التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مالک بن نسر لعنہٗ اللہ

4 min read
مختار کو اطلاع دی گئی کہ قادسیہ میں مالک بن نسر رہتا ہے جس نے امام حسین ؑ  کے فرق اطہر پر تلوار ماری تھی؟ نیزآپ ؑ کی خون آلود ٹوپی بھی اسی نے لے لی تھی! اور وہاں امام حسین ؑ کے قاتلین میں سے دواور شخص اس کے ہمراہ رہتے تھے ایک کا نام عبداللہ بن اسید جہنی اور دوسرے کا نام حمل بن مالک محاربی تھا۔
مختار نے اپنے ایک فوجی افسر کو جس کا نام مالک بن عمرو نہدی تھا ایک دستہ دے کر روانہ کیا، انہوں نے بوقت عشا چھاپہ مارکر ان تینوں کو گرفتار کرلیا اور مختار کے پیش کیا، مختار نے ان کو خطاب کرکے فرمایا اے دشمنان خدا و رسولؐ۔۔ اے منکرین قرآن! تم نے نبی زادہ کو قتل کیا ہے حالانکہ تم ان پر درود بھیجنے کیلئے مامور تھے انہوں نے جواب دیا ہمیں جبر سے لے جایا گیا تھا لہذا آپ ہمیں معاف کردیں اور ہم پر احسان کریں، مختار نے جواب دیا کہ تم نے حسین ؑ پر احسان کیوں نہ کیا؟ پس مالک بن نسر سے کہا کہ تو ہی وہ شخص ہے جس نے امام ؑپاک کے سر پر تلوار کی ضرب لگائی تھی اور ان کا سر پوش اُتارا تھا؟ وہ ملعون خاموش رہا اور حاضرین شیعان علی ؑ نے فوراً کہہ دیا کہ ہاں واقعی یہ وہی ملعون ہے۔
’’ مخزن البُکا‘‘ میں بروایت مجلسی مذکور ہے کہ مالک بن بسر نے امام مظلوم ؑ کے سر پر تلوار ماری کہ آپ ؑ کا عمامہ خون سے پرُ ہو گیا، پس مختا رکے حکم سے اس ملعون کے ہاتھوں کی انگلیوں کو الگ الگ کا ٹا گیا اورپھر تینوں کو تہِ تیغ کر دیا گیا۔
ایک روایت میںہے روز عاشور جب بو قت آخر امام مظلوم ؑ منہ کے بل پڑے تھے (یا یوں کہا جائے کہ سر بسجود ہو کر محو مناجات تھے) یہ ملعون قریب گیا اور نجس زبان سے امام پاک کے حق میں گستا خانہ کلمات ادا کئے اور سر اقدس پر تلوار کا وار کیا، امام مظلوم ؑ نے فرمایا کہ تجھے اس ہاتھ سے کھانا پینا نصیب نہ ہو اور خدا تجھے ظالموں میں محشور کرے، پس امام مظلوم ؑ کی برُنس (سرپوش یا ٹوپی)جو خون میںڈوبی ہوئی تھی اس ملعون نے اُتار لی او ر اپنے گھر لے آیا، پس اپنی زوجہ کو دھونے کے لئے دی اور اس کی حقیقت بھی بتائی یہ سنتے ہی اس نیک بخت عورت نے ماتم شروع کر دی اور کہا تیرے اُوپر وائے ہو تو فرزند پیغمبر ؐ کا قاتل ہے؟ پس میرے ہاں سے نکل جا خدا تیری قبر کوآتش جہنم سے پُر کرے، پس نہ تو میرا شوہر ہے اور نہ میں تیری زوجہ ہوں اور آج کے بعد کبھی تیرے ساتھ ایک سقف خانہ کے نیچے نہ رہوں گی۔
بروایت ابو مخفف اس ملعون نے غصہ میں آ کر طمانچہ مارنے کیلئے ہاتھ بلند کیا توایک میخ اس کے ہاتھ میں پیوست ہو گئی اور وہ ہزار کوشش کے باجود نہ نکل سکی، آخر کار اس کا وہ ہاتھ کہنی سے کاٹا گیا اور آخر انتہائی ذلت اور خواری سے قتل کیا گیا۔
بعض روایات میں اسکا نام مالک بن بسردرج ہے اور اسکا قبیلہ کندہ بیان کیا گیا۔
میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ خون آلود عمامہ اس ملعون نے گھر میں آ کر اپنی عورت کو دھونے کیلئے دیا، جب اس نے اس پر پانی ڈالا اور طشت خون سے پر ہو گیا تو دریافت کیاکہ یہ کس کا ہے؟ تواس نے جواب دیا کہ یہ حسین ؑ مظلوم کا عمامہ ہے جو میں اُتار کرلایا ہوں؟ پس اس نیک بخت عورت نے اس پر لعنت کی اورروتی ہوئی الگ ہوگئی اس ملعون نے وہ عمامہ سرپررکھا اورپاگل ہوگیا اورآخرکار جنگل کی طرف بھاگ گیا اوربائولے کتے کی سی موت اس کو نصیب ہوئی۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ؑ کا عمامہ اخنس بن مرثد حضرمی نے پہنا اوروہ دیوانہ ہو کر مرگیاجیسا کہ بعد میں مذکورہوگا۔
ایک مسافر کو راستہ میں پڑا ہواعمامہ ملا جوحج کوجارہاتھا، اس نے ایک رومال میں باندھ لیا اعمال حج سے فارغ ہوکر جب مدینہ میں دردولت امام زین العابد ین ؑ پر پہنچا اوردستک دی توامام ؑ نے فرمایا مجھے اپنے باپ کی خوشبو آرہی ہے، اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی گئی اوراس نے وہ رومال پیش کیا جب امام ؑ نے کھولاتوباپ کا عمامہ دیکھ کر بہت روئے اورحاضرین کو تیروں اورتلواروں کے نشانات دکھائے پھر علیا مخدرہ کو خبر ہوئی تو امام زین العابد ین ؑ عمامہ اٹھا کراندر لے گئے، بی بی نے بھی فرمایا کہ مجھے بھائی کی خوشبو آرہی ہے پس بھائی کے عمامہ کو دیکھا توبہت روئی اوربنی ہاشم کی تمام مستورات نے ماتم کیا۔