التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

محمدوابراہیم پسران مسلم بن عقیل

15 min read
یہ دونوں شہزادے حضرت مسلم کے فرزند تھے لیکن بروایت مشہور جناب رقیہ بنت علی ؑ کے شکم اطہر سے نہیں تھے کیونکہ جناب رقیہ کاصرف ایک ہی شہزادہ تھا جس کا نام عبداللہ تھا اوروہ میدانِ کربلامیں درجہ شہادت پر فائز ہوا اس میں بھی اختلاف ہے کہ مدینہ سے حضرت مسلم کے ہمراہ آئے تھے یاتاراجی ٔ خیام کے وقت باقی قافلہ سے جداہوئے۔
صاحب ناسخ بروایت اعصم کوفی بیان کرتا ہے کہ حضرت مسلم نے ہانی کی گرفتاری کے بعد اپنے دونوںشہزادوں کو قاضی شریح کے گھر میں چھوڑاتھا، جب حضرت مسلم خودشہید ہوگئے توابن زیاد کو اطلاع پہنچی کہ کوفہ میں حضرت مسلم کے دوشہزادے کسی کے گھر میں پوشیدہ ہیں، ابن زیادنے منادی کرادی کہ جس کے گھر میں مسلم کے دوفرزند موجود ہوں وہ ہمارے پیش کرے ورنہ اس کا خون مباح اورگھرتاراج کیا جائے گا، قاضی شریح نے جب یہ اعلان سناتوگھبرا کرمحمد وابراہیم کے پاس روتاہوا آیا اورمسلم کی شہادت کی خبر سنائی، شہزادے اپنی یتیمی کی خبر سُن کر زاروقطار روئے، لیکن قاضی شریح نے جب شہزادوں کو گرفتاری کا حکم سنایا توابن زیاد کے ڈر سے سہم گئے، شریح نے ابن زیاد کے بد اِرادوں سے شہزادوں کو اطلاع دی اورکہا کہ تم دونوں میرے چشم وچراغ ہو، لیکن مصلحت اس میں ہے کہ تم کومدینہ پہنچانے کی کوئی تجویز کروں، لہذامیں ایساامین تلاش کرتاہوں جوتم کو مدینہ پہنچادے، پس اپنے بیٹے (اسد) کوبلایا اورحکم دیا کہ میں نے سنا ہے آج دروازۂ عراقین کے باہر ایک قافلہ مدینہ کوجانے والاہے لہذا اِن دونوں شہزادوں کو لے جا کر کسی معتمد آدمی کے سپرد کرو جو اِن کومدینہ پہنچادے اورہر ایک شہزادہ کو سفرخرچ کے طورپرپچاس پچاس دینار بھی دئیے، قاضی کا لڑکا رات کے وقت دونوں شہزادوں کو بہت تیزی کے ساتھ لے چلا جب دروازہ پرپہنچے توقافلہ اس سے پہلے جا چکا تھا، قاضی کے لڑکے نے کہا کہ قافلہ توجا چکا ہے لیکن وہ سامنے دورسے ان کے نشان نظرآرہے ہیں تم دوڑ کر ان سے مل جائو، رات کا وقت تھا شہزادے راستہ سے بے خبر تھے کچھ دُور تک دوڑتے رہے لیکن قافلے کو نہ مل سکے آخر تھکے مندے رُک گئے اورقافلہ کا نشان آنکھوں سے غائب ہوگیا، کوفہ کے بعض آدمی جو اس دوران شہزادوں کو ملے اوران کو معلوم ہوا کہ مسلم کے شہزادے ہیںتوانہوں نے پکڑ کرابن زیاد کے پیش کردیا، ابن زیاد نے دونوں کو قید کردیا اوریزید کو اطلاع کے طور پر خط لکھ دیا داروغہ زندان جس کا نام مشکورتھا وہ آلِ محمدکا دوستدار تھا اس نے شہزادوں کی بہت خدمت کی خورونوش میں شہزادوں کی اچھی تواضع کی اوررات کو بسترے بھی دیئے، دوسری رات شہزادوں کو اپنے ہمراہ لے