التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اُنیسویں مجلس -- زَیِّنُوْا مَجَالِسَکُمْ بِذِکْرِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ لِأنَّ ذِکْرَہٗ ذِکْرِیْ وَ ذِکْرِیْ ذِکْرُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ اللّٰہِ عِبَادَۃٌ

اُنیسویں مجلس -- زَیِّنُوْا مَجَالِسَکُمْ بِذِکْرِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ لِأنَّ ذِکْرَہٗ ذِکْرِیْ وَ ذِکْرِیْ ذِکْرُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ الل
اپنی مجالس کو علی بن ابیطالب ؑ کے ذکر سے مزیّن کرو کیونکہ اس کاذکر میرا ذکر ہے اورمیراذکر اللہ کا ذکر ہے اوراللہ کا ذکر عبادت ہے۔
زینت کا معیار بدلتا ہے کیونکہ ہر دماغ کے نزدیک زینت کا معیار الگ ہے مثلاً بچہ ہے تو وہ زمین پر بیٹھنا اوراس پر لیٹنا زینت سمجھتا ہے پھر بڑا ہو کر جب اس کا ذہن بدلتا ہے تو معیارِ زینت بھی بدل جاتا ہے مثلاً کرسی وبستر پر بیٹھنا زینت سمجھتا ہے پھر ایک زمانہ میں عیاشی اورکھیل کود کو زینت سمجھتا ہے پھر ضعیفی کے زمانہ میں عبادت وقرآن خوانی اس کی زینت ہوتی ہے۔
اُنیسویں مجلس  --  زَیِّنُوْا مَجَالِسَکُمْ بِذِکْرِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ لِأنَّ ذِکْرَہٗ ذِکْرِیْ   وَ ذِکْرِیْ ذِکْرُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ اللّٰہِ عِبَادَۃٌ


نبی وہ ذات ہے جس کا جوانی وضعیفی میں معیارِ زینت ایک ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی عقل ناقص نہیں ہوا کرتی پس جوکسی دَور میں اس کے دماغ پر شک کرے وہ خود بددماغ ہے۔
پس نبی کریمؐ کا فرمان ہے علی ؑ کے ذکر سے مجالس کو زینت دو یعنی زینت نہ گھوڑوں سے۔۔ نہ جوڑوں سے۔۔ نہ محلات سے۔۔ نہ اولاد سے۔۔ نہ زرودولت سے۔۔ نہ حسین لباس سے، بلکہ تم مجالس کو علی بن ابیطالب ؑ کے ذکر سے زینت دیا کرو۔
خواہ مجلس ایک آدمی کی ہو۔۔ دس کی ہو۔۔ سوکی ہو۔۔ ہزاروں اورلاکھوں کی ہو۔۔ اسی طرح جنگل کی مجلس ہو یا گھر کی۔۔ امام با رگاہ ہو یا مسجد۔۔ زمین کی مجلس ہو یا عرش بریں کی۔۔ مجلس کی زینت ہے ذکرِ علی ؑ۔
سوال ہوتا ہے کہ حضور کا یہ فرمان کیسے ہو سکتا ہے جبکہ علی ؑ کے ذکر سے افضل ذکر ہے رسول اللہ کا ذکر؟ اور رسول اللہ کے ذکر سے افضل ذکر اللہ کا ذکر؟ تو انہوں نے افضل کو چھوڑ کر مفضول کو کیسے مجالس کی زینت قرار دیا؟
جواب یہ ہے کہ یہاں تین دائرے ہیں ایک بڑا دائرہ پھراس کے اندر دوسرا دائرہ پھر اس کے اندر تیسرا دائرہ۔۔۔ پس جوچیز بڑے دائرے کے اندر ہو ضروری نہیں کہ درمیانی دائرہ کے بھی اندر ہو لیکن جوچیز درمیانی دائرہ کے اندر ہوگی وہ بڑے دائرہ کے اندر ضرور ہوگی لیکن ضروری نہیں کہ چھوٹے دائرے کے بھی اندر ہو البتہ جو چیز تیسرے چھوٹے دائرہ کے اندر ہوگی وہ اپنے سے بڑے دونوںدائروں کے اندر ہوگی۔۔۔۔۔ توحید لا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کا دائرہ وسیع ہے اس میں تمام وہ لوگ داخل ہیں جو اللہ کو ایک مانتے ہیں اس کے اندر رسالت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا دائرہ ہے اورجواس دائرہ میں داخل ہیں وہ اس سے باہر والے تو حید کے دائرہ میں بھی داخل ہیں اوراس کے بعد آخری دائرہ ولایت عَلِیٌّ وَّلِیُّ اللّٰہ ہے اورجولوگ آخری دائرہ ولایت میں داخل ہیں وہ دائرہ نبوت وتوحید دونوںمیں داخل ہونگے پس جو عَلِیٌّ وَّلِیُّ اللّٰہ پڑھے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ اوراس سے پہلے لا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھے لہذا علی ؑ کا ذکر رسول کے ذکر اوررسول کا ذکر اللہ کے ذکر کو مستلزم ہے۔
سوال ہوتا ہے کہ تم علی کا نعرہ یاعلی کیوں لگاتے ہو؟ حالانکہ علی خود نعرہ اللہ اکبر لگایا کرتے تھے؟
تو میں کہوں گا بیشک جب حضرت علی ؑ اُحد وبدر وغیرہ میں مشرکین سے لڑے تو ان کا نعرہ اللہ اکبر تھا کیونکہ جو مقابلہ میں تھے وہ اللہ کی کبریائی کے مخالف تھے۔۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں لا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کے منکر نہیں تاکہ ہم نعرۂ تکبیر سے ان کو قائل کریں اورہمارے مقابلہ میں نبوت کے منکر نہیں تاکہ ہم نعرۂ رسالت سے ان کو قائل کریں بلکہ ہمارے مقابلہ میں ولایت علی ؑ کے منکر ہیں بس ہم اپنی مجالس میں صرف نعرۂ حیدری۔۔۔ یاعلی ؑ لگاتے ہیں۔
حضرت علی ؑ کے نام کے ساتھ ابن ابی طالب کا کہنا ایک نقطہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ جس مقام پر کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو فصیح وبلیغ۔۔ موقعہ شناس اور دانشمند متکلم کیلئے نازیباہے کہ تعریف کے مقام پر اوصافِ حسنہ بیان کرتے ہوئے اس کا کوئی ایسا پہلوبیان کردے جس میں اس کی نقصِ شان اور توہین ہو مثلاً فلاں آدمی شریف۔۔ نیک۔۔ دیانت دار۔۔ نمازی۔۔ تہجد گزار ہے اورساتھ ہی کہہ دے وہ جوفلاں چور یاڈاکو کا بیٹا ہے؟ تو یہ کہنے سے سابقہ اوصاف کو سن کرسامعین جس قدر متاثر ہوئے ہوں گے وہ سب شش وپنج میں پڑ جائیں گے اورجس کی تعریف کی جارہی تھی اس کا بھی سر شر م کے مارے جھک جائے گا۔۔۔۔ پس اس کی وہ شان نہ رہے گی جو ہونی چاہیے تھی؟ اس مقام پر پیغمبر اکرم ؐ حضرت علی ؑ کی تعریف کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ علی ؑ کے ذکر سے مجالس کو زینت دیا کرو پس حضرت ابوطالب ؑ کے ایمان ووفا میں اگر حضوؐر کو شک ہوتا یا اس کے کافر ہونے کا یقین ہوتا تو ابن ابی طالب کہنے سے گریز کرتے تاکہ نہ سامعین کے دماغوں میں علی ؑ کی منقصت کا پہلوداخل ہو اورنہ حضرت علی ؑ یہ سن کر خفت محسوس کریں؟ گویا پیغمبر اکرمؐ نے تعریف کے مقام پر علی ابن ابی طالب کہہ کر واضح کردیاکہ حضرت ابوطالب کا ایمان شک وریب سے بالاتر ہے ورنہ اس مقام پر اس کا نام نہ لیا جاتا۔
خود حضرت علی ؑ بھی مقامِ فخر میں اپنے والد ماجد ابو طالب کا نا م لیا کرتے تھے، چنانچہ جب حضرت علی ؑ نے جنگ جمل میں اپنے فرزند محمد بن حنفیہ کو روانہ فرمایا تو پہلے ان کو جنگ میں لڑنے کا ڈھب تعلیم فرمایا (کیونکہ جنگ جمل حضرت علی ؑ کی اولاد کیلئے ایک تربیتی کورس تھا اسلئے کہ سابقہ حکومتوں میں ان کو نہ فوجی خدمت کا موقع ملا اور نہ کسی محاذ پر گئے) نہج البلاغہ کے الفاظ ہیں:
تَزُوْلُ الْجِبَالُ وَ لا تَزُلْ نِدْ فِی الْاَرْضِ قَدَمَکَ أعِرْجُمْجُمَتِکَ لِلّٰہِ وَارْمِ بِبَصَرِکَ اَقْصٰی الْقَوْم وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہ۔
ز پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں لیکن تیرا قدم اپنے مقام سے پیچھے نہ ہٹے۔
ز زمین میں قدم ایسے گاڑھ دو جس طرح میخ لکڑی میں گڑ جایا کرتی ہے۔
ز اپنے سر کو عاریۃً اللہ کو دے دو (مرنے کی فکر نہ کرو اور موت سے نہ ڈرو)
ز لڑتے ہوئے دشمن کے آخری سپاہی تک نظر رکھو تاکہ دشمن کا ہر سپاہی سمجھے
کہ حضرت علی ؑ کے شیر کی تلوار میرے سر پر منڈلا رہی ہے۔
ز اپنی شجاعت پر بھروسہ نہ کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اوریقین کر لو کہ مدد اسی کی جانب سے ہوتی ہے۔
پس حضرت علی ؑ نے اپنے فرزند ِ شجاع کو گھوڑے پر سوار کیا اور تلوارِ آبدار و شرربار عطیہ ٔ پروردگار عطا فرما کر میدانِ کا رزار کی طرف روانہ فرمایا اور ایک مقامِ بلند پر کھڑے ہو کر جنگ کا نقشہ دیکھتے رہے جب محمد بن حنفیہ میدان سے انتہائی کامیابی کے ساتھ واپس پلٹے تو حضرت علی ؑ اسی گھوڑے پر وہی تلوار لے کر میدان کی طرف روانہ ہوائے اور فرمایا میری جنگ بھی بلند مقام پر کھڑے ہو کر دیکھتے رہنا، چنانچہ جب شاہِ مرداںاور شیر یزداں نے دشمن کی فوجوں کا صفایا کیا اور میدان سے واپس آئے تو (بقول بعض واعظین) محمد بن حنفیہ سے فرمایا بیٹے دیکھو علی ؑ کے بیٹے اُس طرح لڑتے ہیں جس طرح تم لڑے ہو لیکن ابو طالب ؑ کے بیٹے اِس طرح لڑتے ہیں جس طرح میں نے جنگ کی ہے۔
حضرت علی ؑ نے مدح کے مقام پر اپنے بیٹے کے سامنے اپنے باپ کی شجاعت پر فخر کیا (بقول بعض واعظین) اس کے بعد تیر کمان محمد بن حنفیہ کو دیا اور فرمایا کہ عائشہ کے اُونٹ کے زانو پر تیر مارو تاکہ وہ پسپا ہو اور مسلمان قتل سے بچ جائیں، محمد بن حنفیہ نے تیر مارا لیکن نشانے پر نہ لگا پس آپ ؑ نے بیٹے حسن ؑکو حکم دیا چنانچہ امام حسن ؑکا تیر نشانہ پرلگا اگرچہ یہ جنگ دونوںکے لئے تربیتی کورس تھا لیکن دونوںمیں فرق یہ ہے کہ معصوم اپنے کمال میں تجربہ کا محتاج نہیں ہوتا اور غیر معصوم تجربہ کا محتا ج ہوتا ہے۔
پس محمد بن حنفیہ کا سر خجالت سے جھکا اور پیشانی پر عرق کے قطرات نمودار ہوئے تو حضرت علی ؑنے یہ کہہ کر بیٹے محمد کو تسلی دی اور اس کی دلجوئی کی کہ تو اس کے برابر نہیں کیونکہ تو میرا بیٹا ہے اور وہ محمدمصطفی کا لخت جگر ہے اور حسن ؑکی کامیابی تیرے لئے باعث شرم نہیں بلکہ باعث فخر ہے۔۔۔۔۔ اس کے بعد تازیست محمد بن حنفیہ نے بابا کا یہ فرمان یادرکھا اور کبھی حسنین ؑکی برابری کا تصور تک نہ کیا۔
چنانچہ جنگ صفین میں ترقی کر کے محمد بن حنفیہ حضرت علی ؑ کی فوج کا جنرل تھا اور پوری کائنات میں مولا علی ؑواحد سلطان ہے جس نے میدانِ جنگ میں اپنی اولاد کولڑایا اور خود بھی لڑے۔۔ پس حضرت علی ؑنے فرمایا بیٹے میدانِ کا رزار میں گھس جائو اور شعلہ ٔ جوالہ بن کر دشمن کے مسیرہ پر ٹوٹ پڑو۔۔ چنانچہ محمد بن حنفیہ نے میسرہ دشمن پر بھر پور حملہ کیا اور جان کی بازی لگا کر خوب لڑے جب میسرہ پر فتح پا کر واپس پلٹے تو زرّہ کے سوراخوں سے خون رِس رہا تھا اور سینہ زخموں سے چور تھا پانی مانگااور شیر خدا نے اپنے نوجوان بیٹے کو سینے کا سہارا دے کر اپنے ہاتھوں جامِ شربت دیا اور محمد نے پیا۔۔ پھر حضرت علی ؑ نے فرمایا بیٹے میدانِ جنگ میں سستی مناسب نہیں اب فوراً دشمن کے میمنہ پر حملہ کر دو۔۔ چنانچہ محمد بن حنفیہ نے تعمیل حکم کے طور پر شیر بیشہ شجاعت کی حیثیت سے دشمن کے میمنہ کو للکارا اور میدان میں گھس گئے، چنانچہ اپنی ہمت اورخداداد شجاعت کے جوہر دِکھا کر فوجوں کا صفایا کرکے واپس پلٹے تو حسب سابق حضرت علی ؑنے اپنے پیارے بیٹے کو پانی پلایا۔۔ اس دفعہ زخموں کی تعداد بہت زیادہ تھی اورخون اُبل رہاتھا لیکن پھر حضرت علی ؑنے فرمایا بیٹے سستی کو دور کرو اور جا کر آخری حملہ قلب لشکر پر کرو۔۔ چنانچہ حضرت علی ؑکے شیر نے دشمن کی ٹڈی دل فوج کو تھوڑی دیر میں پسپاکردیا اورفاتحانہ انداز سے واپس آئے تو مولا ؑ نے فرمایا بیٹے اب الگ خیمہ میں جاکر آرام کرو چنانچہ حضرت محمد بن حنفیہ نے الگ خیمہ میں جاکر آرام کیا۔۔۔ اتنے میں ایک منافق نے موقعہ پاکر محمد بن حنفیہ کو بہلانے کی کوشش کی اگر چہ ظاہراً زبان میں محبت تھی لیکن دل میں بغض علی ؑ تھا۔۔ کہنے لگا تیرے باپ نے تجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا کیونکہ اس کو تیرے ساتھ محبت کم ہے؟ دیکھوحسن ؑوحسین ؑ پیارے ہیں ان کو خیمہ میں بٹھائے ہوئے ہے اورتجھے تین بارمسلسل ولگاتار اژدھائے موت کے منہ میں دھکیلتے رہے؟ اپنے جسم کی حالت تو دیکھوکہ کوئی جگہ زخموں سے خالی نہیں مناسب یہ تھا کہ ایک دفعہ تجھے اورایک ایک دفعہ ان کو بھیجتا؟
یہی سننا تھا کہ علی ؑکے شیر کے تیور بدلے اورپیشانی پر بل آیا فرمایااونابکار میرے امام بابا کے حق میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کر وہ حق ہے اورحق کے ساتھ ہے حسنین ؑ کا سایہ میں بٹھانا حق ہے اورمجھے لڑاناحق ہے (الفاظ اگر چہ میرے ہیں لیکن مضمون روایت اسی طرح ہے) اس شخص نے کہا اے فرزندامیرالمومنین ؑ مجھے سمجھایئے؟ تو حضرت محمد بن حنفیہ نے سمجھانے کے انداز سے پوچھا بتائو تیرے جسم کے تمام اعضا ٔ تجھے پیارے ہیں؟ یاکچھ پیارے ہیں اورکچھ نہیں؟ اس نے کہاکہ سب پیارے ہیں آپ نے فرمایا پھر ہمیشہ چلنے کی خدمت پائوں سے لیتا ہے کبھی تو یہ خدمت سریاہاتھوں سے لیاکرو؟ اس نے کہا پائوں چلنے کیلئے پیارے ہیں یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔۔۔ آپ نے فرمایا اگر دشمن تیر مارے جو سیدھا تیری آنکھ کی طرف آرہاہو تو کیا کرے گا؟ کہنے لگا ہاتھ کوڈھال بنا کر آنکھ کو بچالوں گا، آپ نے فرمایااس کا مقصد یہ ہے کہ تجھے آنکھ پیاری ہے اور ہاتھ پیارا نہیں؟ اس نے کہا ہاتھ پیارا اسلئے ہے کہ سر کی ڈ ھال بنے۔۔ آپ نے فرما یااب تیرے سوال کا جواب آگیا دیکھو حسنین ؑ شریفین بابا علی ؑکی آنکھیں ہیں اور میں علی ؑکا ہاتھ ہوں جب تک ہاتھ ہیں حس وحرکت موجود ہے آنکھیں محفوظ رہیں گی۔
بہر کیف اصل میرا بیان یہی تھا کہ علی ؑکا ذکر زینت مجالس ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں علی ؑجیسا امام دیا اور یہ وہ نعمت ہے جس کا شکر ادا ہو سکتا ہی نہیں۔۔ اگر آدم ؑ تا قیامت زندگی ہو اور پوری زندگی عبادتِ خدا میں بسر ہو جائے جسم گل سڑ جائے۔۔ ہڈیاں بو سیدہ ہو جائیں۔۔ خون خشک ہو جائے تاہم اتنی لمبی عبادت کے باوجود اللہ کی صرف اس نعمت کا شکر ادا نہیں ہو سکتا کہ اس نے ہمیں علی ؑ امام عطا فرمایا ہے۔
دیکھئے۔۔۔ ہر زمین کاشت ہونے والے بیجوں کی مزاج شناس ہوتی ہے اسی بیج اور اسی پودے کو پروان چڑھاتی ہے جو اس کے مزاج کے موافق ہو۔۔ پس کاشتکار وہی کامیاب ہے جو زمین کا مزاج شناس ہو۔۔ پہلے دیکھئے کہ یہ زمین کس بیج کیلئے موزوں ہے؟ پس وہی بیج کاشت کرے۔۔ ورنہ نا موزوں بیج کا زمین کے پیٹ میں گل سڑ جانا زمین کا قصور نہیں بلکہ اس کاشتکار کا قصور جس نے زمین کے مزاج کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی؟ یا زمین کا مزاج جاننے کے باوجود اس میں نا موزوں بیج کاشت کیا۔۔۔ ہمیں تجربہ ہے کہ بعض زمینیں گندم کیلئے موزوں ہیں لیکن چنے کیلئے اَن فٹ ہیں بعض چاول پیدا کرتی ہیں اور کپا س کیلئے موزوں نہیں و علی ہذا القیاس، پس ہر زمین میں وہی پودا پروان چڑھتا ہے جو زمین کے مزاج کے موافق ہو۔
اے شیعہ! تیرے دل و دماغ کی زرخیز زمین شجرۂ طیبہ ولائے محمد وآل محمد علیہم السلام کیلئے موزوں ہے اس زمین میں شجرۂ خبیثہ اُگ سکتا ہی نہیں کیونکہ اس زمین کا مزاج شجرۂ خبیثہ کو قبول ہی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ لیکن یاد رکھو! اگر دل میں شجرۂ طیبہ ولائے محمد وآل محمد علیہم السلام ہے تو اس شجرہ کا پھل وہ ہونا چاہیے جو اس شجرہ سے مناسبت رکھتا ہو۔۔ ایسا پھل نمودار نہ ہو جو شجرہ خبیثہ سے مناسبت رکھتا ہو؟ پس یہ شجرہ نماز۔۔ روزہ اور نیک اعمال کیلئے ہے، اس شجرہ پر بے حیائی اور بد کاری کا ثمرہ نہیں لگ سکتا کیونکہ نجس پھل شجرۂ خبیثہ سے مناسبت رکھتے ہیں۔
عزادار کے دل میں قبر حسین ؑہے تو نجس غذا یا شراب پیتے وقت وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ یہ شراب کس قبر پر گرا رہا ہوں؟ یا اس نجس غذا کے ذرّات کس قبر پر گر رہے ہیں؟
