التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پینتیسویں مجلس -- لَوْ لا عَلِیٌّ لَمَا کانَ لِفَاطِمَۃَ کُفْوٌ



سلطانُ الانبیا ٔ۔۔ اقلیم رسالت کے تاجدار۔۔ یا یوں کہوں کہ برجِ نبوت کے نیّر اعظم ۔۔ آسمانِ رسالت کے آفتابِ معظم۔۔ حضرت محمد مصطفی کی زبان وحی ترجمان نے بتول معظمہ کی شان میں جو کلمات ادا فرمائے وہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی عظمت رسول اکرؐم کی نگاہوں میں کس قدرتھی، خداوند کے نزدیک وہ کیا رتبہ اور مقام رکھتی تھیں اور مسلمانوں نے ان کی کیا عزت کی؟
حضرت پیغمبر اکرؐم نے دولفظوں میں اپنی بیٹی کا تعارف کرایا کہ اگر اس پوری کائنات میں علی ؑنہ ہوتے تو میری بیٹی فاطمہ ؑکے برابر کو ئی نہ تھا۔۔ خداوند کی ساری  خدائی میں اگر علی ؑنہ ہوتے تو فاطمہ ؑکے برابر کا کوئی نہ ہوتا؟ اب اگر کوئی بندہ حضرت علی ؑ کی عظمت کو سمجھے اور ان کی عزت کا اندازہ کرے تو حضرت زہرا ؑمرضیہ کی عظمت معلوم ہوگی کہ اگر کائنات میں حضرت علی ؑنہ ہوتے تو اُن کی برابر ی کرنے والا کوئی نہ تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ براہِ راست مخدومہ دوعالم کی عزت کیوںنہیں بتائی؟ یاجناب سیدہ زہرا ؑکا تعارف براہِ راست کیوں نہیں کرایا اور حضرت علی ؑکے بلند رُتبے اور عالیمقام ہونے کا تذکر کردیا کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو فاطمہ ؑکا کوئی کفو نہ تھا؟
یہ سب اسلئے تھا کہ خود حضرت زہرا ؑپردے میں۔۔ اُن کے اعمال پردے میں۔۔ ان کا علم و کردار سب کچھ پردے میں۔۔ تو خاتونِ جنت کی عزت جاننے والے وہی ہیں جو اس پردہ دار کو صحیح معنوں میں سمجھیں؟ اس پردہ دار کو وہی سمجھ سکتے ہیں کہ جن کی زبان پر وحی خدا کی ترجمان ہے، اسی لئے ما ینطق کے مصداق فرماتے ہیں کہ میں محمدؐ کہہ رہا ہوں کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو میری بیٹی فاطمہ ؑ کے برابر کوئی نہ تھا۔
حضرت علی ؑخداوند کی خدائی میں حضرت محمد مصطفی کے بعد بے مثال ہیں، اسی خاطر اس بے مثال گوہر امامت کے ساتھ تشبیہ دے کر فرمایا کہ جوخود مرد اور ان کا کردار ظاہر۔۔ خود ظاہر۔۔ ان کے اعمال ظاہر۔۔ ان کی شجاعت ظاہر۔۔ ان کی سخاوت ظاہر۔۔ان کی امانت ظاہر۔۔ ان کی دیانت ظاہر۔۔ ان کا ہر فعل ظاہر۔۔ ظاہرکو دیکھ کو پرکھنے والو!  ذرا غور سے علی ؑکو دیکھو کہ اگر یہ نہ ہوتے توفاطمہ ؑکے برابر کوئی نہ تھا۔
مزید ایسے بیان کروں کہ عورت و مرد انسانی زندگی کے دو برابر کے حصے ہیں، عورت نہ ہو تب بھی انسانیت اَدھوری۔۔ مردنہ ہو تب بھی انسانیت ناقص، انسان مرد اور عورت کی مجموعہ زندگی کا نام ہے۔۔۔ عورت ناقص تب بھی انسانیت میں نقص اور مرد ناقص تب ہی انسانیت ناقص، عورت غلط ہو اور مرد صحیح ہو تو یہ غلط عورت صحیح مرد کیلئے عذاب۔۔ اگر مرد غلط اور عورت صحیح تو یہ غلط مرد صحیح عورت کیلئے عذاب۔۔ اسی طرح اگر دونوں (مرد، عورت) غلط ہوں تو سارے خاندان کیلئے عذاب۔۔ اور اگر دونوں صحیح تو پورے خاندان کیلئے جنت،  عورت اپنے انداز میں اگر صحیح رہے اور مرد اپنی حیثیت میں صحیح رہے تو ساری انسانیت صحیح۔۔ عورت اور مرد دونوں بے داغ  تو ساری انسانیت بے داغ اور اگر دونوں داغدار توساری انسانیت داغدار ، یہ عورت و مرد دونوں انسانی زندگی کے برابر کے پہیے ہیں۔۔ اگر ایک جام تو انسانیت جام اور اگر دونوں حرکت میں ہوں تو انسانیت حرکت میں۔
لیکن گھریلو زندگی میں پرودگارِ حاکم نے انہیں برابر کی حیثیت نہیں بخشی بلکہ ایک حاکم اور دوسرا محکوم۔۔ اسلئے کہ اگر کوئی حاکم نہ ہو تب بھی گھر کا نظام نہیں چل سکتا اور اگر دونوں حاکم ہوں تب بھی ہر روز جھگڑا۔۔ فساد؟ اسی لیے ایک حاکم اور ایک محکوم، عورت کا مزاج چاہتا ہے کہ میں حاکم رہوں اور مرد محکوم اور مرد یہ چاہتا ہے کہ میں حاکم رہوں اور عورت محکوم۔۔ انسانیت کے نبض شناس اور کل کائنات کے امام حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ ناقص کو کامل پر حاکم کیا جائے تو کامل کی توہین ہے اور کامل کو ناقص کا محکوم کرنے سے ناقص کی حوصلہ افزائی ہے، حق یہ ہے کہ نہ انسانیت کی تو ہین ہو اورنہ انسانیت کا نظام ناقص ہو لہذا حکومت اس کو ملے کہ جو کامل ہے، تو کامل حاکم ناقص محکوم۔
اب ہم حضرت علی ؑسے سوال کرتے ہیں کہ یاعلی ؑان دونوں یعنی مرد وعورت میں سے کامل کون ہے؟ فرماتے ہیں کہ مرد کامل ہے اور عورت ناقص۔
تین مقامات پر عورت کے ناقص ہونے کا پتہ چلتا ہے:
عبادت    ،    وراثت    ،    شہادت (گواہی)
عورت عبادت میں مرد سے کم ہے کیونکہ مرد مہینے کے تیس دن مصلیٰ عبادت پر آ سکتا ہے اور مہینے کے تیس دن روزہ دار ہوسکتا ہے لیکن عورت نہ تیس دن پورے نماز واجب ادا کر سکتی ہے اور نہ ہی ماہِ صیام کے تیس روزے پورے رکھ سکتی ہے، لہذا جن دنوں نماز نہیں پڑھ سکتی ان دنوں قرآن نہیں پڑھ سکتی، اسی لئے عبادت میں ناقص۔۔ وراثت میں کم ہے اور شہادت و گواہی دینے میں بھی مرد سے کم ہے۔۔۔ لہذا ناقص ہے، اور حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری مرد تک اور حضرت حواؑ سے لے کر  آخری عورت تک یہ قانونِ الٰہی سب افراد کو شامل ہے کہ مرد کامل اور عورت ناقص۔۔ مرد حاکم اور عورت محکوم۔
لیکن سلطانُ الانبیا ٔ حضرت محمد مصطفی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے میری بیٹی زہرا ؑمستثنیٰ ہے۔۔۔ سادات آپ کی عزت کی قسَم ہماری ماںزہراؑ بڑی عزت۔۔ بڑے مرتبے اورمقام برجستہ پر فائزہیں، رسول اکرؐم فرماتے ہیں کہ پورے قانونِ الٰہی اورانسانیت کے قانون کی حدود سے میری دختر فاطمہ زہر ا ؑباہر ہیں۔۔ ہر عورت مرد سے کمتر ہے لیکن میری بیٹی مرد کے برابر ہے، نہ وراثت میں کم۔۔ نہ شہادت میںکم اورنہ ہی عبادت میںکم؟
وراثت میں کم نہیں اسلئے کہ اللہ تعالی نے رسول اکرؐم کو اولاد ہی نہیںدی تاکہ حضرت زہراؑ کی وراثت میں کوئی حصہ لے۔
شہادت میں حضرت علی ؑکے برابر اس لئے کہ آیہ تطہیر نے جہاں حضرت علی ؑکو رکھا وہاں حضرت زہرا ؑکو رکھا۔
عبادت میں برابر۔۔ کیونکہ جتنے دن حضرت علی ؑمصلیٰ عبادت پر آسکتے ہیں اتنے دن حضرت زہرا ؑمصلیٰ پر آسکتی ہیں۔۔۔۔۔ پس نہ وراثت میںمرد سے کم۔۔ نہ شہادت میں ناقص۔۔ اور نہ ہی عبادت میں کم۔۔ اسی لئے تو رسول اکرؐم فرماتے ہیں کہ یہ وہ مستور ہے جومرد کے برابر ہے بلکہ اس مرد کے برابر جوحضرت آدم ؑسے حضرت عیسیٰؑ تک تمام نبیوںکا سلطان۔۔ حضرت شیث ؑلے کر حضرت مہدی ؑتک تمام ولیوں کا حکمران۔۔ جو ادنیٰ سے لے کر جبریل تک تمام عالم ملکوت کا نگران۔۔ اگر یہ نہ ہوتا تو حضرت زہراؑ کے برابر کوئی نہ ہوتا؟
تین منازل ہیں عورت کے جن میں یہ مرد سے مخصو ص ہے۔۔ مرد کی زندگی عورت کی زندگی سے الگ ہے اور عور ت کی زندگی کے تین شعبے نرالے اورجداہیں۔
عبادت میں عورت و مرد اکھٹے ہیں کیونکہ نماز جب عورت نے نہیں پڑھنی تو معاف اور جب پڑھنی ہے تو وہی پڑھے گی جو مرد پڑھتا ہے نہ کہ اس کے لئے کوئی جدا نماز ہو گی۔۔ مثال کے طور پر یہ بھی وہی صبح ظہر عصر مغرب و عشا کی نماز پڑھے گی جو کہ مرد پڑھتا ہے۔۔ عورت کے لئے کوئی جدا نماز نہیں، اسی طرح عورت کے لئے کوئی جداروزہ بھی نہیں جب بھی روزہ رکھنا ہو گا تو وہی رکھے گی جو مرد کو رکھنا ہوگا، زکواۃ و خمس میں بھی مرد کے ساتھ ہے، علاوز ایں وراثت و شہادت میں بھی جیسے مرد کی وراثت و گواہی ویسی ہی عورت کی فقط ناقص اور کامل کا فرق ہے، اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں جس چیز کی وراثت مرد کو مل سکتی ہے اس کی وارث عورت بھی بن سکتی ہے، جیسی مرد کی شہادت جس سلسلے میں ہو جہاں ہو ویسی عورت کی۔۔ فقط فرق نقص و کمال کا ہے، تین کام ایسے ہیں کہ جن میں عورت مرد سے الگ ہے اور یہ منازل فقط عورت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ مرد کی زندگی میں قطعاً نہیں:
ز   پہلی منزل یہ ہے کہ جب وہ زندگی میں قدم رکھتی ہے تو بیٹی کی شکل میں۔
ز   جب جوان ہوتی ہے تو شادی شدہ ہونے کے بعد زوجہ کے رنگ میں۔
ز   جب صاحب اولاد ہو تب ماں کی شکل میں۔
