وہ تمہارے سامنے بند نہ ہوں اور جہنم کے دروازے بند رہتے ہیں خدا سے دعا مانگو کہ تمہارے سامنے کھلنے نہ پائیں اور اس ماہ میں شیاطین مقید رہتے ہیں دعا مانگو کہ وہ تم پر مسلط نہ ہوں۔
حضرت امیر علیہ السلام نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ  فرمائیے کہ اس ماہ میں تمام اعمال سے افضل عمل ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرنا پھرا ٓپ رودئیے حضرت علی نے عرض کی آقا آپ کے رونے کا کیا سبب ہے تو فرمایا یا علی روتا اس لئے ہوں کہ اسی ماہ میں تیرا خون مباح کیا جائے گا اور گویا میں وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ تو مشغول نماز ہے اور اولین و آخرین کا بد بخت ترین انسان تیرے سر اطہر پر تلوار سے وار کر رہا ہے جس سے تیری ریش مبارک خضاب ہو چکی ہے حضرت علی نےعرض کی کہ آیا اس میں میرا دین تو محفوظ ہو گا آپ نے فرمایا بے شک تیرا دین محفوظ ہو گا پھر فرمایا یاعلی جس نے تجھے قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا جس نے تجھ سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا جس نے تجھے سب کیا اس نے مجھے سب کیا کیونکہ تو میری جان ہے اور تیرا روح میرا روح ہے اور  تیری طینت میری طنیت ہے کیونکہ خدا نے تجھے اور مجھے ایک ساتھ پیداکیا  مجھے نبوت کے لئے اورتجھے امامت کےلئے منتخب فرمایا جو تیری امامت کا منکر وہ میر ی نبوت کا منکر ہے اے علی تو میرا وصی اورمیری اولاد کا باپ اور میری بیٹی کاشوہر اور میری امامت پر میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا خلیفہ ہے تیرا اور امر  میرا امر اور تیری نہی میری نہی ہے مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے برحق بنی معبوث فرمایا ہے اورمجھے افضل مخلوق قرار دیا ہے تو مخلوق پر حجت خدا ہے او ر اس کے راز کا امین اور اسکے بندوں پر خلیفہ ہے منابر بحوالہ امالی
آپ نے موت کی تیاری کے لئے خضاب کرنا بھی چھوڑ دیا چنانچہ اصبغ بن نباتہ نے عرض کی کہ آپ خضاب کیوں نہیں کرتے حالانکہ جناب رسالت مآب خضاب کیا کرتے تھے تو آپ نےفرمایا میں ایک شقی ترین انسان کی انتظار میں ہوں جو میری ریش سفید کو سر کے خون سے خضاب کرے گا ایک مرتبہ عرض کی گئی کہ آپ بالوں کا رنگ تبدیل کر لیتے تو خوب ہوتا آپ نے فرمایا خضاب زینت ہےاور ہم لوگ مصیبت میں ہیں اس سے جناب رسالت مآب کی مصیبت مراد تھی مجالش مفجور
ایک دفعہ آپ منبر پرواعظ فرمارہے تھے کہ اپنے فرزند اما م حسن کی طرف منہ کرکے دریافت کیا بیٹا اس مہینے سے کتنے دن گزر چکے ہیں اما م حسن نے عرض کی کہ سترہ روز گذر چکے ہیں پھر امام حسین سے دریافت فرمایا کہ اس ماہ کے کتنے روز باقی ہیں ۔شہزاد ے نے عرض کی آقا تیرہ روز باقی ہیں پس آپ نےرونا شروع کیااو ر فرمایا کی شقی ترین امت کی آمد قریب ہو چکی ہے پھر فرمایا مجھے قتل ہونے کا خوف نہیں ۔ واللہ ان ابن ابی  طالب انس بالموت مب الطفل بثدی امہ بخدا ابو طالب کا فرزند موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچے کو ماں کے سینے سے بھی اتنا انس نہیں ہوتا ہاں تو میں اپنے فرزند حسین کے لئے روتا ہوں کہ عالم مسافرت میں یکاوتنہا اور پیا سا بے ناصرومددگار شہید کیاجائے گا فوائد المشاہد
