رہ رہ کے یاد آتی ہے تیری جو مہرباں
صد حیف ہوگیا ہے کہ آنکھوں سے تو نہاں
یاس و ملال و درد و غم مشکلات نے
صحرا میں زندگانی کا گھیرا ہے کارواں
ہر ذرّہ ریگزار کا ہے صد اضطراب
مضطر ہے تیری یاد میں پیر و نوجواں
مکتب شعور و فکر کا بھولے گا کس طرح
لکھی ہے تو نے جس طرح خود اپنی داستان
گرچہ قضا نے چھینا ہے ملت سے بے محل
باقی ہیں تیری آج بھی ملت نوازیاں
تشنہ دہن رہے ہیں یوں دریائے فیض میں
بے شک جو بد نصیب ہیں ہم اہل دریاخاں
چھپ چھپ کے آرہا ہے کیوں خوابوں میں ہمنوا
میرا یہ دل تو ہے تیرا دیرینہ آستاں
ہر پیر و نوجوان کی ہے شام وسحر دعا
جنت تجھے عطا کرے خلاّقِ دو جہاں