التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چوتھی مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

عبدیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مال وجان اس کی راہ میں قربان کردے نہ اپنے مال پر ملکیت کادعویٰ رکھے اورنہ اپنے جسم پر ملکیت کا سکہ قائم کرے۔
دیکھئے۔۔ کسی کی حکومت کاعملی اعتراف اس حکومت کے سکہ کی مقبولیت سے ہوا کرتا ہے اگر ملک میں کسی حکومت کا سکہ رائج نہیں تو یقین ہوا کرتا ہے کہ وہ حکومت یہاں نہیں بلکہ حکومت اس کی ہے جس کا سکہ ہے۔۔۔ مملکت بدن میں اگر خدائی سکہ رائج ہوتو سمجھو کہ یہ خدائی ملک ہے ورنہ جس کاسکہ اس کاملک،خدانہ کرے کہ ہمارے بدن میں ابلیس کی حکومت ہو اورخدا نہ کرے کہ ہمارے مال ومتاع میں شیطان کو خراج ادا کیا جاتا ہو؟
پس ہمیں خدائی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اوراہل بیت ؑ اطہار نے اپنے مال وجان میں خدائی حقوق کا عملی اعتراف کرکے دکھایا کہ عبدیت کی تفسیر یہ ہے خداوند  ہمیں اُن کے اسوۂ حسنہ پر گامزن ہونے کی توفیق دے (آمین)
اسی طرح خداوند حدیث قدسی میں فرماتا ہے عَبْدِیْ کُنْ لِیْ اَکُنْ لَک اے بندہ تو میرا ہوجاتو میں تیرا ہوجاوںگا،  عَبْدِیْ اَطِعْنِیْ اَجْعَلُکَ مَثَلِی اے بندہ تو میری اطاعت کر تو میں تجھ کو اپنے جیسا بنادوں۔۔۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح میں چاہتا ہوں اورچیز ہوجایا کرتی ہے اے بندہ! اگر تو میری پوری اطاعت کرے گا تو تجھے یہ طاقت دونگا کہ تو بھی کسی شئے کے متعلق ارادہ کرے گا تو وہ شئے بھی ہوجائے گی گویا تیرے قول وفعل کو تقدیر بنادوں گا۔
یہی وجہ ہے کہ اہل بیت ؑ نے ارادہ کیا اور وہ چیز ویسے ہو گئی مثلاً آنکھوں سے دیکھتے دیوار سونے کی ہو گئی، بتول عذرا نے وعدہ کیا اور ارادہ کیا تو لباس جنت سے آگئے، آنے والے نے دروازے پر صدا دی کہ اَنَا خِیَاطُ الْحَسَنَیْن اپنے آپ کو نہ مَلک کہا اور نہ دربانِ جنت، گویا جو عبد ہو جائے تو ملائکہ کو بھی ان کے دروازے کی غلامی تمام عہدوں سے برتر نظر آتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک عبدیت سے اوپر کوئی منزل نہیں ہے۔
اسی بنا پر تو حضرت علی ؑنے بھی عبدیت کا مقام مانگا اور تشہد میں حضرت رسالتمآب کی عبدیت کی گواہی کو رسالت کی گواہی سے مقدم رکھا گیا اور شب معراج خدا نے تمام القاب میں سے لقب عبد کو پسند فرمایا  اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ  حضرت عیسیٰؑ نے اپنی نبوت و کتاب کے اظہار سے پہلے اپنی عبدیت کا اعلان فرمایا  اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتَاب پس مقصد یہ ہے کہ عبدیت ہی تمام خدائی عہدوں میں سے ممتازترین عہدہ ہے اور نبوت و امامت و رسالت و ولایت اس کے سامنے سرنگوں ہیں جو عبد نہیں وہ نہ نبی ہے نہ امام اور نہ رسول ہے نہ ولی۔
بیشک عبد ہونا عار ہے لیکن اس کا عبد ہونا جو خود عبد اور عاجز ہو۔۔۔ لیکن اس کا عبد ہونا جو مالک اور قادرِ مطلق ہو یہ انسان کیلئے باعث فخر ہے بلکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام عزت ہی نہیں ہے اور جو عبد پورا عبد ہو جائے تو مالک کا اگرچہ عبد ہو گا لیکن باقی عباد پر وہ حاکم ہو گا جیسا کہ عام قدر دان سرداروں کا دستور یہی ہے کہ وفادار اور اطاعت شعار غلام کو باقی غلاموں کا سردار بنا دیتے ہیں پس وہ عبد باقی غلاموں پر جو حکم نافذ کرے وہ آقا کا حکم سمجھا جاتا ہے اور جس سے منع کرے وہ آقا کی نہی سمجھی جاتی ہے۔
چنانچہ خداوند کریم نے اپنے رسول کے متعلق صاف فرمایاکہ جو حکم دے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے رک جائو اور رسالتمآب کے بعد آئمہ اہل بیت ؑ کی بھی یہی شان ہے کیونکہ ان کی عبدیت کا مقام بلند تر ہے، پس کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر ان کی حکومت کا سکہ ہے یہی وجہ ہے کہ سورج نے دوبارہ پلٹ کر ان کو سلام کیا اور نجم نے اُتر کر ان کی چوکھٹ پر جبہ سائی کی اور ملائکہ نے اسی دروازہ پر آسیہ گردانی اور مہد جنبانی کے فرائض انجام دئیے اوران کا وجودعالمین کیلئے باعث رحمت وفیض قراردیا گیا۔
چنانچہ حضرت امام حسین ؑ کی ولادت کی مبارکباد کیلئے فطرس یادردائیل یا صلصائیل دوش جبریل پر حاضر ہوا اورامام حسین ؑ کے جسم کے ساتھ جسم کو مس کرکے شفایاب ہوا اورواپس آسمان کی طرف فخر کرتا ہواگیا   مَنْ مِثْلِیْ وَاَنَا عَتِیْقُ الْحُسَیْن اب میرے برابر کون ہوسکتا ہے کہ میں امام حسین ؑ کا آزاد کردہ غلام ہوں؟
حضرت نوحؑ کو امت پتھر مارتی تھی حتی کہ آپ ؑ پتھروں میں دب جاتے تھے پس جبریل آپ ؑ کے جسم سے پتھر ہٹاتا اورزخمی جسم پر اپنے پرمس کرتا اور آپ ؑ تندرست ہوتے تھے۔۔۔ نبی زخمی ہوں تو فرشتے کے پر مرہم بنیں اوراگر فرشتہ زخمی ہوتو امام حسین ؑ کا جسم مرہم!
ہائے وہ کیسے مسلمان تھے جنہوں نے امام حسین ؑ کو پیاسا شہید کیا؟ امام حسین ؑ پہلے پیاسے تھے چنانچہ قبل ازولادت بھی اَنَاعَطْشَانٌ   شکم مادر سے آواز دیتے تھے پھر ماں ہررات کو ٹھنڈے پانی کا انتظام فرماتی تھیں اور بوقت شہادت بنابر قول جناب زینب ؑ کو وصیت کرگئی تھیں کہ بھائی کے سرہانے ہررات ٹھنڈے پانی کاجام رکھ دینا۔۔ ہائے آج کربلامیں امام حسین ؑ کی پیاس بڑھ گئی۔۔ دھوپ کی شدت۔۔ مصائب کی بھر مار۔۔ زمین گرم۔۔ ہوا گرم۔۔ پانی کی بندش۔۔ پھر عزیزوں کی موت کاصدمہ۔۔ پردہ داروں کا فکر اورجسم پر تیروں کی برسات؟
ہائے بہن نے کس حوصلہ سے دیکھا ہوگا کہ خشک لبوں پر زبان پھیر رہے تھے لیکن واہ رے استقلال امام حسین ؑ!  ممکن ہے بہن نے کہاہو بھائی جان پیاس کاکیا حال ہے؟ کیونکہ آج تیسری شب سے پانی کا انتظام نہیں ہوسکا؟ اوربنابر روایت آخر وقت شمر کو فرمایا میرے بھائی کو پیاسا نہ مار اورعمر سعد سے کہاکیا تو دیکھتا ہے اورمیرا بھائی پیاسا مارا جارہاہے؟
ہائے امام حسین ؑ کی پیاس کا بچوں کو کس قدر صدمہ تھا کہ گھوڑے کی زین کو خالی دیکھا تو ہاتھوں سے پانی کے خالی جام زمین پرپھینک دیئے کیونکہ اب یقین ہوگیا کہ پانی لانے والاکوئی نہیں رہا۔

گل نازک چمن رسالت دے جڈاں جھنڑ پئے وچ صحرا ئے
ہک ریت گرم بیا گرم ہوا گئے اکثر گل کملائے
بہوں غنچے برگ و برگ تھئے جڈاں گھوڑیاں قدم ودھائے
پا رات دا برقعہ نکھڑیاں کلیاں رہی چنڑدی عون دی مائے