التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مختار کی رہا ئی

11 min read
’’ناسخ التواریخ‘‘ سے منقول ہے کہ کوفہ میں حضرت علی ؑکے شیعوں میں سے ایک شخص عمیر بن عامر معلّم کو فی تھا جو بچوں کو پڑھاتا تھا اور یہی اس کا ذریعہ معاش تھا، ایک دن ایک عرب بدوی اس کے گھر آیا ایک پانی کا کوزہ بھرا ہوا دیکھا چونکہ وہ پیاسا تھا اُس نے پانی پیا اور امام مظلوم ؑ کی تشنہ لبی کو یاد کرکے قاتلوں پر لعنت بھیجی، بچوں میں سنان بن انس ملعون کا لڑکا موجود تھااس سے برداشت نہ ہو سکا اٹھ کر اس نے بدوی عرب کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ تو نہیں جانتاکہ امام حسین ؑ کا قاتل تو میرا باپ تھا میں ابھی ابن زیادہ کو اطلاع دوں گا اور تیرے جسم کا بند بند جدا کرے گا، عمیر معلّم نے سمجھاکہ اب یہ بات بہت بڑھے گی اور معاملہ خراب ہو گا لہذا کسی مناسب تدبیر سے اس فتنہ کو یہیںپر روک دینا چاہیے چنانچہ بات کورفع دفع کر نے کیلئے آگے بڑھا اور پیارو محبت کرکے لڑکے کو گود میںلیا اس کے سر اور منہ کو بوسہ دیا غرضیکہ اس کی بہت دلجوئی کی تاکہ یہ راز پردہ میں رہ جائے، وہ بچہ ملعون بن ملعون وقتی طور پر خاموش ہو گیالیکن جب چھٹی ہوئی تو گھر جاتے ہوئے ایک دیوار کے ساتھ ٹکر مار کر سر کو زخمی کر دیا اورجسم کو خون آلود کرکے گھر پہنچا، ماں نے سبب دریافت کیا اور اس نے بیان کیا کہ آج عمیر معلّم نے ابن زیاد اور میرے باپ کو گالیاں دی ہیں جب میں نے روکا تو اس نے مجھے اتنا سخت ماراہے کہ میں لہولہان ہوگیا ہوں، سنان بن انس کو جب معلوم ہوا تو اس نے ابن زیاد کے سامنے سارا  قصہ جوں کا توں بیان کردیا ابن زیاد نے غصہ میں آکر عمیرکو طلب کر کے تازیانے مرواے اورپھر زندان تامورہ میں قید کر کے بھیج دیا، وہاں پہنچ کر عمیر نے زندان کے آخری گوشے سے گریہ کی آو از سنی جب آواز کے پیچھے گیا تو مختار کو دیکھا ایک دوسرے کو دیکھ کر فور پہچان گئے، عمیر نے اپنا ماجرہ مختار کو سنایا مختار نے کہا خوف نہ کرو تو عنقریب رہاہوجائے گا، البتہ رہائی کے بعد میرے اُوپر احسان کرنا اوروہ یہ کہ ایک کاغذقلم اوردوات مجھے پہچانا کہ میں اپنے بہنوئی عبداللہ بن عمر کو ایک خط لکھو ں گا شاید وہ مجھے قید سے چھڑانے کی کوئی تدبیر کر ے، عمیر نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا کہ چاے میراسر بھی کا م آجائے میں ضرور یہ کا م کروں گا۔
اس طرف عمیر کی بھانجی ابن زیاد کی زوجہ (حصینہ) کی دایہ تھی، اس کو اطلاع پہنچی تو اس نے حصینہ کے بچے کو اٹھالیااورابن زیاد کے گھر میں جا کر حصینہ سے کہنے لگی کہ تم لوگوں نے بچہ پروری اورہماری باقی تمام ہمیں خدمات کا خوب صلہ دیا ہے کہ جھوٹی عورت کے بچہ کی رپورٹ پر میرے ماموں کو تازیانوں سے ماراگیا اور پھر قید بھی کیا گیا؟ بس آیندہ میں تمہا رے بچے کو دودھ نہ پلائوں گی؟ حصینہ یہ سن کر تڑپ اٹھی اوروعدہ کیا کہ آج شام تک تیرے ماموں کو رہاکراکے دم لوں گی، چناچہ ابن زیاد کا گھر آنا تھا کہ حصینہ بگڑگئی اور ابن زیاد کو بہت کچھ صلواتیں سنائیں ،اس نے اس کے بگڑنے کی وجہ پوچھی تو حصینہ نے سارا ماجرا سنایا اورکہا کہ فوراً عمیر کو رہا کر دیا جائے اور اس سے معافی بھی مانگی جائے ، نیز خلت فاخرہ بطور انعام بھی اس کو عطاکی جائے، چونکہ ابن زیاد حصینہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا اپنی انگلی آنکھ پررکھ کر کہا کہ تمہاری سفارش قبول ہے اورفوراً اس کی تعمیل میں احکام جاری کردئیے اور عمیر رہا ہوکر گھر آپہنچا، چونکہ عمیر کو مختار کے ساتھ کیا ہوا وعدہ یاد تھا ،فور اًکھانا پکا یا اورابن زیاد کا عطا کردہ انعام اور کھانا اٹھاکر زندان بان کے گھر لایا اتفاق سے وہ گھر پر موجود نہ تھا، تو اس نے یہ سب ہدیہ زندان بان کی عورت کے حوالے کردیا اورکہا کہ جب وہ آئے تو اس کو پہنچا دیناجب زندان بان گھر آیا اورہدیہ پر نظر کی تو کہنے لگا کہ ضرور عمیر کا ہمارے پاس کوئی مطلب ہوگا؟ دوسرے دن پھر عمیر کھانا اوردیگر عمدہ چیز یں تحفہ کے طور پرزندان بان کے پاس لایا، اس وقت زندان بان ڈیوڑھی پر کھڑا تھا اس نے عمیر سے اپنا مطلب دریافت کیا تو عمیر نے کہا اور کوئی مطلب نہیں ہے ،میری مَنّت تھی کہ جب قید سے نجات ملے گی تو زندان بان کی خدمت کروں گا۔
زندان بان نے کہا مجھے اپنے مولا حسین ؑکے حق امامت کی قسم تیر ا راز فاش نہ کروں گا اورتیر اکا م پورا کروں گا مجھے اپنا اصلی مطلب بتائو؟عمیر نے جب حسین ؑ کا نام سنا تو سخت رویا اورزندان بان بھی رویا، پھر عمیر نے کہا کہ سامانِ کتابت مختار تک پہنچانا ہے اورصرف یہی کا م ہے، زندان بان نے کہا یہ معمولی سی بات ہے کل کھانا تیار کرلینا اورسامان کتابت (کاغذ۔۔قلم۔۔ دوات) اس میں چھپاکر رکھ لینا اورقید خانہ میں آجانا اوریہ بیان کرنا کہ میں نے نذر کی تھی جب قید سے رہا ہوں گا تو قیدیوں کھانا کھلائوں گا پس میں اپنی نذر کو پورا کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، تو اس وقت میں تجھ پر غصہ ہوں گا اورتجھے کہوں گا نکل جاؤ کوئی اجازت نہیں ہے،  لیکن تم بار بار منت سماجت کرنا اورمنت کے پورا کرنے کا اصرار کرنا، آخر کا ریہ کہہ دینا کہ اگر مجھے اجازت نہیں ہے تو آپ مجھ سے لے لیں اورخود ان تک پہنچادیں پس میں فور اًیہ بات قبول کرلوں گا اورطبق تیرے ہاتھوں سے لے کر مختار تک پہنچادوں گا اوروہ جو کچھ لکھ کردے گا وہ اس سے لے کر تیرے حوالہ کردں گا، چنانچہ اسی حیلہ سے عمیر نے مختار سے خط حاصل کیا اورگھر پہنچ کر سفر حجاز کی تیاری شروع کردی اورابن زیاد سے جاکرکہا میں اس سال مکہ کوجارہا ہوں چنانچہ اس نے بطور زادراہ کے دواونٹ اورکافی نقدی اس کودی اورتاکید کی کہ عبداللہ بن عمر سے ملاقات نہ کرنا۔
عمیر نے مدینہ کا قصدکیا اوروہاں پہنچ کر زیارات سے فارغ ہوکر عبداللہ بن عمر کے گھر پہنچا ،عین اسی وقت مختار کی بہن صفیہ اپنے شوہر عبداللہ کے سامنے رورہی تھی کہ تم نے میرے بھائی مختار کے لئے کوئی کا م نہیں کیا، تونے خط بھی نہیں لکھا کہ اس طویل زمانہ میں میرے بھائی کے سر پر کیا گذررہی ہے؟ اس کے تمام حالات سے بے خبر ہوں، اتنے میں عمیر نے کہا میں مختار کا قاصد ہوں اور مختار کا خط لایا ہو ں، پس عبداللہ بن عمر نے خط پڑھا اورصفیہ کو خوش خبری دی۔
صفیہ کو تسلی ہوئی پس پردہ لٹکایاگیا ،اورپردے کے پیچھے آکر بیٹھی اوراحوال پرسی کی، جب عمیر نے یہ بیان کیا کہ ابن زیاد نے مختار کے سرپر تازیانہ مارکر اس کی آنکھ کو زخمی کردیا تھا تو صفیہ اس سے آگے سننا برداشت نہ کرسکی فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی اورکمرے میں جاکر قینچی سے اپنے بال کتر کر ایک رومال میں باندھ لئے اورواپس آکر عبداللہ کے آگے ڈال دیئے اورعبداللہ سے کہنے لگی کہ آج کے بعد میں تیرے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہ جمع ہوں گی جب تک کہ میرا بھائی مختار آزادنہ ہوجائے، عبداللہ نے کہا میں کیا کروں کوئی شخص ایس نہیں ملتا جومیرا خط یزید کی طرف لے جائے؟ عمیر نے جواب دیا کہ یہ کام میں کروں گا، پس عبداللہ نے مختار کی رہائی کے لئے سفارش نامہ لکھا اورعمیر کے حوالے کرکے اسے رخصت کیا، عمیر خط لے کر سفر شام پرروانہ ہوا اورطے منازل کے بعد آخر دمشق جاپہنچا ،لیکن چودہ دن تک خط پہنچانے کا کوئی ذریعہ پیدا نہ کرسکا، ہر روز مسجد میں آتاتھا لیکن یہ جرأت نہ تھی کہ اپنا مطلب ظاہر کرسکے! کیونکہ لوگ واقعہ کربلا کے بعد یزید سے متنفر ہوچکے تھے اور ہر شخص کو یزید سے ملنے کی اجازت نہ ہوتی تھی، ایک دن امام جماعت نے آپ کے قیافے سے پہچانا کہ یہ شخص عراق کا باشندہ ہے، چنانچہ اسے اپنے گھر لے گیا اورشام آنے کا مطلب دریافت کیا، لیکن عمیر نے اصلی مطلب کے بیان کرنے سے گریز کیا اورٹال مٹول سے کام لیا ،آخر کا رامام مسجد نے کہا اے مہمان! مجھے اپنے مولا حسین ؑ کے حق کی قسم دل کا راز بیان کر شاید میں تیری مشکل کو حل کردوں؟ عمیر نے امام حسین ؑسنا تو سخت گریہ کیا اورپھر اپنا مطلب بیان کیا ،امام مسجد نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہا کہ اس شہر میں میرے علاوہ اگرکسی دوسرے کے ذریعے سے یہ کام تم کرانا چاہتے تو ہر گز کامیاب نہ ہوتے!