مروی ہے کہ جب ماہ مبارک رمضان داخل ہو ا تو حضرت امیر علیہ السلام ایک رات حضرت امام حسن کے ہاں اوردوسری شب امام حسین کےہاں اور تیسری شب جناب عبد اللہ بن عباس کےہاں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ نوش نہ فرماتے تھے جب وجہ دریافت کی گئی فرمایا کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ نوش نہ فرماتے تھے جب وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا میں چاہتا ہوں کہ خالی پیٹ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں پھر اس کے بعد ایک یادو راتیں ہی گذری ہوں گی کہ شہید کر دئیے گئے۔ حضر ت ام کلثوم فرماتی ہیں کہ 19 ماہ رمضان کی شب میں نے افطار کےلئے جوکی روٹیاں اور دودھ کا ایک پیالہ اور کچھ نمک حاضر کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور کھانے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو سر مبارک کو حرکت دی اور بلند آوازسے رونے لگے اور فرمایا بیٹی تونے اپنے باپ سے اچھا سلوک نہیں کیا شہزادی نے عر ض کی بابا جان یہ کیسے تو فرمایا کہ تو ایک ہی طبق میں میرے لئے بیک وقت دو کھانے لے آئی ہو کیا تو چاہتی ہے کہ کل بروز قیامت میرا حساب اللہ کے سامنے طویل ہو جائے میں توا پنے بھائی جناب رسالت مآب کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہو ں کہ پوری زندگی میں کبھی ان کے سامنے ایک دستر خوان پر دو کھانے نہیں لائے گئے بیٹی جس شخص کا کھا نا پینا پہننا زیادہ ہوگا اس کی اللہ کے سامنے جوابدہی بھی طویل ہو گی ان الدنیا فی حلالھاحساب وفی حرام مھاعقاب تحقیق دنیا کے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے مجھے اپنے حبیب جناب رسالت مآب نے خبردی ہے کہ ایک دفعہ جبریل ان کے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائے اور عرض کی کہ اللہ بعد تحفہ سلام کے ارشاد فرماتا ہےکہ اگر آپ چاہیں توتہامہ کے پہاڑ تیرے لئے سونا ہو جائیں اور یہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں بھی حاضر ہیں اور درجات آخرت میں بھی تیرے لئے کمی نہ ہوگی تو جبریل سےدریافت کیا پھر انجام کیا ہوگا جبریل نے بتایا کہ موت فرمایا دریں صورت مجھے دنیاکی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ایک دن بھوکا رہنا اور ایک دن پیٹ بھر لینا میرےلئے خوب ہے کیونکہ جس دن بھوکا رہوںگا اس دن اللہ سے سوال کروں گا اورجس دن سیر ہوںگا اللہ کا شکر کروں گا تو جبریل نے کہا کہ آپ خیر پر موفق ہیں پس فرمایا بیٹی دنیا دکھوں کا گھر اور ذلت کا مقام ہے جو شخص اپنے لئے کچھ بھیجے گا وہی پائے گا بیٹی خداکی قسم میں نہ کھاوں گاجب تک تم ایک کھانا اٹھانہ لو پس شہزادی نےدودھ کا پیالہ اٹھا لیا اور آپ نے نمک سے جو کی روٹی کھائی اور پھر اللہ کی حمد بجالائے پھر نماز میں مشغول ہوئےاور رکوع سجود اور تضرع زاری میں مشغول رہے لیکن کبھی باہر جاتے اور پھر اندر تشریف لاتے اور بار بار ایسا کیا نیز حالت اضطراب میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے تھے پس ایک بار سورہ یسین کی تلاوت فرمائی اور تھوڑا سا سو گئے اور پھر پر یشانی کے عالم میں بیدار ہوئے کپڑے سےاپنا چہرہ مبارک پونجھا اور اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کی اے اللہ اپنی ملاقات میرے لئے مبارک کر پس لا حول ولا قوۃ الخ  کو بار بار پڑھا پھر مشغول نماز ہو گئے اور بہت دیر تک پڑھتے رہے پھر تعقیبات کے لئے بیٹھ گئے اور بیٹھے ہوئے تھوڑی سےا ونگھ آگئی اور حالت اضطراب میں آنکھ کھلی اور تمام اولاد و اہل کو جمع کرکے فرمایا اس ماہ میں تم مجھ سے دور نہ رہو کیونکہ میں نے اس رات میں خواب دیکھا ہے جو میں بیا ن کرتا ہوں سب نے پوچھا کہ مولا بیان فرمائیے وہ کیا خواب دیکھا ہے کہ فرماتے ہیں یا علی تو ابھی عنقریب ہمارا مہمان ہو گا وہ بد بخت آنےوالا ہے جو تیرے محاسن کو خون سر سے خضاب کرےگا اور ہم تیرے مشتاق ہیں تو اس ماہ مبارک کے آخری عشرہ میں ہمارے ہاں ہو گا پس جلدی کرو کیونکہ جو کچھ تیرے لئے دہاں موجود ہے وہ تیر ے لئے خوب تراور دیرپا ہے جب تمام اہل بیت نے آپ کا کلام سنا تو گریہ وزاری کرنےلگ گئے آپ نے قسم دے کر سب کو رونے سےروکا پھر وصتیں فرمائیں اور نیکی کے احکام سنائے اور برائیوں سے نہی فرمائی ام کلثوم فرماتی ہیں کہ بابا نے رات پوری قیام قعود سجود میں گذاری اور باہر نکل کر آسمان اور ستاروں کو دیکھتے اورواپس آتے اورفرماتے تھے کہ خدا کی قسم مجھے جھوٹ نہیں کہا گیا اور آج وہی رات ہے جسکا میرے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے اورمصلا کی طرف پلٹ جاتے تھے انا للہ الخ اور لاحول ولا قوۃ الخ بہت زیادہ پڑھتے تھے نیز درود و استغفار کثرت سے زبان پرتھا ام کلثوم فرماتی ہیں جب میں نے اضطراب پر یشانی اور ذکر و استغفار کی کثرت ملاحظہ کی تو میں بھی جاگتی رہی اور عرض کی بابا جان آج آپ کو کیوں نیند نہیں آتی فرمایا بیٹی میں نے بڑے بڑے بہادروں کو تیغ  کیا اور بڑے بڑے معرکے دیکھے ہیں   لیکن  اس قدر رعب میرے دل میں کبھی نہیں آیا جس قدر آج کی شب آیا ہے پھر انا اللہ الخ پڑھا میں نے عرض کی آج کیوں آپ اپنی موت کی خبر دیتے ہیں تو فرمایا بیٹی موت قریب ہو گئی اور زندگی ختم ہو گئی ہے ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے رونے لگ گئی تو فرمایا بیٹی رو نہیں میں نے یہ بات ویسے نہیں کی بلکہ میری طرف نبی علیہ السلاما کا عہد یہی ہے پھر آپ کو تھوڑی سی اونگھ آ گئی اور پھر جاگے فرمایا بیٹی اذان کا وقت قریب ہو تو مجھے خبر دینا پھر اول شب کی طرح نماز دعااور تضرع کی طر ف مشغول ہو گئے ام کلثوم فرماتی ہیں میں انتظار کرتی رہی پس جب اذان کا وقت آیا تو میں برتن میں پانی لے کر حاضر ہوئی آپ نے وضو فرمایا اور کپڑے تبدیل کئے پس دروازہ کھولا اور باہر نکلے گھر میں کچھ بطخیں تھیں جو امام حسین کو ہدیتہ ملی تھیں جب آپ باہر آئے تو وہ چیختی چلاتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں حالانکہ اس سے قبل وہ کبھی نہ چلائی تھیں  آپ نے بطخوں کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ لا الہ الا اللہ یہ ایسی چلانے والی ہیں کہ ان کے بعد نوحہ آپ فال لےرہے ہیں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت فال پر عمل نہیں کیا کرتے بلکہ یہ بات بس میں نے کہہ دی ہے پھر فرمایابیٹی میرے حق کی قسم یہ بے زبان ہیں جب یہ بھوکی پیاسی ہوں تو ان کو خوراک اورپانی دینا ورنہ ان کو اپنی قیدسے آزاد کر دینا ۔