پہلے بیٹی۔۔ پھر بیوی۔۔ پھر ماں۔۔ کامل عورت وہ ہے کہ جب بیٹی ہو تو بیٹی کامل، جب بیوی ہو تو زوجہ کامل، جب ماں ہو تو ماں کامل۔۔۔۔۔ اس مقام پر حضرت حوا ؑسے لے کر قیامت تک کی تمام مستورات حضرت زہرا ؑجیسی نہیں بن سکتیں کیونکہ حضرت زہرا ؑجب بیٹی بنیں تو محمد مصطفی جیسے والد کیلئے باعث فخر۔۔۔ جب شادی شدہ ہونے کے بعد زوجہ بنیں تو حضرت علی ؑ جیسے شوہر کیلئے باعث عزت۔۔۔ جب گود آباد ہونے کے بعد ماں بنیں تو قیامت تک کے ہر سید کیلئے ناز کہ ہماری ماں فاطمہ زہرا ؑہے۔
تین منازل ہیں عورت کی جو کہ بیان ہوئے کہ جب بیٹی ہو تو بے عیب۔۔ اور جب بیوی بنے تو بے داغ اور جب ماں ہو تو اولاد کیلئے باعث ِعزت و فخر ۔
ایک اور نقطہ اس عالمہ غیر معلمہ کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ ایک امام حسین ؑ دنیا میں آئے اور ایک یزید دنیا میں آیا۔۔۔ دونوں آئے اور کردار کے شناسا ہونے کے بعد دونوں دنیا سے چلے گئے، یزید واصل جہنم اور امام حسین ؑقاسمِ جنت، ایک مقولہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے لیکن حیران ہے ایک جرمن مورّخ کہ جس کا میں نے مضمون پڑھا ہے وہ کہتا ہے کہ میں حیران ہوں اس کلیہ سے کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یزید کو توتا ریخ دہراتی رہی لیکن تاریخ نے امام حسین ؑکو کیوں نہیں دہرایا؟ یزید کے دنیا سے چلے جانے کے بعد لاکھوں یزید پیدا ہوگئے۔۔ ملک ملک میں۔۔ وطن وطن میں۔۔ زمانے زمانے میں۔۔ شہر شہر میں۔۔ محلہ محلہ میں۔۔ گھر گھر میں؟ یزید کے چلے جانے کے بعد تو لاکھوں یزید پیدا ہو گئے لیکن امام حسین ؑکے بعد کوئی حسین ؑپیدا نہ ہوا؟ تاریخ نے حسین ؑکو کیوں نہیں دہرایا؟  تو اس اعتراض کو مطرح کرنے کے بعد اس سوال کا جواب بھی خود اُسی مورّخ نے دیاکہ یزید کے چلے جانے کے بعد یزید کی ماں جیسی لاکھوں مائیں پیدا ہوئیں اور لاکھوں یزید پیدا کر گئیں اور امام حسین ؑکے بعد نہ ان کی ماں (حضرت زہرا ؑ) جیسی کوئی ماں پیدا ہو گی نہ حسین ؑجیسے فرزند پیدا ہوں۔
حضرت زہرا ؑکائنات کی واحد مستور ہے کہ اگر امام علی ؑنہ ہوتے تو اس کی برابری کرنے والا کوئی نہ ہوتا؟ حضرت موسیٰؑ و حضرت عیسیٰؑ وحضرت ابراہیم ؑکی جرأت بھی نہیں۔۔۔ اگر حضرت علی ؑنہ ہوتے تو حضرت زہرا ؑکا کوئی کفو اور برابری کرنے والا نہ ہوتا؟
مولا ؑکانام بھی علی ؑہے، علی ؑکا معنی ہے بلند۔۔ کتنا بلند؟ جتنا نام رکھنے والے کا تصور ہو مثلاً اگر ایک عام شخص سے سوال کیا جائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ کسی پڑھے لکھے کانام بتائے گا اور جب پڑھے لکھے سے سوال کیا جائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ کسی زیادہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ کا نام لے گا اور جب سند یافتہ سے سوال کیا جائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ امام خمینیؒ کا نام لے گا اور جب امام خمینیؒ سے سوال کیا جائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ امام جعفر صادقؑ کا نام لے گا اور جب امام جعفر صادقؑ سے سوال کیا جائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ حضرت علی ؑکا نام لیں گے اور جب حضرت علی ؑسے سوال کیاجائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ حضرت محمدؐ کا نام لیں گے اور جب حضرت محمدؐ سے سوال کیاجائے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو وہ اللہ تعالیٰ کا نام لیں گے؟
تو اب حضرت علی ؑکا نام نہ حضرت ابو طالب ؑنے رکھا کہ ان سے سوال کیا جائے کہ علی ؑکا معنی کیاہے؟ اور نہ ہی جناب فاطمہ بنت اسد نے رکھا ہے کہ ان  سے سوال کیا جائے؟ اور نہ ہی حضرت محمدؐ نے نام رکھا بلکہ علی ؑکا نام رکھا ہے جلی نے،  اب اللہ کے نزدیک بلندی کا جتنا تصور ہے اتنا علی ؑبلند۔۔ اور اتنی بلندو بالا شخصیت موجود تھی کہ جو زہراؑ کی برابری کرتی، یہ ہے نبی کریمؐ کے نزدیک زہراؑ کی عظمت۔
اور مسلمانوں کے نزدیک یہ کہ اب بھی کم ظرف اور ناواقف افراد یہ الفا ظ مبینہ طور پر کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہو گیا جو ایک مستور دربار سے خالی واپس لوٹی؟ اگر مسلمانوں کے نزدیک بھی زہراؑ کی عظمت ہوتی تو کمر پر ہاتھ رکھ کر نہ چلتی؟ سادات غیر سادات جو تاریخ سے واقف ہیں کیا بتا سکتے ہیں کہ حضرت آدمؑ سے آج تک مخدومہ دو عالم کے علاوہ کوئی ایسی مستور آئی ہے جس کا سن ۱۸سال کا ہو اور سر کے بال سفید ہوں؟ اور ۱۸سال کی ہو اور کمر جھکا کر چلے؟ فقط ایک زہرا  ہی نہیں بلکہ دنیا جہان کے گوشے گوشے میں حضرت زہراؑ کی اولاد تقسیم ہے، زاہدان سے گزرنے کے بعدپرتقال اندلس تک کوئی قبر نظر آئے کہ جس پر سبز رنگ کا علَم نصب ہو تو جس کسی سے بھی پوچھا جائے تو وہ جواب میںیہی کہے گا کہ کسی پریسی اور بے وطن سید یا سیدہ کی قبرہے۔
تمام آئمہ معصومین ؑ میں سے ایک مظلومِ کثیر العیال حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ ہیں جن کی ۳۷ اولادیں تھیں، جن میں سے ۱۹بیٹے اور۱۸بیٹیاں ہیں۔۔ لیکن تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ دوبھائیوں کی مزار اکھٹی اور نہ دو بہنوں کی قبر اکھٹی؟ بھائیوں نے کہیں بے وطنی میں ملک الموت کو لبیک کیا اور بہنوں نے کسی اور جگہ؟
میںنے جس امام مسموم کا تذکرہ کیا ہے یہ بھی امام حسین ؑ کے ایک فرزند ہیں اور ان کی نسل کے ایک فرد ہیں۔۔۔ میں کیا عرض کروں؟
مولا پر انتہائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی
یہ کثیر العیال امام باوجودیکہ ۳۵ یا ۳۷ اولادیں تھیں لیکن اس کی اپنی قسمت؟ آپ اس بات کا تاریخ میں مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کثیر العیال امام کتنی بے دردی سے اس دنیا سے رخصت ہوا؟ قید خانہ بدلتے رہے لیکن امام کا جسم نہیں بدلا؟ کبھی بصرہ میں۔۔ کبھی بغداد میں۔۔ کبھی کوئی زندان بان۔۔ کبھی کوئی؟
کبھی ہارون الرشید کی قید میں تو کبھی عیسیٰ بن جعفر کی قید میں۔۔ کبھی فضل بن ربیع کی قید میں تو کبھی فضل بن یحییٰ کے زندان میں؟ آخری زندان بان جس کا نام سندی بن شاہک ہے بڑا بے درد تھا۔
عبرت میں ڈوبی داستان اور حیرت زدہ بیان ہے کہ امام کے ایک غلام نے امام ہفتم کو ایک قیدی کی حیثیت سے حجرۂ زندان کی ایک کھڑکی سے سلام کیا۔۔ امام نے جواب دیا تواس غلام نے مولیٰ سے استدعا کی کہ آپ زندا ن میں ہیں اور چونکہ قیدی کی دعا مستجاب ہوتی ہے اور آپ تو آلِ رسول ہیںآپ کی دعا توردّ ہو ہی نہیں سکتی لہذا آپ میرے حق میں کوئی ایک دعا کریں اپنی مرضی سے۔۔ میری کوئی مخصوص دعا نہیں؟ پس اس نے سکوت اختیار کیا۔
امام ؑ نے فرمایا اے شخص!  میری دعایہ ہے کہ خدا وند تجھے کبھی کسی مسلمان کی قید میں نہ رکھے۔۔ اور کسی مسلمان کا قیدی نہ بنائے!  یہودیوں ۔۔ نصرانیوں۔۔ کافروں اور غیر مسلم کی قید میں رہو تو کوئی فرق نہیں مسلمان کی قید سے خداوند تجھے بچائے۔
وہ کہنے لگا مولا ؑ مسلمانوں کا زندان اور اتنا سخت؟ تو مولا ؑ فرماتے ہیں کہ میںکافی مدت سے اس زندان میں ہوں۔۔ اس زندان میں انسان کی گزر اوقات بہت مشکل ہے؟ تو وہ کہنے لگا وہ کیسے؟
مولا ؑ نے اپنی زخمی پشت سے پیراہن ہٹایا اور اپنی قمیص کو کمزور بدن سے برطرف کیا پھر ضربت کے نشان دکھا کر فرماتے ہیں کہ ہر روز وہ شقی القلب زندان میں آتا ہے اور تازیانے سے میری پشت پر چند سطریں لکھتا ہے اور ابھی تک وہ سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ دوبارہ آتا ہے اور نئی سطریں تحریر کرکے چلا جاتا ہے اور مجھے اس زندان میں سالہا سال ہو گئے لیکن اس زندان بان نے کبھی مجھ پر رحم نہیں کیا اور نہ ہی ترس کھایا؟ اس لئے میری دعا ہے کہ تو کبھی مسلمانوں کی قید میں قیدنہ ہو۔
ہم تو فقط امام زین العابدین ؑکی مصائب کو دیکھ کر ان پر گریہ کرتے ہیں کہ ان کا زندان میں جانا وغیرہ مشکل تھا لیکن امام موسیٰ کاظم ؑکہ جنھوں نے چودہ سال زندان میں اس مشکل سے گزارے کر تازیانے کی ضرب سے مولا ؑکی پشت پر لکیریں کھینچی جاتیں یہ بھی بہت مشکل ہے۔
