التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بائیسویں مجلس -- کونو امع الصادقین


یکم محرم 1334
کونو امع الصادقین
حضرت رسالت مآب نے فرمایا علی مع القرآن والقرآن مع علی علی قرآن کے ہمراہ ہےاور قرآن علی کے ہمراہ ہے ارشاد باری ہے قدجائ کم من اللہ نورو کتاب مبین تحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سےنور اورکتاب مبین پہنچ چکے خلقت نوری کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ان اللہ خلقنا فاحسن خلقنا و صور نا فاحسن صورنا وجعلنا عینہ فی عبادہ و لسانہ الناطق فی خلقہ ویدہ المبسوط علی عبادہ بالرافتہ والرحمتہ ووجھہ الذی یوتی بہ وبایتہ الذی یدل علیہ و خذانہ فی سمائتہ وارضہ بنا اثمرت الاشجار واینعت الثمار وجرت الانھار وبنا ینزل الغیث اینیت الارض وبعباوتنا عبد اللہ ولولا نحن ما عبد اللہ تحقیق اللہ نے ہمیں نہایت اچھی صورت میں خلق فرمایا اور ہمیں اس نے اپنے بندوں پر رقیب مقرر کیا اور ہمیں مخلوق میں اپنی بولتی ہوئی زبان بنا یا اور اپنے بندوں کے لئے رحمت و رافت کا پھیلا ہوا ہاتھ قرار دیا اور اپنا وہ راستہ جس کے ذریعے اس تک پہنچا جائےاور وہ دروازہ جو اس تک رسائی کا ذریعہ ہو ہمیں  بنایا اور زمین و آسمان کا خازن ہمیں مقرر کیا ہماری وجہ سے درخت پھلدار ہوئےاور پھل پختہ ہوئےاور نہریں جاری ہوئیں اور ہماری وجہ سے بارش نازل ہوتی ہے اورزمین اگاتی ہے اور ہماری  ہی عبادت کی وجہ سےاللہ کی عبادت کی گئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی اورابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسالت مآب نے ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کی پیدائش سے دو ہزار برس قبل میرا نور تسبیح خدا وند کریم کرتا تھااور اس کی تسبیح سن کر ملائکہ بھی تسبیح کرتے تھے متقی سعید الدین محمد بن مسعود کا زرونی اور فرمایا انا وعلی من نور واحد پس امت کے اعمال کی مقبولیت کی شرط ولا ئ آل محمد ہے چنانچہ ارشاد ہے النظر الی علی بن ابی طالب عبادۃ ولا یقبل اللہ ایمان عبدالا بولا یتہ والبراۃ من اعدائہ یعنی علی بن ابی طالب کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے اور خدا کسی بندے کےایمان کو قبول نہ کرے گا جب تک وہ اس کی ولا نہ رکھے اور اس کےدشمنوں سے بیزاری نہ کرے مناقب خوارزمی اور ایسا کیوں نہ ہو علی ہی وہ شخص ہے جس کی ابتدا و انتہا خانہ خدا میں ہوئی چنانچہ ولادت کعبہ میں اور شہادت مسجد میں تھی اصول کافی کتاب الایمان والکفر میں حماد بن بشیر سے مروی ہے کہ جناب امام جعفر صادق  علیہ السلام نے فرمایا حضرت رسالت مآب فرماتے ہیں کہ ارشاد خدا  وندی ہے کہ جس نے میرے ولی کی توہین کی تو گویا اس نےمیرے ساتھ اعلان جنگ کیا اورعبد کے لئے فرائض کی ادائیگی کےعلاوہ اور کوئی ذریعہ میرے  تقرب  کا زیادہ موجب نہیں ہے اور انسان نافلہ کے ذریعہ بھی میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں پس جب کسی عبد کومیں اپنا محبوب بنا لوں تو میں اس کے وہ کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ  ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے اگر وہ دعا مانگے تو قبول کرتا ہوں اور اگر کچھ مانگے تو میں دے دیتا ہوں اورایسا مومن جب موت کو ناپسند کرتا ہے تو میں بھی اس کی موت کو پسند نہیں کرتا ۔ جب ہر مومن مظہر خدا وندی بن سکتا ہے تو جو مومنوں کےامام ہیں وہ کیسے ہوں گے بے شک وہ خدا کے مظہرکا مل ہوں گےاسی بنا پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سےایک روایت میں ہےکہ ہماری ولایت اللہ کی ولایت ہے اورہم پر  ظلم کرنا اللہ پر ظلم کرناہے غایتہ المرام مناقب میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جب حسین کربلا کی طرف متوجہ ہوئے تو میں نے امام حسین کوکعبہ کے دروازہ پر دیکھا کہ جبریل کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا اور جبریل آواز دے رہا تھا کہ ھلمو االی بیعتہ اللہ آو لوگوں اللہ کی بیعت کرو گویا حسین کا ہاتھ پر اللہ ہے  جس طرح بابا نے رضائے خدا کی خاطر بستر رسول پر اپنےنفس کی پرواہ نہ کی حسین نے بھی اعلائے کلمہ حق کے لئے ثبات و استقلال کا ایسا مظاہرہ فرمایا کہ رہتی دنیا تک اس کی نظیر مشکل بلکہ ناممکن ہے مدینہ کو چھوڑا  مکہ کووداع کیا مدینہ سے سفر کی نوعیت کیا تھی اورمکہ سے کس حالت میں روانگی فرمائی نیز اپنے نانا بزرگوار اور مادر گرامی کی قبروں سے کیسے جدا ہوئے پھر سامان سفر کچھ ساتھ تھا اس کا مختصر جواب یو ں سمجھو کہ جب حسین روانہ ہوئے تواس دن مشرق و مغرب میں کسی مقام پراس قدر گریہ و فغان نہ ہوگا جتنا آل محمد کے گھر میں تھا رات کے وقت قبر رسول پر تشریف لے گئے اور عرض کی السلام علیک یا رسول اللہ میں آپ کو نواسہ بھی ہوں آپ نے مجھے اپنی امت میں اپنا خلیفہ چھوڑا ہے لیکن اے بنی خدا آپ گواہ رہیں کہ ان لوگوں نے میری بے قدری کی اور مجھے ضائع کر دیا ہے میں یہ شکوہ آپ سے اس دن بیان کروں گا جس دن ملاقات ہوگی اس کے بعد بہت دیر تک نماز میں مشغول رہے دوسری رات پھر تشریف لائے اور چند رکعت نماز ادا  کرکے اپنے پروردگار سے یہ التجا کی اے خدا یا یہ تیرے نبی محمد مصطفی کی قبر ہے اورمیں تیرے بنی کی شاہزادی کا  فرزند ہوں اب جومعاملہ مجھے درپیش ہے تو اس کوخوب جانتا ہے میں نیکی کو پسند کرتا ہوں اور برائی سےنفرت کرتا ہوں میں اس قبر اورصاحب قبر کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ میرے لئے وہ چیز اختیار فرما جس میں تیری اور تیرے رسول کی رضا مندی ہو اس کے بعد بہت دیر تک روتے رہے اورطلوع صبح سے تھوڑا پہلے قبررسول کے پاس سو گئے اورعالم خواب میں اپنے نانا کی زمرہ ملائکہ میں زیارت کی جنا ب رسالت مآب نے حسین کو سینہ سے لگا لیا دونو آنکھوں کےدرمیان بوسہ دیا اور فرمایا اے میرے پیارے حسین عنقریب تو خاک  و خون میں غلطان زمین کربلاشہید کیا جائے گا اورباوجود اس کے تو پیا سا ہو گا آخر میں فرمایا بیٹا بس عراق کی تیاری کرو پس روتے ہوئے قبر پیغمبر سے واپس آئے اور تیا ری فرمائی پھر حضرت محمد حنیفہ سے ملاقات ہوئی اور دونوں بھائی روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوئے مدینہ سےروانگی کےوقت اولاد عبدالمطلب کی مستورات جمع ہوئیں اور انہوں نے رونا شروع کیا امام نے ان کو تسلی دی تو وہ عرض کرنےلگیں کہ آپ کے بعد ہم اپنا گریہ کس کے لئے بچا کر رکھیں ہمیں تو ایسا معلوم ہورہا ہے کہ آج ہم سے رسول و بتول وعلی کے جدا ہو رہے ہیں پھرا ٓپ کی ایک پھوپھی نے آکر عرض کی کہ میں نےایک جن کو آپ کا مرتبہ پڑھتےہوئے سنا ہےبس آپ نے سب کو وداع کیاوار آخر ایک مرتبہ پھر  قبر رسول پر آئے اور قبرکو وداع کیا آج حسین روضہ رسول سے ہمیشہ کےلئے جدا ہو رہے ہیں لیکن حیات رسول میں چند گھنٹے اگر گھر سے باہر  جاتے تھے تو رسول بے تاب ہو جاتے تھے چنانچہ ابن عباس سےروایت ہے ایک دن جناب بتول معظمہ حضرت رسول خدا کی خدمت میں روتی ہوئی آئی آپ نے رونے کی وجہ پوچھی تو بی بی نے عرض کی کہ حسین و حسین دونو ں گھر سے کہیں باہر گئے ہیں حضور نے اپنی شہزادی کو تسلیٍٍدی پھر حسین شریفین کی حفاظت کی اللہ سے دعا مانگی اور بروایت دمعہ ساکبہ صحابہ میں سے ستر آدمی ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جبریل نے اطلاع دی کہ وہ نبی بخار کے باغ میں ہیں اور ایک فرشتہ خدا وند کریم نےان کی حفاظت کےلئے مقرر فرما دیا ہے چنانچہ جب حضور وہاں پہنچے تودیکھا دونو بھائی ایک دوسرے کےگلے میں باہیں ڈال کر محو خواب ہیں اورایک فرشتہ اپنے دونو پران کے اوپر پھیلا کر بیٹھا ہے پس شہزادیوں کو جگا یا حسن کو دائیں اورحسین کو بائیں کندھے پرسوار کیا اورواپس روانہ ہوئے کسی نےعرض کی کہ ایک شاہزادہ مجھے دے دیجئے کہ اٹھا لوں تو آپ نے فرمایا ان کی سواری بہترین سواری ہے اور یہ دونوں اس سواری کے بہترین سوار ہیں اور ان کا باپ ان سے بہترہے پس مسجد میں تشریف لائےاور کھڑے ہو کر کچھ بیان فرمایا اور آخر میں فرمایا جوان دونوں کو دوست رکھے گا وہ جنت میں یقینا جائے گا اور جوان دونوں سے دشمنی کرے گاوہ جہنم میں جائے گا الروضتہ الندیتہ ص104 نیز اسی کتاب میں حضرت عمر سے روایت ہے کہ میں جناب رسالت مآب کی خدمت میں پہنچا دیکھا کہ حضرت نے امام حسین کو پشت پر بٹھایا ہوا تھا اور اپنے منہ میں تاگا ڈال کر اس کا ایک سرا امام حسین کے ہاتھ میں دیا ہوا تھا پس حسین جس طرف چاہتے تھے حضرت اپنے زانو کے بل اسی طرف کو چلتے تھے میں نے دیکھتے ہی کہا نعم الجمل جملک یا ابا عبداللہ یعنی اے حسین تیرا اونٹ بہترین اونٹ ہے تو اس وقت پیغمبر نے فرمایا نعم الراکب ھویا عمر یعنی بہترین سوار ہے یہ سوار اے عمر بعض روایات میں ہے امام حسین نےعرض کی کہ لوگوں کے اونٹ تو آواز بھی کیا کرتے ہیں تو حضرت نےان کی دلجوئی کی خاطر دو مرتبہ کہا عفو عفو تو جبریل نازل ہوا اور عرض کی اگر تیسری دفعہ زبان سے یہ کلمہ نکلا تو دوزخ بالکل خاموش ہو جائے گا وسیلتہ النجاۃص 268 ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسول خدا جب بھی حسین کو آتے ہوئے  دیکھتے تھے توا ن کے سینے سے لگا کر بوسہ دیتے تھے نیز ابو ہریرہ سے منقول ہے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا کہ حضرت رسول خدا نے اپنے لخت جگر حسین کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور حسین کے قدم رسول کے قدموں کے اوپر تھے اور حضور  فرما رہے تھے اے نور چشم اوپر چڑھ آو چنانچہ حسین نےاوپر چڑھنا شروع کر دیا حتی کہ حضور کےسینے پر حسین کے قدم آپہنچے پھر رسول نے فرمایا اے فرزند اپنا منہ کھولو پس حسین کے منہ پر بوسہ دیا اور فرمایا اے اللہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ الروضتہ الندیہ ہائے آج وہی حسین روضہ رسول کے لیے وداع کر رہا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں