التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

گیارہویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

خداوندکریم نے زمین اور اس کی تمام تر پیداوار انسان کیلئے پیدا کی۔۔ چاند اس کیلئے۔۔ سورج اس کیلئے۔۔ ستارے اسی کیلئے۔۔ ہوائیں اس کیلئے۔۔ گویا سب کچھ اس کیلئے ہے اور اس کو دعوت دی ہے خَلَقْتُ الْخَلْقَ لَکَ وَ خَلَقْتُکَ لِی یعنی یہ ساری کائنات تیری عبد ہو اور تو میرا عبد بن جا۔
اس کی مفت و بلا قیمت ہوا کے مقابلہ میں زرخرید ہوا کا مقابلہ کیجئے تقریبا ایک گھنٹہ میں کروڑ رہا روپیہ کی ہوا خرچ ہوتی ہے لیکن بایں ہمہ قدرتی مفت ہوا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔ اس طرح کروڑہا روپیہ کی روزانہ کی مصنوعی روشنی اس کی ایک گھنٹہ کی مفت روشنی کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟ اسلئے ذاتِ وحدانیت نے فرمایا ہے  اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لا تُحْصُوْھَا اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنے لگوتو شمار نہیں کر سکو گے۔۔۔۔ پس معرفت ہی عبادت الٰہیہ کا زینہ ہے۔
ایک مرتبہ ایک سائل حضرت امام حسین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مولا! ایک ہزار درہم کا مقروض ہوں اور سوچا ہے کہ کسی کریم کا دروازہ کھٹکھٹاوں، پس آپ ؑ نے فرمایا میں تم سے تین سوال کرتا ہوں اگر ایک سوال کا جواب دیا تو  ایک تہائی تجھے دوں گا۔۔ اگر دو کا جواب دیا تو دو تہائی۔۔ اگر سب کا جواب دیا تو پورا مطالبہ دوں گا، اس نے عرض کیا حضور!  میری کیا مجال کہ آپ ؑ کے سوالات کو حل کرسکوں؟ آپ ؑ نے فرمایا میرے نانا کا فرمان ہے  اَلْمَعْرُوْفُ بِقَدْرِ الْمَعْرِفَۃ  یعنی نیکی اور احسان منفعت کی مقدار سے ہونا چاہیے لہذا تیری معرفت کے اندازہ سے تجھ پر احسان کروں گا، اس نے کہا حضور سوالات کیجئے اگر معلوم ہو گا تو عرض کروں گا ورنہ آپ ؑ سے سیکھ کر جہالت کو دور کرلوں گا، آپ ؑ نے فرمایا سب عبادتوں سے افضل عبادت کونسی ہے؟ تو اس نے جواب دیا مَعْرِفَۃُ اللّٰہ، آپ ؑ نے فرمایا مصیبت کے وقت سہارا کیا چیز ہوتی ہے؟ اس نے جواب دیا تَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ آپ ؑ نے فرمایا انسان کی زینت کیا چیز ہے ؟ تو جواب دیا عِلْمٌ مَعَ الْعَمَل آپ ؑ نے فرمایا اگر یہ نہ ہوتو؟ اس نے کہا اَلْغِنٰی مَعَ السَّخَایعنی دولت مندی سخاوت کے ساتھ، آپ ؑ نے فرمایا اگر یہ نہ ہو تو؟ اس نے کہا اَلْفَقْرُ مَعَ الصَّبْر آپ ؑ نے فرمایا اگریہ بھی ہوتو؟ اس نے کہا بجلی آسمان سے گرے اور اس کو ختم کردے، آپ ؑ نے فوراً اس کو منہ مانگے درہم عطا کیے اور ایک انگشتری انعام میں دی جس کے نگینے کی قیمت چار سو درہم تھی (بحارالانوار)
 اسی بنا ٔ پر مولا امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں اَوَّلُ الدِّیْن مَعْرِفَتُہ دین کا پہلا زینہ معرفت خداوندی ہے۔۔۔ اور خدا وندکریم نے فرمایا ہے کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَأحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَف یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ پہچانا جائوں پس مخلوق کو پیدا کیا تاکہ پہچانا جائوں۔۔۔ پس اس معرفت میں سب سے آگے نورِ محمدی ہے جبھی تو خطاب ہوا لَوْلاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْلاک اگر تو نہ ہوتا تو افلاک نہ ہوتے۔۔۔ حضرت امیر المومنین ؑ اپنے مقام معرفت کو بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں لَوْ اِنْکَشَفَ الْغِطَائُ مَا ازْدَدْتُ یَقِیْنًا یعنی اگرحجاب ہائے قدرت ہٹ جائیں تو میری معرفت ویقین میں اضافہ نہ ہوگا حالانکہ تمام انبیا کا اس مقام پر اعتراف موجود ہے مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِک یعنی ہم نے تیری معرفت حاصل نہیں کی جو معرفت کا حق تھا۔۔۔ پس وہ اپنی معرفت میں اضافہ کے خواہشمند تھے کیونکہ ان کے آگے منازلِ معرفت موجود تھیں اور حضرت علی ؑ اپنی معرفت کے آگے کسی مزید منزل کے خواہاںنہیں تھے کیونکہ ان کی معرفت اس منزل تک تھی جس کے بعدکوئی منزل نہیں یعنی انسان کیلئے جس حد تک پہنچناممکن ہے حضرت علی ؑ اس پر فائز تھے۔
معرفت کی منازل میں پہلا درجہ اسلام، دوسرا اِیمان، تیسرا اِیقان، چوتھا اطمینان ہیں ۔۔۔ یا یوں سمجھئے کہ پہلا یقین، دوسرا علم الیقین، تیسرا عین الیقین اور چوتھا حق الیقین ہے، یہ اس طرح ہے کہ بلا دلیل بات کو مان لینا ہے اسلام یعنی جھک جانا لیکن اس قسم کا یقین پائیدار نہیں ہوتا۔۔ پھر جب دلیل و برہان سے ثابت ہوجائے تو اس پر یقین رکھنے کا نام ایمان یا علم الیقین۔۔ اور آنکھوں سے مشاورہ کرلینے کا نام ہے عین الیقین اور چکھ لینے کا نام ہواکرتا ہے حق الیقین، مثلاًپہلا درجہ آگ کو مان لینا دوسرا درجہ دھواں دیکھ کر یقین کرنا تیسرا درجہ شعلے کو دیکھ کرماننا چوتھا درجہ ہے گرمی چکھ کر باور کرنا۔۔ اور ہر بعد والا درجہ پہلے سے محکم تر ہے اور ہر درجہ میں اسلام اور یقین کی شان الگ الگ ہے اور حق الیقین کی منزل پر محمد وآلِ محمد علیہم السلام فائز تھے۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ جس اسلام کو مانگ رہے تھے وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَک وہ اسلام کا پہلا درجہ نہیں تھا بلکہ نبوت و رسالت کی موجودگی میں جو درجہ تسلیم ورضا کا اس کے بعد تھا حضرت ابراہیم ؑ اس کے خواہاں تھے۔۔ جس طرح پرندوں کو زندہ کرکے آنکھوں سے دیکھا اور اطمینان پیدا کیا حالانکہ پہلے بھی آپ ؑ کو یقین تھا پس وہ حق الیقین کے طالب تھے اور مولا علی ؑ حق الیقین کے درجہ پر فائز تھے یہ حق الیقین کی منزل تھی کہ مصائب جس قدر ہجوم کرکے آرہے ہیں امام حسین ؑ کے استقلال اور ثبات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک جرمن مورّخ نے سچ کہا ہے کہ یزید کے بعد لاکھوں، کروڑوں یزید آئے لیکن امام حسین ؑ کے بعد دوسرا حسین ؑ نہ بن سکا؟ تو اس کی وجہ بھی خود بتاتا ہے کہ یزید کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یزید کی ماں جیسی لاکھوں بلکہ کروڑوں بدکردار مائیں پیداہوئیں اسلئے لاکھوں، کروڑوں یزید پیدا ہوگئے۔۔ لیکن امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد امام ؑ کی طیبہ و طاہرہ ماں جیسی نہ ماں پیدا ہوئی اور نہ امام حسین ؑ جیسا فرزند پیدا ہوا۔۔۔۔ یہ وہ ماں تھی جو شب جمعہ دونوں شہزادوں کو پہلو ہیں کھڑا کر لیا کرتی تھی اور فرماتی تھی بیٹے یہ درست نہیں کہ دنیا کی مائوں کے بیٹے بھی شب جمعہ سو کر گزاریں اور تم زہراؑ کے بیٹے بھی سو کر گزار دو؟
ہائے نماز کی لذت کوئی امام حسین ؑ سے پوچھے یا پھر جناب زینب عالیہ ؑ سے دریافت کرے جس نے اپنے بھائی کی نماز دیکھی۔۔۔ بے شک بے نمازکا شیعہ کہلوانا امام حسین ؑ کو برالگتا ہے اور امام حسین ؑ کی روح کو شمرکی تلوار سے زیادہ زخم لگتا ہے شیعہ کا بے نماز ہونا۔۔ اور زینب عالیہ ؑکی ماتم دار بیبیاں سوچیں کہ بے نماز خاتون زینب عالیہ ؑ کیلئے تیرِ جگر ہے جس نے ہر مصیبت کو برداشت کرکے نماز کو بچایا تھا۔
ہائے!  یہ بی بیؑ ملکہ شرم و حیا تھی کہ اپنے بابا سے سوال کرنے میں شرم محسوس کرتی تھی، کہتے ہیں خاتونِ جنت کی وفات کے بعددونوں بہنوں نے آپس  میں مشورہ کیا کہ بابا سے اجازت لیکر جنت البقیع جائیں اور اپنی والدۂ معصومہ کی قبر کی زیار ت کریں۔۔ چنانچہ چند روز متواتر مشورہ کرتی رہیں لیکن موقعہ پر رعب وجلال مانع ہو جاتا تھا آخرکار حضرت امیر المومنین ؑ نے خود پوچھا لیاتم کیا چاہتی ہو؟ پس دونوں نے عرض کیا باباجان!  ماں کی قبر کی زیارت کیلئے دل بے چین ہے، پس حضرت امیر ؑ نے بعد از نمازِ عشا گلیوں سے شمعدان اور چراغ بجھوا دئیے اور دونوں شہزادیاں اپنے بھائیوں کے ہمراہ باپ کے سائے میں جنت البقیع گئیں اور اسی شان میں واپس پلٹیں۔۔ ہائے!  اس مخدومہ نے اپنے بھائی کے قاتل کے سامنے کس طرح سوال کیا ہوگا؟
چنانچہ کہتے ہیں کہ کوفہ کے قریب یہ قافلہ پہنچا تو مخدومہ بی بیؑ نے جناب فضہ ؑ سے فرمایا ان ظالموں سے کہو ہم پردہ دار ہیں اور اس حالت میں بازار سے جانے کے قابل نہیں ہمیں شارع عام سے نہ لے جایا جائے اور اگر ایسا کرنا ہے تو پھر ہمیں سر ڈھانپنے کو چادریں دی جائیںتاکہ اپناسر اور منہ نا محرموں سے چھپا سکیں؟ جناب فضہ ؑ نے شمر کو پیغام دیا تو اس شقی نے جواب دیا کہ اپنی مخدومہ ؑ سے کہو کہ تم اب کوفہ کی شہزادی نہیں ہو بلکہ ابن زیاد کی قیدن ہو لہٰذاتم کو اسی حال میں جاناپڑے گا۔
دربار پہنچ کر ایک کونہ میں جا کر بیٹھ گئیںتو کنیزیں سامنے بیٹھیں۔۔ نہ معلوم اس مخدومہ پروہ وقت کیسے گذرا ہو گا جب دیکھا ہو گا کہ جس منبر پر چند سال قبل ہمارے بابا مولا مشکل کشا ؑ جلوہ گر تھے آج اسی منبر پر ایک دشمن دین،شرابی اور حرامزدہ بیٹھا ہے؟ اور منبر کے نیچے اپنے بھائی کا خون آلودہ سر طشت طلا میں ہے؟ اور نہ معلوم دل پر کیا گذری ہو گی جب اس شقی نے دریافت کیا ہوگا کہ یہ حالِ پریشان چشمِ گریاں بی بی کون ہے جس کو کنیزوں نے احاطہ میں لئے ہوئے ہے؟ اور جواب دیا گیاہوگا کہ یہی امام حسین ؑ کی پُر ارمان بہن اور حضرت علی ؑ کی غیور بیٹی زینب ؑ ہے۔
ظالم نے اندازِ تکبر سے مخدومہ کو خطاب کر کے اپنے ظلم و استبداد پر ناز کیا اور امام حسین ؑ کے قتل پر فخر کیا تومولا علی ؑ کی شیر دل شہزادی سے سہا نہ گیا اور فرمایا: اے کمینہ!  میرے بھائی پر خدا کی طرف سے درود و سلام ہے۔۔میرا بھائی مظلوم مارا گیااور تم لوگوں نے ہم عترتِ رسول کو رسوا کیا کل بروز قیامت جوابدہی کی تیاری کر لو۔
اپنے تعارف کا بی بی نے وہ خطبہ پڑھا کہ اہل کوفہ دنگ رہ گئے۔۔ بی بی نے اس ظالم سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ ہمیں اُس قید خانہ میں رکھا جائے جہاں غیر ملکی کنیزیں موجود ہوں اور وہاں ہم کو پہچاننے والا کوئی نہ ہو۔