مرحوم مولانا حافظ کفایت حسین صاحب فرماتے تھے ایک عجب روایت ہے کہ ۲۵رجب کی رات کو شب ڈھلے ایک نوجوان درِ زندان پر آیا اور چلا گیا۔۔ پھر آیا اور دروازے پر رُکا تو سندی بن شاہک نے کہا کہ اب چلا جا صبح کو جب دروازہ کھلے گا تو اس وقت ملاقات ہوگی، اس نوجوان نے کہا کہ ظالم ظلم بھی کرتے ہو اور ہمیں اسیر بغداد سے ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتے؟ میں مدینے سے آیا ہوں۔۔ میں اس زندانی کا بیٹا ہوں۔۔ میرا نام علی رضا ؑہے اور مجھے بابا نے پکارا ہے کہ مرا وقت ِاخیر ہے، لہذا مجھے اجازت دے تاکہ میں اندر جائوں؟ اس نے اجازت نہ دی تو حجت ِخدا کے فرزند نے درِ زندان پر لگے قفل پر ہاتھ رکھا۔۔ تا لا ٹوٹا۔۔ قفل کھلا۔۔ دروازہ کھلا۔
سامعین!  یہ حقیقت آپ کے مشاہدے میں ہے کہ جو شخص اندھیرے مکان اور حجرہ میں ہو وہ دروازے پر موجود شخص کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان لیتاہے لیکن دروازہ پر موجود شخص اندر والے کو نہیں دیکھ سکتا۔
جو نہی امام رضا ؑزندان میں داخل ہوئے تو دیواروں پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ چلے، اندھیرے کا یہ عالم تھا کہ امام ؑدیوار پر ہاتھ رکھ کر دیوار کا آسرا لئے جب قریب گئے تو محسوس کیا کہ یہاں کوئی سویا ہوا ہے۔۔ پاس بیٹھ گئے، امام ؑنے فرمایا اے بیٹا علی رضا ؑ! خیر سے آئے ہوئے؟ فرمایا  ألْحَمْدُلِلّٰہ  پہنچ گیا ہوں بابا۔۔ اب کافی عرصہ بیت چکا ہے کہ آپ اس زندان میں ہیں اگر اجازت ہو تو اس خاکِ زندان کو مٹھی میں محفوظ کر لوں کہ جو خاک آپ کے بدنِ اقدس سے مس ہوئی ہے؟ اور آپ کو زمین سے الگ کروں؟ تو امام ہفتم فرماتے ہیں کہ بیٹے تیرے بابا کا جسم اس خاک سے مانوس ہو چکاہے۔۔ اب مجھے یہ زمین تکلیف نہیں دیتی، میں چونکہ تیرے آمد کیلئے  ترس رہا تھا میرے سینے پر سینہ لگا کر سو جا  تا کہ تیری خوشبو سے میری وہ حسرت پوری ہو جائے؟ اما م رضا ؑنے اپنے بابا کے سینے سے سینہ لگایا۔۔ پس امام موسیٰ کاظم ؑنے امام رضا ؑکے دائیں رخسارے کو چوما پھر بائیں پر بوسہ دیا پھر فرمایا تیری بہنوں کا کیا حال ہے؟ ان کو کس حال میں چھوڑآئے ہو؟ تو امام رضا ؑنے فرمایا کہ شہر مدینہ میں امامت کے گھر میں اور نبوت کے سائے میں تیرے فراق کی حسرت لئے وہ رو رہی تھیں؟
امام موسیٰ کاظم ؑنے امام علی رضا ؑکو وصیتیں کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ بیٹا مجھے غسل بھی تو نے دینا ہے۔۔ کفن بھی تو نے دینا ہے۔۔ اس لئے کہ معصوم کو سوائے معصوم کے کوئی غسل نہیں دے سکتا۔
تو اما م رضا ؑنے فرمایا کہ بابا ایک سوال ذہن میں ہے اگر تکلیف نہ ہو تو عرض کروں؟ امام فرماتے ہیں کہ بیٹا پوچھو۔۔ عرض کیا بابا جان!  آپ کا بستر یہی ہے؟ امام فرماتے ہیں ہاں بیٹا، امام رضا ؑفرماتے ہیں کہ یہیں رہتے ہیں؟فرمایا ہاں بیٹا، تو امام رضا ؑفرماتے ہیںکہ جب دروازے سے داخل ہوا ہوں اور دیواروں پر مجھے خون نظر آیا ہے کوئی دیوار خون سے خالی نہیں تھی؟
