التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

آٹھویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

عبدیت کا تقا ضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اپنے مولا کے رنگ میں رنگ دے۔۔ مولا کو جو چیز پسند آئے اسے اختیار کرے اور مولا کو جس چیز سے نفرت ہو اُسے ترک کردے۔۔۔۔ اور عبدیت کا بلند پہلو یہ ہے کہ مولا کو حکم کرنے کی حاجت نہ ہو بلکہ اس کے ارادہ کو بھانپ کر خود اقدام کرے اور جب انسان  تَخَلَّقُوْا بِأخْلَاقِ اللّٰہ کا مصداق بنتا ہے تو خدا بھی اس بندے کا ہو جا تا ہے۔
چنانچہ حدیث قدسی کے الفاظ ہیں حضرت دائود ؑ کو خطاب ہوا میرے لیے گھر صاف کرو عرض کیا اے پروردگار!  تو گھر سے بے نیاز ہے کونسا گھر صاف کروں؟ ارشاد ہوا میں آسمان و زمیں میں نہیں سما سکتا بلکہ اگر کہیں سما سکتا ہوں تو وہ مومن کا دل ہے پس مومن کا دل کا شانۂ توحید ہے اس میں غیر کا قدم نہ آئے تو لطف ہے۔
لطیفہ
جس طرح مملکت بدن میں دل کی حیثیت ہے اسی طرح پوری روئے زمین پر کعبہ زمین کا دل ہے اور ظاہری کعبہ غیروں سے صاف ہوا جب حضرت علی ؑ کا قدم آیا۔۔۔ پس انسان کا کعبہ دل بھی درحقیقت صحیح معنوں میں اس وقت اغیار کی کثافت سے صاف ہوگا جب مولاعلی ؑ کی وِلا اس میں آئے گی۔۔ پس ولائے علی ؑ سے دل کاشانۂ توحید بننے کے قابل ہوگا۔۔۔ چنانچہ اس مطلب پر ایک حدیث شاہد ہے:
حُبُّ عَلِیٍّ یَّأکُلُ الذُّنُوْبَ کَمَا تَأکُلُ النَّارَ الْحَطَب حضرت علی ؑ کی محبت گناہوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح خشک لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے۔
لوگ اس حدیث سے غلط استنباط کر کے عوام کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اور مطلب یہ بیان کرتے ہیںکہ حضرت علی ؑ کی محبت کے بعد بیشک گناہ کرتے پھرو کوئی حرج نہیں کیونکہ  حضرت علی ؑ کی محبت ان سب کو کھا جائے گی۔۔ حالانکہ یہ باکل غلط ہے  حضرت علی ؑ کی وِلا اور محبت اس طرح گناہوں کو کھانے والی نہیں جس طرح کوئی بَلاہر حلال و حرام کو ہضم کر جاتی ہے بلکہ آگ کے خشک لکڑیوں کو کھانے سے تشبیہ دے کر واضح کر دیا گیا ہے کہ جس طرح آگ آنے سے پہلے لکڑیاں جمع ہوتی ہیں اور آگ ان سب کو کھاجاتی ہے پھر جب تک آگ وہاں رہتی ہے دوسری لکڑی قطعاً پیدا ہو ہی نہیں سکتی اس طرح انسان میں  حضرت علی ؑ کی وِلا سے پہلے جس قدر گناہ تھے  حضرت علی ؑ کی وِلا ان کو جلا دے گی اور جب تک وِلا کا ٹھکانہ وہاں ہوگا دوسرا گناہ نئے سرے سے وہاں پیدا نہ ہوسکے گا اور آگ کا کام ہے موجودہ لکڑیوں کو بھی جلانا اور باہر سے اگر کوئی لکڑی آجائے تو ان کو بھی جلانا لیکن اپنے مقام پر دوسری لکڑی کو نہ پیدا ہونے دینا اسی طرح وِلائے علی ؑ کا کام ہے انسان کے اندر کی پہلے کی خرابیوں کو جلانا اور نئی خرابی کو نہ پیدا ہونے دینا۔۔۔ اور اگر کوئی باہر سے دوسرا گنہگار اس کے پاس آئے تو اس کے گناہوں کو بھی جلا نایعنی اپنے اخلاق اور نصیحت آمیز بیانات کے ذریعے اس کو توبہ کی طرف مائل کرنا۔
یہ بات ناقابل تسلیم ہے کہ  حضرت علی ؑ کی وِلا بھی ہو اور گناہوں سے گریزبھی نہ ہو کیونکہ  حضرت علی ؑ تو امام المتقین ہیں اور جس طرح ہم بدمعاش کو اپنا امام نہیں بنانا چاہتے وہ بھی بدمعاشوں کو اپنا مقتدی نہیں دیکھنا چاہتے اگر ہمیں امام تلاش کرنا آتا ہے تو ان کو بھی مقتدی تلاش کرنا آتا ہے۔
شب ِ عاشور امام حسین ؑ نے ایک رات کی مہلت لی تھی نہ زندگی بڑھانے کیلئے، نہ وداع کیلئے اور نہ عبادت کی کمی کو پورا کرنے کیلئے بلکہ اسلئے کہ اتمامِ حجت ہوجائے اور باہر کے کھرے قریب ہوجائیں اور قریب کے کھوٹے باہر نکل جائیں۔
ہر جنگجو اپنی فوج میں زیادہ بھرتی چاہتا ہے لیکن امام حسین ؑ کی فوج علَم توحید کو بلند کرنے کی خواہاں تھی۔۔ امام حسین ؑ زیادہ بھرتی نہیں چاہتے تھے بلکہ اسی غرض سے تو چراغ کو بجھا دیا گیا کہ جانے والے شرم محسوس نہ کریں بلکہ جو بھی کھوٹا ہو وہ نکل جائے اور یہاں بچے تو صرف وہی جو حبیب بن مظاہر، زہیر بن قین اور بریر بن خضیر کی طرح حق پر کوہِ گراں کی طرح جم جائے بلکہ پہاڑ اگر اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ممکن ہے لیکن اس کے قدم نہ لڑکھڑائیں۔
معرفت کا یہ عالم تھا کہ امام حسین ؑکے دو صحابہ صبح عاشور بات چیت کر رہے تھے کہ ایک کی مسکراہٹ عیاںہوئی۔۔۔ دوسرے نے کہا اب مسکرانے کا وقت نہیں تو اس نے کہا میری قوم میری جوانی و بڑھاپے کو جانتی ہے کہ مجھے ہنسنے کی عادت نہیں لیکن اب اپنی خوش قسمتی پر ہنس رہا ہوں کہ اب ہمارے اور حورانِ جنت کے درمیان صرف تیر و تلوار کھانے کی مدت باقی رہ گئی ہے۔
امام حسین ؑ نے تیروں،تلواروں،نیزوں اور پتھروں کی برسات میں نماز قائم کر کے علَم توحید کو اس طرح بلند کیا کہ اس کو قیامت تک سرنگوں نہیں کیا جاسکتا۔
دیکھئے۔۔۔ جناب رسالتمآبؐ نے ۲۳سالہ محنت سے علَم توحید بلند کیا اور پرچم اسلام کی بلندی کیلئے سب کچھ سہا۔۔ مردوں اور عورتوں کی خدمات ان کو حاصل تھیں، مردوں میں سے سر فہرست حضرت ابو طالب ؑ اور حضرت علی ؑتھے اور عورتوں میں سرفہرست امّ المومنین حضرت خدیجۃالکبریٰ اور جناب خاتونِ جنت حضرت فاطمۃُالزہرا ؑ تھیں۔۔۔۔ اور ۲۳سالہ محنت شاقہ کے بعد جب دنیا سے چل دیئے تو لوگوں کے دلوں سے اسلامی نقوش فوراً اُترنا شروع ہوگئے حتیٰ کہ دورِ یزیدی تک اسلام برائے نام بچ گیا اور شعائر اسلامی کی مخالفت بر سرعام شروع ہوگئی حتیٰ کہ اسلامی تعلیمات کو ذلیل نگاہوں سے دیکھا جانے لگا اور مسندِ خلافت بدمعاشی کا اڈہ بن چکی تھی۔
یہ یقینی بات ہے کہ کسی تحریک کی ابتدا آسان ہوتی ہے اور اس کی بقا مشکل ہوتی ہے۔۔ نیز تحریک اُٹھانا آسان ہوتا ہے اور اس تحریک کے کچلے جانے کے بعد اس کو ازسرنو زندگی دینا مشکل ہوتا ہے۔۔۔ اب اسلام کو بقا کی نہیں بلکہ نئی زندگی کی ضرورت تھی اور باغی ذہنوں کو دوبارہ اسلام سے روشناس کرانا تھا جس پر انتہائی محنت و مشقت کی ضرورت تھی۔۔ لیکن کس کی مجال تھی کہ اس طرف اقدام کرے؟
امام حسین ؑ تیرے استقلال پر نثار اور زینب عالیہ ؑ تیری ہمت کے صدقے!  یہ دونوں بہن بھائی بقائے دین کا عزم لے کر اُٹھے۔۔ حضرت ابوطالب ؑ اور مولا علی ؑ کا ورثہ دار امام حسین ؑ اور جناب خدیجہ ؑ اور بتول عذرا ؑ کی ورثہ دار زینب عالیہ ؑ۔
خدا کی قسم۔۔۔ ابتدائے تحریک میں ۲۳سالہ محنت تھی اور پچاس برس تک نہ چل سکی لیکن ان دونوں بہن بھائیوں کی پر اخلاص قربانیوںنے اسلام کو حیات نو بخشی   اور ان کو عرصہ کتنا لگا؟ خدا کی قسم نہ ۲۳ سال نہ ۲۳ماہ نہ ۲۳ دن حتی کہ نہ ۲۳ گھنٹے  ہاںصرف چھ گھنٹے اور وہ طلوعِ آفتاب سے زوالِ آفتاب تک۔۔۔ حتیٰ کہ معین الدین چشتی نے امام حسین ؑ کو بانی لا الہ الّا اللہ کا خطاب دے دیا:
شاہ است حسینؑ پادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ دین پناہ است حسینؑ
سر داد نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؑ
بھائی اور بہن کی کربلا میں قربانی چیلنج کر کے گئی کہ بے شک ایک یزید اسلام کیلئے خطرناک ثابت ہوا لیکن اب ہم اسلام کی بنیادوں کو محکم کر چلے ہیں، اس میں علی اکبر ؑ کی جوانی، علی اصغر ؑ کا خون، عباس علمدار ؑکے بازو، بہتّر شہدأ کی پیاس، امام حسین ؑ کی قربانی، یتیم بچوں کی نالہ و فریاد، بیوائوں کا لٹنا، خانوادۂ عصمت کی شہزادیوں کی اسیری اور تشہیر سب شامل ہیں۔۔۔۔ جس میں سے ایک ایک بھی بقائے کلمہ توحید کے لئے کافی تھیں بے شک اب گھر گھر سے ایک ایک یزید بھی اٹھ کھڑا ہو اور قیامت تک استبداد اور قہر و غلبہ استعمال ہوتا رہے تب بھی اسلام اور حسینیت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔
سچ پوچھئے تو اب صرف امام حسین ؑ موجود نہیں ورنہ یزید کی روحیں بستی بستی میں ہیں اور کسی کے مٹانے کیلئے پروپیگنڈا، دولت اور قوت جیسے تین حربوں میں سے ایک کافی ہوا کرتا ہے اور یزید کے طرفدار ہر دور میں ان تین حربوں کو بے دریغ استعمال کرتے رہے لیکن نتیجہ کے لحاظ سے پہلے کی طرح ہر دور کا یزید ذلیل ہو کر واصل جہنم ہوتا رہا ہے اور حسینیت کا پرچم ہر دور میں بلند سے بلند تر ہوتا رہا ہے جناب زینب عالیہ ؑ نے بھائی کے ماتم کی ابتدأ شام سے کی تھی اور یہ ماتم صبح قیامت تک جاری رہے گا۔۔۔۔ حسینیت زندہ باد

عصمت دی سردار تے آیا جڈاں پیو سردار دا صدمہ
پیو سردار دے صدمے تو ہا ودھ دربار دا صدمہ
کہیں صاحب عزت دی عزت کنوں نہیں ودھ تلوارداصدمہ
گئی ما حسین دی قبر تائیں گھن در دیوار دا صدمہ