التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دسویں مجلس -- یا ایھا الذین امنو اتقو اللہ و کونو ا مع الصادقین


یا ایھا الذین امنو اتقو اللہ و کونو ا مع الصادقین
مراحل ایمان میں سے بڑا مرحلہ ہے جہاد نفس اور یہی جہاد اکبر ہے حضرت امیر سے مروی ہے ایک مرتبہ حضور نے کسی طرف فوج بھیجی جب واپس آئی تو فرمایا کہ مرحبا اے قوم جنہوں نےجہاد اصغر سے کامیابی حا صل کرلی اور اب جہاد اکبر ان پر باقی ہے لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے تو فرمایا وہ ہے نفس کا جہاد اور پھر فرمایا بہتر جہاد ہے جہاد نفس جو پہلووں کے اندر ہے روضتہ الواعظین فرمایا تیر بد ترین دشمن تیرا  نفس ہے جو تیرے دونوں پہلووں کے اندر ہے لوگوں کی تین قسمیں ہیں دنیا سے منہمک اور آخرت سے غافل یہ ہیں طوغوت  پرست و شرالدواب ان کے برعکس یعنی طلب آخرت میں منہمک اوردنیا سے قطعی لاتعلق متوسط دونوں حقوق کی پاسداری کرتے ہیں اور حکما کے نزدیک یہی افضل ہیں کیونکہ خدا نے نبیوں کومعادو معاش ہردو کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور بعض علما کے نزدیک یہ اقسام خدا کے ا س فرمان میں داخل ہیں وکنتم ازواجاثلثتہ فاصحب المیمنتہ ما اصحب المیمنتہ واصحب المشئمتہ ما اصحب المشئمتہ والسابقون السابقون پس دنیا و آخرت ہر دو کی اصلاح کرنے والا سابقون کےدرجہ میں ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سابقون سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو تارک دنیا ہوکر طالب آخرت ہوئے ہیں اس دلیل سے کہ فرماتا ہے ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون اوروہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اللہ کی بہترین عبادت ہے مصالح عباد میں کوشش کرنا ابن مسعود سے مروی ہےکہ حضورنے فرمایا کہ تمام لوگ اللہ کی عیال ہیں پس اللہ کا محبوب ترین وہ ہے جو ان کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو اورشریعت یہ چاہتی ہے کہ دنیا وی معاملات میں میانہ روی ہوا ور اس کے استعمال کا سامان قوانین شرعیہ کے موافق ہو از ریا ض السالکین ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا اسے دنیا کی مذمت کرنےوالو بتاو دنیا تیرے اوپر مجرم ہے یاتو جرم دار ہے ایک شخص بولا کہ میں ہی جرم دار ہوں توآپ نےفرمایا پھردنیاکی مذمت کیوں کرتا ہے کیا یہ دنیا صادق کے لئے دارصدق نہیں زاد حاصل کرنے والے کے لئے باعث غنی نہیں اور سمجھ دار کے لئے دار عافیت نہیں یہ تواللہ کے دوستوں کی سجدہ گاہ ہے  انبیا کا مصلے ہے ملائکہ کی فرودگار ہےاور اس کے اولیا کی تجارت کامقام ہے انہوں نے اطاعت کی اور نفع اٹھایا بہشت کا کون اس کو براکہتا ہے حالانکہ یہ تو اپنی انتہا کی خبر دے رہی ہے اور اپنے اختتام کا پتہ دے رہی ہے اور اپنے مصائب سے ڈرا رہی ہے  اوراگر ناگہانی مصائب کی بدولت کڑوی ہے تو مراد کے حصول کے لئے میٹھی بھی ہے اگر نا پسندیدہ امور کی وجہ سے رنجدہ ہے تو مرغوبات کے لانے کے لئے اچھی بھی ہے بوقت ندامت کئی لوگ اس  کی مذمت کریں گے تو کئی اس کی مدح و ثنا بھی کریں گے جنہوں نے اس سے نصحیت و عبرت حاصل کی اے غرور دنیا میں پھنس کراس کی مذمت کرنے والو اس نے کب تجھے دھوکا دیا کیا تیرے آباکی موتوں سے  یا ماوں کی قبروں سے اس نے تجھے میٹھا یا کڑوا دونوں ذائقے چکھا دئیے ہیں اگر تو اس کی کڑواہٹ کی مذمت کرتا ہے تواس کے میٹھے کی تعریف بھی کر ورنہ بلا مدح وذم اس کو چھوڑ دے اس نے اپنا سب کچھ  تیرے آگے رکھ دیا ہےاب تیر ا مفت کا رو نابے کار ہے مطالب السئول
حضرت امیر کو بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کےمتعلق یہ خبر موصول ہوئی کہ وہ ایک  ولیمہ میں شریک ہوئے تو آپ نے ان کو ایک خط لکھا الاوان لکل ماموم اماما یقتدی  بہ ویستضیئی بنور علمہ الا وان امامکم قد اکتفی من دنیا ہ بطمر یہ ومن طعامہ بقرصیہ الا وانکم لا تقدرون علی ذالک ولکن اعنیونی بورع و اجتھا د و غضتہ وسداد فواللہ ما کنزت من دنیاکم برا ولا ادخرت من غنا ئمھا و فراولا اعددت لبالی ثوبی طموا بلی کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلتہ نفوس قوم وسخت عنھا نفوس قوم ونعم الحکم اللہ وما اصنع بفدک وغیر فدک والنفس مظانھا فی غد جدث تنقطع فی ظلمتہ اثارھا وتٖغیب  اخبار ھا وحفرۃ لوز ید فی فسحتھا واو سعتھا ید احافرھا لا وسد فرجھا التراب وانما ھی نفسی اروضھا بالتقوی لتاتی امنتہ یوم الخوف الاکبر و تثبت علی جوانب المزلق الطریق الی مصفے ھذا العسل ولنا بت ھذا القمح ونسائج ھذا القزولکن ھیھات ان الجشع الی تخیرالاطعمتہ ویعل بالحجازوالیمامتہ من لا طمع لہ فی القرص وال عھد لہ بالشبع او ا بیتمبطانا  و حولی بطون غرثی و کباد خری کما قال القابل و حسمبک دائان تبیت بیطئتہ و حولک اکما د تحن الی یقا ل امیرالمومنین ولا اشارکھم فی مکارہ الدھر اواکون اسوتہ لللھم فی جشوبتہ العیش فما خلقت یشغلنی اکل الطیبات کا لبھیمتہ المربوطقہ ھمھا علغھا اوالمرسلتشعلھا تقممھا تکرش م اعلافھا و تلھو عنما یراد بھااورترک سدی اواھمل عابثا اواجرحبل الضلالتہ اواعستسف طریق المتا ھتہ وکانی یقائلکم یقول اذاکان ھذا قوت ابن ابی طالب فقد قعد بہ الضعف عن قتال الاقران ومنازلت الشجعات الاوان الشجرتہ البرتہ البرتہ اصلب عودا والروائع الخضرتہ ارق جلود والنابتات البدویتہ اقوی وقود ا وابطائ خمود اوانا من رسول اللہ لصنو من الصنووالدراع من العضدواللہ لو تظاھرت العرب علی قتالی لما ولیت عنھا ولو امکنت الفرس من رقابھا لسارعت الیھا وساجھد ان اطھوالارض من ھذا الشخص  المعکوس والجسم الرکوس حتی تخرج المدرتہ من حب الحصید الیک یادنیا فحبلک علے غاربک قد انسللت من مخالبک واجتنبت الذھا ب فی مداحضک این القوم الذین غورتھم بمد ا علیک این الامم الذین فتنتھم بذخار فک ھاھم رھائن القبور ومضامین اللحودوو اللہ لو کنت شخصا مرئیا وقالبا حسیا لا قمت علیک حدود اللہ فی عباد غورتھم بالامانی و القیتھم فی المھاوی و ملوک سلمتھم الی التلف واوردتھم مواردالبلااذاورودولاصدور ھیھات من وطی دحفیک ذلق ومن ازورعن حبالک وفق والسالم منک لا یبالی ان ضاق بہ مناخہ والدنیا عندہ کیوم قدحان انسلاخہ اغربی عنی فواللہ لا اذل لک فتسذلینی ولا اسلس لک فتقودینی وایم اللہ یمینا استثنی فیھا بمشیتہ اللہ لا روضن نفسی ریاضت تھش معھا الی القرص اذا قدرت ھلیھا مطعوما وتقتنح بالملح ما دوماولا دعن مقلتی کعین مائ نضبت معینھا مستفرغتہ وموعھا اتممتلی السائمتہ من رعیھا فتبرک وتشبع الربیضتہ من عشبھا فتربض ویاکل علے من زادہ فیھجع قرت اذا عیناہ اذا اقتدی بعد السنین المتطاولہ بالبھیمتہ البائلتہ اواسائمتہ المرعیتہ طوبی لنفس ادت الی ربھا فرضھا وعرکت بجنبھا بوسھا وھجرت فی اللیل غمضھا حتی اذا غلب الکری علیھا افترشت کفیھا فی معشر اسھرعیو نھم وتجافت عن مضاجعھم جنوبھم وھمھت بذکر ربھم شفاھھم وتقشعت بطولاستغفارھم ذنوبھم اولیک حزب اللہ ھم المفلحون فاتق اللہ یا ابن حنیف ولتکفک اقراصک لیکون عن النار خلاصک ۔
ہر ماموم کےلئے امام ہوناہے جس کی وہ اقتدار کرتاہے اوراس کے نور علم سے روشنی حاصل کرتا ہے آگاہ ہو تمہارے امام نےاپنی دنیا سے صرف دوچادروں پر اکتفا کر لی اور کھانے میں سے صرف دو روٹیوں کو کافی سمجھا بے شک تم لوگ اس پر قادر نہیں ہو سکتے لیکن پرہیز گاری سے میرا ساتھ دو اور کوشش ضبط اوردرستی سے د میری مدد کرو بخدا میں نے تمہاری دنیا میں سے گندم جمع نہیں کی اور نہ میں اس کی غنیمتوں سے ذخیرہ جمع کیا ہےاور نہ میں نےاپنے لباس کے لئے اس کابدل تیار کیا ہے ہاں ہمارے ہاتھ میں زیر آسمان صرف ایک فدک تھااس پر بھی ایک قوم کے نفوس نے بخل سے کام لیااور دوسروں نے چشم پوشی کی خدا بہترین حاکم ہے ہاں مجھے فدک اور غیر فدک سے کیا واسطہ جب کہ کل نفس کے لئے وعدہ گا ہ قبرہے جس