کر شہر سے باہر آیااوراپنے ہاتھ سے انگوٹھی بطور نشانی شہزادوں کو دی اورقادسیہ کے راستہ پر کھڑا کر کے کہا اِسی را ستے قادسیہ چلے جاؤ وہاں میرے بھائی کے پاس جاکر ان کو انگوٹھی نشانی دکھانا اوروہ خدمت بھی کرے گا اورمدینہ بھی پہنچادے گا، پھر شہزادوں کو راستہ بھول گیا ساری رات چلتے رہے لیکن جب سفیدی صبح نموودار ہوئی تودیکھا کہ ابھی کوفہ کے پاس ہی ہیں، پس دوبارہ گرفتاری کے ڈر سے ایک باغ میں گئے اورایک درخت پر چھپ کر بیٹھ گئے، ایک حبشی کنیز چشمہ سے پانی بھر نے کے لئے آئی تو پانی میں دوعکس دیکھے اُوپر دیکھا تودرخت پر دوچاندسے چہرے نظر آئے، پس اس نے ان کے ساتھ مہرومحبت کی باتیں کیں اوراپنی مالکہ کا دوستدارآلِ محمد ہونا بیان کیا، پس دونوں شہزادوں کو ہمراہ لائی اوراپنی مالکہ کو شہزادوں کے حالات کی اطلاع دی اس پاکباز خاتون نے شہزادوں کی بہت خدمت کی اوران کے منہ کو بوسے دئیے اورحبشی کنیز کو اس نیکی کے صلہ میں آزاد کردیا، شہزادوں کو علیحدہ حجرہ سپرد کیا اوران کی خدمت میں مصرو ف ہوئی۔
مشہورومعروف روایت کی بنا پر شہزادے حسینی لشکر گا ہ سے عاشور کی عصر کو جدا ہوئے اورابن زیاد کے پاسبانوں نے ان کو گرفتار کرکے ابن زیاد کے حوالہ کیا اوراس نے خاندانِ رسالت کے اِن دونوں نونہالوں کو قید سخت میں ڈالنے کا حکم دے دیا اورمکان اورآب وہوا کی نہایت تنگی کا آرڈر دیا، چنانچہ زندان بان نے بحکم ابن زیاد شہزادوں پر تشددکیا صرف رات کو جَوکی دو روٹیاں اورپانی کا کوزہ دے دیتا تھا اورشہزادے سارادن روزہ سے گزارتے تھے، ایک سال کی طویل مدت قید میں گذر گئیں اوردونوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا کہ اب توہمارے نازنین جسموں کو مٹی نے بوسیدہ کردیا ہے اس زندان بان کو اپنی حقیقت کی خبردیں ممکن ہے وہ رحم دل ہو اور ہم پر رحم کرکے ہمیں قید سے آزاد کر دے، یا ہماری آب وغذامیں کچھ خاطر خواہ تبدیلی کردے، جب شام کے وقت حسب دستور وہ طعام پانی لایا چھوٹے شہزادے نے کہا: یَا شَیْخ اَ تَعْرِفُ مُحَمَّد اے شیخ تومحمد کو جانتاہے؟ زندان بان نے کہا کیوں نہیں وہ تومیرا رسول ہے اورمیں اس کا کلمہ گوہوں، شہزادے نے پوچھا جعفر بن ابیطالب ؑ کو پہچانتا ہے؟ توزندان بان نے جوا ب دیا کیوں نہیں جانتاہوں کہ خدانے جنت میں اس کو دوپَر عطافرمائے ہیںکہ ملائکہ کے ہمراہ پروازکرتاہے، پھرشہزادے نے پوچھا علی بن ابیطالب ؑ کو بھی جانتاہے؟ تو زندان بان نے کہاکہ کیوں نہیں جانتا وہ تو پیغمبر کا چچازاد بھائی ہے، اس وقت شہزادہ بولااے شیخ! ہم عترتِ رسول ہیں اورمسلم بن عقیل کے لخت جگر ہیں، اب تیرے ہاتھ میں قیدی ہیں تو ہم پر سختی کو چھوڑدے اورہمیں آلِ رسول سمجھ کر ہم پر احسان کر، زندان بان نے سنا تو فوراًدونوں شہزادوں کے قدموں پر گرگیا اوران کو بوسہ دیا اورکہنے لگا تم پر میری جان قربان ہو، لویہ قید خانہ کا دروازہ کھلا ہے جہاں چاہو تشریف لے جاؤ، رات کے وقت روٹیاں اورپانی ان کے حوالہ کیا اورراستہ پر لاکر ان کو کھڑا کیا اورعرض کیا دیکھو زمانہ تمہارادشمن ہے رات کو سفر کرنااوردن کو کسی امن کی جگہ پر آرام کرنا شاید خدا تمہاری مصیبت کو دور کرے، پس وہ شہزادے رات کی تاریکی میں جارہے تھے کہ ایک بوڑھی عورت کے مکان میں جاپہنچے بہت تھکان کی وجہ سے وہاں تھوڑا آرام کرنے کے لئے چلے گئے اس عورت سے خواہش کی کہ ہم تھکے ماندے کہیں نہیں جاسکتے اگر ہم پر مہربانی کرسکو اور اس تاریکی شب میں اپنے گھر رہنے کی اجازت دو توہم پر بڑا احسان ہوگا جب صبح ہوگی توہم چلے جائیں گے، عورت نے پوچھا تم کون ہو کہ تم سے عطر کی خوشبوآتی ہے؟ شہزادوں نے جواب دیا ہم تیرے پیغمبر کی اولاد ہیں ابن زیاد کی قید سے نکلے ہیں، اس عورت نے جواب دیا میراداماد نہایت فاسق وخبیث ہے وہ واقعہ کربلا میں بھی موجود تھامبادا وہ یہاں آجائے اورتمہیں پکڑلے، شہزادوں نے کہا ہوسکتاہے کہ وہ نہ آئے رات کا اندھیرا ہے صبح سویرے توہم بھی چلے جائیں گے، پس اس عورت نے رحم کھا کر شہزادوں کو جگہ دے دی اورکھاناحاضر کیا پس شہزادے کھانا کھا کرسوگئے۔
دوسری روایت کے ماتحت شہزادوں نے کہا ہم کو کھانے کی ضرورت نہیں ہمیں جائے نماردے دو کہ نمازیں پڑھ کررات بسر کریں، چنانچہ کچھ وقت تک نماز پڑھتے رہے پھر سوگئے، چھوٹے شہزادے نے بڑے سے کہا آج مدت کے بعد بستر نصیب ہوا ہے اور ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کرایک جگہ سوجائیں تاکہ آج رات توآرام وخوشی سے نیند کرلیں پھر ممکن ہے موت ہم میں جدائی کردے تویہ ارمان پورا کرلیں، پس ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر محو خواب ہوئے، قضا کا کرنا یہ تھا کہ رات کا کچھ حصہ گزر نے کے بعداس عورت کا داماد ملعون آپہنچا۔
بروایت روضۃُالشہدأ وہ اس عورت کا شوہر تھا جس کا نام حارث تھا، اس نے دقُّ الباب کیا عورت نے پوچھا اتنی دیر تک کہاں گیا تھا؟ اس نے جواب دیا جلدی دروازہ کھولوکہ میں بہت تھک کرآیا ہوں کیونکہ مسلم بن عقیل کے دوفرزندابن زیاد کے قید خانہ سے بھاگ گئے ہیں اوران کے گرفتار کرنے والے کے لئے حکومت کی جانب سے دوہزاردینار انعام مقررکیا گیا ہے میں نے سارا دن رات کوفہ کے صحراورجنگل میں چکر لگایا ہے کہ کہیں سراغ مل جائے تاکہ انعام حاصل کروں گھوڑا بھی تھک گیا ہے اورخود بھی خستہ حالی سے بھوکا پیاساواپس ناکام پلٹاہوں، عورت نے کہا خداسے ڈرو اورذرّیت رسول کی ایذا رسانی سے بچو ایسا نہ ہوکہ کل بروز