امام موسیٰ کاظم ؑفرماتے ہیں کہ آج تیسرا دن ہے کہ مجھے زہرملی ہوئی ہے اور  زہر کی وجہ سے میرا خون اور جگر کے ٹکڑے باہر کو آتے ہیں، یہ دیواروں پر تیرے بابا کا خون ہے، امام رضا ؑنے عرض کیا بابا جان!  بڑی تکلیف کی گھڑی گزری؟
سامعین !  بس کیا عرض کروں کہ امام موسیٰ کاظم ؑنے پائوں دراز کئے۔۔ اپنی  آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور امام رضا ؑبابا کو غسل و کفن دینے کے بعد غائب ہو گئے،  صبح کو اعلان ہو اکہ رافضیوں کا امام ؑ جہانِ فنا سے کوچ کر گیا۔۔ بڑی درد ناک خبر تھی۔
امام ؑسے کسی نے دریافت کیا کہ ہم نمازپڑھتے ہیں۔۔ روزہ رکھتے ہیں۔۔ اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہیں تو پھر رافضی کیسے؟
امام ؑفرماتے ہیں پہلے بھی ہر دَور میں آئمہ ؑکے ماننے والوں کو رافضی کہا جاتا تھا لیکن آپ احکامِ اسلامی کی پابندی کریں اور ان کے رافضی کہنے کو برا محسوس نہ کریں۔
 امام ؑکی شہادت کے بعد اب خدا جانتا ہے کہ خو ف تھا یا کوئی اور وجہ کہ کسی مسلمان نے قید خانے میں جانے کی جرأت نہ کی؟ حالانکہ یہ ایک سید۔۔ امام۔۔ فرزند رسول ہے لیکن مسلمان یہ کہہ کر کہ رافضیوں کا امام ؑہے کفن ودفن کرنا بدعت سمجھ کر دور ہو گئے؟
چار مزدور آئے وہ قید خانے میں گئے اور انہوں نے اسیر بغداد کا میت اٹھایا؟ آپ شاید یہ سمجھیں کہ چار پائی منگوائی گئی ہوگی اور میت امام ؑپر کپڑا بچھایا گیا ہو گا یا کوئی تابوت ہوگا؟  خدا گواہ ہے جس چٹائی پر میرے امام ؑ نے دارِ فنا کو خدا حافظی کی تھی اُسی چٹائی کے چاروں گوشے خود مزدوروں نے پکڑے اور اُٹھاکر گلی میں رکھ دیا اور شہر بغداد میں اعلان کر دیا کہ یہ رافضیوں کا امام ہے؟
اگر آپ کو نجف اشرف جانا نصیب ہو تو وہاں کے مومنین اسیر بغداد کے غم میں بغداد کی پل سے ایک تابوت لے جاتے ہیں جس پر زنجیر لٹک رہے ہوتے ہیں اور ان کا نوحہ اور یہ بین ہوتا ہے کہ یا بابُ الحوائج  اے امام موسیٰ کاظم ؑ!
جب آپ جنازہ کو اٹھانے والا کوئی نہ تھا اور مزدوروں نے جنازہ اٹھایا اُس وقت آپ کے یہ نوکر کہا ں تھے کہ آپ کا جنازہ اُٹھاتے؟ اگر یہ نوکر وہاں ہوتے تو مزدور آپ کا جنازہ نہ اٹھاتے؟
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

سادات تے ظلم عباسیاں دے تاریخ دا منہ شرما گئے
سنڑ واقعہ موسیٰ کاظم دا دارین دا دل گھبرا گئے
میڈا چودہ سال دا قیدی آقا تیڈا درد جگر کوں کھا گئے
تیڈے وطن تے اُنوی پتر آہن مزدور جنازہ چا گئے