التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تیرہویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

خداوندکریم کا یہ فرمان دعوتِ عقل کی تائید کرتاہے ورنہ اگر نہ بھی فرماتا تب بھی ازراہِ عقل خالق و محسن حکیم کی عبادت انسان پر واجب تھی اور منعم ومحسن کا شکر اداکرنا واجب ولازم تھا۔۔۔ یہ کہنا کہ نجات کیلئے صرف ولائے علی ؑ کافی ہے اس کایہ مطلب نہیںکہ اعمال کی ضرورت نہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ ولائے علی ؑ کادعویٰ اعمال صالحہ کے بغیر جھوٹا ہوتا ہے کیونکہ وہ دوست دوست نہیں جودوست کی بات کی مخالفت کرے یادوست کے فرمان کوپس پشت ڈال دے۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محبوب کی ہرادا محبوب ہوا کرتی ہے پس اگر حضرت علی ؑ سے سچی محبت ہے تو اس کی ہر ادا سے محبت ہونی چاہیے۔۔ حضرت علی ؑ کو جوچیز محبوب تھی ہمیں وہ چیز محبوب ہونی چاہیے اور اُن کو جس چیز سے نفرت تھی ہمیں اس سے نفرت ہونی چاہیے، حضرت علی ؑ کو حلال سے محبت تھی اورحرام سے نفرت تھی۔۔ اسی طرح انہیں نماز سے محبت تھی اوربے نمازی سے نفرت تھی۔۔۔۔ وعلی ہذاالقیاس۔
زبان سے علی علی کہنا اوراعمال سے مولا علی ؑ کی مخالفت کرنا قطعاًزیب نہیں دیتا یہ تو اس طرح ہے کہ د و کا مقابلہ ہو اوران میں سے ایک کو اپنی نفرت کازبانی وعدہ دیا جائے لیکن مقام عمل میں اس کے مد مقابل کی تائید کی جائے تو اس سے بدترین دھوکا اورکیا ہے؟ پس مولا علی ؑ کو دھوکا دیتے ہیں وہ لوگ جو منہ سے علی علی کرتے ہیں اوراعمال میں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ اسی طرح خداکی سچی محبت اس کی اطاعت سے ظاہر ہوگی ورنہ اگر زبان سے لاالہ الااللہ کہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں پرستش وعبادت کے لائق سوائے خداکے اورکسی کو نہیں سمجھتا لیکن مقام عمل میں شیطان کی اطاعت کرے تو یہ بدترین دھوکا ہے اوریہ لوگ اللہ کو دھوکا نہیں دیتے بلکہ درحقیقت اپنے نفسوں کو دھوکا میں ڈالے ہوئے ہیں۔
مروی ہے معصوم ؑ نے فرمایا اگر انسان یہ معلوم کرنا چاہے کہ خدا کو میرے ساتھ کس طرح محبت ہے؟ تو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ میرے دل میں اس کے احکام کی کس قدر عظمت ہے؟ پس اللہ کے احکام کی جس قدر عظمت اس کے دل میں ہوگی تو سمجھ لے کہ اللہ کی محبت بھی اسی قدر ہے۔۔۔ اگر پوچھا جائے کہ تو خدا کا ہے یاشیطان کا؟ تو فوراً جواب ملے گا شیطان پر لعنت میں تو خداکا ہوں۔۔ لیکن اگر ووٹ کئے جائیں تو بقول بعض مقررین کے اگر خدا وشیطان کا الیکشن ہوتا تو خدا کی ضمانت بھی ضبط ہوجاتی!
چنانچہ تجربہ کے طور پر سینماکے دروازہ پر شیطانیوں کا ہجوم اورمسجد کے دروازہ پر خداوالوں کا مجمع ہرروزنمایاں فرق کا اعلان ہے اوربقول کلمہ توحید کادم بھرنے والے ووٹ کے مقام پرشیطان کوصرف ووٹ نہیں دیتے بلکہ ووٹ بھی دیتے ہیں اورنوٹ بھی دیتے ہیں اورخدا کوصرف ووٹ کوئی نہیں دیتا چہ جائیکہ نوٹ دیئے جائیں، عجیب ہے یہ انسان کہ ہرایک کو جھکتا ہے اورنہیں جھکتا تو اپنے خالق کے آگے؟
بس علی علی کہنا عبادت ہے لیکن لطف یہ ہے کہ جسم کی رگ رگ اورخون کے قطرہ قطرہ سے صدائے علی علی بلند ہو۔۔۔۔ ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ؑ درِمسجد پر آئے تو چند لوگوں نے سلام کیا اورعرض کیا حضور ہم آپ کے شیعہ ہیں تو آپ نے فرمایا مجھے تعجب ہے کہ تم لوگوں میں شیعوں کی کوئی علامت بھی موجود نہیں؟ انہوں نے دریا فت کیا وہ کونسی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا آنکھوں میں خوفِ خدا سے رونے کا ڈر ہو۔۔ ہونٹوں پر ذکر خدا کا اثر ہو۔۔ اورپیٹ روزہ کی وجہ سے پشت سے ملاہوا ہو وغیرہ (تفسیر انوار النجف جلد۶ علاماتِ مومن)
علی ؑ والوں کی یہ شان ہے کہ حکم امام سے سامنے سرتسلیم خم کرہیں اوراُف نہ کریں اوریہی ہے حقیقت عبدیت اورعبد مومن وہی ہے جوخداورسول وامام کے حکم سے سرتابی نہ کرے۔
ایک شخص امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا ہم لوگ آپ کے شیعہ ہیں آپ نے فرمایا شیعہ کی منزل بہت بلند ہے اس نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا اگر تیرا دعویٰ سچا ہے تو سامنے جلتے ہوئے تنور میں کود جائو اس نے اس عمل سے گریز کیا۔۔ اتنے میں ایک عبد مومن ہارون مکی تازہ حج سے واپس آیا خیال تھا کہ پہلے اپنے امام کو سلام کرلوں پھر بال بچوں کو ملوں گا ابھی گردِ سفر اس کے پائوں پر تھی امام نے دیکھ کرفرمایا ہارون مکی اس سامنے کے جلتے ہوئے تنور میں کود جائو قربان شانِ مومن۔۔ ہارون مکی نے تعمیل ارشاد میں توقف نہ کیا اورتنور پر جاکر اس میں چھلانگ لگا دی وہ شخص حیران وششدر رہ گیا امام نے فرمایا میں جانتا ہوں جوتو دل میں محسوس کررہاہے فوراً اس کو ہمراہ لے کرتنور پر آئے دیکھا تو وہ تسبیح خدا میں مشغول ہے۔۔۔ عبدیت کا تقاضا یہ ہے کہ منہ سے کیوں نہ نکلے اورمعصوم ؑ نے صاف فرمایاہے کہ ہم بغیر تقویٰ کے تمہارے ضامن نہیں ہیں۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ ولائے علی ؑ کلید بہشت ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ولائے علی ؑ کے بغیر کسی عامل کا عمل قبول نہیں ہوتا یہ مطلب نہیں کہ ولائے علی ؑ کی موجود گی میٖں کسی عمل کی ضرورت نہیں۔
ایک دفعہ حضرت علی ؑ مسجد کوفہ سے باہر آرہے تھے آپ کا غلام قنبر بھی ہمراہ تھا         اس کو کچھ دیر ہوئی تو آپ نے پوچھا کیوں دیر کردی؟ تو جواب دیا کہ ایک شخص کی نماز مجھے پسند آئی کہ نہایت خلوص سے پڑھ رہاتھا آپ نے فرمایا اگر نبیوں کے اعمال ایک شخص کے اعمال نامے میں موجود ہوں لیکن میری وِلانہ رکھتا ہوگا تو اس کو وہ سب اعمال ذرّہ بھر بھی فائدہ نہ دیں گے (مقدمہ تفسیر انوارالنجف)
 امام زین العابدین ؑ نے ایک شخص سے پوچھا روئے زمین پر کونسی جگہ افضل ہے؟ تو اس نے جواب دیا خداورسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا رکن اورمقام کے درمیان کا ٹکڑا۔۔ پھر فرمایا اگر کوئی شخص دن بھر روزے رکھے اوررات بھر عبادت کرے حضرت نوحؑ کی عمر کے برابر عمر رکھتا ہو اورراہِ خدامیں اسی مقام پر شہید ہوجائے تاہم اگر ہماری وِلا نہیں رکھتا تو اوندھے منہ جہنم میں داخل ہوگا، جنت ہے علی ؑ والوں کی اورعلی ؑ والے ہیں جنت کے۔۔ تو علی ؑ والوں کا بھی فرض ہے کہ خود جنت کو پس پشت نہ کریں۔
ہم نے وِلائے محمد و آل محمد علیہم السلام کے متعلق بہت کچھ احادیث مقدمہ تفسیر انوار النجف اور باقی جلدوں میں اپنے اپنے موقعہ و محل سے ذکر کی ہیں۔۔ فضائل آلِ محمد کے شائقین تفسیر کا مطالعہ کرکے اپنے ایمان کوتازہ کریں۔
دیکھئے۔۔۔۔ دین اسلام میں دوچیزیں ہیں عقاید اوراعمال۔۔ عقاید کو اصول کہا جاتا ہے اوراعمال کو فروغ، کوئی درخت صرف اصول سے پھل نہیں دیتا بلکہ ہر درخت فروغ یعنی شاخوں سے ہی پھل دیتا ہے اور در حقیقت زندگی کے تمام شعبہ جات میں یہی چیز کار فرماہے بیمار کا ڈاکٹر کو جاننا۔۔ ہسپتال کو پہچاننا وغیرہ اصولِ علاج ہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا اور مضر چیزوں کے استعمال سے بچنا فروعِ علاج ہیں اورتمام دنیا جانتی ہے کہ تندرستی حاصل کرنا اوربیماری سے جی چھڑا نے کیلئے صرف ڈاکٹر کی معرفت کافی نہیں بلکہ علاج ضروری ہے۔
زبان سے اپنی صداقت کا اعلان کرنا ناکافی ہے جب تک کہ عمل میں صداقت  نہ ہو اگر کہاجائے کہ امام حسین ؑ کے مذہب میں دیانتداری ہے تو دیانتدار بن کر مذہب کی صداقت کا اعلان کرناہوگا۔۔ اگر لوگوں کو حسینیت کی طرف بلایا جائے اوروہ پوچھیں کہ اس میں خوبیاں کیا ہیں تو صرف زبان سے گنوانا کافی نہیں ہوگا بلکہ عملاً تصدیق ضروری ہوگی، وہ پوچھے گا تم نے حسینیت سے کیا حاصل کیا؟ کیاتم نے حسینیت کے دامن میں آکر نماز حاصل کرلی؟ شرافت لے لی؟ دیانت تمہارے پاس آگئی؟ سننے والاصرف حضرت حر ّ کی نجات سن کر مطمئن نہ ہوگا بلکہ پوچھے گا امام حسین ؑ کے پاس آکر تم نے کونسی روحانی بیماری کا علاج کرایا؟ اگر دوسروں کو کسی ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا جائے تو وہ ضرور دریافت کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جوپہلے حسینی مشن میں داخل ہیں وہ کس قدر روحانی امراض سے شفا یاب ہوچکے ہیں؟ دوسرے کے منہ پر داغ ہوں اوراسے صفائی کی دعوت دی جائے تو ضروری ہے کہ کم ازکم پہلے اپنے منہ سے تو داغ دور کرلیں۔
حسینیو!  حسینیت کے پرچم تلے پہلے خود جم کر آجائو۔۔ تمہارا ماتم کرنا اورحسین حسین کرنا تب فائدہ مند ہوگا جب تمہارے اعمال حسینیت کا پتہ دیں گے۔
دیکھئے۔۔۔ دسویں کے دن ایک بڑے جلوس میں ہر جگہ امام حسین ؑ کی نماز کو یاد کرکے رویا جاتا ہے لیکن اگر رونے والوں میں ایک آدمی بھی نماز نہیں پڑھتا تو اس قسم کے جلوس سے دنیا والے کیاسبق لیں گے؟ وہ ہر گز باور نہیں کریں گے کہ یہ حسینیوں کا گروہ ہے بلکہ وہ تو صاف کہیں گے یہ بے نماز لوگوں کی جماعت ہے جو منہ سے امام حسین ؑ کا دم بھرتے ہیں اور عمل میں یزید کی پیروی کرتے ہیں لطف جب تھا کہ ماتم کرتا ہوا عزادار دستہ باوضو ہوتا اور جب اثنا ئے ماتم میں وقت نماز ہوتا تو انہی میں سے ایک شخص اذان شروع کر دیتا اور وہیں صفیں درست ہو جاتیں اور سارے ماتم دار با جماعت چلچاتی دھوپ میں نماز قائم کرتے اور سلام کے بعد پھر ہائے حسین ؑ ہائے حسین ؑ کی صدا بلند ہوتی پھر کیوں نہ لوگ دھڑ ا دھڑ حسینی پرچم کے نیچے جمع ہوتے؟ ان کو یقین ہوتا کہ واقعی یہ جلوس حسینوں کا ہے۔
ابو ثمامہ صیداوی نے نماز کا مشورہ دیا تو امام پاک نے اس کو دعا دی  ذَکَرْتَ الصَّلٰوۃَ جَعَلَکَ اللّٰہُ مِنَ الْمُصَلِّیْن  تو نے نماز یاد دلائی ہے خد اتجھے نمازیوں میں محشور فرمائے۔۔۔ حالانکہ میدان شہادت میں موت پر کمر بستہ ہیں امام نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تجھے شہیدوں میں جگہ دے بلکہ فرمایا خدا تجھے نمازیوں میں محشور فرمائے گو یا امام نماز کی عظمت کو یاد دلا رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں کہ ہماری شہادت نماز کی بقا کی خاطر ہے۔
اسی نماز کو بچانے کیلئے امام حسین ؑ نے کیا کیا قربانیاں دیں؟ اسلام انہی اصول و فروع کے مجموعہ کا نام تھا جنہیں امام حسین ؑ نے بچا لیا ہے اور سب کچھ دے کے بچایا جوان بیٹے دئیے۔۔ بھائی عباس کی پرواہ نہ کی۔۔ حتی کہ علی اصغر شیر خوار کو قربان گاہ میں پیش کر دیا اور متاعِ شرافت و ناموس عصمت کی پرواہ نہ کی۔۔ وہ بی بی بازار گئی جس کے بچپنے میں گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا کسی نے پسند نہیں کیا تھا۔
چنانچہ بتولِ معظمہ کے جنازہ کے ہمراہ شب تار میں حضرت علی ؑ کو معلوم ہوا تو حضرت علی ؑ نے پاس بلا کر فرمایا بیٹی تم علی ؑ کی شہزادی ہو تمہارا گھر سے باہر آنا ہمیں گوارا نہیں ہائے وہ بی بی کربلا میں خودلاشیں اُٹھاتی رہی اور یہ سب کچھ اس لئے برداشت کیا کہ اسلام بمعہ اصول و فروع کے محفوظ رہ جائے۔
ہائے اسلامی قوانین کی اس قدر پاسداری کہ بازار کو فہ میں لوگوں نے صدقہ کی کھجوریں پیش کیں تو سب بیبیوں نے بچوں کے منہ سے نکال کر پھینک دیں کہ ہم خانوادۂ عصمت پر صدقہ حرام ہے گویا اس مجمع میں بیبیوں کو اسلامی احکام کی بقا مطلوب تھی اور اسی اسلام کی بقا کی خاطر خانوادہ عصمت نے ہر دور میں مظالم برداشت کئے اور امام مظلوم نے آخری وقت میں بہن سے فرمایا تھا کہ بہن مجھے نماز شب میں نہ بھولنا  لا تُنْسِیْنِیْ فِیْ صَلٰوۃِ اللَّیْل  اور اپنے بیمار فرزند کو فرمایا بیٹا  عَلَیْکَ بِالصَّلٰواۃِ نماز کو فراموش نہ کرنا۔۔ ایک وصیت جناب سکینہ کو فرمائی جبکہ شب یازدہم لاش اطہر پر پہنچی تو گلوئے بریدہ سے صدا آ رہی تھی:

شِیْعَتِیْ مَا اِنْ شَرِبْتُمْ مَا عَذْبٍ فَاذْکُرُوْنِیْ
اَوْ سَمِعْتُمْ بِغَرِیْبٍ اَوْ شَہِیْدٍ فَانْدُبُوْنِیْ

وَ اَنَا السِّبْطُ الَّذِیْ بِغَیْرِ جُرْمٍ قَتَلُوْنِیْ
وَ بِجُرْدِ الْخَیْلِ بَعْدَ الْقَتْلِ عَمْدًا سَحَقُوْنِیْ

وَیْلَھُمْ قَدْ جَرَحُوْا قَلْبَ الرَّسُوْلِ الثَّقَلِیْنِ
یَا لَرُزْئٍ وَ مُصَابٍ ھَدَّا اَرْکَانَ الْحَجُوْنِ

لَیْتَکُمْ فِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَا جَمِیْعًا تَنْظُرُوْنِیْ
کَیْفَ اَسْتَسْقِیْ لِطِفْلِیْ فَأبَوْا اَنْ یَّرْحَمُوْنِیْ

وَ سَقَوْہُ سَہْمَ بَغْیٍ عِوَضَ الْمَائَ الْمَعِیْنِ
فَالْعَنُوْہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ شِیْعَتِیْ فِیْ کُلِّ حِیْنِ