زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس پر سلام وار دہے اور قائم آل محمد نے اس کی خدمت
کو نہایت دقیع الفاظ میں سراہا ہے الفاظ زیارت کا ترجمہ یہ ہے:
میرا سلام ہو سعید بن عبداللہ حنفی پر جس کو امام حسین ؑ نے چلے جانے کی
اجازت دی تھی لیکن اس نے جواب میں عرض کیا تھا خدا کی قسم ہم آپ ؑ کو تنہا نہ
چھوڑیں گے حتی کہ ہم اللہ کے سامنے اپنا یہ عمل پیش کریں گے کہ ہم نے رسول کے بعد
اس کے ناموس کی حفاظت کی ہے۔۔۔ خدا کی قسم اگر میں جان لوں کہ قتل ہوں گا اور پھر
زندہ ہوں گا پھر جلایا جائوں گا پھر ہوا میں میرے ذرّات کو پراکندہ کیا جائے گا
اور میرے ساتھ ستّر مرتبہ یہ سلوک کیا جائے گا تب بھی آپ ؑسے جدا نہ ہوں گا اور
آپ ؑ پر جان قربان کروں گا، اور اب آپ ؑ کو کیوں چھوڑ جائوں جب کہ مجھے علم ہے
کہ صرف ایک دفعہ ہی قتل ہونا ہے اور اس کے بعد دائمی اور سرمدی باعزت زندگی ہو گی
جس کے لئے کوئی فنا نہ ہو گی۔۔ خدا ہمیں آپ ؑ کے ہمراہ شہدأ میں جگہ دے اور ہمیں
اعلیٰ علیّین میں آپ ؑ کی رفاقت کرامت فرمائے۔
شب عاشور جب امام ؑ نے اپنے صحابہ کو خطبہ دیا تھا اس میں فرمایا تھا کہ
میں تم سے بیعت کو اٹھاتا ہوں اور اس رات کی تاریکی میں جہاں تمہارا جی چاہے چلے
جائو تو اس وقت سعید نے یہ جواب دیا تھا جو اُوپر بیان ہو چکا ہے۔
’’منتہی
الآمال‘‘ سے منقول ہے کہ یہ شخص خصوصی شیعان امیر ؑ سے تھا۔۔ شجاع، مرد میدان اور
نہایت عبادت گزار تھا، کوفیوں کی جانب سے آخری خط و دعوت نامہ یہی سعید مکہ میں
لایا تھا جو اشرافِ کوفہ کی طرف سے لکھا گیا تھا، حضرت ؑ نے اس دعوت نامہ کا جواب
لکھ کر سعید کو دیا اور یہ واپس آیا اور حضرت نے پھر امیر مسلم ؑ کو روانہ فرمایا
تھا، جب لوگوں نے امیرمسلم ؑ کی بیعت کی اور حضرت مسلم نے ان کی ظاہری وفاداری کے
جذبات ملاحظہ فرمائے تو پھر اِسی سعید بن عبداللہ حنفی کو خط لکھ کر دیا تاکہ امام
عالیمقام ؑ کی خدمت میں واپس مکہ پہنچائے۔۔۔ چنانچہ امیرمسلم ؑ کا خط مکہ میں لایا
اور امام ؑ کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہوا اور آخر دم تک ہمرکاب رہا۔
کتب مقاتل سے منقول ہے کہ جب نماز ظہر کا وقت آیا اور نماز کی مہلت حاصل
کی گئی تو اُن بے حیائوں نے جنگ بند نہ کی۔۔ جب امام ؑ نماز میں مشغول ہوئے تو
انہوں نے تیر برسانے شروع کر دئیے، سعید بن عبداللہ نے جب یہ حالت دیکھی تو ڈھال
بن کر امام ؑ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔ جس طرف سے کوئی تیر آتا تھا تو سعید اپنا
جسم پیش کرتا تھا اور اپنے سر، سینہ، منہ اور ہاتھوں پر آنے والے تیر کوروکتا تھا
اور کسی تیر کو امام ؑ کی طرف نہ جانے دیتا تھا اور یہی کہتا تھا اے پروردگار! تو
ان لوگوں پر قوم عاد و ثمود کی طرح لعنت کر اور اپنے نبی کی خدمت میں میرا سلام
پہنچا اور یہ کہ میں جو کچھ زخموں کی تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں یہ سب کچھ تیرے
نبی زادے کی نصرت میں تیری خوشنودی ہی کی خاطر کر رہا ہوں، امام ؑ نے نماز ختم کی
تو سعید میں زخموں کی کثرت کی وجہ سے تاب نہ رہی زمین پر گر پڑا اور خدمت امام ؑ
میں عرض کیا اے فرزند رسول! کیا میں نے اپنے عہد کی وفا کی ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا بے
شک، اور تو میرے آگے آگے بہشت میں داخل ہو گا۔۔۔ منتہی الآمال سے منقول ہے کہ
نیزہ و شمشیر کے علاوہ سعید کے بدن میں تیرہ تیر لگے ہوئے تھے۔