التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

آخری وداع

4 min read

’’مخزن البکأ ‘‘ میں ابن طائووس سے مروی ہے کہ اب قوم اشقیا ٔ میں سے کوئی شخص قریب آنے کی ہمت نہ کرتا تھا تاکہ حسین ؑکا خون گردن پرنہ آئے، ہاں ایک سنگدل نے جرأت کی اورعرش خداکوہلانے کیلئے آگے بڑھا اس شخص کا نام مالک بن بسرتھا، جوقبیلہ کندہ کا فرد تھا، پہلے اس ملعون نے اپنی نجس زبان سے ناسزاالفاظ کہے پھرسراقدس پرایک وار کیا کہ آپ ؑ کاکلاہ خو ن سے پُرہوگیا اوردوسری روایت میں ہے کہ آپ ؑکاعمامہ خون سے گلگون ہوگیا۔
یہی وہ وقت تھا جب زینب خاتون کوخیمہ میں قرار نہ تھا کبھی خیمہ میں جاتی تھی اورکبھی بابِ زینبیہ پرآتی تھی، کبھی اٹھتی تھی اورکبھی بیٹھ جاتی تھی، ہائے جس بہن کا حسین ؑجیسا بھائی انتہائی ظلم سے قتل کیاجارہاہو وہ بہن کیسے آرام سے بیٹھ سکتی تھی؟ پس خیام میں ایک کہرام تھا امام عالیمقام ؑ سے ضبط نہ ہوسکا پس آپ ؑ نے خیام کارخ کیا لیکن اُٹھتے تھے اورپھر گرپڑتے تھے، افتاں وخیزاں نہایت مشکل سے خیام تک پہنچے اور’’مخزن البکا مجلس چہارم‘‘ میں ہے ایک کپڑا طلب فرمایااوربیبیوں نے جب دیاتوآپ ؑ نے سرکے زخم پرباندھا اوراُوپرعمامہ باندھ لیا۔
نجف اشرف میں ایک ذاکر نے اس روایت کوذرا پھیلاکربیان کیا تھاجس کا کم وبیش مطلب یہ ہے کہ جب امام ؑ دروازہ پرپہنچے توخیال کیا ہوگا کہ بچے مجھے اس حالت میں دیکھ کرزیادہ بیتاب نہ ہوں؟ پس پشت خیمہ پرجاکراپنی بہن کوآوازدی بی بی نے بھائی کی آواز کوپہچانا دروازہ پرآئی، دائیں بائیں بھائی نظر نہ آیا توواپس خیمہ میں پلٹی، پھر حسین ؑ نے دوبارہ نحیف آواز سے بہن کوصدادی، آخرتیسری بار زیادہ نحیف آواز سے بلایا چنانچہ بی بی اٹھی دروازہ پرآکر دائیں بائیں جب کسی کونہ دیکھا توپشت خیام کی طرف آئی دیکھا حسین ؑنے ایک ہاتھ پیشانی پررکھا ہے اورکمر جھکا کرچوب خیمہ کا سہارالے کرکھڑے ہیں، عرض کیا بھائی جان میں حاضر ہوں امام ؑ نے فرمایامجھے ایک کپڑالاکر دو تاکہ پیشانی کے زخم پرپٹی باندھوں، بہن نے کپڑا حاضر کیا اورپٹی باندھی، ضرور یہ بھی عرض کیا ہوگا بھائی جان تیرے جسم پرزخم حد سے زیادہ ہیں کہا ں کہاں پٹی باندھی جائے؟ امام حسین ؑ کواس وقت باباکا آخری وقت یاد آیاہوگا جب امیر کا سرزخمی تھا اورحسین ؑاپنے عمامہ سے پٹی کا انتظام کررہے تھے تو اس وقت غالباً امیر ؑنے فرمایا ہوگا کہ بیٹا میرے زخم پر توتم پٹی باندھ رہے ہوتمہارے پاس توپٹی باندھنے والابھی کوئی نہ ہوگا؟
امام ؑ جب پٹی باندھ چکے اوراُوپرعمامہ درست کرلیا بروایت ’’مخزن البکا‘‘ فرمایا:
 یَا زَیْنَبُ وَ یَا اُمَّ کَلْثُوْمٍ وَ یَا سَکِیْنَۃُ وَیَا رُقَیَّۃُ و َیَا فَاطِمَۃُ عَلَیْکُنَّ مِنّیِ السَّلاَم۔
 زینب خاتون نے عرض کیا بھائی جان آپ ؑ اب یقینا مرنے کوجارہے ہیں؟ امام ؑ نے جواب دیا بہن کَیْفَ لَااَیْقَنُ وَلَیْسَ لِیْ مُعِیْنٌ وَلَانَصِیْر کیسے موت کا یقین نہ کروں حالانکہ میرا کوئی ناصرومددگار نہیں ہے؟
پس بی بی نے عرض کیا  رُدَّنَا اِلٰی حَرَمِ جَدِّنَا  بھائی جان ہمیں اپنے ناناکے حرم تک پہنچانے کا انتظام فرمائیں؟ امام ؑ نے فرمایا   ھَیْہَات  تم نے میری موت کے بعد قیدوبند کی مشکلات کا سامنا کرنا ہے؟ یہ سنتے ہی بی بی نے ماتم کرنا شروع کیا، اس کے بعد امام ؑ نے فرمایابہن ابھی صبر کرو تمہارے رونے کے مقامات آگے ہیں، پس روانگی کا ارادہ کیا توبہن نے اپنی باہیں بھائی کے گلے میں ڈال دیں اورعرض کیا بھائی جان جلدی نہ کیجیے  یَااَخِیْ تَوِقَّفْ حَتّٰی اَزُوْرَ مِنْ نَظْرِیْ فَھٰذَا وِدَاعٌ لَا تَلاقِیْ بَعْدَہٗ بھائی جان ذرا ٹھہریئے تاکہ میں سیر ہو کر تیری زیارت توکرلوں کیونکہ یہ آخری وداع ہے، پھرتوملاقات نہ ہوسکے گی  فَمَھْلاً أخِیْ قَبْلَ الْمَمَاتِ ھُنِیْئَۃً لِتَبْرَدَ مِنّیِْ لَوْعَۃً بھا ئی جان صبر کیجئے !تاکہ موت سے قبل ایک لحظہ دل کی گرمی کوبجھالوں اوراس وقت تمام بیبیاں اپنے آقاکے گرد جمع تھیں اورحسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں اورآنکھوں کا پانی آپ ؑ پرنثار کررہی تھیں، پس تمام بیبیوں نے امام ؑ کے ہاتھوں اورپاؤں کا بوسہ دیا اورجناب زینب عالیہ نے بھی اپنے مظلوم بھائی کے ہاتھ اورپاؤں کوبوسہ دیا اوربعید نہیں جیسا کہ عام بیان کیا جاتاہے بی بی نے بھائی کی گردن کو بوسہ دیا ہو بلکہ قرین قیاس تویہ ہے کہ ان تمام حصوں کو بوسہ دیا ہوگا جن کو رسالتمآبؐ بوسہ دیتے تھے اوربعید نہیں کہ حسین ؑ نے بھی بہن کے سر وبازوپربوسہ دیا ہو؟ غرضیکہ تمام سادانیوں اوراہل حرم سے آخری وداع کرکے چلے اوربہن کویہ وصیت کرکے چلے  یَا اُخْتَاہ لا تُنْسِیْنِیْ فِیْ صَلٰوۃِ اللَّیلِْ اے بہن مجھے نماز شب میں فراموش نہ کرنا، ممکن ہے بہن نے دریافت کیا ہوکہ پیاس کا کیا حال ہے اورآپ ؑ نے فرمایا ہو قَدْ تَشَقَّقُ کَبْدِی کہ پیاس سے جگر کباب ہوگیاہے، پس امام ؑ خیمہ سے رخصت ہوکر نکلے توخیام میں ماتم شروع ہوا اور   وَا حُسَیْنَاہ  کی صدائیں بلند ہوئیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں