زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس پر بھی سلام وارد ہے، حضرت امام حسین ؑکی ایک
کنیز تھی جس کو آپ ؑ نے ایک ہزاردرہم پرخریداتھا اوریہ کنیز امام پاک کے حرم
محترم جناب اُمّ اسحق کی خدمت کر تی تھی، اسکا نام کبشہ تھا، آپ ؑنے ابورزین نامی
ایک شخص کے ساتھ اس کی شادی کردی اوراس سے یہی سلیمان پیداہوا ؟ اوریہ حضرت امام
حسین ؑکا غلام رہا، اس غلام کی شہادت بصرہ میں ہوئی تفصیل اسکی اس طرح ہے کہ مسلم
بن عقیل کے جواب آنے پر جب امام مظلوم ؑ نے مکہ سے سفرعراق کا قصد فرمایا توبصرہ
کے معززین کو ایک گرامی نامہ تحریر کیا جس کا مضمون یہ تھا:
حق سبحانہ نے حضرت محمد مصطفیٰ کو نبوت ورسالت کیلئے چنا تاکہ لوگوں کو
نصیحت کریں چنانچہ انہوں نے اپنا فریضہ ادا کیا اورآخر کا ردنیا سے رخصت ہوگئے
پھر لوگوں نے ہم اہل بیت کو نظرانداز کرکے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اورہم فتنہ
وفساد سے گریز کرتے ہوئے خاموش رہے اب میں تم کو اس خط کے ذریعے سے خدااوررسولؐ کی
طرف دعوت دیتاہوں کیونکہ شریعت برباد ہوگئی ہے ؟اورسنت رسول تباہ ہوچکی ہے، اگر تم
لوگ میری دعوت کو قبول کرواورمیری اطاعت کرو تو میں تم کو گمراہی سے بچاکر راہِ
راست پر گامزن کروں گا۔
یہ خط اپنے غلام سلیمان کے سپر د فرمایااوراسے بصرہ روانہ کیا اوربہت جلد
بصرہ پہنچنے کا فرمان دیا، چنانچہ سلیمان حسب فرمان بہت جلد مسافت طے کرکے بصرہ
میں پہنچا اوربصرہ کے اکابر مثلاًاحنف بن قیس، منذر بن جارود اوریزید بن مسعود
نہشلی وغیرہ کو امام پاک کاخط پہنچا یا، چنانچہ یہ لوگ آپ ؑ کے مکتوب گرامی کا
مضمون پڑھ کر بہت خوش ہوئے، یزید بن مسعود نے بنی تمیم، بنی حنظلہ اوربنی سعد کو
جمع کرکے دریافت کیا کہ تم لوگوں میں میر ی اطاعت کا جذبہ کس حد تک ہے؟ اورتم مجھے
کیا کچھ سمجھتے ہو؟ توسب لوگوں نے یہ جواب دیا کہ آپ ہمارے سردارورئیس ہیں اورآپ
ہمارے فخروشرف کا محوراورعزت وسرفرازی کا مرکز ہیں، ہم سب آپ کے تابع فرمان ہیں
جو حکم ہو بجالانے کو تیار ہیں، پس یزید بن مسعود نے کہا کہ تم کو جمع کرنے کی غرض
وغایت یہ ہے کہ ایک امر عظیم میں تم سے مشورہ اورمددچاہتا ہوں تو سب نے جواب د یا
کہ ہم آپ کے حکم کی اطاعت میں کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے آپ جوچاہیں بیشک
ارشاد فرمائیں ہم تابعدار ہیں، پس یزید بن مسعود نے ان کو نصرت امام ؑ کی دعوت دی
تو سب نے لبیک کہہ کر نصرت کا وعدہ کیا اس کے بعد یزید نے امام ؑ کو اپنی وفاداری
کا خط لکھا اوران لوگوں کو تیار کرکے روانگی کا ارادہ کیا لیکن ان کو تیاری میں
کچھ دیر لگ گئی اورروانگی سے قبل اطلاع پہنچ گئی کہ امام ؑ شہید کردئیے گئے ہیں۔۔۔
چنانچہ یہ لوگ وہاں رہ گئے اورسوگواری میں مصروف ہوگئے۔
منذربن جارود نے جب امام ؑ کا خط پڑھا تو اس کو شک ہوا کہ مبادا یہ خط لانے
والاابن زیاد کا جاسوس نہ ہو؟ اوراسی منذر کی ایک لڑکی بحریہ عبید اللہ بن زیاد کے
نکاح میں بھی تھی۔۔ پس اس نے خط لیکر حضرت کے قاصد کو ابن زیاد کے پیش کردیا، ابن
زیاد نے سلیمان سے ان لوگوں کے نام دریافت کئے جن کو لکھا گیا تھا توسلیمان نے
بتادئے پھرابن زیاد نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اوریہ تقریر کی:
تم لوگ زیاد کے نڈر اوربے باک ہونے سے واقف ہو اوراس کی خونریزی کی داستانیں
بھی سن چکے ہو، میں اسی درخت کا ثمراوراسی باپ کا پسرہوں۔۔ خبردار اپنے آپ کو
تباہی سے بچاؤ۔
اوراس کے بعد قتل وغارت وغیرہ کی سخت سے سخت
تردھمکیاں دے کر ان کو مرعوب کیا اورسلیمان کو سولی پرلٹکانے کا حکم دیا، چنانچہ
یہ مظلوم سولی پرلٹکا دیاگیا اورقافلہ شہدأ کا پیش روبن کر جنت پہنچا۔