التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

آٹھویں مجلس -- یا ایھا الذین امنو ااتقو اللہ کونو ا مع الصادقین


یا ایھا الذین امنو ااتقو اللہ کونو ا مع الصادقین ایمان ابو طالب قریش جنا ب رسالت مآب کو قسم و قسم کی تکلیفیں پہنچاتے تھے اور سب سے زیادہ آپ کا چچا ابو لہب آپ کو زیادہ ستا تا تھا ایک مرتبہ آپ حجرا اسود کے قریب تشریف فرماتھے کہ انہوں نے ایک بکرے کی اوجھڑی آپ پر ٖٖڈال دی آپ غمزدہ ہو کر اپنے چچا حضرت ابو اطالب کےپاس آئے اور فرمایا چچا آپ کی میرے ساتھ محبت کیسے ہے ؟ حضرت ابو طالب نے وجہ دریافت کی توا ٓپ نے فرمایا کہ قریش نے میرے اوپر اوجھڑی ڈالی ہے پس حضرت ابو طالب نے حضرت حمزہ سے کہا کہ تلوار سنبھالو قریش ابھی تک مسجد الحرام میں بیٹھے تھے کہ یہ دونو بزرگوار تلواریں لے کر پہنچے اور اوجھڑی لے کر فرمایا میں ہر ایک پر اسے پھیروں گا جس نے انکار کیا تلوا ر یں لے کر پہنچے اوراوجھڑی لےکر فرمایا میں نے ہرایک پراسے پھیروں گا جس نےا نکار کیا تلوار سےاس کی گردن اڑادوں گا ا س کے بعد حضور کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا بھتیجے تیری محبت ہمارے دلو ں میں ایسی ہے بحار
ایک دفعہ حضور نماز میں مشغول تھےکہ ایک شخص حضور کی گردن پر اپنا نجس قدم  رکھنے کےلیے آگے بڑھا  لیکن فورا الٹے پاوں پیچھے پلٹا لوگو ں نے وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ میرے اور ان کے درمیا ں ایک آگ کی خندق پیدا ہو گئی اور میں نے پروں والے کئی فرشتے بھی وہاں دیکھے آپ نے بعد میں فرمایا اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا عضو عضو جدا کر ڈالتے بحار
آپ باہر تشریف لائے اور مقام حجر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اے گروہ قریش اے گروہ عرب  توحید اور میری رسالت کا اقرار کر لو  شرک اور بت پرستی چھوڑ دو اگر میری نصحیت مانو گے توعرب و عجم کے بادشاہ ہوجاو گے اورجنت کےبھی سردار ہو گےپس لوگ تمسخر کرنے لگےاور دیوانہ کہنے لگے لیکن حضرت ابو طالب کی وجہ سےجسارت کوئی نہ کر سکا سب جمع ہو کر حضرت ابو طالب کے پاس حاضر ہوئےاور کہا کہ تیرابھتیجا ہمیں  بے وقوف کہتا ہے اور ہمارے خداوں کو گالیا ں دیتا ہے اس نے ہمارے جوان طبقہ کو بگاڑ دیا اور ہماری جماعت میں کھلبلی ڈالدی اگر وہ تنگدستی کے لیے ایسا کر تا ہے تو ہم باہمی چندہ سےاس کو کافی مال جمع کردیتے ہیں کہ قریش سے زیادہ مالدارہو جائے گا اورجس عورت سے کہے ا س کی شادی کراتے ہیں حضرت ابو طالب نے حضور کےسامنے یہ ماجرا بیان کیا آپ نے فرمایا چچا جان یہ اللہ کا دین ہے جسکو ا س نے انبیا و رسل کے لئے پسند فرمایا اور اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے کہ لوگوں کو تبلیغ کروں ابو طالب نے لوگوں کے لیے رسول کو دہرایا آپ نے فرمایا ناممکن ہےکہ میں اپنے پروردگار کے حکم کی مخالفت کروں پس حضرت ابو طالب خاموش ہو گئے اس کے بعد پھر حضرت ابو طالب کےپاس جمع ہوکر کہنے لکے تو ہمارے سردار ان قوم میں سے ہے محمد کو ہمارےحوالہ کر دے تاکہ اس کو ہم قتل کردیں اور آپ ہمار ے بادشاہ بن جائیں تو حضرت ابو طالب نےایک قصیدہ طویلہ پڑھا ابن حجر  عسقلانی ٖفتح الباری میں لکھتا ہے کہ ابن اسحاق نےاس کا سیر میں مکمل ذکر کیا ہے جس کے اسی سےزیادہ اشعار ہیں اسی قصیدہ میں آپ فرماتے ہیں لما رایت القوم لاود فیھم وقد قطعوا کل العری والوشائل کذبتم وبیت اللہ یبذی محمد جب میں نے دیکھا کہ ان لوگوں میں پیارو محبت کی بات نہیں رہی اور ہر قسم کے تعلقات اور میل جول کےذرائع کو خیر باد کہہ چکے تو میں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو بیت اللہ کی قسم ناممکن ہے کہ محمد قتل کیا جائے بغیر اسکے کہ ہم اس کی حفاظت کے لیے ولما نطاعن دوفہ وننا صل ونسلمہ حتی نصرع دونہ ونذھل عن ابنا ع نا والحلائل  تیرو نیزہ کو استعمال نہ کریں اور اسے چھوڑ دیں بغیر اس کے کہاسکی حفاظت کے لئے ہم قتل کئے جائیں اور بیوی بچوں کی بھی پرواہ نہ کریں جب قریش نے جناب رسالت مآب کےقتل پر ایکا کیا اور آپس میں عہد نامہ لکھا تو حضرت ابو طالب نے بنی ہاشم کو جمع کرکے بیت رکن مقام اورمشاعر کی کعبہ میں قسم کھائی اور فرمایا کہ اگرمحمد کو ایک کانٹاچبھنے کی تکلیف بھی ہوئی تو میں تم کی گردنیں اڑادوں گا پس آپ کو شعب میں لے گئے اور سب روز آپ کی حفاظت فرماتے تھے اور چار سال تک تلوار لے کر خود پہر ہ دیتے رہے بحار
حضرت ابو طالب نے تین سال تک پیٖغمبر کی حفاظت اس طرح کی کہ لوگوں کے سامنے حضور کو ایک بسترپر سلاتے تھےاور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ان کا بستر تبدیل کر کے ان کے بستر پر کسی رات خود آرام کرتے تھے اور کسی رات حضرت علی سلاتے تھے ایک مرتبہ جو حضرت ابو طالب اپنے فرزند علی کے پاس گئے تو حضرت علی نے عر ض کی بابا جان آپ مجھے موت کے بستر پر سلاتے ہیں ؟ تو حضرت ابو طالب نے چند اشعار کہے جن کا مقصد یہ ہے بیٹا صبر کرو کیونکہ صبرکرنا دانش مندی ہے اور ہر زندہ کی باز گشت موت ہی ہے بے شک ہم نے تجھے مقام امتحان میں پیش کیا ہے کیونکہ تجھے  نجیب بن نجیب کا فدیہ قرار دیا ہے فوتح میبندی اس کے جواب میں حضرت علی نےیہ اشعار پڑھے انا مرنی بالصبر فی  نصرا حمد کیا آپ مجھے جناب احمد مجتبی کی نصرت میں تلقین صبر فرماتے ہیں خدا کی قسم میں نے جو کچھ عرض کیا وہ ازراہ بزدلی نہیں تھا فواللہ ماقلت الذی قلت جاز عا  ولکننی احببت ان تر نصرتی بلکہ میں تو چاہتا ہوں آپ میری فدا کاری دیکھیں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ میں آ پ کا دائمی اطاعت گزار ہو ں  لتعلم انی لم ازک لک طائما اور جناب احمد مجتبی کی نصرت میں خوشنودی خدا کی خاطر میر ی جدوجہد بھی دیکھیں کہ نبی محمود کی نصرت بچپنے اور جوانی میں میں کیسے کر تا ہوں روائح القرآن وسعی بوجہ اللہ فی نصر احمد بنی الھدی المحمود طفلا ویا فعا
ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اپنے اشعار میں اپنے علاقہ کی بربادی قحط سالی اور قلب باران کی شکایت کی اور آپ سےدعا کی خواہش کی آپ نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص قحط سالی اور قلت باراں کاشاکی ہے پس آپ اٹھے اور مبنرپر تشریف لائے اور خدا کی حمد وثنا ئ کے بعد طلب باراں کے لئے دعا مانگی ابھی تک آپ نے اپنے ہاتھ واپس نہیں کئے تھے کہ مدینہ پر بادل چھا گئے اور زوروں کی بارش ہوئی یہاں تک کہ ہر طرف سےالغرق الغرق کی آوازیں بلند ہونے لگیں پس آپ نے دعا کی تو بارش رک گئی تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا خدا ابو طالب کو جزا دے اگر آج ہوتا تواس کی آنکھ ٹھنڈی ہوتی اپنے شعر کے مضمون کی صداقت سے پس حضر ت عمر اٹھے او ر کہنے لگے کہ شاید آپ ابو طالب کایہ شعر مراد لے رہے ہیں وما حملت من ناقتہ فوق ظھرھا ابرو وفی ذمتہ من محمد کسی ناقہ نےاپنے پشت پر ایسے شخص کو نہیں اٹھایا جو حضرت محمد سے زیادہ   نیک اور وفادار ہو حضور نے فرمایا یہ تو ابو طالب کا شعر ہی نہیں بلکہ یہ تو حسان بن ثابت ہےپس حضر ت علی اٹھے اور عرض کی شاید اس سے مراد یہ شعر ہے وابیض یستسقی الغما م لو جھہ آپ نورانی چہرہ والے ہیں کہ آپکی وجہ سے بادل سے طلب باراں کی جاتی ہے  ثمال الیتامی عصمتہ للارامل تلوذبہ الھلاک من آل ھاشم یتیموں کا سہارا اور بیواوں کا داد رسی ہے آل ہاشم کی مصیبت زدگان اس کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس کی بدولت وہ نعمتوں اور خوشحالیوں میں ہیں ۔ فھم عندہ فی نعمتہ وفوضل ۔
یہ ایک طویل قصیدہ ہے جسکی دو شعر پہلے بھی ذکر ہوئے ہیں اس میں آپ نے حضور کی صداقت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے بحار
جب تک حضرت ابو طالب زندہ رہے تو آپ امن سے تبلیغ اسلام فرما تے رہے اور حضرت ابو طالب کی موت کے بعد قریش کی طرف سے تکالیف زیادہ گئیں ہجرت سے تین سال قبل ابو طالب اور خدیجہ کا انتقال ہوا ور یہ حضور کی ذات بلکہ اسلام کا زبردست المیہ تھا ایک دفعہ ایک کافر نے حضور کےسر مبارک پر مٹی ڈالی آپ گھر آئے بتول معظمہ اپنے بابا کے سر سے مٹی کو صا ف بھی کرتی تھی اور روتی بھی تھی تو آپ فرماتے تھے دختر گرامی صبر کرو خدا تیرے باپ کا خود محافظ ہے نیز فرمایا کہ جب تک ابو طالب موجود تھے قریش کی یہ جرات نہ تھی تاریخ طبری
رسول کے ناقد ر شناس کہتے ہیں کہ ان تکالیف میں حضور کفار کی دلجوئی کرنے لگے تھے چنانچہ سورہ والنجم اتری اور آ پ نے تلاوت کی جب ومنا ۃ الثالثتہ الاخری پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری کر دئیے تلک الٖغرانیق العلی وان شفاعتھن یرتجی ان الفاظ سے مشرکین خوش ہوئے کیونکہ ان کے خداوں کی تعریف تھی پس بوقت شام جبریل نے آکرتنبیہ کی کہ تم نے خدا پر افترا کیا تو حضور بہت غمگین ہوئے الخ تاریخ طبری
معاذ اللہ خدا ایسے عقیدہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے اسی سور ہ نجم کے شروع میں اسی رسول کے حق میں ارشاد ہے کہ وما ینطق عن الھوی تو یہ کیسےہوسکتا ہے کہ رسول خد اقرآن میں اپنی جانب سے کچھ الفاظ بڑھا دیں یا کسی رسول کی زبان پر شیطان کس طرح مسلط ہو سکتا ہے خیر جو لوگ خدا کا قدم جہنم میں ڈا ل سکتے ہیں ان کے لئے رسول پر الزام لگانا کیا مشکل ہے حضرت ابو طالب اور خدیجہ کی وفات کے بعد وحی ہوئی کہ مکہ میں اب تمہارا کوئی حامی نہیں رہا لہذا ہجرت کرجاو شب ہجرت دنیا کی عظیم الشان تاریخی راتوں میں سے ہے دیکھئے حضرت ابو طالب نےرسول کی حفاظت کےلئے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسی روش سے حضرت علی خواب گاہ آنحضرت پر ایسے استقلال و ایمان سے سو گئے کہ خدا نے فرشتوں پر مباہات کی اور آیت مرضات نازل فرمائی سفر ہجرت کا سارا  انتظام سواری وزاد راہ وغیرہ کا حضرت امیر نےکیا مکہ میں رہ کر حضور کی امانتیں ادا کیں پھر حرم رسول خدا کو باحتیاط مدینے پہنچایا حضرت امیر علیہ السلام رات کو سفر کرتے اور دن کو آرام کرتے تھے جب مدینے پہنچے تو آپ کے قدم مبارک پھول گئے تھے جنارسالت مآب نے جب بلایا تو چلنے کی طاقت نہ تھی پس حضور خود بنفس نفیس تشریف لائے اور گلے لگایا اور پاوں کے ورم دیکھ کر رو دئیے اور اپنا لعاب دہن ڈالا تو تندرست ہو گئے کہ پھر تا دم شہادت عافیت سے رہے تاریخ کامل اسدالغایہ بے شک ہزار تلواروں کے سائے میں اطمینان سے سونا علی کا کام تھا لیکن جسم مبارک پر تلوار لگی نہیں مگر قربان جاوں سیدالشہدا کے کہ حمایت اسلام میں ان کے بدن پر تلواریں پڑتی رہیں لیکن اطمینان میں فرق نہ آیا پد ر اگر نتواندپسر تمام کند حضرت سجاد فرماتے ہیں کہ میں نے جب لاشوں کو ریگ گرم پر بے دفن پڑا دیکھا تو میرا غم بہت بڑھ گیا کہ تاب برداشت نہ رہی اور قریب تھا کہ روح پرواز کر جائے جب صدیقہ صغرا نے اس حالت کا مشاہدہ کیاتو فرمانے لگیں اے میرے نانا باپ اور بھائیوں کی یاد گار بیٹا تجھے کیا ہوتا جا رہا ہے تو میں نے عرض کی کہ کس طرح گریہ و بکا سے میری حالت دگر گوں  نہ ہو اپنے پدر بزرگوار اوراعمال و برادران کی لاشوں کو خون میں غلطاں ریگ گرم پر بے دفن و کفن دیکھ رہا ہوں کہ کوئی مسلمان ان کی خبر گیری نہیں کر تا اور نہ کوئی ان کے قریب آتا ہے جیسا کہ ترک و دبلم کے باشندے ہوں یہ سن کر فرمانے لگیں اس بات سے رنجیدہ خاطر نہ ہو کیونکہ یہ رسول اللہ کا عہدہ تھاتیرے دادا اور باپ اور چچے کی طرف اور خدا نے اس امت کے ایک گروہ سے عہد لیا ہے جن کو اس امت کےفرعون نہیں پہچانتے اور اہل آسمانانو جانتے ہیں وہ ان اعضا ئے متفرقہ کو جمع کر یں گے اور ان کو دفن کریں گے اور تیرے پدر بررگوار کےلئے ا س  طف میں ایک علم گاڑیں گے جس کے رہتی دنیا تک آثار باقی رہیں گے اور نشان قائم رہیں گے اور آئمہ کفر و ضلال اس کو مٹانے کی ہزارکوشش کریں گے لیکن اس کا اثر بڑھتا جائے گا اور اس کی حقیقت نمایاں ترقی کرتی جائے گی
شیخ مفید نقل فرماتے ہیں کہ قافلہ اہل بیت کا داخلہ ابن زیاد ملعون پر ہوا تو جناب زینب عالیہ غیر معروف حالت میں تھیں نہایت پرانا لباس پہنے ہوئے تھیں محل کےایک گوشہ میں بیٹھ گئیں اور کنیزوں نے ارد گرد گھیر ا بنا لیا ابن زیاد نے دریافت کیا کہ وہ تنہا گوشہ میں بیٹھنے والی جس کے گرد عورتوں کا احاطہ ہے کون ہے کسی نے جواب  نہ دیا حتی کہ اس نے دوبارہ سہ بارہ پوچھا تو بعض کنیزوں نے جواب دیا کہ یہ فاطمہ کی شہزادی ہے تو ابن زیاد متوجہ ہوا  اور کہنے لگا اللہ کا حمد ہے جس نے تمہیں رسوا و قتل کیا ور تمہاری بد عت کو باطل کیا پس جناب زینب عالیہ سے ضبط نہ ہوسکا فرمایا حمد ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں وجود پیغمبر سے کرامت بخشی اور ہمیں رجس سے پاک کیا فاسق و فاجر رسوا ہوا  کر تا ہے اور وہی جھوٹا ہو کر تا ہے  اور یہ بحمد اللہ ہم نہیں ہمار ا دشمن ہے ابن زیاد نے کہا خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے عالیہ بی بی نے فرمایا خدا نے اہل بیت کےلئے قتل کی موت مقدر کی تھی پس وہ اپنی قتل گاہوں تک پہنچ گئے پس اب تمہاری اور ان کی پیشی دربار ایزوی میں ہو گی اور وہیں فیصلہ ہو گا ابن زیاد  غصہ سے پر ہو گیا تو عمر ابن حریث نے کہا اے بادشاہ عورتوں کی باتیں قابل گرفت نہیں ہوا کرتیں پس ابن زیاد نے کہا کہ خدا نے تمہاری بغاوتوں سے ہمیں تسکین دی ہے تو جناب زینب عالیہ کےدل کو صدمہ ہوا اور رو پڑیں پھر فرمایا بخدا تونے میرے بزرگوں کو قتل کر دیا اور میری اہل کو ذلیل کیا اگر اسی بات میں تیری تسلی ہے تو ہو ابن زیاد نے کہا کہ یہ شجاعت کےالفاظ ہیں  اور بے شک اس کا باپ بھی شجاع تھا یہ سن کرعالیہ بی بی نے فرمایا عورت کی شجاعت کیسی بقول ابن نما میں شجاعت سے مشغول ہوں اور مجھے تعجب ان لوگوں سے ہے جوان لوگوں کےقتل کو تسلی و شفا سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ قیامت میں بدلہ دیں گے  سیدوابن نما لکھتے ہیں کہ پھر سجاد نے فرمایا بےشک اللہ ہی قبض روح کرتا ہے ابن زیاد نے کہا پس عالیہ بی بی سجاد کے گلے سے لپٹ گئیں اور فرمایا ابن زیاد ہمارے خون سے تو ابھی سیر نہیں ہوا اور خدا کی قسم میں جدا نہیں ہوں گی اگر اس کو قتل کرنا ہے تو مجھے بھی ساتھ قتل کر دے پس وہ ملعون ایک گھنٹہ تک دیکھتا رہا اور پھر کہا کہ یہ خون رشتہ عجیب ہے وہ دل سے چاہتی ہے کہ میں اس کے ساتھ اس کو بھی قتل کردوں پھر قتل کا حکم بر طرف کر دیا سید فرماتے ہیں پھر سجاد نے اپنی پھو پھی سے خطاب کر کے فرمایا پھو پھی جان آ پ خاموش رہیں میں خود ہی اس ملعون کے قول کا س کو جواب دوں گا اور فرمایا ا ے کمینہ کیا تو ہمیں قتل ہو نے سے ٖڈراتا ہے کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ قتل ہماری عادت ہے اور شہید ہو نا ہمارے لیے کرامت ہے شیخ مفید نقل فرماتے ہیں کہ امام حسین کا سر ایک دن پہنچا اور ابن سعد قیدیوں کو ہمراہ لے کر دوسرے روز پہنچا ابن زیاد قصر الامارہ میں بیٹھا اور اس نے امام پاک کے سر کو طلب کیا جب سر پاک سامنے لایا گیا تو یہ ملعون سرکو دیکھ کر ہنستا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے دندان مبارک کی توہین کرتا تھا اس کے پہلو میں رسول کا صحابی زید بن ارقم بیٹھا تھا اور یہ بہت بوڑھا تھا جب اس نے چھڑی سے ظلم ہوتا دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور کہا ان پا ک ہونٹو ں سے چھڑی کو ہٹا لے مجھے اللہ کی قسم میں نے بہت دفعہ رسول پا ک کے مبارک ہونٹوں کوا ن پاک ہونٹو ں کا بوسہ لیتے دیکھا ہےاسکےبعد اس نے گریہ و بکا کی آواز بلند کی انا للہ وانا الیہ راجعون جہاں تک میرا اندازہ ہے تمام مصائب میں سے سادات کے لئے ابن زیاد کےدربار کا داخلہ نہایت سخت تھا ایک وجہ تو اس کے لئے یہ ہے کہ یہ حرام زادہ کمینہ فطرت زبان دراز گستاخ اور پر لےدرجے کا بےادب تھا چنانچہ جب پھٹے پرانے لباس میں ملبوس بنت زہرا ایک گوشہ میں آکر بیٹھ گئیں تو یہ ملعون ازراہ شماتت کہنے لگا یہ کو ن بی بی ہے تو جواب دیا گیا کہ حضرت علی کی شہزادی جناب زینب ہیں اس ملعون نے انتہائی ڈھٹائی و بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گستاخانہ لہجہ میں بات کی جس کا عالیہ بی بی نے منہ توڑ جوابدیا ۔پھر اس حرام زادہ نے نا ستر الفاظ کہے حتی کہ حضرت  امام سجاد سے رہا نہ گیا اور فر مایا کم تھتک عمتی بین من یعرفھا وبین من لا یعرفھا یعنی اے کمینہ کب تک تو میر ی پھوپھی  کی توہین کر تا رہے گا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس شہر کے اکثر لوگ اس خانو ادہ طاہرہ کی حکومت کے رنگ میں دیکھ چکے تھے اور ان کی عزت و عظمت ان کو معلوم تھی اور یہی وجہ ہے کہ جناب سکینہ خاتون سے منقول ہے پورے سفر میں ہم نے اپنا گریہ کافی ضبط کیا لیکن جب کوفہ کے قریب یا حضرت علی کے روضہ کے پاس سے گزر ہوا تو ہم سےگریہ ضبط نہ ہوسکا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں