زیارت ناحیہ ورجبیہ میں اس پرسلام وارد ہے، ’’نفس المہموم‘‘ سے منقول ہے کہ
جب امام حسین ؑ کے تمام انصار شہید ہوگئے اورصرف بنی ہاشم یعنی عقیل وجعفر طیار کی
اولادامام حسن ؑ حسین ؑ کی اولاد اورحضرت امیر ؑ کی اولاد بچ گئی اوریہ وہ جوان
تھے کہ ان کا ہر ایک اپنی نظیر آپ تھا، پس یہ سب ایک جگہ جمع ہوئے اورآمادہ جنگ
ہوکر سب نے ایک دوسرے کو وداع کیا، امام عالیمقام ؑ یہ دل خراش وجگر سوز منظر اپنی
آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کافی وقت تک ان ماہ رو جوانوں کے چہروں کودیکھتے رہے
اورایک گھنٹہ تک گریہ کیا پھر جانب آسمان منہ کرکے عرض کیا:
اے پروردگار! ہم تیرے نبی کی عترت ہیں ہمیں وطن سے نکالاگیا اورحرم رسول کی
ہمسائیگی سے ہمیں محروم کیا گیا اوربنی امیہ نے ہم پرظلم کیا اے اللہ! توہمارے
درمیان فیصلہ فرمااورقوم ظالم پرہماری نصرت فرما۔
بہر کیف حضرت امام حسین ؑ سے عبداللہ بن مسلم بن عقیل ؑ نے جب اِذن جہاد
طلب کیاتوامام ؑ نے فرمایا اے عبداللہ! تیرے باباحضرت مسلم کو شہید ہوئے زیادہ
عرصہ نہیں گزرا اورتمہارے لئے مسلم کی شہادت کافی ہے میں تم کو اِجازت دیتا ہوں کہ
بے شک اس مہلکہ سے جان بچا کر چلے جاؤ، توعبداللہ نے عرض کیا اے آقا میرے ماں
باپ آپ ؑ پر فداہوں میں ہرگزوہ شخص نہیں ہوں کہ زندگانی دنیا کوآخرت پر ترجیح
دوں، پس میری قربانی آپ ؑ منظور فرمائیں یہ سن کرمصدرِ کرم ومنبع جو دوسخا نے اسے
اجازت دی اوروہ رجز پڑھتا ہوا میدانِ کا رزار میں پہنچا۔
بروایت ابن شہر آشوب اس نے تین حملے کئے اورمجموعی طور پر ۹۸ملاعین کوفی النارکیا، اچانک عمروبن صبیح صیداوی نے ایک تیر
مارا عبداللہ نے اپنے منہ کو بچانے کیلے اپنا ہاتھ پیشانی کے سامنے کیالیکن تیر اس
زور سے لگا کہ عبداللہ کا ہاتھ پیشانی کے ساتھ اس نے سی دیا، عبد اللہ نے ہاتھ
چھڑانے کی ہر چند کوشش کی لیکن ہاتھ پیشانی سے جُدا نہ ہو سکا پھر ایک ملعون نے
سینہ مبارک پر نیزہ کا وار کیا کہ عبد اللہ گھوڑے کی زین سے فرش پر آئے اور روح
پاک نے سوئے جنت پرواز کی۔
ابو مخنف سے مروی ہے زید بن ورقا جہنی کہتا ہے: میں نے کربلا میں ایک جوان
کو تیر مارا کہ اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا تھا تیر اس زور سے لگا کہ ہاتھ اس
جوان کا پیشانی کے ساتھ پیوست ہو گیا؟ اس جوان نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن
کارگر نہ ہوئی ٗپھر کسی ظالم نے ایک دوسرا تیر جوان کو مارا کہ وہ جوان شہید ہو
گیا اور وہ جوان عبداللہ بن مسلم بن عقیل ؑتھا؟ میں اس جوان کی لاش پر پہنچا اور
پوری قوت سے تیر اس کی پیشانی سے کھینچا لیکن تیر کا پھل ٹوٹ گیا جس کو میں نہ
نکال سکا۔
جناب مختارؒ نے عبداللہ بن مسلم کے قاتل عمر وبن صبیح صیداوی کو تیر برسا
کر قتل کر وایا اور پھراس کی لاش کو نذر آتش کر دیا۔