تاکہ زمین سے اپنی خوراک خود تلاش کرلیں پس جب دروازہ سے گذرنے لگے تو  ردائے مبارک سے ایک میخ الجھ گئی کہ رد اگر گئی پس آپ نے یہ شعر پڑھے اشدد حیاز یمک للموت فان الموت لا قیکا ولا تجزع من الموت اذاحل بواد یکا ولا تغتزبالدھر وان کان یواطیکا کما قد ا ضحک الدھر کذاک الدھر یبکیکا  اپنی کمر موت کے لئے باندھ لو کیونکہ موت نے تیری ملاقات کرنی ہے اور موت سے نہ گھبراو جب تیری مہمان ہو اور زمانہ سے دھوکا نہ کھا و  اگرچہ وہ تیری موافقت کرے جس طرح زمانہ ہنساتا ہے اسی طرح وہ تجھے رولائے گا۔
پھر فرمایا اے اللہ تو میرے  لئے اپنی ملاقات کو مبارک فرما ۔
یہ علی کی روانگی ہے لیکن جب حضرت امام حسین نے خیمہ سے تیاری کی تھی تو اپنےعیال و اطفال کی جانب جنا ب زینب سلام اللہ علیہا کو سفارش فرمائی تھی جناب  زینب نے اپنے بھائی کی وصیت پر خوب عمل کیا جب شمر نے حضرت سجاد کے قتل کا ارادہ کیا تھا تو یہ محذور بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمایا اے کمینہ اگر اس کا قتل کرے گا تو مجھے بھی قتل کرے گا پس وہ باز آگیا ومعہ ساکیہ  تاراجئی خیام کے وقت جب کہ بیبیوں کا سہار ا کوئی نہ تھا وہ ایک دوسرے  کےدامن میں پناہ لیتی تھی جناب فاطمہ بنت حسین کی طرف ایک ظالم بڑھا اور اس نے کوئی ایسا ظلم کیا کہ شاہزادی کی آنکھ کھلی روتی ہوئی اپنی پھوپھی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی پھوپھی جان مجھے کوئی اوڑھنی دیجئے تاکہ سر کے بال چھپالوں اور ان نا محرم لوگوں سے پردہ بنا لو ں تو بی بی نے فرمایا بیٹی میں بھی تیری طرح سر بر ہنہ ہوں اناللہ وانا الیہ راجعون
کتب مقاتل میں ہےکہ جب خیام آل محمد کو آگ لگی تو بھائی کی وصیت کیمطابق جناب زینب عالیہ کی خانوادہ عصمت  کے بچوں کی زیادہ فکر تھی چنانچہ حضرت سجاد جو بستر  بیماری پر صاحب فراش تھے بی بی اپنے بیمار بھتیجے کی خاطر جلتے ہوئے خیمہ میں پہنچی اور وہاں سے بیمار امام کو اٹھا کر باہر لائیں حالت یہ تھی کہ خیام سے آگ کے شعلے بلند تھے بچوں اور عورتوں کی نالہ و گریہ کی صدائیں بلند تھیں اور اہل جفا لوٹنے  کے لئےدوڑے ہوئے آرہے تھے آل رسول کے خورد سال شہزادے آگ کے ڈر سے خیام سے نکلے تو جدھر کو رخ کیا پلٹ نہ سکے البتہ بعض کی لاشیں شب یاز ہم بیبیوں نے ڈھونڈ لیں امیر مسلم کے دونوں شہزادے بھی اسی وقت گم ہوئے جو فوج  اشقیار نے گرفتا ر کرکے ابن زیاد کے پیش کئے اور سال برابر قید رہ کر دیاکےکنارے شہید کردئیے جناب سکینہ خاتون کے گوشوارے بھی اتار لئے گئے جس کی بدولت بی بی کےدونو کان بھی زخمی ہو گئے         ہائے حسین

ایک تبصرہ شائع کریں