اب یزید تک رسائی کا واحد علاج اورطریقہ یہ ہے کہ کل سویرے حمام میں جاؤ سراور جسم کو خوب صاف کرو، میں کہیں سے پولیس کی وردی تلاش کرکے تجھے دوں گا، غسل کے بعد جسم پرعطر وخوشبو لگاکر وردی پہن لینا اورچلاجانا ،یزید کے دربار کے دروازہ پرایک مسلح فوج ہوگی نہ ان کوسلام کرنا اورنہ ان کی طرف توجہ کرنابلکہ فوراً اندر داخل ہوجانا، ایک دروازہ نظرآئے گا جس کے آگے شاہی فرش بچھے ہوں گے اوردائیں بائیں ایک ایک دستہ دربانو ں کا ہوگا ان کی پرواہ نہ کرنا اورجلدی سے گزر جانا، پھر دوسرا دروازہ آئے گا جس کے آگے فرش پرریشم بچھا ہوگا اور دائیں بائیں دربان ہوں گے ان کی بھی پرواہ کئے بغیر آگے چلاجانا، پھر تیسرے دروازہ پر رونق زیادہ ہوگی فرش ریشم سرخ سے مزیّن ہوگا، اس سے آگے چوتھے دروازہ پر طشتیہ کھڑے ہوں گے یہ وہ جماعت ہے جنہوں نے امام مظلوم ؑ کا سر مبارک طشت طلا میں رکھ کر یزید کے آگے رکھا تھا، پھر پانچوں دروازہ پر فرش ریشم زردکا ہوگا اوردائیں بائیں یزید کے خاص غلام اورمشیر کا رموجود ہوں گے، پھر چھٹے دروازہ پردربان کوئی نہ ہوگا، ان سب دروازوں سے تیزی سے گزرتے جانا، آخرساتویں دروازہ پر ایک نہایت خوبصورت نوجوان کو دیکھے گا جس کا لباس سیاہ ہوگا اورامام مظلوم ؑ کی شہادت کے بعد اس وقت تک اس نے سیاہ لباس اپنے بدن سے دور نہیں کیا، وہ یزید کا چہتاغلام ہے ،یزید نے اپنے تمام درباری اختیارات اس کے سپرد کئے ہیں اور تمام لوگ اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ خود یزید کے لنگر سے نہیں کھاتا بلکہ اپنے ہاتھ سے حلال رزق کما کر کھاتا ہے ،بس یہ خط اس کو دے دینا اور تیرا کام ہو جائے گا۔
عمیر کہتا ہے میں نے امام مسجد کے حکم کی تعمیل کی اور جو کچھ اس نے بیان کیا تھا ہر دروازہ پر ویسے ہی دیکھا، جب آخری دروازہ پر غلام کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھ کر فوراً کہاکہ تو عمیر بن عامر ہمدانی تو نہیں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جب تو نے مجھے دیکھا تک نہیں ہے پہچان کیسے لیا ہے؟ تو اس نے کہاآج سے چودہ راتیں پہلے میں نے اپنے مولا حسین ؑ کو خواب میں دیکھا کہ مجھے فرماتے تھے عمیر بن عامر کے پاس مختار کا خط ہے اس کا کام ضرور کرنا، میں اسی دن سے تیرے انتظار میں رہتا ہوں اب صبر کرو، کہ یزید حمام میں ہے جب باہر آئے گا تو تیرا کام کرے گا۔
عمیر کہتا ہے میں نے اچانک دوخوبصورت نوجوانوں کو دیکھاجنہوں نے دیبا واطلس کی قبائیں پہنی تھیں اورسنہری کمر بند باندھا ہوا تھا، ایک کے ہاتھ میں کستوری کاجام اوردوسرے کے ہاتھ میں عرق گلاب کی شیشی تھی، وہ دونوںفوراًحمام کی طرف دوڑے، یزید اس وقت حمام سے باہر نکل رہاتھا کہ ان دونوں نے کستوری وگلاب کا اس کے اوپر چھڑکا ؤکیا، میں نے دیکھا کہ یزید کے چہرہ پر شاہانہ رعب وجلال کے آثار قطعاًنہیں ہیں بلکہ منہ کالااوراس کے سرپرایک ضرب کا نشان خوب نمایاں نظرآرہاتھا۔۔۔ اس کے ہونٹ بہت بڑے اور موٹے تھے۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک عصاتھا جس پر کلمہ توحید ورسالت کے بعد یزیدکا امیرالمومنین ہونا کندہ تھا، اس کے جوتے پربھی سونے کی سلاخیں جڑی ہوئی تھیں۔
یزید کا مخصوص غلام آگے بڑھا اورکہنے لگا اے یزید! جس دن سے میرا مولا حسین ؑشہید ہوا ہے تونے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ہر روزتیری ایک بات مانوں گا لیکن میں نے آج تک تجھے کسی کام کے لئے نہیں کہا آج ایک کام لایا ہوں اوروہ یہ کہ اس خط کا جواب لکھو، یزید نے خط کو پڑھا تو کہنے لگا کہ اگر ایک لاکھ دینا رمجھ سے طلب کرتا تو وہ میرے لئے اس خط کے جواب کی بہ نسبت آسان ترتھا لیکن وعدہ کو پورا کرتاہوں، پس خط لکھاکہ مختارکو قید سے رہاکیا جائے اوراس سے معذرت طلب کرکے اس کوخلعت فاخرہ بطورانعام بھی عطاکی جائے اور اس کو زادِ سفر دے کرعبداللہ بن عمرکے پاس بھیج دیا جائے۔
عمیر نے خط لیا اورفوراً طے منازل کے بعد کوفہ میں پہنچا اور خط ابن زیاد کے حوالے کیا، ابن زیادنے کہا اے عمیر! آخر تونے اپنی ہی کی؟ پھر مختارکی رہائی کا حکم دیا اورخلعت فاخرہ بھی اس کو دی اورحکم دیا کہ تین دن کے اندر اندر کوفہ سے نکل جائو ورنہ میں تم کوقتل کرا دوں گا، پس مختار عمیرکے گھر آیا اورسامان سفردرست کیا اورپھر مدینہ کی جانب روانہ ہوا، راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جوبنی ثقیف کے دوستوں میں سے تھا اس نے مختار کو دیکھ کر پوچھا کہ تیری آنکھ کو کیا ہواہے؟ مختارنے جواب دیا کہ زانیہ کے بیٹے نے ایساکیا ہے یعنی ابن زیاد نے، اورمجھے خداکی لعنت ہو اگر میں اس کی انگلیوں اورتمام اعضا کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کروں! اورامام حسین ؑ کے بدلہ میں ان لوگو ں کے اس قدرافراد تہِ تیغ کروں گا جس قدر حضرت یحییٰ بن زکریا کے بدلہ میں قتل کئے گئے تھے (یعنی سترہزار) مختار طے منازل کے بعد مدینہ میں عبداللہ بن عمر کے گھر پہنچا، عبداللہ کی زوجہ صفیہ کو پتہ چلا کہ بھائی مختار آیا ہے تو اس نے آکر بھائی کے گلے میں باہیں ڈال لیں پس دونوں بھائی بہن بے ہوش ہوگئے، مختار ہوش میں آیا تو دیکھا کہ بہن بے ہوش ہے جب ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی تووہ مرچکی تھی، مختار اپنی بہن کے غسل کفن سے فارغ ہوکر واپس مکہ آگیا، اس زمانہ میں عبداللہ بن زبیر نے خلافت کا دعویٰ کیا ہواتھا اوروہ لوگوں کو بنی اُمیہ کے خلاف بھڑکاتاتھا اورحضرت امام حسین ؑکے انتقام کیلئے لوگوں سے اپنی بیعت لیاکرتاتھا۔