التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مجلس نمبر ۲۸ -- کونو امع الصادقین


کونو امع الصادقین
امکان بشر سے باہر ہے کہ اپنی عمر کے متناہی ایام میں خدا وند کریم کی نعمت غیر متناہیہ کا شکر اداکر سکے خدا وند کریم فرماتا ہے اگر تم میری نعمتوں کو گننا چاہو تو نہ گن سکو گے لیکن اعتراف تقصیر بھی عرفان کا حکم رکھتا ہے جیسے حضرت امیرا لمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں العجزعرودرک ال دراک ادراک لہذا ہم بارگاہ ایزدی میں بصد عجز عرض کرتے ہیں کہ خدا یا ہم تیر ی ادنی سے ادنی نعمت کا شکر ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں تاہم بمقتضائے ام بنعمتہ ربک فحدث ہمارا فرض ہو نا چاہئے کہ بمقدوراس کا شکر  ادا کریں مالایدرک کلہ لا یترک کلہ اور مثل اشعری شکر کو لغو و سخریہ نہ سمجھیں جناب مفتی صاحب اعلی اللہ مقامہ کیا خوب فرماتے ہیں اذا اطعمت کلبا کسر خبز یظل ملاز ما یوصید بابی وعند الا شعری الشکر لغو فھم واللہ اخبث من کلاب جب میں کسی کتے کو روٹی کا ٹکڑا ڈالوں تو میرے دروازہ کی چوکھٹ پر پہرہ دیتا ہے لیکن اشعری کے نزدیک شکر خدا لغو ہے تو خدا کی قسم یہ لوگ کتوں سے بھی خبیث تر ہیں
خدا وند کریم کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی عظیم المرتبت جلیل الشان نعمت سے متمتع فرمایا ان الدین عنداللہ السلام وہ دین جس کی تعلیم حضرت آدم سے حضرت خاتم تک برابر ہوتی چلی آئی اور آنحضرت سےاس کے سچے جانشنیوں کی معرفت اس کی دنیا میں ضیا پھیلی اور پھر ایسے وجود ذیجود کے ذریعے اس کو ازسر نو زندگی ملنے والی ہے جسکے پیچھے روح اللہ آسمان سے اتر کر نماز پڑھیں گے وہ عدل و انصاف سے دنیا کوا س طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے پر ہے ہمیں گورنمنٹ برطانیہ کے زیرسایہ مذہبی آزادی ملی اگرچہ اس کو پولیٹکل حال ہی سمجھا جائے جس سے کوئی گورنمنٹ خالی نہیں ہو سکتی چنانچہ جب سکندر نے دارا شکست دی توارسطو سے حکومت کے برقرار رہنے کے لئے مشورہ طلب کیا اس نے جواب دیا کہ اطراف مملکت میں مختلف شاہزادوں اورامیروں میں اختلاف ڈال دیجئے تاکہ وہ باہمی کشمکش کے ذریعے ملک کی واپسی کے خیال سے غافل ہو جائیں بہرحال ہم اس مذہبی آزادی کی قدر کرتے ہیں کہاں وہ زمانہ کہ حضرت علی کانام لینا بھی جرم تھا اورکہاں یہ زمانہ کہ مساجدمیں علی ولی اللہ کی اذانیں ہو رہی ہیں ایک زمانہ تھاکہ خنجروںکا نام رافضی کش رکھا جاتا تھا مشہور ہے سکھوں کے زمانہ میں ایک  شخص نےمسجدمیں اذان کہی اور نماز پڑھ کر چلتا بنا پھر دوسرا شخص مسجد میں داخل ہوا ابھی نماز  کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ سکھ پہنچ گئے اور اس کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا اس نے عذر پیش کر تے ہوئے کہا افسوس گناہ کس کا اور مارکس پر پڑ رہی ہے اور یہ اس مذہبی آزادی کے آثار و برکات میں سے ہے کہ ہم نہایت اطمینان سے اس مظلوم کی صف ماتم بچھاتے ہیں جس کے متعلق حضرت صاحب الامر کا ارشاد ہے کہ آپ کا ماتم اعلی علیین میں قائم ہے اور حورین منہ پٹتی ہیں باوجود یکہ جن و ملک و حوش و طیور سب عزاداری میں حصہ لیتے ہیں لیکن مسلمانوں کو اس خاندان کے ساتھ کوئی ایسا بیر ہے کہ سالار قافلہ اسیران اہلبیت حضرت سید الساجدین فرماتے ہیں مادمعت مناعین الا وقرعت یعنی ہم میں سے جب کسی کی آنکھ میں آنسو آتے تھے تو اس کو نیزوں سے چپ کرانا جاتا تھا اور حضرت ام کلثوم اپنے مرثیہ میں فرماتی ہیں وفاطم لو رائیتنا سھاری ومن سھرااللیالی قد عمینا اے فاطمہ کاش تو ہماری بیداری کو ملاحظہ کرتی کہ متواتر بیداری کی وجہ سے ہمیں نظر کچھ نہ آسکتا تھا کتنی مجبوری تھی کہ حاکم شام سےرونے کی اجازت لی گئی اور کوئی ہاشمبہ و قریشیہ ایسی نہ تھی جس نے ماتم حسین میں سیاہ لباس نہ پہنا ہو اور ایک ہفتہ تک شام میں ماتم ہوتا رہا غزالی پر تعجب ہے جو کہتا ہے کہ واعظ کو منبر پر شہادت حسین نہ پڑھنی چاہیے کیونکہ اس سے بغض صحابہ پیدا ہوتاہے صواعق حالانکہ حضرت رسالت مآب کے پاس جبریل کربلا کی خاک لائے اور حضرت حسین کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ بہت روئے مشکوۃ حضرت امیرعلیہ السلام صفین کو جاتے ہوئے ننیوی کے قریب پہنچے اور دریافت کیاکہ اس زمین کا نام کیا ہے توجواب ملا کر کربلاہے تواس قدر روئے کہ آنسووں نے زمین کو تر کر دیاپھر رسالت مآب کی پیشگوئی کاتذکرہ کیااور مروی ہے حضرت علی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی قبر کےپاس سے گذرے تو فرمایایہ ان کے اونٹ بٹھا نے کی جگہ ہے اوریہ ان کے خیمہ نصیب کرنے کا مقام ہے اوریہاں ان کی خویزیزی ہو گی آل محمد کے جوا ن اس میدان میں قتل ہوں گے جن پر آسمان وزمین گریہ کریں گے صواعق
اما م حسین علیہ السلام سے منقول ہے فرمایا اگر ہماری مصبیت میں کسی کی آنکھ سے آنسو کا  ایک قطرہ بھی ٹپکے گا تو خدا اس کو جنت عطا فرمائے گا بہر کیف ٹھیکیدار ان یزید لاکھ کوشش کریں لیکن غم حسین روز افزوں تر قی پر ہے ایک مر تبہ حضرت رسالت مآب نے اپنی شہزادی کو شہادت حسین اور جمیع واقعہ کربلا کی خبر سنائی تو فاطمہ نے رو کر پوچھا اے بابا جان یہ واقعہ کب ہوگا تو فرمایا ایسے زمانہ میں ہو گا جب نہ میں ہو نگا نہ علی ہوگا اور نہ حسن ہو گااور نہ تو ہی ہو گی پس بی بی پر سخت گریہ طاری ہوا اور پھر پوچھا روئے گا کون اور مراسم عز اکو ن بجا لائے گا تو آپ نے فرمایا خدا میری امت کا ایک گروہ پیدا کر ے گا جو ہر سال مراسم عزا پوری کریں گے ان کے مرد ہمارے مردوں کواور ان کی عورتیں ہماری عورتیں کو پر سا دیں گی اور بروز محشر تو ان عورتوں کی شفاعت کرے گی اور میں مردوں کی شفاعت کروں گا اور ان کو ہاتھ سے پکڑ کر داخل جنت کریں گے اے فاطمہ قیامت کے روز ہرآنکھ رونے والی ہو گی سوائے اس آنکھ کے جو مصائب حسین پر رو چکی ہو گی پس وہ بروز محشر  خوش و خرم ہو گی جناب ام سلمہ روایت فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسالت مآب سے سنا آپ نے فرمایا جس مقام پر چند لوگ جمع ہو کر فضائل آل محمد کی مجلس قائم کریں تو آسمان سے فرشتےنازل ہو کر ان میں شامل ہوتے ہیں جب وہ واپس آسمان پر پلٹے ہیں تو آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں کہ تم سےایسی خوشبو آرہی ہے جو اس سے پہلے نہ تھی تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین پر ایسی مجلس میں شامل ہوئے جہاں آل محمد کےفضائل کا تذکرہ ہور ہا تھا پس یہ خوشبو اسی مجلس کا نتیجہ ہے پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اس مجلس میں لے چلو یاہمیں اس مکان میں لے چلو جہاں مجلس قائم تھی مودٰۃ القربی
ایک مرتبہ جعفر بن عفان اما م جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نےسنا ہے کہ توامام حسین کے متعلق شعر کہتاہے اور خوب کہتا ہے اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا سنائیے تو اس نے پڑھنا شروع کیاآپ اس قدر روئے کہ ریش مبارک آنسووں سے تر ہو گئی اور پاس بیٹھنے والے بھی سب روئے پھر آپ نے فرمایا کہ آسمان کے فرشتے بھی تیرے اشعار سن رہے تھے اور انہوں نے ہم سے بھی زیادہ گریہ کیا ہے اے جعفر خدا وند کریم نے تیرے اوپر جنت واجب کر دی ہے اور تیرے گناہ معاف کر دئیے اور فرمایا جو شخص نصرت حسین علیہ السلام کےمتعلق کوئی شعر لکھے پس خود روئے اور دوسروں کو رلائے اس پر جنت واجب ہوجایا کرتی ہے اوراس کے گناہ بخشے جاتے ہیں خصائص
مروی ہے کہ جب ہلال محرم نمودار ہوتا تھا توا مام حسین کے مصائب پر امام جعفر صادق علیہ السلام کاگریہ و بکا زیادہ ہو جاتا تھا اور گر دونواح کے لوگ جمع ہو کر آپ کو پرسادیا کرتے تھے جب آپ گریہ سےفارغ ہوتے تھے تو فرمایا کرتے تھے حضرت حسین اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اوروہ اب بھی اپنی لشکر گاہ قتل اور اپنے صحابہ کی جگہوں کودیکھ رہےہیں اور اپنےزائرین و عزاداروں کو بھی دیکھتے ہیں اوروہ ان کے اور ان کے آبائ کے ناموں کو جانتے ہیں جب کو ئی رونے والا رو تا ہے توا س کے لئے استغفار پڑھتے ہیں اور اپنے نانا باپ بھائی سے ان کے لئے دعائے مغفرت کی استدعا کرتےہیں اورفرماتے ہیں کہ اگر میرے رونےوالے کویہ علم ہوتا کہ اللہ کے پاس میرا اجرکس قدر ہے تو اس کے غم سےاس کی خوشی زیادہ ہوتی اورجب وہ مجلس سے خوش و خرم اپنے گھر کو پلٹا ہے توا س کے اوپر کوئی گناہ نہیں رہتا جس طرح کہ شکم مادرسے پیدا ہوا  تھا اسرارالشہادت ایک دفعہ کمیت شاعر امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ کے حکم سے مصائب امام حسین میں کچھ شعر پرھے تو امام خود بھی روئے اورپس پردہ اہل حرم نے بھی گریہ کیا حتی کہ ان کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں پس ایک کنیز اندرون پردہ سےنکلی اور ایک چھوٹا سا بچہ لا کر امام کی گود میں رکھ دیا توامام کا گریہ اور بھی زیادہ ہوا حتی کہ بآواز بلند روئے اسرار۔

ایک تبصرہ شائع کریں