بعض لوگ بے نمازی کا عذر کرتے ہیں کہ ہمیں نماز میں خیالات آتے ہیں لہذا ایسی نمازمقبول ہی نہیں؟ تو گزارش ہے کہ تیرے دل و دماغ کی زمین کو ولائے علی ؑکی وجہ سے وہ زرخیزی نصیب ہے کہ اس میں نیکی کا ہر بیج کامیاب ہے اور ایک کے بدلہ میں ہزاروں لاکھوں گنا نصیب ہوگا، البتہ ان لوگوں کی عبادت نماز وروزہ وغیرہ بیکار ہیں جن کے دلوں میں ولائے علی ؑ نہیں اور ان کی زمین عمل شور ہے بس ان کا ہر عمل ضائع اور برباد ہوگا۔۔۔ چنانچہ معصوم ؑنے فرمایا گر ستر نبیوں کے اعمال بھی اس کے نامہ اعمال میں ہوں لیکن ہماری وِلا نہ رکھتا ہو تو اعمال کی گٹھڑی سمیت اوندھے منہ جہنم میں گرایاجائے گا۔
آپ لوگ زرخیز زمین پر نگا ہ کریں جس میں گندم بوئی گئی ہے کیا وہ زمین گندم کے علاوہ کسی دوسری بوٹی کو پیدا نہیں کرتی؟ ہم نے دیکھا ہے گندم کے علاوہ ہزاروں بیکار جڑی بوٹیاں اور خود رو پودے اس میں کاشتکار کی مرضی کے خلاف اُگ آتے ہیں اور مختلف ادویہ کا سپرے کر کے ان کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے پھر بھی وہ بچ جاتے ہیں اور یہ زمین کی خاکی فطرت ہے۔۔ لیکن کبھی زمیندار زمین کی اس فطرت سے تنگ آکر گندم کاشت کرنے سے بخل نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہے یہ زمین اپنی خاکی فطرت نہیں چھوڑے گی تاہم جب فصل کے پکنے کا وقت آئے گا وہ غلط بوٹیاں اور بیکار پودے پہلے گل سڑ جائیں گے اور مجھے پوری فصل نصیب ہوگی لہذا زمین کی فطرت سے مجھے نبردآزما ہونے کی کیا ضرورت؟
اسی طرح اے مومن! تیرے دل ودماغ کی زمین ایمانِ ولائے علی ؑکے صدقہ میںانتہائی زرخیز ہے توجب تو نے اس میں نماز کی کاشت کی تو اس نے اپنی خاکی فطرت کے ماتحت غلط قسم کے خیالات لانے شروع کر دئیے اور یہ خیالات زمین کی جڑی اور بے کار بوٹیوں کی مثال ہیں۔۔۔ کیونکہ اس جسم کی فطرت خاکی ہے نوری نہیں لہذا فضول خیالات کے ڈرسے اپنی ایمان کی زرخیز زمین کو نماز و دیگر عبادات کی کاشت سے محروم نہ کرو۔۔ بروز قیامت جب ان عبادات کے فصل کی برداشت ہوگی تو غلط خیالات مرجائیں گے اور تجھے جزا پوری ملے گی لہذاتجھے گھبرانے کی کیا ضرورت ؟ تم اپنا کام کرو اور یہ خاکی فطرت اپنا کام کرتی رہے۔
یادرکھو! اس اسلام پر کسی نے لگایا کچھ نہیں اور ہم نے بچایا کچھ نہیں۔۔ ہمارے پاس کیا بچ گیا؟ جب ہماری آقا زادیاں کھلے سر بازاروں میں گئیں؟ ایک شخص نے معصوم ؑ سے عرض کیا کہ شہادت آپ کی خاندانی روایت ہے لہذآپ زیادہ گریہ نہ کریں۔۔ تو آپ نے فرمایا تو نے انصاف نہیں کیا بیشک شہید ہونا تو ہماری خاندانی روایات کے مطابق ہے لیکن بہو۔۔ بیٹیوں۔۔ مائوں اور بہنوں کاکھلے سردربار وبازار میں جانا بھی آلِ رسول کی خاندانی روایات کے مطابق ہے؟
میں نے اپنی کتاب ـ’’اصحاب الیمین‘‘ـ میں اس واقعہ کو درج کیا ہے کہ جب واقعہ حر ّہ پیش آیا اور یزید عنید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا۔۔ تین دن مسلسل قتل عام کا بازار گرم رہا۔۔ منبر رسول سے قبر رسول تک زمین خون سے لالہ زار ہوگئی اور اگلے سال بے شوہر عورتوں کے ہزاروں بچے پیدا ہوئے اس افراتفری میں عبدالرحمن بن عقیل کا یتیم شہزادہ قاسم اپنی بیوہ ماں اور تین بہنوں کو لے کر مدینہ سے نکلا اور جنگلوں کی خاک چھان چھان کر کوفہ کی سر زمین میں وارد ہوا۔
اس زمانہ میں حضرت امیر مختار برسر اقتدار تھے اور دشمنانِ حسین ؑ سے بدلہ لے رہے تھے۔۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عقیل کاقاتل عثمان بن خالد جہنی بھاگنا چاہتا تھا کہ مختار کی پولیس کے ایک گشتی دستہ نے مشکوک حالت میں اسے گرفتار کرلیا، جبکہ وہ عبدالرحمن بن عقیل کے ہی گھوڑے پر سوار تھا پس دربار میں لایا گیا، لوگ عبدالرحمن بن عقیل کے گھوڑے کے ارد گرد جمع ہو کر گریہ و زاری میں مصروف تھے کہ اچانک ابو عمرہ (جو کوفہ کا پولیس افسر تھا) نے قاسم بن عبدالرحمن کو دربار میں حاضر کیا، امیر مختار نے سوال کیا یہ کون ہے؟ توجواب ملا کہ عبدالرحمن بن عقیل کا یتیم شہزادہ قاسم ہے۔۔ ممکن ہے بلکہ روایت کا یہی تقاضا ہے کہ مختار نے کھڑے ہو کر شہزادہ کا استقبال کیا ہوگا اور اسے کرسی پر جگہ دی ہوگی اور رو رو کر کہا ہو گا اے لو گو! تم گھوڑے کے گرد جمع ہو کر ماتم و گریہ میں مصروف ہو اِدھر دیکھو اُس گھوڑے سوار کا فرزند قاسم بن عبدالرحمن یہ موجود ہے۔۔ چنانچہ لوگوں کا گریہ زیادہ ہوا اور شہزادے سے امیر مختار نے دریافت کیا اب کیا ارشاد ہے؟ تو قاسم نے فرمایا اپنے باپ کے قاتل کو میں خود قتل کروں گا۔۔ چنانچہ وہ ملعون قتل ہوا۔
اب شہزادہ کومومنوں نے محبت و پیار کی نگاہوں سے دیکھا لیکن باپ کے قاتل کو قتل کرنے کے باوجود بھی قاسم کا چہرہ مرجھایا ہوا دیکھ کر لوگ حیران ہوئے آپ نے کہا میں کیا بتائوں؟ میرے ہمراہ میری بیوہ ضعیفہ ماں اور تین جوان بہنیں ہیں جنھوں نے کئی دنوں سے کھانانہیںکھایا اور ان کے جسم پر بوسیدہ کپڑے ہیں، سر پر برقعہ و چادر نہیں اور میں ان کو فلاں جگہ بٹھا آیاہوں۔۔ پس لوگوں نے چادریں بھی دیں اور برقعے بھی دیئے اور ان کے طعام کا بھی انتظام کیا اور ان کے لئے رہائش کا گھر بھی مہیا کیا۔۔۔۔۔ ہائے زینب ؑ عالیہ جس شہر کوفہ کی شہزادی رہی اسی کوفہ سے شام تک اسیر ہو کر چادر مانگتی گئی؟
حضرت امام زین العابدین ؑ نے ایک مومن سے عالم خواب میں دریافت کیا کہ تم میرے بابا کو کس قدر روتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا سارا سال روتے ہیں جب فرش عزا بچھایاجا ئے۔۔ محرم میں۔۔ چہلم کے موقعہ پر۔۔ تو امام ؑ نے فرمایا تم اتنا رویا کرو کہ تمہارے آنسوئوں کا پانی ایک نہر کی شکل میں بہہ جائے تب بھی فخر نہ کرو کیونکہ تمہارے آنسوئوں سے بہتا ہوا دریامیری کمسن بہن سکینہ کی ایک مصیبت کا بھی بدلہ نہیں ہو سکتا ہے؟ وہ کس قدر طمانچے سہتی رہی؟ اور کیا کیا ظلم برداشت کرتی رہی؟
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ


بیٹھا دُھوڑ پونجھیندائے چہرے دی شاہ بھینڑ دی چم پیشانی
تیکون کفن سجاد پوا نئیں سگیا اینہ گاہلوں ہاں ارمانی
نت آہدی ہاویں میکوں تریہہ کھا گئی ہے ایہہ ڈکھ قسمت وچ ہانی
ہنڑ چپ کر کے کیوں سم گئی ہیں نِہوی ویر توں منگیا پانی