التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اکتیسویں مجلس -- ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لا یَعْلَمُوْنَ


یہ مجلس العین میں پڑھی گئی

کیا برا بر ہیں وہ وجو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ طلب کر رہا ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے سب برا بر ہیں؟گویا اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم نے برابر بنائے نہیں تم برابر کیسے سمجھتے ہو؟
اجنا سِ کائنات میں سے کسی جنس کے افرادمیں برا بری نہیں ہے زمینیں سب برابر نہیں۔۔ آسمان سب برابر نہیں۔۔ ہوائیں سب برابر نہیں۔۔پہاڑ سب برابر نہیں۔۔پانی سب برابر نہیں۔۔ پتھر سب برابر نہیں۔۔حیوان سب برابر نہیں۔۔ بندے سب برابر نہیں۔۔ ولی سب برابر نہیں ۔۔نبی سب برابر نہیں۔۔ تو جن نبیو ں کا تم کلمہ پڑھتے ہو وہ خود برابر نہیں ہیں تو ان کے پاس بیٹھنے والے کیسے برابر کو سکتے ہیں؟
بعض پتھر موتی کی شکل میں شاہی تاج میں جڑنے کے قابل ہیں اور بعض سڑکوں پر پائوں کے نیچے روندنے کے لائق ہیں، بعض پانی منہ لگانے کے قابل نہیں اور بعض قابل چند روپے میں بوتل بکتی ہے ۔۔گنگا کا پانی بھی پانی ہے۔۔ اور کوثر کا بھی پانی ہے ۔۔عام پہاڑ بھی پہاڑ ہیں۔۔ اور طور بھی پہاڑ ہے۔
سور بھی حیوان ہے اور بکری بھی حیوان ہے۔۔ اگر چہ قد میں برابر ہوں۔۔عمر برابر ہوں لیکن سور سور ہے اور بکری بکری ہے۔۔ یہ بھی گدھے ہیں جن پر مٹی اینٹیں لادی جاتی ہیں ۔۔اور وہ بھی گدھے تھے جن پر نبی سوار ہوتے تھے۔۔ تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ سب برابر ہیں؟ مجھے اپنے پیغمبرؐ کے متعلق تو معلوم نہیں کہ کبھی کسی گدھے پر سوار ہوئے ہوں البتہ حضرت موسیٰؑ گدھے پر سوار ہوتے تھے۔
 وہ فرشتہ جس نے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا وہ سید الملائکہ بنا۔
 ہوائوں میں سے جس نے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا دم بھر ا وہ بادِ نسیم بنی۔
 وہ پانی جس نے سب پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا وہ کوثر بنا۔
 زمین کا وہ ٹکڑا جس نے سب سے پہلے ولا ئے علی ؑ کا اقرار کیا اس کو مکان کعبہ بنا۔
 مہینوں میں سے جس نے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا وہ ماہِ رمضان بنا۔
 انبیا ٔ میں سے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا اور اولو العزم ہوا۔
راتوںمیں سے جس نے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا وہ شب ِقدر بنی۔
دنوں میں جس نے سب سے پہلے ولائے علی ؑ کا اقرار کیا وہ یوم جمعہ ہوا۔
یہ سب برابر نہیں۔۔۔۔ اسلئے میں کہا کرتا ہوں:
وہ بندہ بندہ نہیں ہے جس کا علی ؑ بندہ نواز نہیں۔
وہ آدمی آدمی نہیں جس کا علی ؑ آدمیت ساز نہیں۔
وہ انسان انسان نہیں جس کو علی ؑ کی پہچان نہیں۔
وہ مسلمان مسلمان نہیں جس کا علی ؑ کی طرف دھیان نہیں۔
وہ مومن مومن نہیں جس کا علی ؑ کل ایمان نہیں۔
وہ پیر پیر نہیں جس کا علی ؑ پیر نہیں۔
وہ مرشد مرشد نہیں جس کا علی ؑمرشد نہیں۔
وہ شاہ شاہ نہیں جس کا علی ؑ شاہ نہیں۔
وہ داتا داتا نہیں جس کا علی ؑ امام نہیں۔
وہ سلطان سلطان نہیں جس کا علی ؑ سلطان نہیں۔
وہ امام امام نہیں جس کا علی ؑ امام نہیں۔
وہ ہادی ہادی نہیں جس کا علی ؑ ہادی نہیں (وَ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَاد)
وہ ولی ولی نہیں جس کا مشکل کشا علی ؑ نہیں۔
وہ نبی نبی نہیںجس کا علی ؑ ولی نہیں۔
لَمْ یُبْعَثْ نَبِیٌّ قَطُّ اِلَّا بِوِلایَۃِ عَلِیِّ بْنِ أبِیْطَالِبٍ یعنی کوئی نبی مبعوث بہ نبوت نہیں ہواجب تک اس نے علی ؑ کی ولایت کا اقرانہیں کیا (ینابیع المودۃ)
اگر سب برابر ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو عقل پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ عقل تو اسلئے ہے کہ لائق و نالائق۔۔ نیک و بد۔۔عالم و جاہل۔۔اور مومن ومنافق میں فرق کرے تاکہ لائق محبت سے محبت کی جائے اور لائق نفرت سے نفرت کی جائے اور یہی ہے تو لّاوتبرّاکا مقصد۔۔۔ پس اگر فرق ہی نہ ہو تو عقل کی تخلیق بے فائدہ ہے۔
دیکھئے۔۔ سکولوں میں درجہ بدرجہ امتحانات کیوں ہوتے ہیں؟ اس لئے کہ لائق و نالائق کو پرکھا جاسکے۔۔ اگر سارے برابر ہوتے تو امتحان لینا فضول ہوتا اسی لیے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کے لیے انٹرویو اس لیے ہی ہوا کرتا ہے تاکہ لائق کا انتخاب کیا جاسکے۔۔ معلوم ہوتاہے کہ ایک ڈگر ی اور ایک سند رکھنے والے بھی سب برابر نہیں ہوتے بلکہ کچھ اپنی ذاتی قابلیت سے پاس ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ دے کر کامیابی کی سند حاصل کر لیتے ہیں۔
البتہ جس کے پاس عقل نہ ہو اس کے لیے سب برابر ہوتے ہیں اور اس قسم کے آدمی کو پھر آزادانہ زمین پر چلنے کی اجازت نہیں ہوتی اُسے رسی یا زنجیر سے باندھ کر پابند کر دیا جاتا ہے یا پاگل خانہ میں بھیج دیا جاتا ہے۔
دیکھئے۔۔۔ حیوان کے پاس عقل نہیں ہے لہذا وہ آزاد نہیں پھر سکتا بلکہ رسی یا زنجیر کا پابند ہوا کرتا ہے۔۔۔ چڑیا گھر کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ شیر جیسے طاقتور جانورکی پنجرہ میںبند کرانے والی چیز ہے بے عقلی۔۔ ہاتھی جیسے دیو قامت ہیبت ناک جانو ر کو پابند سلاسل کیا ہے تو بے عقلی نے۔۔اونٹ جیسے کوہ پیکر جانورکی ناک میں نکیل ڈالی ہے تو بے عقلی نے۔۔ اسی طرح گھوڑے جیسے طاقتور جانور کے منہ میں لگام ڈلوائی ہے تو بے عقلی نے۔۔ اگر یہ عقلمندہوتے تو انسان کی غلامی کی زنجیروں میں پابند رہنا قطعاََ برداشت نہ کرتے۔
حیوان کی بے عقلی کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ جس نے رسی پکڑی وہ اس کے پیچھے، خواہ رسی پکڑنے والا بچہ ہو یا جوان۔۔ مالک ہو یا چور۔۔ عالم ہو یا جاہل۔۔ مومن ہو یا منافق۔۔ حیوان یہ بھی نہیں فرق کرتا کہ میری مہار عورت کے ہاتھ میں ہے یا مرد کے ہاتھ میں ہے؟ خواہ وہ حیوان کی رسی پکڑ کر شیر سے اُسے مروا ڈالے۔
انسان کے گلے میں بھی ایک رسی ہے جس کا نام ہے حبل ُاللہ اور اللہ تعالیٰ نے عقل والوں کو اس رسی کے پابندہونے کی دعوت دی ہے لیکن مجبور نہیں کیا لا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن پس جس انسان نے اللہ تعالیٰ کی یہ رسی قبول کی ہے جو حبل ُاللہ یا دین ُاللہ ہے تو اس انسان کو سب سے پہلے یہ دعوت دی گئی ہے کہ خبردار ! عالم و جاہل کو برابر نہ سمجھنا اور چور و مالک کوایک جیسا نہ کہنا۔
حیوان کا کام ہے کہ جو بھی مہار پکڑے اس کے پیچھے چل پڑنا ہے۔۔ اے انسان تو حیوان زادہ نہیں بلکہ انسان زادہ ہے؟ جو شخص تیرے دین کی رسی کو پکڑکر اپنی طرف لے جانا چاہے تو عقل کو استعمال کرکے پہلے فرق کرلینا کہ یہ دین کی رسی مالک کے ہاتھ میں ہے یا چور کے ہاتھ میں؟ اگر یہ فیصلہ کر لیا کہ سب برابر ہیں جو بھی پکڑے اس کے پیچھے چلنا ہے تو پھر تیرے اور حیوان کے درمیان فرق کیا رہا؟
البتہ حیوان میں ایک اچھی عادت بھی ہے اور وہ یہ کہ سارا دن حیوانوں کو جنگل میں چرانے والا حیوانوں کو جنگل میں پھراتا رہے لیکن شام کو جب شہر کے قریب پہنچ کر تمام جانوروں کو اپنی پابندی سے آزاد کردے تو وہ ہر جانور کو گھر تک پہنچانے کے لیے ساتھ نہیں جاتا بلکہ خود اپنی فطرت وعادت سے چھٹی کا وقت سمجھ کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔۔۔ ان کے راستہ میں اچھے اچھے مکانات اور عالی شان محلات بھی آئیں گے لیکن وہ کسی کی طرف سر اٹھا کر نہیں دیکھتے بلکہ گلیوں کے موڑ کاٹتے ہوئے سیدھے اپنے مالک کے کچے مکان کے سامنے آکر سر جھکا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ خواہ چارہ ملے یا نہ ملے مالک کے گھر کی چار دیواری کو اپنا مقدر سمجھ کر سر تسلیم جھکا لیتے ہیں، مگر اس کے مقابلہ میں انسان صاحب ِ عقل ہونے کے باوجود جب آزاد ہو تو اپنے مالک کے گھر (مسجد) اور شیطان کے گھر (سنیما) میں فرق نہیں کر پاتا؟ حالانکہ عقل کا فیصلہ ہے کہ جس طرح سب بندے برابر نہیں اسی طرح سارے گھر بھی برابر نہیں۔
آیئے۔۔۔ حضرت آدم ؑکی اولاد پر نگا ہ ڈالیے ان کے دو بیٹے تھے ہابیل اور قابیل،  ان کے حضرت آدم ؑ کے ساتھ چار رشتے تھے۔۔۔ وہ باپ یہ بیٹے۔۔ وہ استاد یہ شاگرد۔۔ وہ صاحب ِ شریعت یہ ان کی امت او روہ نبی یہ صحابی، یہ عام صحابی نہیں کہ صرف پہلو میں بیٹھنے والے ہوںبلکہ بیٹے ہونے کی حیثیت سے گود میں پلتے رہے توجب نبی کی گود میں پلنے والے دو صحابی برابر نہیں تو پہلو میں بیٹھنے والے چار کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟
کسی عام انسان کو میں حضرت علی ؑ کے برابر کیسے کہوں؟ جبکہ مولا علی ؑ کے اپنے بھائی اُن کے برابر نہیں۔۔۔ حضرت ابو طالب ؑ و فاطمہ بنت اسد کے چارفرزند ہیں:
طالب۔۔ عقیل۔۔ جعفر طیار اور علی ؑ۔۔۔حضرت علی ؑ کا اپنا مقدر کہ اپنے گھر میں بھی چوتھے نمبر پرتھے۔۔ وہ تین بھائی بڑ ے ہیں اور یہ سب سے چھوٹے اور سب کے عزیز ہیں، لیکن وہ بڑے ہونے کے باوجود شان و رتبہ میں مولا ؑ کے برابر نہیں تو شیعہ سنی بھائی بے شک اپنے بستر پر سوکر بھی سوچتے رہناکہ جب حضرت علی ؑکی اپنی ماں کے بیٹے مولا ؑکے برابر نہیں تو دنیا کی کسی ماں کے بیٹے علی ؑکے برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟
حضرت علی ؑ صر ف اپنے بزرگ بھائیوں کے امام نہیں بلکہ اپنے والد کے بھی امام ہیں اور اپنی والدہ کے بھی امام ہیں اور صرف اپنے ایک والد اور ایک والدہ کے  امام نہیں بلکہ ہر والد اورہر والدہ کے امام ہیں۔۔۔۔ حضرت ابو طالب ؑسے حضرت آدم ؑ تک اپنے ہر آباء کے امام ہیں اور جناب فاطمہ ؑ بنت اسد سے حضرت حواؑ تک ہر امہات کے امام ہیں اور جس طرح اوپر کی طرف ہر آبا کے امام ہیں اسی طرح نیچے کی طرف امام حسن ؑ سے امام مہدیؑ تک ہر اِبن کے امام ہیں، پس حضرت علی ؑواحد امام ہیں جو اپنے ہر بزرگ کے بھی امام ہیں اور اپنے ہر عزیز کے بھی امام ہیں، یا یوں عرض کروں کہ اپنی پوری اصل کے بھی امام اور اپنی ساری نسل کے امام ہیں۔
ہمار ے باقی آئمہ کو بھی یہ مقام نہیں ملا،  مثلاً حضرت اما م حسن ؑ ۔۔ امام مہدی ؑ تک ہر عزیز کے تو امام ہیں لیکن اپنے بابا حضرت علی ؑ کے امام نہیں ہیں اسی طرح امام حسین ؑاولاد کے امام ہیں لیکن اپنے بابا کے امام نہیں ہیں۔۔ پس یہ شرف صرف حضرت علی ؑکا ہے کہ اپنے تمام آبا ٔ کے بھی امام اور اپنے ہر بیٹے کے بھی امام ہیں۔
میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت علی ؑ اپنی والدہ کے بھی امام ہیں، تو یہ جذباتی فقرہ نہیں تھا بلکہ اصول کافی کی روایت ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ یا یوںعرض کروں کہ برجِ نبوت کے نیّر اعظم آسمانِ رسالت کے آفتابِ معظّم اور بزم نبوت کے تاجدارِ مکرّم اپنی کرسی عظمت پر جلوہ گر تھے کہ مملکت ولایت کے تاجدار۔۔ حامل ذوالفقار۔۔حضرت حیدر کرار ؑنے حاضر بارگا ہ ہو کر سلام نیاز پیش کیا حضور ؐ نے جواب سلام کہہ کر ناطق قرآن کے صحیفہ نور (وجہ اللہ) کی زیا رت کرتے ہی فرمایا یا علی ؑ آج تیری آنکھیںپرنم ہیں۔۔ شکل پر غم ہے۔۔ چہرہ کملایا ہوا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ! میں کیوں نہ روئوں آج میری مہربان ماں ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی ہے، حضور ؐ سن کر اس قدر روئے کہ محاسن شریفہ ریش مقدسہ آنسو سے تر بتر ہوگئی اور فرمایا یا علی ؑ وہ اکیلی تیری ماں نہیں تھی بلکہ وہ تو میری بھی ماں تھی۔
کیا کہنا اس بی بی کے مقام کا کہ بارہ اماموں کی ماں ہونے کا شرف بھی ہے اور سلطان انبیا نے فرمایا وہ میری بھی ماں ہے تو جناب زہراؑ کو کہنا پڑتا ہے کہ میری بھی ماں ہے، پس یہ واحد مستور ہے جسے چودہ معصومین ماں کہہ کربلا سکتے ہیں۔
حضوؐر بنفس نفیس حضرت علی ؑ کے گھر تشریف لائے اور مدینہ کی پاکباز عورتوں کو غسل پر مامور فرمایا جب غسل مکمل ہو چکا تو اپنے جسم پُر نور سے قمیص کو الگ فرما کر غسالہ عورت کے حوالے کیا اور فرمایا کہ میری ماں کو میر ی قمیص کا کفن پہنا دو میری دنیا کی مستورات بے شک بازاری خریدا ہوا کفن پہنیں لیکن یہ میری ماں ہے میں پسند نہیں کرتا کہ بازاری کفن پہنے؟ پس حضرت پیغمبر کی قمیص کفن بنا مولا علی ؑ کی ماں کا۔
حضور ؐ نے قبر تیار کروائی اور جب قبر تیارہوگئی تو بنفس نفیس قبر میں لیٹے اور باہر آئے پھر ماں کو قبر کے حوالے فرمایا۔۔۔ پوری کائنات میں واحد یہ مستور ہے جسے  یہ شرف حاصل ہے کہ قبر کے حوالہ کرنے کے لیے دو سلطان بیٹے موجود تھے معمولی سلطان نہیں ایک مملکت ِنبوت کا سلطان اور دوسرا اقلیمِ امامت کا سلطان۔
جب تعویذ قبر بند ہوا اور قبر تیار ہوئی تو حضور ؐ خود قبر کے کنار ے بیٹھے اور پنجہ ٔ پُر نور قبر کی مٹی پر ٹیک کرمیت کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا  اِبْنُکِ اِبْنُکِ اِبْنُک  اب اپنے بیٹے کا نام لو۔۔ بیٹے کا نام لو۔۔ بیٹے کا نام لو۔
لوگوں نے پوچھاہو گا کہ تین کام آپ نے نئے انجام دیئے ہیں یعنی آج تک کسی کو نہ اپنی قمیص کا کفن پہنایا۔۔ نہ کسی کی قبر میںلیٹے اور نہ کسی کی قبر پربیٹھ کر تلقین کے یہ الفاظ ادا فرمائے؟ (اور یہ یاد رہے کہ اسلام میں یہ پہلی تلقین میت تھی جو حضورؐ نے بنفس نفیس فاطمہ بنت اسد ؑکی قبر پر پڑھی) حضورؐ نے فرمایا ایک دن میں نے ماں کے سامنے دربارِ توحید کی پیشی کا ذکر کیا تھا تو گھبرا گئی تھی پس میں نے وعدہ کیا تھا کہ تجھے اپنی قمیص کا کفن پہنائوں گا شاید مقصد یہ ہو کہ ہر لباس کو زمین بوسیدہ کر سکتی ہے لیکن وہ لباس جو محمد مصطفی کے جسم سے مس ہو چکا ہو اس کو زمین بوسیدہ نہیں کر سکتی۔۔ پس جب میری ماں محشور ہوگی تو میری قمیص میںملبوس ہو کر حاضر دربار ہوگی۔
پھر ایک دن فشار قبر کا میں نے ذکر کیا تو گھبرا گئی پس میں نے وعدہ کیا کہ تیری قبر میں پہلے میں خود لیٹوں گا پھر تجھے حوالہ قبر کروں گا چنانچہ وعدہ پورا کیا اور مقصد یہ ہے کہ قبر میں فشار ہوتا ہے لیکن جس قبر کی مٹی میرے جسم سے مس ہوجائے تو وہ قبر جنت الفردوس بن جاتی ہے۔
جب دفن کرچکے تو حسب دستور دو فرشتے میری اماں کی قبرمیں پہنچے اور انہوں نے سوالات شروع کیے:
تیرا ربّ کون ہے ؟  ماں نے جواب دیا اللہ میرا رب ہے۔
انہوں نے پوچھا تیرا نبی کون ہے ؟ تو ماں نے کہا محمدمصطفی۔
تیرا دین کیا ہے ؟ جواب دیا اسلام۔
تیرا قبلہ کونسا ہے ؟ تو جواب دیا کعبہ ۔
تیری کتاب کونسی ہے ؟ تو جواب دیا قرآن۔
ان کا آخری سوال تھا کہ تیرا امام کون ہے ؟ تو ماں خاموش ہوگئی تو میں نے تعلیم دی کہ اپنے بیٹے کا نام لو۔۔ بیٹے کا نام لو۔۔ بیٹے کا نام لو۔
امامت کے سوال کے جواب میں خاموش ہونا غالباََ اس لیے نہیں تھا کہ جواب سے ناواقف تھیں بلکہ شاید اس لیے خاموش ہو گئیںکہ سوچ میںپڑ گئی ہوں گی کہ عظیم بارگاہ کی جانب سے میرے عظیم فرزند کی امامت کا سوال ہو رہا ہے تو کونسا لب و لہجہ استعمال کروں؟ اور اپنے بیٹے کا نام کس لقب سے پیش کروں؟ امیرالمومنین کہوں؟ امام المتقین کہوں؟ یعسوب الدین کہوں؟ امیر کہوں؟ خبر گیر کہوں؟ حیدر کہوں؟ صفدر کہوں؟ ابو تراب کہوں؟ ابوالحسن کہوں؟ قسیم جنت کہوں؟ساقی کوثر کہوں؟ کس لقب سے نام پیش کروں ؟
 حضرت پیغمبرکی تعلیم کا مقصد یہ ہو گا کہ القاب ہوا کرتے ہیں غیروں کے لیے مثلاًکسی ملک کا صدر ہو تو ساری دنیا اسے صدرِ مملکت کہے گی۔۔ حضور والا۔۔ جناب عالی وغیرہ کے خطابات سے نوازے گی لیکن وہی صدر جب اپنی ماں کے سامنے آئے گا تو وہ ہر لقب وخطاب سے بے نیاز ہوکر کہے گی آئو میرے بیٹے،ـ ماںکا بیٹے کو بیٹا کہہ کر بلانا ہر لقب سے بلند لقب ہے۔۔۔ لہذا پیغمبرؐ نے فرمایا ماں! کیوں لقب تلاش کرتی ہو ساری دنیا علی ؑکو القاب سے یاد کرے لیکن تیرا تو بیٹا ہے فرشتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھلے دل سے جواب دو میرا بیٹا میرا امام ہے۔۔ میرا بیٹا میرا امام ہے۔۔ میرا بیٹا میرا امام ہے (اسی لیے فرمایا بیٹے کا نام لو )
یہاں تمام شیعہ و سنی حضرات کے لیے ایک درس آموز فقرہ عرض کرتا ہوں اور وہ یہ کہ قبرمیں تھی حضرت علی ؑ کی ماں اور وہ عام مومن کی ماں نہیں بلکہ امیرالمومنین کی ماں ہے تو جب قبر میں مولا علی ؑ کی اپنی ماں کا وقت بغیر علی ؑ کا نام لیے نہیں گزر سکتا توکسی دوسرے کی ماں کا وقت کیسے گزرے گا؟
یہ امیر المومنین کی ماں ہے جب مومنوں کے امیر کی ماں کا بغیر نامِ علی ؑ چارہ نہیں تو امّ المومنین کا علی ؑکے بغیر کیسے گزر ہوگا ؟ اورجب مومنوں کی ماں کا یہ حال ہے توخال المومنین کا کیا حال ہوگا؟
دیکھئے۔۔۔ صحابہ بھی جو کامل الایمان ہیںجنت میں جائیںگے لیکن حضرت علی ؑ وہ ہیں جو جنت میں لے جائیں گے کیونکہ قسیم جنت ہیں۔۔ پس جانے والے اور ہیں اور لے جانے والے اور ہیں؟ اسی طرح صحابہ کوثر پئیں گے لیکن حضرت علی ؑ پلائیں گے کیونکہ ساقی کوثر ہیں۔۔ پس کوثر پینے والے اور ہیں اور پلانے والے اور ہیں؟ اسی طرح صحا بہ پل صراط سے گزریں گے اور حضرت علی ؑگزاریں گے اورجہنم سے کہیں گے یہ تیرا ہے اسے لے لے اور یہ میراہے اسے جانے دے۔۔پس پل سے گزرنے والے اور ہیں اور گزارنے والے اور ہیں۔۔ پس ایک جیسے کیسے ؟
گویا جن لوگوں نے نبی کو اپنے جیسا سمجھا انہوں نے نبی کے منبر پر بھی اپنے جیسے کو بیٹھایا اورجنہوں نے نبی کو اپنے جیسا نہیں سمجھا انہوںنے اپنے جیسے کو اپنے جیسا سمجھا اور نبی جیسے کو نبی کے منبر کا وارث قرار دیا۔
نیک بخت ہے وہ انسان جس نے حضرت علی ؑکو اپنا تسلیم کر لیا او ربدنصیب ہے وہ بندہ جس کا ہاتھ دامن مرتضیٰ سے کوتاہ ہوا۔۔۔ اگر سب برابر ہوتے تو حضرت عمار نے جب سوال کیا تھا کہ حضورؐ فتنہ و فساد کے زمانہ میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تو آپ ؐنے فرمایا اگر تمام لوگ ایک وادی میںہوں اور اکیلا علی ؑدوسری وادی میں ہوتو علی ؑکو نہ چھوڑو کیونکہ علی ؑتجھے گمراہی میں ہرگز نہ لے جائے گا اورحضوؐرنے عمار کو پیشین گوئی کے طور پر فرمایا تھا ( کہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا) تو حضوؐر کے فرمانے  کا صاف مطلب یہ کہ باغی اور ہیں اور ہادی اور ہیں۔۔۔ سب برابر نہیں۔
جس طرح سب امام برابر نہیں اسی طرح سب غلام بھی برابر نہیں، حضرت علی ؑ شریفوںکے امام ہیں کمینوںکے نہیں، اے مولا علی ؑ کے حبدارو! تم بھی یاد رکھو کہ حضرت علی ؑ و ہ امام ہیں جس طرح امام ہونا چاہیے تم بھی ان کے ایسے غلام بننے کی کوشش کرو جس طرح حضرت علی ؑ کا غلام ہونا چاہیے، جس طرح تمہیں بدمعاش امام کی ضرورت نہیں اسی طرح حضرت علی ؑ کو بھی بدمعاش غلام کی ضرورت نہیں۔
بعض غلام وہ ہیں جن کی زیارت کوسردار خود تشریف لے جاتے ہیں، ان غلاموں میں سے ایک میثم تمار ہے جس کی طرف چل کرحضرت علی ؑ خود جایا کرتے تھے، اسی طرح ایک مومنہ نے اپنے شوہر کی اجاز ت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھا حتی کہ اس کا باپ مر گیا لیکن پیغمبرؐ کے حکم کے ماتحت گھر سے نہ نکلی اور صبر کر کے گھر بیٹھی رہی تو بحکم پروردگار حضورؐ بنفس نفیس اس کے گھر اس کو مبارکباد کہنے کیلئے آئے کہ چونکہ تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی لاج رکھی اور محمد مصطفی کے فرمان کی اطاعت کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے صلہ میں تیرے او ر تیرے باپ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت علی ؑ کی غلامی کا شرف تاجِ سکندر ی سے بہتر ہے اور حدیث میں ہے کہ جس کے کانوں پرحضرت علی ؑ کانام آیا اور اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا  پس اس شخص کو چاہیے کہ اپنی شریف ماںکا شکریہ اد اکرے جس نے اس کے باپ کا حق میں خیانت نہیں کی (بہت سے کانوںپر حضرت علی ؑ کا نام آتا ہے لیکن کلیجہ قسمت والوںکا ٹھنڈا ہوتا ہے)
مسلمانوں نے بھی تقسیم کرکے حضرت علی ؑہمیں دے دئیے ہیں، ان کا گھر یلو فیصلہ ہے کہ مولا علی ؑشیعوں کے ہیں اور باقی سب ہمارے۔۔۔۔ دیکھو زبان سے اگر کوئی نہ کہے تب بھی عمل سب کا یہی بتاتا ہے، چنانچہ آپ تجربہ کر لیں اگر کوئی شخص شب تاریک میں کسی راستہ سے گزر رہا ہو او ردائیں بائیں کسی جانب سے نعرہ حیدری یا علی ؑ کی صدا گونجنے لگے تو اس گزرنے والے نے اگرچہ اُسے دِکھا کچھ نہیں پہچانا نہیں بلکہ نہ شکل کا پتہ سیاہ ہے یا سفید۔۔خوبصورت ہے یا بد صورت ۔۔عورت ہے یا مرد۔۔ ہم وطن ہے یا مسافر۔۔ اورجن ّہے یا انسان؟ یہ شخص فیصلہ کر لے گا جو بھی ہے  ہے شیعہ !
اس لیے کہ نام علی ؑجس طرح شیعہ کی زبان سے پیارے انداز میں نکلتا ہے وہ دوسری زبان سے نہیں نکلتا کیونکہ جب کوئی آدمی حضرت علی ؑکا نام لے گا تو جھجھک کرلے گا۔۔ اٹک اٹک کر لے گا، لیکن جب شیعہ نام علی ؑ لے گا تو بے دھڑک لے گا اور کڑک کر لے گا، اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص علی ؑکا نام لے گا تو آہستہ لے گا اور تاوان سمجھ کر لے گا لیکن جب مومن۔۔ موالی۔۔ شیعہ ٔحیدرِ کرّار نامِ علی ؑ کا نعرہ لگائے گا تو باآوازِ بلند لے گا اور ایمان سمجھ کر لگائے گا۔
اسی طرح اگر گزرتے ہوئے کسی بچہ سے کسی نے پوچھ لیا کہ تیرا نام کیا ہے؟ اور اس نے جواب دیا کہ میرا نام ہے غلام علی۔۔ غلام حیدر۔۔ غلام صفدر۔۔ وغیرہ تو پوچھنے والے کو تسلی ہوجائے گی کہ شیعہ کا بچہ ہے کیونکہ جس باپ نے بچہ کا نام غلام حیدر رکھا ہے وہ ضرور حیدر ی ہی ہو گا۔۔ اگر کسی مکان کے دروازے پر لکھا ہوا ہو یا علی ؑ تو ہر گزرنے والا سمجھے گا یہ گھر شیعہ کا ہے، گھر تو گھر! اگر کسی مسجد کے دروازہ پر نام علی ؑ لکھا ہوا ہو تو ساری دنیا اُسے شیعہ کی مسجد کہے گی، بلکہ قرآن کے پہلے خالی ورق پر اگرنام علی ؑ لکھ دیا جائے تو کھولتے ہی پتہ چل جائے گا کہ یہ شیعہ کا قرآن ہے، اب میں کہوں گا کہ جہاں علی ؑ وہ چیز شیعوں کے نام ہے تو مسلمانو! ذرا دیکھنا کہیں جنت کے دروازے پر بھی علی ؑ نہ ہوں؟
گویا شیعہ قوم کی پہچان ہی نام علی ؑسے ہوتی ہے توہمیں کردار وہی ادا کرنا چاہیے جسے حضرت علی ؑ پسند فرمائیں۔
دیکھئے تاریخ انسانیت کا ورق اُلٹ کر نظر غائر سے مطالعہ کیجئے کبھی کوئی سلطان آپ کو نہ ملے گا جس نے اعلانِ جنگ کر کے اپنی فوج کو چھٹی دے دی ہو؟ پس اگر اللہ تعالیٰ کی پوری کائنات میںکوئی ایسا سلطان ہے تو صرف امام حسین ؑ جس نے اپنے زمانہ کی سپر پاور سے اعلانِ جنگ کے بعد اپنی پوری فوج کی چھٹی دے دی اور کیا کہنا ان فوجیوں کا جنہوں نے اعلانِ جنگ کے بعد چھٹی ملی لیکن قبول نہ کی اور وہ ہے سپاہ امام حسین ؑ ، اسی بنا پر اگرمولاناز کریں تو ان کو زیبا ہے کہ میرے صحابہ جیسے کسی کے صحابی نہیں ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ میرے نانا کے صحابی وہ تھے جن کو بوقت ضرورت وہ بلاتے رہے اور واپس کسی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا؟ اور میرے صحابہ وہ ہیں جن کو مصیبت کے وقت میں رخصت کرتا ہوں توجانے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
امام حسین ؑ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ حق و باطل کی جنگ میں افرادی کثرت یا قلت کو معیار نہیں سمجھا جاتا بلکہ حق اپنے دلائل و آثار سے واضح ہوتاہے اور باطل اپنی پست و کمینہ حرکتوں سے آشکار ہوتاہے، بس امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ میرے صحابہ وہ ہوں جو میرے مشن میںسو فیصد میرے ساتھ ہوں۔۔۔ بے شک ردّی قسم کے انسان جانا چاہیں تو چلے جائیں میں ان کو روکتا نہیں ہوں مگر میرے پاس وہ رہیںجو اگرچہ تعداد میں کم ہوں لیکن کردار میںحبیب بن مظاہر جیسے ہوں۔
چنانچہ زہیر بن قین نے عرض کیا مولا ؑ!  آپ کے سامنے ستر بار قینچی سے ٹکڑے ٹکرے کر دیا جائوں تب بھی آپ کے قدموں سے سر نہیں اُٹھائوں گا۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

بزبانِ حال جناب زینب ؑخاتون کا  بین
ہک وقت آہا جڈاں دوش نبی تے ہائی ویر شبیر دی منزل
 بیاجھولی پاک بتول دے وچ ہائی میں دلگیر دی منزل
بازاراں وچ درباراں وچ میکوں ڈھئی تشہیر دی منزل
بیا تخت یزید دے زینے تے ونج ڈٹھی ہم ویر دی منزل