محشر رسول خد اتمہارا دشمن ہو، اس نے کہا دوہزار دینار ملیںگے توعورت نے کہا دوہزار دینار بجائے خوداگر ساری روئے زمین مل جائے توکس کام کی، لیکن اس ملعون نے اس نیک بخت عورت کی کوئی پروانہ کی اورکہنے لگاشاید تجھے ان کی خبر ہوگی میں تجھ کو ابن زیاد کے پیش کروں گا، عورت نے کہا حیا کرو خدااوررسول سے شرم کرو میں ایک بوڑھی عورت ہوں میرے ساتھ ابن زیاد کا کیا مطلب ہے؟
حارث نے کہا کھانا حاضرکرو تاکہ کھاکر کچھ آرام کرلوں کیونکہ صبح کو پھر ان بچوں کی تلاش میں جانا ہے، پس عورت کھانا لائی اوروہ ملعون کھا کرسوگیا اتنے میں محمد نیند سے بیدار ہوا اوراپنے بھائی ابراہیم کو خواب سے بیدار کیا بھائی جان اٹھو کہ ہماری شہادت کا وقت قریب ہے کیونکہ میں نے عالمِ خواب میں حضرت رسالتمآبؐ حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہراؑاورحسنین علہیم السلام کی زیارت کی ہے وہ جنت میں موجود تھے ناگاہ رسولِ خدانے ہمیں دیکھا اورہمارے بابامسلم بن عقیل کو دیکھ کر فرمایا تیرا جگر کس قدر مضبوط ہے کہ اپنے دونوں شہزادوں کو دشمنوں میں چھوڑ کر آگئے ہو؟ تو ہمارے بابا نے جواب دیا وہ ابھی میرے پیچھے آرہے ہیں اورکل پہنچ جائیں گے، ابراہیم نے جواب دیاخداکی قسم بھائی جان بلاکم وکاست میں نے بھی خواب میں یہی ہے، پس اسی وقت ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کرسخت رونے لگے۔۔۔ حارث کی آنکھ کھلی سراٹھایا اورعورت سے پوچھا ہمارے گھر میں یہ رونے کی آواز کیسی ہے؟ عورت نے جواب دیا ہمسایوں کے بچے ہوں گے ہمیں ان سے کیا مطلب ہے، حارث کو شک پیدا ہوا فور اًچراغ طلب کیا عورت نے چراغ لانے میں تاخیر کی اورٹال مٹول کرتی رہی وہ ملعون دیوار کو پکڑ کر اس رونے کی آواز کے پیچھے روانہ ہوا اوراس حجرہ میں داخل ہوا اچانک بچوںپرہاتھ جاپڑا، پوچھا تم کون ہو؟ توشہزادوں نے کہا توکون ہے؟ حارث نے جواب دیا میں توگھر کا مالک ہوں، تم بتاو کہ کون ہو؟ اوریہاں تمہارا کیا کام ہے؟ بچوں نے سہمے ہوئے اندازمیں جواب دیا اے شیخ! اگر ہم سچ بتادیں توہم کو امان دے گا؟ حارث نے کہا ہاں، شہزادوں نے کہاہم عترتِ رسول ہیں اورمسلم کے لخت جگر ہیں آج رات تیرے مہمان ہیں، اس سنگدل ملعون نے کہا موت سے بھاگ کر موت کے پنجے میں خود آگئے ہو، اور کہا الحمد للہ کہ تم مجھے مل گئے ہو میں آج سارا دن شہر اور گرد ونواح میں تمہاری تلاش کے لئے مارامارا پھر تارہاہوں حالانکہ تم تومیرے گھر میں موجود تھے، پھر اپنے ظالم ہاتھوں سے شہزادوں کے سروں اوررخساروں پر تھپڑ مارنے شروع کئے۔۔۔ حتی کہ مخزن البُکا میں بروایت منتخب منقول ہے کہ بڑے شہزادے کے دانت ٹوٹ گئے اورمنہ سے خون جاری ہوگیا، پھر ان کے ہاتھ پاوں مضبوط باندھ کر وہیں لٹا دیا اوردروازہ کو بند کردیا، عورت نے جب یہ دیکھا نہایت روروکر ان کی سفارش کی اورخوشامد سے حارث کے ہاتھ پائوں نجس کو بوسہ دیا اورخدااوررسول سے خوف دلایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔
صبح سویرے سلاحِ جنگ درست کرکے دونوں شہزادوںکو اپنے ہمراہ کیا اوردریا کی طرف لے چلا، عورت پیچھے سے دوڑ کرروتی اوردہائی دیتی رہی لیکن یہ ملعون ذرّہ بھر پرواہ نہ کرتاتھا، آخر کار دریا کے کنارہ پر پہنچ کر اپنے غلام کو بلایا اوربروایت ناسخ غلام کو تلواردے کر شہزادوں کے سر قلم کرنے کا حکم دیا غلام نے کہا مجھے حضرت محمد مصطفی سے شرم آتی ہے لہذا میں اس بارے میں تمہاری اطاعت نہ کروں گا اس ملعون نے غلام کو قتل کردیا، پھر اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ شہزادوں کو قتل کرو لڑکے نے جواب دیا کہ اولاد پیغمبر کو میں قتل نہ کروں گا، عورت نے آگے بڑھ کر منت سماجت کی لیکن اس ملعون نے عورت کو تلوار ماری اور وہ زخمی ہوکر گر گئی، بیٹا آگے آیا تو فرطِ غضب سے اس کو تلوار ماری اور وہ بھی قتل ہوگیا، پھر بے ہوشانہ شہزادوں کی طرف بڑھا۔۔۔ بروایت شہزادوں نے حارث سے چندسوال کئے جو اس ملعون نے منظور نہ کئے:
(۱)   فرمایا ہم دونوں کو زندہ ابن زیاد کے پیش کرو جو حکم وہ کرے گا ہمیں
         منظورہے۔۔۔ اس ملعون نے انکار کیا۔
(۲)   فرمایا ہم تیری غلامی کا اقرار کرتے ہیں ہمیں اپناغلا م بناکربازار میں
         بیچ وہ تمہیں فائدہ ہوگا۔۔۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔
(۳)   فرمایااورنہیں توکم ازکم رسول کی قرابت داری کا پاس کرو۔۔ تواس نے
         جواب دیا تم رسول کے قریبی نہیں ہو۔
 (۴)  فرمایاہماری کم سنی اوربچپنے پر رحم کرو۔۔۔اس نے جواب دیا یہ نہیںہو
         سکتا میرے دل میں خدا نے رحم پیداہی نہیں کیا
(۵)   فرمایا اگر خوہ مخواہ قتل ہی کرنا ہے تو ہمیں مہلت دو کہ چند رکعت نماز
        پڑھ لیں۔۔۔ تو اس سنگدل ملعون نے جواب دیا کہ اگر نماز تم کو فائدہ
        دیتی ہے تو بے شک پڑھ لو۔
پس شہزادوں نے دودو رکعت نماز ادا کی اورخدا سے التجاکی ہمارے پروردگار اس ظالم اورہمارے درمیان تو ہی فیصلہ فرما۔۔۔ بروایت ناسخ اس ملعون نے نماز کی بھی اجازت نہ دی، جب ایک شہزادے کی طرف ہاتھ اٹھاتاتھا تو دوسرا شہزادہ آگے بڑھ کر کہتاتھا اس کونہ مار پہلے مجھے مار۔
پہلے اس نے محمد کے سر پر تلوار ماری اورسر اقدس کو تن سے جدا کردیا اورجسم کو پانی میں ڈال دیا، ابراہیم نے دوڑ کربھائی کے کٹے ہوئے سرکو اٹھالیا اورسینے سے لگا کر خوب رویااتنے میں اس ظالم نے ابراہیم سے محمد کا سرلے لیا اورابراہیم کا سرقلم کرکے اس کے بدن کو بھی دریامیں ڈال دیا۔
ایک روایت میں ہے کہ جب محمد شہید ہوا تو ابراہیم نے بڑھ کر بھائی کی لاش کے خون سے اپنے منہ کو خضاب کرنا شروع کیا اورکہنے لگا میں اسی حالت میں اپنے نانارسول خداکی خدمت میں پیش ہوں گا اورپھر بھائی کی لاش سے لپٹ گیا، حارث نے ابراہیم کو بھائی کی لاش سے جدا کرناچاہا لیکن شہزادے نے اپنے بھائی کی لاش کو نہ چھوڑا تو اس ملعون نے اسی حالت میں ابراہیم کا سربھی تن سے جداکیا اوردونوں نازنین شہزادوں کے نورانی سر توبرہ میں ڈال کردربار ابن زیاد میں حاضر ہوا اورسروں کو ابن زیاد ملعون کے پیش کیا۔
 ابن زیاد نے پوچھا کس دشمن کے سرہیں؟ توجواب دیا کہ مسلم بن عقیل کے بیٹوں کے سرہیں، اگرچہ یہ ملعون بھی نہایت سنگدل تھا لیکن شہزادوں کے قتل کی خبر سن کر بے ساختہ تین دفعہ تخت سے اٹھا اورپھر بیٹھا اورحکم دیا کہ سروں کودھوکر پیش کیا جائے، پس سروں کو دھوکر دوبارہ طشت میں پیش کیا گیا پھر شہزادوں کے چاند جیسے چہروں کو بہت دیر تک حسرت کی نگاہ سے دیکھتارہا اورآخر حارث سے دریافت کیا کہ تو ان دوبے گناہ نازنین بچوں کے قتل کے بارے میں خدا سے نہ ڈرا؟ حالانکہ میں نے بچوں کے متعلق یزید کو خط لکھا ہوا ہے اوراس کے حکم کا انتظار ہے ممکن ہے وہ ہم سے یہ بچے زندہ طلب کرے پھر ہم کیا جواب دیں گے؟ لہذا تم ان کو زندہ کیوں نہ لائے؟ حارث نے جواب دیا مجھے خوف تھا کہ شہر کے لوگ ان بچوں کو مجھ سے چھین لیں اورانعام سے محروم ہوجائوں! ابن زیاد نے کہا یہ کیوںنہ کیا کہ ان کو اپنے ہاں قید کر لیتا اورمجھے اطلاع بھیج دیتا پھر میں خود انتظام کر سکتاتھا؟ اب حارث کے پاس کوئی جواب نہ تھا خاموش ہوگیا پھر ابن زیادنے پوچھا کہ وہ بچے تم کو کہاں سے ملے ہیں؟ حارث نے کہا کہ یہ ہمارے گھرمیں موجودتھے میری عورت نے ان کواپنے ہاں مہمان ٹھہرایا ہوا تھا، ابن زیاد نے کہا خداتم پر لعنت کرے تو نے اپنے مہمان کے حق کی بھی رعایت نہ کی؟ حارث نے کہا کہ میں نے ان کے مہمان ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی، ابن زیاد نے پوچھاکہ جب تونے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو ان معصوم بچوں نے تجھے کچھ کہا بھی تھا؟ توحارث نے وہ بچوں کے سارے سوالات دہرائے اورپھر کہا کہ جب دورکعت نماز پڑھ چکے تو انہوںنے اللہ سے مناجات کی کہ خدایا تو ہمارے اوراس کے درمیان فیصلہ کرنا، ابن زیاد نے کہا بس اللہ کا فیصلہ ہوگیا غلام کو حکم دیا جس کا نام مقاتل تھا اوربعض اس کا نام نادر لکھتے ہیں اوروہ محب آلِ محمد تھا، جس کا ابن زیاد کو بھی علم تھا کہ حارث نے میرے حکم کے بغیر اِن شہزادوں کو قتل کیا ہے لہذااس ملعون کو لے جاؤ اورجس جگہ اس نے شہزادوں کو قتل کیا ہے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر وہاں قتل کردو اورہر ممکن طور پر ذلت وخواری سے اس کو موت کا ذائقہ چکھا و ٔاورخیال رکھنا کہ اس کاناپاک خون شہزادوں کے بے گناہ طاہرخون کے ساتھ نہ ملنے پائے اوراس ملعون کے ہتھیاروغیرہ بھی تجھے بطور انعام ملیں گے اوراس کے علاوہ دس ہزار درہم نقد انعام بھی ہوگا اوراس نیکی کے بدلہ میں تجھے آزاد بھی کروں گا پس اس ملعون کو قتل کرکے اس کا سر میرے پاس لانا اواراس کی لاش نجس کو دریا میں ڈال دینا ۔
وہ مومن بہت خوش ہوا اورکہتاتھا کہ اگر ابن زیاد پوری سلطنت مجھے دے دیتا تو مجھے اس قدر خوشی نہ ہوتی جو اَب ہوئی ہے، پس حارث کے ہاتھ گردن سے باندھ لئے اورعمامہ وکلاہ اس کے سر سے پھینک دیا اورکوفہ کے بازار سے اس کو گھسیٹ کر لے چلا اور راستہ میں اس کی سر گزشت اورکیفیت جرم کو لوگوں میں بیان کرتے ہوئے گیا، لوگ سن سن کرروتے تھے اورحارث پر لعنت کرتے تھے، جب دریاکے کنارے پہنچے تو نوجوان اورغلام کو مقتول دیکھا اورعورت کو زخمی حالت میں خون میں لت پت دیکھا اورپھر ان کے حقیقت حال سے اطلاع پائی تو اس خبیث کی سنگدلی پر لوگوں کو اورزیادہ تعجب آیا، اس وقت حارث نے مقاتل سے کہا مجھے چھوڑ دو تاکہ کہیں چھپ جاؤں تو اس کے بدلہ میں دس ہزار درہم تمہیں دوں گا مقاتل نے جواب دیا اگر پوری روئے زمین تیری ہو اور مجھے اس بدلے میں بخش دے تب بھی تجھے نہ چھوڑوں گا اب تیرے قتل کے بدلہ میں خداسے بہشت لوں گا، جب مقاتل کی نظر فرزندان مسلم کی قتل گا ہ پر پڑی اوربے گناہ بچوں کا تازہ خون دیکھاتو بے حد رویا، پس پہلے پہل حارث کے ہاتھوں کو جدا کیا۔۔۔ پھر اس کے پائوں کاٹ ڈالے۔۔۔ پھر اس کی آنکھیں نکال لیں۔۔۔ پھر شکم نجس کو چاک کیا اوراس کے جواعضاکاٹے تھے اس کے پیٹ میں رکھ دئیے اوراُوپر پتھرباندھ کرنجس جسم کو دریا کے حوالہ کر دیا، لیکن پانی نے اس پلیدجسم کو قبول نہ کیا باہرپھینک دیا، حتی کہ تین بار ایسا کیا جب دیکھا کہ اس کے نجس جسم کو پانی قبول نہیں کرتا پھر کنوئیں میں تین مرتبہ ڈالالیکن لاش اوپر نکل آئی اور زمین نے بھی ا س نجس بدن کو قبول کرنے سے انکار کردیا تب اس کے خبیث جسم کو آگ لگادی۔
مقاتل مسلم کے فرزندوں کے سر بھی ساتھ لائے تھے جب ان کو دریا میں ڈالاگیا تو دونوںلاشیں پانی کی تہ سے اٹھ کر سطح پر آگئیں اور اپنے اپنے سر کو قبول کرلیا پھر دونوں بھائیوں نے ہاتھ بڑھا کر ایک دوسرے کو گلے لگایا اور دونوں لاشیں پھر پانی کے نیچے چلی گئیں۔۔۔۔۔ اور ’’بحارالانوار‘‘ میں ہے کہ حارث ملعون کے سر کو نیزہ پر نصب کرکے تیروں اور پتھرو ں کا نشانہ بنایا گیا۔۔  وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْن