التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دسویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

خداوندکریم نے حیوانوں کو عبدیت کی دعوت نہیں دی کیونکہ عبدیت عقل کا زیور ہے اور حیوان صفت عقل سے محروم ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کے دل ہیں اور سوچتے نہیں آنکھیں ہیں اور دیکھتے نہیں اور کان ہیں اور سنتے نہیں ایسے لوگ چوپائے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں۔۔ حیوانوں سے بد تر کیوں کہا ؟ وہ اس لئے کہ بعض حیوانوں میں باوجود نجس العین ہونے کے وفا کا شعو ر ہے مثلاً کتا نجس جانور ہے لیکن اپنے مالک کا پکا وفادار ہے۔۔ توجو انسان انسان ہو کر اپنے مالک سے بے وفائی کرے تو وہ کیوں نہ کتے سے بدتر ہو؟
ایک حکایت ہے کہ ایک عابد کے دل میں خیال گزرا کہ میں بہت عبادت گزار ہوں تو فوراً رزقِ غیبی بند ہو گیا تو تین دن تک انتظار کرنے کے بعد دامن کوہ میں ایک نصرانیوں کی بستی تھی وہاں جاکر بھیک مانگی ایک مکان کے دروازہ سے اس کو تین روٹیاں دستیاب ہوئیں۔۔۔ خوش ہو کر واپس پلٹا کہ مالک مکان کا کتا اس کے پیچھے ہو گیا چنانچہ اس نے ایک روٹی اس کو پھینکی کتا وہ روٹی کھا کر پھر اس کے پیچھے ہو لیا تو اس نے دوسری روٹی بھی پھینک دی۔۔۔ علیٰ ھٰذا القیاس تیسری روٹی بھی کتے کو دیدی پھر کتے کو مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تو بڑا بے حیا ہے!  تیرے مالک کے دروازہ سے مجھے تین روٹیاں ملی تھیں وہ بھی تونے مجھ سے لے لیں پس بقدرتِ خداوند  کتا گویا ہوا اور کہا کہ انصاف کرو کہ بے حیاتم ہو یا میں؟ مجھے عرصہ ہو گیا ہے اس مالک نصرانی کے دروازہ پر پڑا ہوں کبھی روٹی پوری نہیں ملتی لیکن مجھے غیرت اجازت نہیں دیتی کہ اپنے نصرانی مالک کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازہ پر جائوں اور تجھے مالک کی طرف سے آزمائش کے طور پر تین دن کھانا نہیں ملا تو اپنے مالک کو چھوڑ کر میرے مالک کے دروازہ پر آگیا ہے؟
کہتے ہیں کہ کتا اگر بد دماغ بھی ہو جائے تو مالک یا اس کے بچوں کو پھر بھی نہیں کاٹتا بلکہ جب محسوس کرتا ہے کہ میرے دماغ میں فتور ہے تو گھر کو چھوڑ جاتا ہے مبادا مجھ سے مالک کی بے ادبی ہو جائے؟ لیکن یہ کمینہ انسان بعض اوقات اپنے دماغ میں فتور ہو تو اپنے آقا کے دماغ کو فتور سے تعبیر کرتا ہے!
اصحابِ کہف کے کتے نے مالکوں سے وفا کی خاطر اپنی عادت بھوکنے کی ترک کردی تو قرآن میں اس کی مدح وارد ہوئی اور یہ انسان بعض اوقات اپنی کمینگی سے اپنے مالک کو پہچان کر اسے بھونکنے لگتا ہے؟ اسی بنأ پر تو ارشاد ہے کہ ایسے انسان حیوانوں سے بد تر ہیں۔۔۔ بس انسان جو اپنے مالک کو بھونکنے لگے تو بے شک وہ کتے سے بد تر ہوگا۔
کسی عارف سے پوچھا گیا کہ باوجود وفادار ہونے کے کتا نجس کیوں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ اپنی قوم کا دشمن ہے مثلاً کتا اگر پُر شکم بھی ہو تب بھی دوسرے کتے کو کھاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا بلکہ دوسرے کتے کو ذلیل کرنا اس کا شیوا ہے! پس کتا، کتا ہو کر قوم دشمنی کرتا ہے لیکن اگر بندہ، بندہ ہو کر قوم دشمنی کی بد عادت کا مرتکب ہو تو وہ کتے سے بد تر ہو گا۔۔۔ پس مومن کو چاہیے کہ مومن کی خبر گیری کرے اور اپنے فالتو رزق سے غریب و نادار مومن کی امداد کرے۔۔ کتے کی طرح فالتو روٹی کے ٹکڑوں کو زمین میں دفن نہ کرے۔
خداوند کریم نے انسان کو زبان دی ہے تاکہ شکر پروردگار ادا کرے اور اپنے ایمانی بھائیوں، ہمسایوں اور غریبوں کی اپنی زبان سے مشکل کشائی کرے یا ان کو فائدہ پہنچائے لیکن یہ انسان نہ شکر کرتا ہے اور نہ اپنی زبان سے کسی دوسرے مومن کی بھلائی میں کوشاں ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ناشکری، گالی گلوچ اور غیبت و عیب جوئی اس کا شیوا بن جاتا ہے۔۔ تو ایسے شخص کا بولنا، کلام کرنا نہیں ہوا کرتا بلکہ کتے کے بھونکنے سے بھی بد تر ہوتا ہے اس لئے کہ وہ بے عقل تھا اور یہ عقل مند ہے باقی حیوانوں کو دیکھو ان کو چرنے کیلئے چھوڑا جاتا ہے اور ایک چرواہے کے حوالہ کیا جاتا ہے سارا دن جنگل میں مارے مارے پھرتے ہیں نہ معلوم ان کا پیٹ بھرتا ہے یا بھوکے واپس آتے ہیں؟ جب چرواہا شام کو ان سے اپنی گرفت ہٹاتا ہے اور وہ  ضمیر میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں تو اپنے اپنے گھروں کا رُخ کرتے ہیں چرواہا کسی حیوان کو اپنے مالک کے گھر نہیں پہنچاتا بلکہ وہ شہر سے باہر ان کو آزاد کر دیتا ہے پس تمام حیوان اپنا اپنا راستہ لیتے ہیں اور راستہ میں آنے والا ہر پختہ و عالیشان مکان چھوڑتے ہوئے اپنے مالک کے پکے یا کچے مکان تک پہنچتے ہیں جہاں ان کے گلے میں دوبارہ رسی ڈال کر ان کو باندھ دیا جاتا ہے پھر ان میں انکار نہیں ہوتا خواہ مالک یا اس کا کوئی بچہ یا نوکر اس کو رسی سے باندھ دے وہ سر جھکا کر کھڑا رہے گا حیوان اپنے خداداد شعور سے اپنے مالک اور غیر کے گھر میں فرق کرتا ہے لیکن انسان اپنی قیمتی عقل کے باوجود مالک اور شیطان کے گھر میں فرق نہیں سمجھتا پس حیوان سے بد تر کیوں نہ ہو جو مسجد اور سینما میں فرق نہ کرے بلکہ اس سے بھی بد تر ہے وہ جو جان پہچان کر اپنے مالک کے گھر (مسجد) سے پہلو تہی کرکے شیطان کے گھر (سینما) وغیرہ کو آباد کرے اور بڑے سے بڑا حیوان مثلاً اونٹ بھی جب گھر پر آئے اور مالک یا اس کا خوردہ سال بچہ اس کے ناک میں پڑی ہوئی مہار کو لے کر کھینچے تو وہ انکار نہیں کرتا اور وہ جس طرف لے جائے یہ اس کے پیچھے چلا آتا ہے اگر وہ شرارت کرتا تو مالک یا اس کے بچہ کو نقصان پہنچا سکتا تھا لیکن فطرت نے اس کو سکھا رکھا ہے کہ مالک یا اس کی اولاد کی اطاعت کرنا فرض ہے پس بے عقل حیوان مالک کی اطاعت کو فرض سمجھے اور انسان عقل کے باوجود مالک کی اطاعت کی پرواہ نہ کرے؟ یعنی حیوان مالک کی بندگی کو اختیار کرے اور بندہ مالک کی بندگی سے ستربائی کرے وائے ہو انسان پر حیوان سمجھتا ہے کہ بڑی یا چھوٹی قد معیار حکومت نہیں بلکہ عقل و دانائی ہی معیار حکومت ہے اور بچہ اس لئے حاکم ہے کہ وہ صاحبان عقل کی اولاد ہے پس حیوان اپنے سے بالا صاحب عقل کی اطاعت کو فرض جانتے ہیں اور انسانوں میں سے ایسے انسان بھی ہوتے ہیںجو دوسرے کو اپنے سے افضل و اعلم بھی سمجھتے ہیں تاہم اس کی اطاعت تو بجائے خود اس کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتے ہیں ایسے انسان حیوان سے بد تر ہیں۔
دیکھئے! خداوند کریم نے انسان کو تاجِ کرامت مرحمت فرما کر اس کو حاکم بنایا تو چاہیے تھا کہ سب کائناتی چیزیں اس کی اطاعت کرتیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ہر حیوان سے خوفزدہ ہوتا ہے وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے اپنا لباس انسانیت پھاڑ دیا ہے۔۔۔۔ مثال کے طور پر افسر اگر اپنی وردی میں ہوتو لوگ اس سے ڈرتے ہیں لیکن وردی اتار دے تو کوئی بھی نہیں ڈرتا یہ سب حیوان اپنے مقام پر جانتے ہیں کہ یہ انسان بھی ہم جیسا ہے۔۔ کیونکہ نہ حیوان میں حلال و حرام کا فرق۔۔ نہ اس میں اپنے بیگانے کی تمیز۔۔ اگر حیوان میں درندگی ہے تو انسان میں اس سے کہیں زیادہ ہے اگر حیوان میں بے غیرتی و دیوثی ہے تو یہ اس سے بڑھ کر ہے۔۔ اُس میں بے حیائی ہے تو یہ اس سے چند قدم آگے ہے۔۔ اور حیوان میں مطمعِ نظر پیٹ بھر کر کھانا اور عیش کرنا ہے تو یہ اس سے بھی آگے ہے۔۔۔۔۔ اس صورت حال کے ہوتے ہوئے حیوان کیوں انسان کو اپنا حاکم تسلیم کریں؟ جبکہ اس میں کوئی فضیلت کی عادت ہی موجود نہیں!  درندہ سمجھتا ہے کہ مجھ جیسا درندہ ہے، کتا سمجھتا ہے کہ یہ مجھ جیسا کتا ہے۔۔ سور سمجھتا ہے کہ مجھ جیسا سور ہے۔۔ سانپ اور بچھو جانتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح دوسروں کو ڈنگ مارا کرتا ہے۔۔ لہٰذاـ وہ اس کی حکومت کی کیوں پرواہ کریں؟ اگر انسان پر انسانیت کی وردی ہوتی اور اپنے آپ کو حیوان سے ممتاز کرکے رکھتا تو حیوان کی کیا مجال کہ اس کی اطاعت نہ کرے؟
جناب سفینہ (غلام پیغمبر) ایک جزیرہ میں گئے تو شیر نے حملہ کرناچاہا لیکن اس نے جناب رسالتمآب کی غلامی کا واسطہ دیا پس شیر نے سر جھکالیا اور سفینہ کو اپنے اوپر سوار کر کے لے گیا۔۔ چند دن اس کی خدمت کی اور پھر کشتی آنے پر اس کو کشتی تک پہنچایا اور اپنی گستاخی کی معذرت خواہی کی۔
ایک دفعہ حضرت ابوطالب ؑ بمعہ قافلہ قریش کہیں جارہے تھے کہ شیر نے حملہ کیا باقی لوگ بھاگ گئے اور حضرت ابوطالب ؑ نے فرمایاـ:  خبر دار!  میں شیر خدا کے نو ر کا حامل ہوں تو شیر فوراً قدموں پر گر گیا۔
ہائے آل رسول کی حیوانوں نے قدر کی لیکن انسان نما درندوں نے آلِ رسول کی قدر بھلا دی؟ جب لاشوں پر گھوڑے دوڑانے کی تجویز ہوئی تو حضرت زینب عالیہ ؑ کی خدمت میں جناب فضہ ؑ نے عرض کیا سفینہ کا قدر شیر نے کیا تھا یہاں ایک شیر ہے میں اس کو واقعات سے آگاہ کرتی ہوں۔۔ چنانچہ شیر کو بلایا گیا اور شیر نے لاشہ ٔ سیدالشہدأ پر پہرہ دیا۔
بوقت روانگی اہل بیت ؑ اُونٹ چیخیں مارتے اور روتے تھے اور مظلوم کربلا کے غم میں حیوانات روئے۔۔۔۔ امام علی رضا ؑ نے دیکھا ایک شکاری ہرنی کو پکڑے ہوئے ہے ہرنی نے فریاد کی تو امام ؑ نے اس کی ضمانت دی اور رہا کرا دیا کہ بچوں کو وداع کر کے واپس آجائے گی۔۔۔ جب انتظارمیں دیر ہوئی تو شکاری نے کہا کہ مولا اس حیوان نے بے وفائی کی ہے آپ ؑ نے فرمایا اس کیلئے کوئی مجبوری ہوگی۔۔ پس دیکھا تو ہرنی نمودار ہوئی، امام ؑ نے تاخیر کی وجہ پوچھی؟ اس نے جواب دیا میں نے بچوں کو دودھ پلا کر واپسی کا ارادہ کیا راستے میں دیکھا کہ میری قوم ایک جگہ اکٹھی تھی اور محو ماتم تھی میں نے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آج محرم کی دسویں ہے ہم اپنے آقا مظلوم کا ماتم کر رہے ہیں۔۔ پس اے مولا!  میں ان کے ساتھ شریک ماتم ہوگئی تھی اس لئے دیر ہوگئی معافی چاہتی ہوں، امام ؑ یہ واقعہ سن کر بہت روئے اور شکاری نے جب سنا تو امام ؑ کے قدموں پر گر پڑا اور ہرنی کو آزاد کر دیا۔
ہائے راہِ شام میں اونٹوں کو مارا جاتا تھا حتیٰ کہ چھوٹے بچے گر جاتے تھے اور مائیں ان کو سنبھال نہیں سکتی تھیں۔۔۔ کہتے ہیں کربلا سے بوقت تیاری اونٹوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔ممکن ہے جناب فضہ ؑ نے پوچھا ہوکہ بی بیؑ یہ کیوں روتے ہیں ؟اور عالیہ بی بیؑ نے جواب دیا ہوکہ یہ جانتے ہیں کہ ہم پر آلِ رسول کی شہزادیاں سوار ہورہی ہیں۔۔ پس ایک دوسرے کو آہستہ چلنے کی تلقین کررہے ہیںاور سادانیوں کے لٹنے پر ماتم کر رہے ہیں۔