کی تاریکی میں اس کی کرو فرختم ہوجائے گی اور اس کی ہو ہوامٹ جائے گی ایسا گڑھا ہے کہ اگر اسے کھلارکھا جائے اور گورکن کے ہاتھ اسے وسعتدیں بھی توا س کو پتھر اور ڈھیلے تنگ کر دیں گے اور تہ بہ تہ مٹی اس کے سوراخوں کو بند کردے گی بس اپنے نفس کو تقوی کی ریاضت دیتا ہوں تاکہ خوف اکبر کے روزوہ امن سے آئے اور پھسلنے کے مقامات پر ثابت رہے اگرمیں چاہتا تو آسان تھا میرے لئے کہ شہد خالص اور گندم کھاتا اور ریشمی بنا ہوا لباس پہنتا لیکن ناممکن ہے کہ میری خواہشات مجھ پر غالب آجائیں اورشکم پری مجھے لذیذ کھانوں کی طرف کھینچ لے جائے شاید حجاز ویمامہ میں ایسے لوگ موجود ہوں جنہیں روٹی میسر نہ ہوتی ہوا ور انہیں سیر ہو کر کھانا نہ ملتا ہو کیا میں اپنا پیٹ بھروں درحالیکہ میرے ارد گرد بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر موجود ہوں بقول شاعر باملتی مرض کےلئے کافی ہے کہ تو شکم پری سےرات گزار دے درحالیکہ تیرے نواح میں ایسے جگر موجود ہوں جو  جلے ہوئے ٹکڑوں کو ترستے ہوں کیا میں ا س بات پر اتراتا رہوں کہ مجھے امیرالمومنین کہا جاتا ہے اور زمانہ کی سختیوں میں ان کے ساتھ شریک نہ بنوں اور تنگی و عیش میں ان  کے لئے اسوہ نہ بنوں میں اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ پاکیزہ کھانے مجھے غافل کردیں مثل بندھے ہوئے چوپائے کے کہ اس کا مقصد صرف گھاس ہے یا مثل آزاد جانور کے کہ اس کا شغل زمین کی انگوری چرنا ہے وہ گھاس سے اوجھڑی بھر لیتا ہے اوراسےاپنا انجام معلوم نہیں ہوتا کیا میں بلا مقصد اور مہمل و بےکار چھوڑ ا گیا ہوں یا گمراہی کی رسی پھیلانے یا سرگردانی کا راہ اختیار کرنے کے لئے ہوں گویا مجھے کہنےوالے کہتے ہیں کہ جب ابن ابی طالب کی یہ خوراک ہے تواس کو کمزور ی ہمسروں کی لڑائی اوربہادروں کےمقابلہ سے عاجزکردیگی آگاہ ہو تحقیق خشکی کے درخت کی لکڑی مضبوط اور تروتازہ مقام کی انگوری نرم ہوا کرتی ہے جنگل میں اگنے والی لکڑی کی آگ زیادہ گرم اور دیرپا ہوا کرتی ہے مجھے رسول اللہ سے  وہ  نسبت ہے جوتنے سے نکلی ہوئی دو شاخوں کوآپس میں یا ذراع کو بازو سے ہوتی ہے بخدا اگر تمام عرب مل جل کر میرے ساتھ لڑنے پرآمادہ ہو ں تو میں پیچھے نہ ہٹوں گا اور اگر تمام ایران میرے مقابلہ میں آجائے تو میں آگے ہی بڑھوں گا اور میر ی کوشش ہوگی کہ زمین کواس الٹے شخص اورناپاک جسم سے طاہر کردوں یہاں تک کہ مٹی کےروڑےخالص گندم کےدانوں سےجدا ہوجائیں دور ہوجا اےدنیاکہ تیری رسی تیری گردن پر ہے میں کھسک چکا ہوں تیرےپنجوں سے اورتیرے پھسلنے کی جگہوں سے گریزاں ہوں کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تونےاپنی مکاریوں سےدھوکا دیا کہاں ہیں وہ قومیں جن کو تونے اپنی طمع سازیوں سے فتنہ میں ڈالا وہ تو قبروں میں رہن اور لحدوں میں گرفتار ہیں بخدا اگر تو ظاہر بظاہر دیکھنے والی چیز ہوئی تومیں تجھ پر حد جاری کرتا ان بندو ں کے بارے میں جنہیں تو نے خواہشات سے دھوکا دیا اور ہلاکتوں میں گرایا کتنے بادشاہوں کو تونے برباد کیا اور مصیبت کے ایسے گڑھوں میں ٖٖڈالا کہ وہاں دخول و خروج کا کوئی رستہ ہی نہیں پس جو بھی تیری پھسلان پر آیا وہ پھسلا اور جو بھی تیری موجوں پر چڑھا وہ ڈوبا اورجو کنارہ کش ہواتیرے جال سے وہ اچھا رہا تجھ سے بچنے والے کو پرواہ نہیں کہ مکان تنگ ہے کیونکہ دنیا اسے ایک فورا گزرجانےوالے دن کی طرح معلوم ہوتی ہے دفع ہوجا بخدا میں جھکنے والا نہیں کہ تو مجھے جھکا لے اور تیرے لئے میرا اپنے پیچھےچلا لینا آسان نہیں ہے بخدا اگر اللہ نے چاہا تو میں اپنے نفس کوریاضت کا عادی بناوں گا کہ وہ ایک روٹی کو خوشی سے قبول کرے گا جب کھانے کو مل جائے اورسالن کی بجائے نمک پر اکتفا کرے گااور اپنی آنکھ کو ایسےچشمے کی طرح کر وں گاجس کا پانی خشک ہوگیا ہو یعنی آنسو ختم ہو جائیں گے کیا جانور بھی اپناپیٹ بھر کر بیٹھ جائیں اور بھیڑ بکری بھی کھتیوں میں چر کر آرام کر ے اور علی بھی کھا پی کر سوجائے تو پھر خوب آنکھ ٹھنڈی کی اس نے جب مدت مدیدہ کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والے اور کھلے کھتیوں میں چر کرپیٹ بھر چاہا خوشانصیب وہ شخص جس نے اپنا فریضہ خداوندی اداکیا اورسختیوں کواپنے پہلووں سے کچھ اور رات بھر نے پلانے کو چھوڑا اورجب غالب آئی تو زمین کو فرش بنایا اور اپنے ہاتھکوسرہانا بنایا ایسی جماعت میں کہ جنہوں نے قیامت کےڈر سے اپنی  آنکھوں کو جگایا اورپہلووں کو خواب گاہوں سے دور رکھا اور ذکر  خدا میں ان کے لب متحرک رہے اور طول استغفار ذنوب کی وجہ سے خشک ہو گئے ایسے لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہواللہ کا گروہ ہی فلاح درستگاری پانے والا ہے پس اے ابن حنیف اللہ سے ڈر تجھے اپنی روٹی پر کفایت کرنی چاہیے تاکہ آتش جہنم سے تجھے خلاصی نصیب ہو ۔
حضرت ابن عباس سے منقول کہ میں حضرت امیرکے پاس مقام دی قار پر پہنچا جب کہ آپ اپنے نعلین مبارک کو درست کر رہے تھے فرمایا اے ابن عباس میرے اس جوتے کی کتنی قیمت ہے تو میں نے جواب دیا کہ حضور اسکو تو کوئی قیمت ہی نہیں آپ نے فرمایا یہ جوتا مجھے تمہاری اس حکومت سے زیادہ محبوب ہے جس میں قیام حق اور دفع باطل نہ ہو نہج البلاغتہ
نو ف بھقالی سے مروی ہےکہ میں نےعلی کو منبرکوفہ پر دیکھا اونی قمیض پہنی تھی اور نیام تلوار کھجور کے پتوں کا اور جوتا بھی کھجور کے پتوں کاتھا اور حبین مبین پر محراب نمایا ں تھا مروی ہےکہ مدینہ میں حضور کا ایک کھیت تھا کہ بال بچوں کی خوراک کا دانہ آٹا وہیں سے آتا تھا ایک دن حضرت باغ میں پانی دے رہے تھے کہ ایک عرب آیا اورا س نے روٹی کا سوال کیا اور وہ حضرت کو پہچانتا نہ تھا آپ نے اشارہ فرمایا کہ روٹی کا برتن فلاں درخت کے نیچے ہے وہاں سے اٹھا کرکھالو وہ آیا اور خوانچہ کو کھولا لیکن روٹی نہ کھا سکا پس آپ نےفرمایا اگر روغنی لذیذکھانا کھا نا چاہتا ہے جس سے تیرے دانتوں کو دکھ نہ ہو تو مدینہ میں حسن بن علی کے دو لتکدہ پرجاو وہاں دسترخوان بچھا ہے لذید کھانا ملے گا وہاں امیر و غریب ہرایک یکساں طور پر کھاتا ہے کسی کو روکا وٹ نہیں و ہ اعرابی پوچھتا ہوا امام حسن کے مکان پر حاضر ہوا روٹی کسی کو روکاوٹ نہیں وہ اعرابی پوچھتا ہوا مام حسن  کے مکان پر حاضر ہوا روٹی لائی گئی اورایسی غذائیں  تھیں جو دل کو لبھاتی اور آنکھوں کو بھاتی تھیں ایک حلوہ کی پلیٹ بھی سامنے رکھی تھی وہ ایک لقمہ کھاتا اور دوسرے کو آستین میں رکھتا جاتا تھا امام حسن نے فرمایا اے عرب تو جب تک اس شہر میں مقیم ہے صبح و شام یہاں آکر کھا نا کھا جانا اور اگر کوئی رفیق سفر ہے تو اس کو بھی ہمراہ لانا یہ ذخیرہ کیوں کرتا ہے عرض کی حضور میں نے باغ میں ایک باغبان کوجو درختوں کو سیراب کر رہا تھا دیکھا ہے اس نے اپنی روٹی دکھائی وہ اس قدرخشک تھی کہ میں نہ کھا سکا اس نے ہی مجھے آپ کےدستر خوان کی نشاندہی کی ہے بس یہ روٹی اور حلوہ اسی کے لئے جمع کر رہا ہوں حضرت امام حسن نے فرمایا وہ میرا بابا علی تھا اور لذات دنیا کو انہوں نے خود ہی ترک فرمایا ہے مجمع النورین
حضرت علی میں صفات اضدا د جمع تھیں مثلا خوف خدا اور شجاعت جمع نہیں ہوتی لیکن مروی ہے کہ جنگ نہروان کے بعد حضرت امیر منبر پر تشریف لائے اور حمد و ثنا پروردگار کے بعد اس قدر روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی اور پانی گرنے لگا پس ہاتھ سےریش مبارک کو جھا ڑا کہ قریب بیٹھے ہوئے لوگوں پر قطر ات ٹپکے او ر اس کے بعد لوگ کہا کرتے تھے کہ جن کےجسموں پرعلی کے آنسو کے قطرات گرے ان پر آتش جہنم حرام ہے روضہ ندیہ

رات بھر محراب عبادت میں رونا اور دن کو میدان حرب و ضرب میں ہنس کر دشمن اسلام کو مارنا علی کی وہ سند ہےجس میں اس کا کوئی شریک نہیں شیخ کاقول ہے کہ سوائے علی کے کوئی ایسا شجاع نہیں گذرا جو فلسفی ہو مجمع النورین شجاعت کا یہ عالم ہے کہ تلوار کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے جو خندق میں ہوئی علم قرآن ملاحظہ ہو منقول ہے کہ ایک پاوں رکاب میں ڈالتےمیں پہنچنے سے پہلے ختم قرآن فرماتے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ ملتزم کعبہ سے لےکر دروازے تک ختم قرآن کیا کرتے تھے شرح مشکوۃ ازدہلوی ابن عباس کہتا ہے ایک  چاندنی رات میں علی نےمیراہاتھ پکڑا اور عشا کے بعد بقع کی طرف لے گئے اورمجھے فرمایا قرات کر چنانچہ میں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی تو آپ نے اس کے اسرار بیان کرنا شروع کئے یہاں تک کہ صبح صادق طالع ہو گئی معراج الکلام یہی وجہ تھی کہ حضرت رسالت مآب متعدد بار فرماتے تھے اے لوگومیں تم میں دو چیزیں گرانقد ر چھوڑے جاتا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اپنی عزت اہل بیت اگران دونو سے تمسک پکڑ و گے تو ہرگز گمراہ ہو گے اور یہ دونو ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر اکٹھی وارد ہوں گی جنگ جمل میں علی نےاپنے غلام مسلم کو قرآن دے کر بھیجا اور اس کو شہید کیاگیا تو آپ نے جنگ شروع کردی اورجنگ صفین میں جب قرآن کو بلند کیاگیا تو جنگ کوموقوف کردیا بقو ل مورخین حضرت  سید الشہدا علیہ السلام نے ایک رات کی مہلت تلاوت کتاب خدا کے لئے مانگی تھی روزعاشور جب دیکھاکہ لوگ میرے قتل پر تلے ہوئے ہیں قرآن کو کھول کر سر پر رکھا اور بآواز بلند فرمایا میرے تمہارے درمیان اللہ کی کتاب اور میرا نانا ہے اے قوم میرے خون کو کیوں تم نے حلال سمجھا ہے کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں کیامیرے اور میرے بھائی کے متعلق میرے نانا کا فرمان تم نے نہیں سنا کہ دونو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اگر میری بات پر باور نہ ہو تو جابر بن عبداللہ زید بن ارقم اور ابو سعید حذری سے پوچھ لو کیا جعفر طیار میر ا چچا نہیں تذکر ہ خواص الامتہ
نوک نیزہ پرقرآن کا پڑھنا اورچند اشخاص سے ہم کلام ہونا سہل سے روایت ہے باپ نبی خزیمہ پر انہوں نے توقف کی سرورمبارک ایک لمبے نیزہ پر تھااور سورہ کہفکی تلاوت کر رہا تھا یہاں تک کہ امحسبت ان اصحب الکھف والرقیم الایہ تک پہنچا تو میں رویا اور عرض کی یا بن رسول اللہ نے شک تیرا سرزیادہ عجیب ہے پھر میں نے ہوش ہوکر گرگیا اور مجھے اس وقت افاقہ ہوا جب آپ سورہ کہف ختم کرچکے تھے زن خولی سے مروی ہے کہ میں طلوع فجر تک سر پاک سے قرآن سنتی رہی اختتام پریہ آیت پڑھی وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبون پھر میں نے سر کے آس پاس ایک آواز سنی اور سمجھا کہ یہ ملائکہ کی تسبیح کی آواز ہے ابو مخفف
صبح ہوئی توابن زیاد نے حکم دیاکہ سر پاک کو کوفہ کی گلیوں میں پھرایاجائے اور ہر محلہ میں لے جایاجائے زید بن ارقم کہتا ہے میر ے پاس سے گزارتو میں ایک بالا خانہ میں بیٹھا تھا پس یہ آیت پڑھی امحسبیت الخ پس میرے رونگٹے کھڑے ہوئےاوربول اٹھا بے شک اے فرزند رسول آپ کاسرزیاد عجیب ہے ارشاد جب ابن زیاد ملعون نے سرپاک سے بے ادبی کا ارادہ کیا تو ابن زیاد کے منہ پر اس عمل کی وجہ سےآگ نے حملہ کیااس ملعون نے فرار کیا تو سر پاک سےآواز آئی ان فرزت من نار الدنیا این المفرمن نار الاخرۃ اگر دنیا کی آگ سے بھا گے تو آخرت کی آگ سے کہا ں بھاگے گا مجمع النورین
کوفہ میں جب ایک درخت پرآویزاں کیاگیا تویہ آیت پڑھ رہے تھے وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبو ن ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے نوک نیزہ پرسر پاک کویہ آیت پڑھتے سنا ہے لسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم مثیر الاحزان ایک شامی سے روایت ہے کہ میں ان کافروں کمینوں کے ہمراہ تھا جو اسیرلوں اور قیدیوں کو دمشق لے جارہے تھے جب نصرانیوں کے دیر پر پہنچے تو ان میں یہ بات چل پڑی کہ نصر خزاعی ایک  لشکر گراں کے ساتھ ان پر حملہ آور ہونےوالا ہےاور اسیروں اور قیدیوں کو چھین لے گا اور ان کےجوانوں اور بہادروں اپنے لئے پناہ گاہ بنایا جائے کیونکہ وہ ہر طرف سے محفوظ ہے پس شمرا اور اس کے ساتھیوں نے دروازہ دیر پر آواز دی تو ان کا بڑا پادری باہر آیا اور پوچھا کہ تم کون ہو اورکیاچاہتے ہوانہوں نے کہا کہ ہم ابن زیاد کے فوجی اور شام جارہے ہیں پادری نے پوچھا کہ واقعہ کیا ہے تو جواب دیاکہ ایک شخص نے یزید بن معاویہ پر فوج کشی کی تھی پس ان کو قتل کیا گیا ہے اور ان کے سر اورعورتیں یزید کیطرف بھیجے جارہے ہیں جب اس پادری نے حسین کے سر کی طرف دیکھا توا یک نور ساطع تھا جو آسمان تک پہنچتا تھا تو اس کے دل میں اس کی ہیبت پیداہوئی توکہنے لگا ہمارے دیر میں تم سب کی جگہ نہیں ہے صرف سروں اور قیدیوں کو اند ر بھیج دو اور خود باہر ان کا پہرہ دواگرکوئی دشمن آئے تو اس سے خود لڑو اور سروں اور قیدیوں سمیت دیرمیں بھیج دیا پھر پادری نے سر پاک کودیکھنا چاہا اورجس کمرہ میں صندوق تھااس کے ارد گرد نظر دوڑانی شروع کی آخر اس کے روشن دان سے جو نگاہ کی تو حجر ہ کو نورانی پایا اور معلوم ہواکہ چھت شگافتہ ہوئی اور آسمان سے ایک تخت اترا جس پرایک عورت بیٹھی تھی اور دیکھا چند اور عورتیں نکلی ہیں معلوم ہوا حوا صفیہ ہاجرہ راحیل اور مادر موسی اور آسیہ اور مریم اور رسالت مآب کے حرم ہیں پس انہوں نےسرکو صندوق سے نکالا اور ہر عورت پر غش طاری ہوا اورصاحب دیر بھی بے ہوش ہوگیا پھراس کو نظر کچھ نہ آتا تھا صرف آواز سنائی دیتی تھی کہ ایک بی بی کی آواز آتی تھی السلام علیک یاقتیل الام السلام علیک یا مظلوم الا م السلام علیک یا شھیدالا مام
بیٹا تیرے سراور بدن کوکس نے جدا کیا بیٹاتجھے کس نے ظلم سے قتل کیا بیٹا تیرے پردہ داروں کوکس نے اسیرکیا بیٹاتیرے بچوں کوکس نے یتیم کیا پھراس نے سخت رونا شروع کیا کہ صاحب دیر پر پھربے ہوشی طاری ہوگئی جب افاقہ ہواتو نیچے اترااور صندوق کو توڑ کر سر باہر نکالا اس کو غسل دیا وضو کیا کافورمسک اور زعفران کے ساتھ اور اپنے قبلہ کی جانب رکھ کر رونا شروع کیا اور عرض کی اے بنی آدم کا سردار اے جمیع خلق خدا سے بر تر ہیں سمجھتا ہوں کہ توان لوگوں میں سے ہے جن کی خدا نے تورات و انجیل میں تعریف کی ہے تجھے فضلیت حاصل ہے کیونکہ دنیا وآخرت کی نبی آدم کی سردار مستورات تجھے رونے اور پٹنے والی ہیں میں تجھے پہچانتا چاہتاہوں تیر انام کیا ہے اور تو کون ہے توا بقدرت خدا سر سے آواز آئی ان المظلوم انا لمھوم انا الذی بسیف المدوان قتلت اناالذی بحرب اھل البغی ظلمت انا الذی علی غیر جرم نھبت انا الذی عن الاھل ولا وطان بعدت صاحب دیر نے عرض کی اے سرپاک تجھے خداکی قسم وضاحت فرمائیے پس آواز آئی اگر میرا حسب نسب دریافت کرنا چاہتا ہے توا نا ابن محمد ن المصطفی ان ابن علی المرتضی انا ابن فاطمتہ الزھرا انا ابن خدیجتہ الکبری انا بن انا عطشان کربلا انا ظمان کربلا انا غریب کربلا اناوحید کربلا انا سلیب کربلا انا الذی خذلونی الکفرۃ بارض کربلا ۔
جب صاحب دیر نے سر پاک سے یہ آواز سنی تو اپنے شاگردوں  کوجمع کیا اور واقعہ بیان کیا وہ کل ستر آدمی تھے گریہ و بکا کی آواز ان میں بلند ہوئی سروں سے عمامے اتارے اور گریبان چاک کرڈالے اور حضرت سجاد کی خدمت میں حاضر ہوکر فعل یہود و نصاری سے تائب ہوئے اوراسلام لاکراذن جہاد کے طالب ہوئےآپ نے فرمایا تم ایسا مت کرو ان سے انتقام لینے والاعنقریب آجائے گا ومعہ ساکیہ
مجلس یزید میں سر پاک نے یہ آیت مجیدہ پڑھی وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون خرابہ شام میں ایک شخص تلاوت قرآن مجید کر رہا تھا جب آیہ امحسبت تک پہنچا تو سرمطہر سےآواز آئی کہ اصحاب کہف کے قضہ سےمیراقتل و نوک نیزہ پربلند ہونازیادہ عجیب ہے ملہوف میں ہے یزید نے حضرت سجاد سے کہا کہ اپنی تین حاجات مجھ سے طلب کرو آپ نے فرمایا ہماراجومال لوٹاگیا ہے وہ واپس دلایا جائے اور اگر مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو مستورات کے ہمراہ ایسے شخص کو بھیج جو انہیں حرم پیٖغمبر تک پہنچا دے مجھے اپنے بابا کے سر پاک کی زیارت کرا تاکہ میں اس سے وداع کرلوں یزیدنے کہا باقی باتیں ہوں گی لیکن اپنے بابا کے سرکو نہ دیکھو گے اس وقت سامنے کے کمرہ میں سرمطہر ایک طشت میں رکھا ہوا تھا سجاد نے فرمایا کمینہ توسمجھتا ہےکہ میں بابا کے سر کو نہیں دیکھوں گاپس اٹھے اسی کمرہ کی طرف رخ کیا اور عرض کی السلام علیکم یا اتباہ پس دروازہ خودبخود کھلا اورسر مبارک سےرومال ہٹا اورسر کو جنبش ہوئی اورجواب دیا علیک السلام یاولدی وقوۃ عینی اصبرعلی ما اصابک نان اللہ مع الصابرین تیرے اوپر سلام ہواے فرزندمیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہر مصیبت پر صبر کرو کیونکہ اللہ صابروں کےساتھ رہے مجمع النورین۔
قرآن مجید کی چودہ منزلیں ہیں اول حدوث سے لے کرجنت تک اس کے حدوث وایجاد کی منزل لوح محفوظ ہے جو ایک  جسم خاص ہے یا بقولے ایک فرشتہ ہے قلب اسرافیل جو لوح پر نظر رکھتا ہے قلب میکائیل جب اسرافیل اس پر تلاوت کرے قلب جبریل جب میکائیل اس پر تلاوت کرے لیلتہ القدر میں اس کا بیت المعمور پرنازل ہونا قلب بنی پرنزول تاکہ لوگوں کوتعلیم دے نزول قرآن  ترتیب وار تلاوت کےلئے ہر شب قدر امام وقت کے پاس نزول سامعین کے کانوں پرنزول قارئین کی زبان پرنزول صفحات کاغذ پر نزول دلوں پر نزول یوم قیامت ایک شکل خاص ہیں جنت میں منزل جب کہ اس کے قاری کوکہا جائے گا پڑھتااورچرھتا جا یہ روایات مختلفہ کا ماحصل ہےان منازل کی مزید تحقیق ہم نے اپنی کتاب روضات الجنات میں کی ہے خدا توفیق اتمام دے اسی طرح امام حسین کی فضائل و مصائب کی چودہ چودہ منزلیں ہیں خلقت نوری عرش کےساتھ تعلق اوراس کی متعدد حالتیں ہیں کانوں کی بالیوں کی شکل میں وعلی ہذا اصلاب شافحہ میں نور ہونا ارحام مطہرۃ میں خصوصا شکم مادرمیں کہ فرماتی ہیں جب سے حسین میرے شکم میں آیا شب تاریک میں  مجھے چراغ کی ضرورت نہ رہی لعبا حور کے ہاتھوں پر جو کہ آپ کی دایہ تھی رسول کے جسم کی منزل کندھے پر گردن پر سینے پر پشت پر اور گود میں اور ہر ایک کی جداجدا کیفیتیں ہیں جو اپنے محل میں مذکور ہیں بلکہ رسول کے اعضا کو حسین کے جسم سےکئی تعلقات و منازل ہیں رسول کی زبان کی منزل حسین کا منہ ہونٹوں کی منزل حسین کےجسم کے متعدد اعضا جبین گردن اور یہ عموما تھی اور ناف کے اوپر زہرا کا سینہ علی کےہاتھ کہ جب اٹھاتے تھے تو رسول بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے میں تلواروں کے مقامات بوسہ دیتا ہوں اور روتاہوں پر جبریل منبر رسول کہ سوائے حسین کے رسول کےہمراہ منبر رسول پرکوئی نہیں سوار ہوامگر ایک دفعہ حضرت علی جب کہ مقام غدیر میں ان کی خلافت کااعلا ن کیاگیاتھالیکن حسین کوکئی مرتبہ گود میں لیا اور لوگوں سےتعارف کرانا پھر اس کےقاتل پر لعنت بھیجی اور پھر تمام مومنین کوحسین سونپا گویا حاضرین مجلس بھی اس مرتبہ میں شریک ہیں جب کہ آپ نے فرمایاتھا اللھم استواد علیک صالح المومنین پس لوگ رونے لگے توآپ نےفرمایا روتے تو ہو لیکن مدد نہ کرو گے اب میں بھی کہتاہوں کہ تم یہ حدیث سنتے تو ہولیکن روتے نہیں ہو قلب نبی بوقت شہادت سینہ رسول کی منزل کیونکہ اس وقت حضور کاسر اپنے ناناکے سینےپر تھا جناب رسالت مآب اس وقت حیرت سے رو رہے تھے اور حسین کی روح پرواز کر رہی تھی اور آپ نے فرماتے تھے یزید کو مجھ سے کیامطلب خدا یزید سے برکت سلب کرے پس جسدامامت سے روح نے پرواز کی مومنوں کے دلوں کی منزل کہ جناب رسالت مآب نے فرمایا ان کےدلوں میں حسین کی محبت مکنون ہوگی اپنے دلوں میں نگاہ کیجئے واقعی اللہ اور اللہ کے رسول نے سچ فرمایا یہ تھیں حسین کے فضائل کی چودہ منزلیں اب ذرا حسین کے مصائب کی چودہ منزلیں ملاحظہ فرمائیے مدینہ سےروانگی کہ عرض کر رہے تھے کہ اللہ میں تیرے نبی کی عترت ہوںاور نانا سے عرض کی میں تیری شہزادی کا بیٹا حسین ہو ں امت نے مجھے بے ناصر چھوڑا اورانہوں نے مجھے ضائع کر دیاہے مکہ میں منزل جو انسان حیوان طیوروحوش بلکہ شجرو نبات کے لئے بھی امن کامقام ہے لیکن وہ بھی ان کے لئے جائے خوف بن گیا کیونکہ وہ یہاں بھی ان کےقتل کاناپاک ارادہ کرتے تھے مکہ سے کوفہ تک کا سفر جن میں کئی منزلوں پرنزول اجلال فرمایا بقصد قیام کربلا میں منزل کہ شتر بانوں کو فرمایا کہ اب چلے جاوں میں نےیہاں رہنا ہے میدان حرب و ضرب میں نزول مقام قتل گاہ جس کےمتعلق فرماتے تھے کہ میری قتل گاہ میرے لئے متعین کی جاچکی ہےپس سات دن وہاں پشتزمین پر قیام فرمایا اور پھراس کےبعد بطن کی طرف منتقل ہوئےجہاں آپ کی ضریح مقدسہ ہے سر کی منزل کہ گیارہویں کی رات خولی کے گھر اور عام مشہور یہ ہے کہ تنور میں قیام ہوا مجلس ابن زیاد میں ایک طبق میں قیام حالیکہ وہ ملعون خوشی سے ہنس رہاتھا اورشاید خیز ران کی چھڑی سےاس کا ہنسنا زیادہ تکلیف وہ تھا کوفہ میں ایک درخت پرمنزل جب کہ وہاں لٹکایا گیا کوفہ و شام کےدرمیان کبھی نوک نیزہ پر اور کبھی صندوق میں راستہ میں متعدد منزلیں تھیں اوراب تک ہرمنزل پرآپ کے نشانات پائے جاتے ہیں دیرراہٹ طشت طلا میں یزید کے سامنے اور یہاں مصائب کا ہجوم تھا جن کی تفصیل کہیں آجائے گی یزید کےدروازہ پرجسے زوجہ یزید ہند بھی برداشت نہ کرسکی اور وہ بے تانانہ کھلے سریزید کےدربار میں آگئی اور کہنے لگی او ر ملعون حسین بن فاطمہ کا سر تونے میرے دروازہ پرا ٓویزاں کردیا پس یزید اٹھا اور اس کے سر پربرقعہ دیا اور واپس گھر پہنچایا اور حکم دیا کہ سر کو وہاں سےاتار لیا جائے اور ہند کو فرزند رسول پر گریہ و بکا کی اجازت دی شہر دمشق کے دروازہ پریہاں تک کہ حضرت سجاد برداشت نہ کر سکے اور بول اٹھے کیونکہ جب سر مطہر کوطشت طلا میں یزید کے سامنے رکھا گیا تھااور یزید پلید خیزران سے بے ادبی کرتاتھا اس وقت حضرت سجاد دیکھ رہے تھے لیکن ضبط کر رہے تھے لیکن جب شہر شام کے دروازہ پرلٹکا ہوا دیکھا تو ضبط نہ ہوسکا اور فرمایا یایزید اماتستیحی ان یکون راس ابن فاطمہ مصلوبا علی باب مد یتکم وھو و دیعتہ رسول اللہ اے یزید تجھے شرم نہیں آتی کہ فاطمہ کے لعل کا سر تمہارے شہر کےدروازہ پر لٹکا ہوا ہے حالانکہ وہ رسول کی امانت تھے اس کے بعد جنت و محشرمیں حسین کی منازل خاص ہیں اور درجات رفیعہ ہیں ملحض از خصائص ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم میں کہتا ہوں منازل مصائب میں سے تخت یزید کے زینے پر جو حسین کو مقام ملا وہ غالبا سب سے زیادہ المناک تھا تخت طلا میں حسین کا سر ہو اوراس کے قریب جام شراب ہویزید کے ہاتھ میں خیز ران کی چھڑی ہوا یک طرف  دندان مبارک پر چھڑی سے ظلم کرتا رہے اور دوسری طرف جام شراب سے گھونٹ گھونٹ پی کر باقی کو  امام مظلوم کے سر اقدس والے طشت میں پھینک گر گستاخانہ لہجہ میں پوچھتا ہو کیا تیرے نانا نے یہی شراب حرام کیا تھا یہ ظلم دیکھ کر تمام سادانیاں رونے لگ گئیں چنانچہ دمعہ ساکبہ میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کوا س وقت جناب فاطمہ بنت حسن اٹھائے ہوئے تھی ماں کو روتا دیکھ کرشہزادے نے گریہ کی وجہ پوچھی تو بی بی نے بچشم گریان طشت طلا کی طرف اشارہ کرکے وضاحت کی پس ماں کےہاتھوں پر بلند ہوکر امام محمد باقر علیہ السلام نے یزید کوجھڑک کراتمام حجت کی اور اپنا مقام واضح فرمایا کہ تمام حاضرین میں گریہ بپاہوا کہتے ہیں جب دربار میں بیبیوں کوکھڑے ہوئے کافی دیر ہوگئی تو سفیر روم نے یزید سے پوچھا کہ ان عورتوں کا وارث کوئی نہیں ہےہے کہ کافی دیر سے دربار میں کھڑی ہیں تو اس ملعون نے جوابدیا کہ ان کے مرد سب مارےگئے ہیں اور یہ قیدیہ ہیں تو سفیر روم نےکہا اے یزید ان چھوٹے بچوں پرتو رحم کرو کہ کافی دیر سے کھڑے ہونے کے باعث تھک گئے ہیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں