التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چونتیسویں -- مجلس اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلام



ارشادِ پروردگار ہے آپ کی زندگی کا دستور العمل میں نے تجویز کیا ہے جس کا نام اسلام ہے، جو تم سب تجویز کرو گے اس میں غلطیاں ہوں گی لیکن جو میں تجویز کروں گا اس میں کوئی غلطی کی گنجائش نہیں   عَسٰی أنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ عَسٰی أنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ آپ کی تجویزیں ضروری نہیں کہ حق کے مطابق ہوں۔۔ کسی چیز کو تم محبوب سمجھو گے حقیقت میں وہ محبت کے قابل نہ ہو گی اور کسی شئے سے نفرت کرو گے لیکن درحقیقت وہ نفرت کے قابل نہ ہو گی، اسلئے جس چیز کی محبت کا میرا حبیب حکم دے اس سے محبت واجب اور جس چیز سے نفرت کا حکم دے اس سے نفرت واجب۔۔ پس محمد مصطفی کے نقش قدم پر چلنے کا نام ہے اسلام۔
ہم شیعہ ایک ہاتھ میں محمد مصطفی کا فرمان رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کا قرآن رکھتے ہیں۔۔ اللہ کا قرآن ہے ہمارا دین اور محمد ؐکا فرمان ہے دین کی تفسیر۔۔ جو قرآن پر شک کرے اس کو ہم شیعہ بے ایمان سمجھتے ہیں اور جو محمدؐ کے فرمان پر شک کرے اس کو بھی بے ایمان سمجھتے ہیں۔
محمد مصطفی کی جوانی وضعیفی پر شک کرے تو بے ایمان۔۔ جنگ وصلح پر شک کرے تب بھی بے ایمان۔۔۔۔ محمدؐ جس مقام پر ہوں ان کا بیان شک سے بالاتر ہے، کوئی مدنی۔۔ مکی۔۔ مہاجر۔۔انصار۔۔ شک کرے تب بھی بے ایمان۔۔ محمد مصطفی کی تندرستی کے کلمات پر شک کرے تب بھی بے ایمان۔۔ کوئی بیماری پر شک کرے تب بھی بے ایمان؟
اس لئے کہ ہمارا دین ہے محمدمصطفی کا کردار اور ان کی گفتار۔۔ اگریہ بھی مشکوک ہو تو دین کیا رہ گیا؟ جیسے محمدمصطفی کے کلام پر شک کرنا جرم ہے ایسے ہی اللہ تعالی کے کلام پر شک کرنا جرم ہے۔۔ اللہ تعالی نے کلام ُاللہ المجید کو پڑ ھاتے ہی ہمیں یہ درس دیا اورحلف نامہ ہے الٓمٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لا رَیْبَ فِیْہ  یہاں الف لام میم کے بارے میں مفسر ین کے اقوال بہت ہیں کہ جن میں سے ایک قول اس کے معنی کے بارے یہ بھی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ مجھے الف لام میم کی قسَم اس کتاب جو کہ قرآن ہے اس میں شک نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ کلام بھیجا تو حلفیہ بیان دے کر بھیجا۔۔ جبریل یہ قرآن محمدمصطفی پر لے آیا تو جبریل نے پڑھ کرسنایا تو پہلے الفاظ تو اس نے بھی یہی استعمال کرنے تھے گو یا جبریل نے محمد مصطفی تک پہنچایا تب بھی الف لام میم کی قسَم اُٹھا کر حلفیہ بیان کے بعد کہ اس کتاب میں شک نہیں۔۔ محمدمصطفی نے تلاوت کی تب بھی پہلے یہی پڑھا کہ مجھے الف لا م میم کی قسَم اس کتاب میںشک نہیں۔۔ محمدمصطفی کے سینے پر ہے تب بھی حلفیہ بیان ساتھ ہے۔۔ محمدمصطفی کی زبان پر ہے تب بھی حلفیہ بیان ساتھ ہے۔
امام علی ؑسے امام مہدی ؑتک قرآن کو پڑھتے گئے اور ہر معصوم نے حلفیہ بیان دیا کہ اس کتاب میں شک نہیں۔۔ اسی لئے جب قرآن مسلمانوں سے خدانے پڑھایا تو حلفیہ بیان پہلے لیا اورقرآن بعد میں پڑ ھا یا پہلے کہاکہ پڑھو  الٓمٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لا رَیْبَ فِیْہ پہلے حلف اٹھا کہ مجھے قسَم ہے اس الف لام میم کی کہ اس کتاب میں شک نہیں ہے۔۔ جو آدمی بھی سارا قرآن پڑھ لے لیکن حلفیہ بیان نہ پڑھے اس کا سارا پڑھا بے فائدہ ہے، جو بندہ بھی اس حلفیہ بیان کے بعد قرآن پر شک کرے باقی مسلمان اس کو معاف کریں یانہ کریںلیکن ہمارے عقیدہ کی بات ہے کہ جوبھی قرآن پر شک کرے وہ پکا اور حقیقی کافر و بے ایمان ہے۔
کتابوں میں قرآن شک سے بالاتر ہے اور حضرت آدم ؑکی اولاد میں سے  محمد مصطفی اور ان کی آل واولاد بھی شک سے بالاتر ہے۔۔ ہر کتاب ٹھکرائی جاسکتی ہے لیکن قرآن کو ٹھکرانے والاکافر ہے، ہر بندے پر شک ہو سکتا ہے لیکن محمد وآلِ محمد کے فرمان کو ٹھکرانے والا بے ایمان ہے۔
قرآن کی تمام آیات مضمون کے اعتبار سے برابر نہیں لیکن ہمارا سب پر ایمان برابر ہے۔۔ ہمارا ایمان سب کیلئے برابر ہے۔۔ آیات میں سے بعض میں کفر کی تفصیل اوربعض میں ایمان کا بیان۔۔ بعض آیات میں حضرت موسیٰؑ کی تعریف بعض میں فرعون کی مذمت۔۔ بعض میں ملکوت کا ذکر اوربعض آیات میں ناسوت کا تذکرہ۔۔ بعض میں حلال کی خبر بعض میں حرام کاذکر۔۔ کسی مقام پر پاک کا تذکرہ کہیں پلید کا ذکر؟  لارَطْبٍ وَلایَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْن  ہر خشک وتر کا بیان ہے قرآن میں، جس کو قرآن خشک کہے گا اس خشک کہیں گے۔۔ جسے ترکہے گا اُسے تر سمجھیں  گے۔۔ جسے قرآن نے مومن کہا اُسے مومن کہیں گے۔۔ جسے قرآن نے کافر پکارا اُسے کافر کہیں گے۔۔ جسے قرآن نے کر ّار کا خطاب دیا اُسے کرار کہیں گے اورجسے فرار کہا اُسے فرار کہیں گے۔
بیشک دنیا اِن باتوں کو برا مانے لیکن اگر ہمارے سامنے اس بات کو مطرح کیا گیا تو ہم کہیں گے کہ اگر مسئلہ ایسا ہے تو پہلے قرآن میں موجود چوتھے پارے کو قرآن سے نکالیں کیونکہ یہ سب باتیں ہمیں قرآن سے معلوم ہوئی ہیں وگر نہ پھر قرآن اور اہل تشیع کی کسی بات کو جو ہم کہیں ردّ نہ کریں؟
میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کو ایک داستان سنائوں کہ عراق کے پایہ سلطنت  بغداد میں ہونے والے مناظرہ کی کیا کیفیت تھی؟
سلجوقی خاندان کا ایک نوجوان بادشاہ تھا جس کا تجربہ کار وزیراعظم نظامُ الملک تھا، ایک دن بادشاہ کے دربار میں ایک سید عالم دین داخل ہوا۔۔بادشاہ کوسلام کیا بادشاہ نے استقبال کیا، سید عالم نے پیاری اور سنجیدہ گفتگو سے اس بادشاہ کو متاثر کیا۔۔۔ سلجوقی خاندان کاوہ جوان شہزادہ اس عالم دین کی باتوں سے متاثر ہوا اوراعزاز واقبال کے ساتھ اس سید عالم کو روانہ کیا۔
جو وزرا ٔ بیٹھے وہ سب جانتے تھے کہ یہ عالم دین شیعہ مسلک سے ہے جیسے ہی وہ عالم روانہ ہوا یہ وزرأ اس کے بارے میں ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرنے لگے اورسید عالم پر ہِٹ کرنے لگے، بادشاہ بہت دانا تھا اس کی آنکھ کو ان کے اشارے کنائے معلوم ہوگئے اورسب کچھ اس کو پتہ چل گیا۔۔ وزرأ سے کہنے لگا کہ میرے پاس جو شخص آیا بہت شریف النفس تھا جیسے ہی وہ گیا تم نے اشارے کرنا شروع کردئیے بات کیاہے؟ مجھے اس کی کوئی صحیح جوب دو؟ تو سب وزرأ کہنے لگے کہ جناب والاجس شخص کا آپ نے استقبال کیا یہ کافر تھا؟ بادشاہ نے کہا کہ یہ تو قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا تھا۔۔ کلمہ کاقائل تھا۔۔ نماز کا قائل تھا اورتم کہتے ہو کافر؟ کہنے لگے کہ یہ رافضی تھا۔۔کافر تھا۔۔ تو بادشاہ کہنے لگا کہ رافضی کون ہوتا ہے؟ جواب ملاکہ یہ خلافت ابوبکر اورعمر کا قائل نہ تھا اسلئے اس کے کفر میں کوئی شک باقی رہا گیا ہے؟
بادشاہ کہنے لگا کہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی آیا کافر ہیں؟ کہنے لگے کہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی کافر ہیں۔۔ تو بادشاہ نے کہاکہ میرے نظامُ الملک وزیر کو بلائو تم نے تو مجھے شک میں ڈال دیا ہے؟ پھر بادشاہ نے نظامُ الملک سے کہا کہ ان لوگوں  نے تو مجھے شک میں ڈال دیا ہے کیا تو مجھے بتلا سکتا ہے کہ یہ شیعہ کون ہیں؟ تو نظامُ الملک نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ہے جو شیعہ کہلاتا ہے، بادشاہ نے کہا کہ تو کہتا ہے کہ مسلمانوں کافرقہ ہے اور یہ کہتے ہیں کہ کافر ہیں؟
نظامُ الملک کہنے لگا کہ ہمارے بعض علما ٔ اُنہیں کافر اوربعض مسلمان کہتے ہیں  اورمیں بھی مسلمان کہتا ہوں چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں۔۔ نماز بھی پڑھتے ہیں۔۔ حج بجالاتے ہیں۔۔ روزہ رکھتے ہیں۔۔ ہیںتو مسلمان۔
 بادشاہ کہنے لگا کہ یہ کافر کیوں کہتے ہیں؟ تو نظامُ الملک کہنے لگا کہ چونکہ ا ن کے علما ٔ کافر کہتے ہیں پھر بادشاہ نے پوچھا کہ ان کے علما ٔ کیوں کافرکہتے ہیں؟ تو جواب ملا کہ اسلئے کہ حضرت ابوبکر وحضرت عمر کو نہیں مانتے۔۔ پھر بادشاہ نے دریافت کیا کہ یہ سب ہیں کتنے؟ تو نظامُ الملک نے جواب دیا کہ صحیح تعداد تو مجھے بھی معلوم نہیں لیکن تقریباً اورمسلمانوں کی نصف ہوںگے اگر باقی مسلمان ۱۰۰ ہوں تو یہ ۵۰ ہوںگے، تو اس کے بعد بادشاہ نظامُ الملک سے کہنے لگا ایسا کرو کہ فریقین کے علما ٔ کو بلائو تاکہ وہ میرے سامنے بات چیت اور مناظرہ کریں۔۔۔ جب بات چیت ہوگی تو میں خود پرکھوں گا اور حق کو حق اورباطل کو باطل کروں گا اوراپنے ملک میں باطل کو نہ رہنے دوں گا؟
نظامُ الملک کہنے لگا کہ جناب یہ نہیں ہو سکتا۔۔ نہ مجھ سے انتظام ہوسکتا ہے اورنہ آپ سے یہ مناظرہ؟ بادشاہ نے کہا کیا اس ساری مملکت کا سلطان میں نہیں؟  تو نظامُ الملک کہنے لگاکہ جناب آپ ہیں۔۔ فوج میرے ماتحت۔۔ خزانے سب میرے قبضے میں تو کیا میں یہ مناظرہ نہیں کرا سکتا؟ کیا یہ سب بندے میری رعایا نہیں؟ تو نظامُ الملک نے کہا کہ باوجود ان سب باتوں کے پھر بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ رعایا میں بددلی پھیل جائے گی اوراتنی مخلوق کا کنڑول کرنا مشکل ہے، تو بادشاہ کہنے لگا کہ اے نظامُ الملک میں اتنا کم عقل نہیں ہوں اگر ہمارے علما ٔ دلیلوں کے سہارے سچے ہوجائیں اورشیعہ علما ٔ جھوٹے ہوں تو پھر ہم انہیں دُور سے کافر نہ پکاریں گے بلکہ میں ایک ایک کی گردن اُتار دوں گا؟ آخرسلطان ہوں مجھے کوئی نہیںروک سکتا ہے میں فقط مذہب حق کو پھیلنے دوں گا اور باطل کو مٹادوں گا۔
نظا مُ الملک کہنے لگا کہ یہ سب ڈھیروںہیں اِنہیں کیسے مارے گا؟ تو بادشاہ کہنے لگا کہ ڈھیروں بھی مارے جاسکتے ہیں اورساتھ ساتھ میرے پاس دوسرا حربہ بھی ہے وہ یہ کہ خزانہ پُر ہے اوراگر ہمارا مذہب سچانکلا تو اُنہیں کہوں گا کہ عقل سے فیصلہ کرو اور سوچو کہ یہ مذہب سچا ہے اوراگر قبول نہ کیا تو پھر اُنہیں لالچ دوں گا۔۔ عہدہ دوں گا۔۔ دولت دوں گا ۔۔زمین دوں گا ۔۔تو پھر کوئی لالچ سے ہمارے مذہب کو مان لے گا اورکوئی خوف وڈر سے اورکوئی دیکھا دیکھی میں ہمارا ہم مذہب بن جائے گا باطل تو اصلاً نہ رہے گا اب بتا؟
نظامُ الملک کہنے لگا کہ جناب پھر بھی نہیں ہوسکتا؟ تو بادشاہ کہنے لگاکہ کیسے نہیں ہوسکتا؟ تو نظامُ الملک کہنے لگاکہ اگر ہم سچے ہو گئے تو پھر تو وہی باتیں ہوں گی جو کہ آپ نے بتائیں لیکن اگر سچے شیعہ ہوگئے تو پھر؟ بادشاہ کہنے لگا کہ کیا یہ بھی کو ئی کرنے کی بات ہے؟ ہوں بھی شیعہ اورہوں سچے؟ یہ تو ماننے کی بات بھی نہیں، یہ بھی کوئی کرنے کی بات ہے ساری دنیانے اصحابِ ثلاثہ کو مان لیا اوراگر چند افراد نے قبول نہ کیا تو کیا کوئی بڑی بات ہے؟ ہمیشہ سچ اکثریت کے ساتھ ہوتا ہے ان کی  سچائی کی بات بھی نہ کر۔۔ ہمارے مذہب میں کتابیں ہیں۔۔ علما ٔ ہیں۔۔ راوی ہیں ۔۔صحابی ہیں ۔۔یہ چند نفر جو دین سے ہٹ چکے ہیں کیا یہ سچے ہو سکتے ہیں؟
نظامُ الملک کہنے لگاکہ بادشاہ سلامت مجھے اس بات کا بڑا ڈر ہے شیعہ سچے ہوجائیں گے۔۔ بادشاہ کہنے لگاکہ وہ کہاں سچے ہوجائیں گے جب کہ قرآن وحدیث ہمارے ساتھ ہے۔۔۔۔ نظامُ الملک کہنے لگا یہی قرآن ان کے ساتھ ہو جائے گا تو پھر کیا کرے گا اور اگر حدیث بھی ان کے حق میں ہو جائے تو؟ ان کے پاس عقلی دلائل بھی ہیں منطق دلائل بھی ہیں قرآن کی آیات بھی ہیں وہ تو ہوجائیں گے سچے اورتیرے علما ٔ کے پاس جواب نہ ہوگا تو پھر کیا کرے گا؟ اوراس وقت کیا علاج کرے گا؟ اقلیت کی تو گردنیں اُڑا دے گا اس اکثریت کا کیا کرے گا؟ بادشاہ کہنے لگا کہ میں ان باتو ں کو تسلیم نہیں کرتا۔۔ نظامُ الملک کہنے لگاکہ اگر بات میدان میں آگئی تو تجھے تسلیم کرنی پڑے گی۔۔ بادشاہ کہنے لگاکہہ پہلے تو میں مناظرہ کرانے سے ہٹ جاتا لیکن کیونکہ تیری ان باتوں نے مجھے بہت شک وشبہ میں ڈال دیا ہے اب میں منا ظرہ ضرور کرائوں گا میں سچ اورجھوٹ کو دیکھ کے رہوں گا۔
مجھے خدا وند نے بخت۔۔ تخت۔۔ خزانے اورسب کچھ دیا ہے کیا مجھ پر شکر کرنا واجب نہیں؟ نظامُ الملک کہنے لگا کہ شکر واجب ہے، تو بادشاہ نے کہاکہ پھر اس سے بڑھ کر شکر ہے بھی نہیں کہ اللہ کی گمراہ مخلوق میری اس تجویز سے ہدایت پر آجائے یہ اللہ کا شکر نہیں تو کیا ہے؟ دیر نہ کر اب میرا آرڈر ہے۔۔ تو نظامُ الملک کہنے لگا کہ مجھے شک ہے تو بادشاہ نے کیاکہ پھر دیر نہ کرا ب ایک مہینے کی مہلت دے تو بادشاہ کہنے لگاکہ بالکل غلط جا اورپندرہ دن میں پروگرام مکمل کرو اوربندوبست صحیح انجام اورعلما ٔ کو دعوت دو اوراس مدرسہ نظامیہ میں یہ مناظرہ انجام ہوگا (نظامُ الملک نے مدرسہ نظامیہ بنایا تھاجو بغداد میں ہے) دن بھی مقرر ہوگئے اور شرائط بھی تجویز ہوگئیں بادشاہ کی طرف سے شرائط یہ تھیں:
ژ   ۲۴ گھنٹے مناظرہ رہے گا۔
ژ   فریقین میں سے کسی بندے کو میں نہ نکلنے دوں گا۔
ژ   جب تک بات صفائی سے نہ ہو گی میں مناظرہ ختم نہ ہونے دوں گا۔
ژ   نماز۔۔ کھانا۔۔ تھوڑا سا آرام  یہ وقفہ ہو گا باقی دن رات مناظرہ رہے گا۔
ژ   جن کتابوں کا حوالہ ہوگا وہ مستند ہوںگی سنی سنائی کوئی بات نہ ہوگی۔
ژ   اَوچھا لہجہ استعمال نہ ہو گا اور مہذب گفتگو ہوگی۔
فریقین آگئے۔۔۔ نظامُ الملک نے گفتگو شروع کی کہ اَوچھا لہجہ استعمال کوئی نہ کرے۔۔ صحابہ کوکوئی برا بھلا نہ کہے۔۔ کتاب کا حوالہ غلط نہ ہو اوربیان میں کوئی ترشی نہ ہو؟ دس علمائے غیر شیعہ اوردس علمائے شیعہ، علمائے غیر شیعہ میں مناظر عباسی تھا جس کا تعلق خاندانِ عباسیہ سے تھا اورعلمائے شیعہ میں مناظرسید علوی تھا۔
عباسی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ قوم کوئی مناظرہ کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے؟ اورکہنے لگا کہ جوافراد صحابہ کو سبّ کرتے ہیں کیااُن کے ساتھ کلام روا ہے؟
تو شیعہ مناظر کہنے لگے کہ درست بات کر اور یہ بتاکہ سبّ کون کرتا ہے؟
عباسی کہنے لگا کہ تم شیعہ حضرات سبّ کرتے ہو۔
علوی کہنے لگاکہ غلط الزام نہ لگا۔۔ شیعہ سبّ نہیں کرتے لیکن بالفرض بھی قبول کر لیں تو جب رسول اکرؐ م بھی یہی سبّ کرتے ہوں تو؟ شیعہ سچے ہیں یا جھوٹے؟
عباسی کہنے لگا کہ رسول اکرؐم نے سبّ نہیں کیا؟
علوی کہنے لگا کہ باقی کسی پر رسول اکرؐم نے سبّ کیاہے یا نہیں حضرت ابوبکر اورخلیفہ ثانی رسولِ اکرؐ م کے سبّ سے محفوظ نہ رہ سکے۔۔ ان دونوں کو نامزد کرکے رسول سے سبّ کیا۔
عباسی کہنے لگا کہ میں کیسے مانوں؟
 علوی کہنے لگے کہ پیغمبر اکرم ؐنے بیماری کے دوران اُسامہ کو فوج دے کر حضرت ابوبکر وحضرت عمر کو حکم دیا کہ تم دونوں نے اسامہ کے زیر سرکردگی جنگ کرو جب تک میرا دوسرا حکم صادر نہ ہو کوئی جنگ سے واپس آیا تو میرے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ناپسند ہے ابھی تک یہ جنگی قافلہ مدینے سے ایک منزل تک گیا تھا اورمحاذ پر نہ پہنچا تھا تو کوئی اورواپس آیا یا نہیں یہ دونوں واپس آگئے تھے۔۔۔ تو اس وقت پیغمبر آپ نے فرمایا تھا کہ میں نے جو تم دونوں سے یہ کہا تھا کہ جو واپسی لوٹے گا اس پر اللہ اوررسول کی ناراضگی ہوگی کہنے لگے کہ جناب فقط آپ کی تکلیف کے بارے میں سنا تو واپس لوٹ آئے، تو آپؐ نے دوبارہ فرمایا کہ جوبھی اسامہ کے لشکر سے رو گردانی کرے اس پر سے میری ناراضگی نہیں ٹلتی۔۔۔۔۔ پھر نہ رسولؐنے یہ ناراضگی واپس کی اورنہ وہ دونوں واپس محاذ پر گئے، رسول کی ناراضگی آج تک قائم ہے تو پھر بتاکہ رسول اکرؐم کی سنت پر جو عمل کرے وہ مسلمان یاعمل نہ کرنے والا  مسلمان؟ اگر عمل کرنے والا مسلمان ہے تو ہم شیعہ مسلمان ہیں اورجو فرد اُن دونوں کے عمل کو درست قرار دے کہ وہ دونوں اپنے عمل میں ٹھیک تھے تو اس نے رسول اکرؐ م کی سنت کو جھٹلایا۔۔ اب سوچ کے بتلا کہ حضوؐر کی سنت پر میں نے عمل کیا یا تو نے؟
پسینہ جاری ہوگیا عباسی کو جب بادشاہ نے دیکھا کہ عباسی پسینے سے شرا بور ہو رہاہے تو دل میں کہنے لگاکہ اس کو تو کچھ آتا نہیں۔۔ پھر نظامُ الملک سے کہنے لگاکہ اس کو تو پتہ نہیں چلتا تو خود بتاکہ یہ شیعہ عالم سچ کہہ رہا ہے؟ تو نظامُ الملک کہنے لگا کہ جناب ہماری کتا بوں میں تو ایسا ہی لکھا ہے جیسا کہ یہ شیعہ عالم بیان کررہا ہے، تو بادشاہ کہنے لگا کہ پھر ہم کیوں ان شیخین کی عزت کرتے ہیں؟ نظامُ الملک کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت عزت کرنی پڑتی ہے۔۔ بادشاہ کہنے لگا کس لئے؟ کیا ہمارا دین رسول کا دین نہیں؟ نظامُ الملک کہنے لگا کہ رسول کا دین ہے لیکن بات یہ ہے کہ پھر ہمیں بھی لوگ رافضی پکارنا شروع ہو جائیں گے؟ بادشاہ دونوں علما ٔ سے کہنے لگا کہہ یہ مسئلہ تو میری سمجھ آچکا ہے اور ذہن نشین ہو چکا ہے اب کوئی اور بات چھیڑو؟
تو علوی کہنے لگا کہ ابھی تک اس مسئلے کی ایک جزء باقی ہے وہ یہ کہ اے عباسی جو شخص صحابہ پر سبّ کرے وہ تو کافر ہے نا؟
عباسی کہنے لگا کہ بالکل کافر ہے۔
علوی کہنے لگا یہ بتا کہ حضرت علی ؑرسول اکرؐم کے صحابی تھے یا نہیں؟
عباسی کہنے لگا کہ رسول اکرؐم کے صحابی تھے۔
علوی کہنے لگا کہ اگر آپ سب اہل سنت کی کتابیں یہ گواہی دیں کہ امیر شام پورے ۴۰ سال حضرت علی ؑکو برا بھلا کہتا رہا تو پھر؟پہلے امیر شام کو کافر کہنے کی جرأت رکھتا ہے تو کافر کہہ؟
عباسی کہنے لگا کہ ہمارے بزرگ جب کافر نہ کہتے تھے ہم کیسے کہیں؟ تو بادشاہ نے کہا اب کوئی اور مسئلہزیر بحث لائو؟
عباسی کہنے لگا کہ جناب سارے علما ٔہمارے مذہب کے صحابہ کی عزت کرتے ہیں اور یہ لوگ صحابہ کی عزت تو بجائے خود اُنہیں خلیفہ و مسلمان ہی نہیں سمجھتے؟
تو بادشاہ نے علوی سے جواب دریافت کیا کہ تو بتا اس کا جواب کیاہے؟
علوی نے جواب دیا کہ جناب سارے علما ٔ عزت نہیں کرتے بلکہ فقط یہی عزت کرتے ہیں۔۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ پہلے خلافت کی بات سن اے عباسی!  حضرت عثمان کوخلافت ملی اسلئے کہ حضرت عمر نے خلیفہ بنایا اور حضرت عمر نے چھ افراد کو چنا تھا جن میں سے تین ایک طرف اورتین ایک طرف اور خلیفہ سوم تین کا بلکہ دو کا چنا ہواہے کیونکہ تیسرا تو خود حضرت عثمان ہے۔۔۔۔ ساری امت مسلمہ میں سے فقط دو نفر کے انتخاب سے خلیفہ سوم منتخب ہوا، اور ہم اس انتخاب کو بھی تسلیم کر لیتے اگر خود حضرت عمر کا انتخاب صحیح طریقے سے ہوا ہوتا؟ اور حضرت عمر کو چنا ہے حضرت ابوبکر نے بلکہ نامزد کیا خلافت کیلئے، اور حضرت عمر کی خلافت کو ہم درست تب مانیں گے جب حضرت ابو بکر کی خلافت پر کوئی نص موجود ہو، حضرت ابوبکر خلیفہ بناہے حضرت عمر کے زور پر، پس نہ حضرت ابوبکر کی خلافت صحیح نہ حضرت عمر کی اورنہ ہی حضرت عثمان کی؟ کیونکہ ان کی خلافت کے بارے میں نہ قرآن نے بتایا نہ حضوؐر نے فرمایا اورنہ ہی کوئی نص موجود ہے اورنہ ہی پیغمبر کے تمام صحابہ قائل ہیں میں کیسے مانوں؟ ادھر سے آپ کا یہ فتویٰ ہے کہ جو نبی پر شک کرے وہ کافر ہے تو صلح حدیبہ پڑھ کر مسلمانوں کو سنا کہ جوحضوؐر کی نبوت پر شک کرے کیا وہ بھی مسلمان رہ سکتا ہے؟
عباسی چپ ہو گیا بادشاہ کہنے لگاکہ یہ بات بھی میری سمجھ میں آگئی اورنظامُ الملک سے کہنے لگا کہ میں نے تو عباسی کو بہت بڑا عالم سمجھا تھا لیکن یہ تو رسول کی نبوت کو بھی نہیں مانتا؟ نظامُ الملک کہنے لگا کہ مجھے پہلے اسی بات کا تو خطرہ تھاکہ جس کے باعث میں مناظرہ کرانے سے ڈر تا تھا، تو اس وقت بادشاہ نے یہ بات بہ بانگ دہل کہی کہ اے درباریو!  میں آج تک باطل پر تھا اورآج مجھے یقین حاصل ہو چکا ہے کہ حضرت علی ؑحق کے امام ہیں۔
میں ایک جگہ گیا تو وہاں ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ شیعہ مذہب کے صداقت کی دلیل کیاہے؟ تو میں نے اسے جواب دیا کہ عقل کی کسوٹی پر پرکھ کے دیکھ حضرت علی ؑحق ہے۔۔ اس نے کہا کہ مجھے سمجھائیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ رسولؐ کے بعد جھگڑا فقط دو افراد پر ہے ایک وہ کہ رسولؐ کے بعد جس کے سر پر خلافت کی دستار تم نے رکھی اورایک وہ کہ رسول کے بعد جس کے سرپر دستارِ خلافت اللہ تعالیٰ نے رکھی۔۔۔۔ ہم دستار رکھنے والے نہیں بلکہ ماننے والے ہیں کہ دستارِ رسول اکرؐم نے بفرمانِ خدا رکھی۔
اب میں تجھ سے یہ پوچھتا ہوں کہ مذہب شک کا نام ہے یا یقین کا؟ توکہنے لگاکہ شک تو کو ئی شئے بھی نہیں مذہب تویقین کانام ہے۔۔ میں نے کہاکہ اگر مذہب یقین کا نام ہے تو فیصلہ تیرا اپنا اورمیری اس بات کو سن کہ جس کے سر پررسول کی دستار کو تم نے رکھا ا س کو آج تک بلکہ قیامت تک یقین حاصل نہیں ہوسکتا کہ میں اس دستار کا حقدار بھی ہوں؟ اورجس کے سر پر دستار اللہ تعالیٰ نے رکھی ہمیں یقین ہے کہ اس دستار کا وارث اورحقدار یہی ہے اورمیں اورساری قوم شیعہ قسَم اٹھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی ؑحق ہے۔۔۔ قسَم ہوتی ہے تب جس وقت یقین ہو شک پر تو قسَم نہیں اٹھائی جاتی، ہم ہر جگہ قسَم اُٹھا کر یہ گواہی دیں گے کہ حضرت علی ؑکے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔۔ مسجد میں جاکر کہیں گے کہ علی ؑحق ہے۔۔ علَم عباس ؑکو پکڑ کر قسَم اُٹھاکرکہیں گے کہ علی ؑحق ہے۔۔ ضریحِ امام حسین ؑمیں ہاتھ ڈال کر قسَم اٹھا کر کہیں گے علی ؑحق ہے۔۔ روضہ ٔرسول پر جاکر ضریح میں ہاتھ ڈال کر قسَم اُٹھا کر کہیں گے کہ علی ؑحق ہے۔۔ اوراگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو بیتُ اللہ جا کر اورخانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کا موقعہ ملا تو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر قرآن کو سر پر رکھ کر اللہ تعالیٰ کو گواہ کرکے جبریل کو حاضر کرکے محمدمصطفی کی روح کو گواہ کر کے یہ قسَم اُٹھائیں گے کہ قرآن گواہ۔۔ رسول گواہ۔۔ کعبہ گواہ۔۔ اورخدا گواہ علی ؑحق ہے۔
حضرت علی ؑکے حق ہونے کیلئے اس سے بیشتر میں اورکیا دلائل پیش کروں؟ میں اگر بخاری شریف کی حدیثوں کو پڑھنا شروع کروں تو اگر حدیثیںتیرے مطلب کی نہ ہوں گی تو بخاری کو ماننے سے انکار کردے گا اوراگر تو کافی شریف کی حدیث کو پڑھے اورمیرے مطلب کی نہ ہوتو میں اس کے ماننے سے انکا ر کروں گا  میں تو وہ بات کروں گا کہ جو حقیقت ہوکہ ہر قسَم اُٹھاکر میں کہتا ہوں کہ علی ؑحق ہے مجھے یقین ہے تبھی قسَم اُٹھاتا ہوں اگر یقین نہ ہوتا تو قسَم کس لئے اٹھاتا؟
اگر یکطرفہ قسَم ہوتو کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔۔۔ ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ کسی سیدزادہ کے بارے میں  میں کہوں کہ یہ سید ہیں اورآلِ زہرا سے ہیں اوران کا اِسی وجہ سے احترام وادب کرتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں اُنہیں سید پکارتا ہوں تو فائدہ تب ہے کہ وہ بھی کہے کہ واقعا ًمیں سید ہوں، لیکن اگر میں کہوں کہ شاہ صاحب اوروہ کہے کہ میں سید نہیں بلکہ غیر سید ہوں۔۔ تو یہ میرا یقین کہ وہ سید ہے کس فائدہ کا؟ کیونکہ یکطرفہ تھا اوراگر وہ شخص بھی کہتا کہ جی ہاں میں سید ہوں تو اس وقت میرے اس یقین کا فائدہ تھا اس وقت میرا یقین حقیقی ہوتا۔
مثال دیگر یہ کہ ساری قوم ورشتہ دار تھانے میں جاکر کسی شخص کے بارے میں گواہی دیں کہ یہ بے جرم ہے اس شخص کا جرم سے ناطہ ورشتہ بھی نہیں بہت نیک وشریف ہے۔۔ لیکن ان کے اس یقین کا فائدہ تب ہے کہ وہ شخص بھی کہے کہ میں بے جرم ہوں اوراگر وہ کہے کہ میں مجرم ہوں تب اُن سب کی گواہی بے سود ہوگی اورساتھ ساتھ ان سب کی توہین وبے عزتی کہ جھوٹے شخص کی گواہی دینے آئے؟
ہم جس کی قسَم اٹھائیں وہ خود بھی تو قسَم اٹھا کر ہماری بات کی تائید کرے،  میں اگر قسَم اٹھاتا ہوں کہ خدا ایک ہے تو دوطرفہ قسَم ہے اسلئے کہ وہ بھی کہتا ہے قسَم اُٹھاکرکہ میں ایک ہوں۔۔ میں قسَم اٹھا تا ہوں کہ محمد سلطان الانبیا ٔہیں وہ بھی قسَم اٹھا کر کہتے ہیں کہ میں نبیوں کا سلطان ہوں اوراسی طرح میںقسَم اُٹھا کرکہتا ہوںکہ علی ؑ حق ہے اورعلی ؑبھی قسَم کھاکرفرماتے ہیں کہ میں حق ہوں ہمارا حق تو ہوگیا بے شک۔
فقط علی ؑنے قسَم نہیں اٹھائی بلکہ رسول اکرؐم نے بھی علی ؑکے حق ہونے کی قسَم اٹھائی اوراللہ تعالیٰ نے بھی قسَم اٹھائی۔۔ جبریل بھی کہتا ہے کہ علی ؑحق ہے۔۔ زہرا ؑبھی کہتی ہیں علی ؑحق ہے۔۔ منبر پر چڑھ کر علی ؑبھی یہ قسَم اُٹھاکر فرماتے ہیں کہ مجھے قسَم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے میں حق ہوں، اب ہمارا حق تو ہوگیا بمنزلہ یقین۔۔۔ اب تو بتاکہ جس کے سرپر رسول اکرؐم کے بعد دستار تم لوگوں نے رکھی نہ تو تم لوگ اس کی حقانیت وحق ہونے کی قسَم اُٹھاسکتے ہو اورنہ ہی وہ خود اس بات کی قسَم اٹھاسکتا ہے؟ کیونکہ تم کو آج تک شک ہے کہ وہ حق ہے یا نہیں، لیکن مجھے قیامت تک یقین ہے کہ علی ؑحق ہے۔۔ اب بتا کہ تم حق پر ہو اورتمہارا مذہب حق ہے یاکہ مذہب شیعہ؟ جب اس سے جواب نہ بن سکا توکہنے لگا اگر شک ہوتا تو پھر اپنے مذہب سے ہٹ نہ جاتے؟ اورخلیفہ ماننے سے انکاری نہ ہوتے؟
تو میں نے انہیں کہا کہ کیا فقط میرے ساتھ گفتگوکررہے ہیں یااپنے دل سے بھی بات کررہے ہیں؟ کیونکہ اگر میں کسی اورسے بات کروں تو نتیجہ اورہے۔۔ اور اگر اپنے دل سے بات کروں تو نتیجہ اور، مثال عرض کرتاہوں کہ میری جیب میں اگر  سفید کاغذ ہو میں آپ سے کہتا ہوں کہ یہ ہزار روپے کا نوٹ ہے تو کیا آپ اسے تسلیم کرلیں گے تو وہ کہنے لگا کہ کیوں نہیں آپ کی بات کو میں کیونکر ٹھکرائوں گا آپ تو عالم۔۔ مجتہداور مفسر ہیں۔۔ آپ کے سرپر عمامہ ہے حتما تسلیم کروں گا، تو میں نے اسے جواب دیاکہ جتنا بھی میں آپ سے کہوں گا کہ یہ ہزار روپے کا نوٹ ہے اورآپ مان بھی جانیں گے کیامیں یہی بات اپنے دل سے کہوں تو وہ بھی مان جائے گا؟ وہ تو نہیں مانے گا وہ کہے گا کہ یہ سفید کاغذ ہے میں اسے کیسے ہزار کا نوٹ کہوں؟ تو اے صاحب!  دوسرے کے ساتھ بات کرنا تو بہت آسان ہے لیکن ایمان سے بتائیں کہ خلیفہ اوّل کے سرپر جوآپ نے رسول اکرؐم کی دستار کو رکھا کیا یہ واقعی حقدار تھا؟ آپ کے سب علما ٔ ۔۔رشتہ دار۔۔ ہم مذہب کہیں گے کہ واقعی حقدارِ خلافت تھا لیکن آپ خود اپنے دل میں بتائیں کہ کیا واقعا ًحقدار تھا؟ آپ کا دل کیا جواب دے گا کیا مان جائے گا؟ کہنے لگا کہ علامہ صاحب واقعا ً آپ کے استدلال ودلیل میں کوئی کمی نہیں۔۔۔ لیکن اس کے بعد کوئی اوربات نہ کرسکا؟
تو میں نے کہا کہ توکیسے قسَم اُٹھا کرکہے سکتا ہے کہ وہ واقعی حقدار تھا؟ جبکہ اس کی خلافت کی قسَم تو خلیفہ ثانی بھی نہیں دے سکتا تو تو چودہ سوسال بعد اس دنیا میں آیاہے؟ بلکہ اس خلیفہ اوّل کی خلافت کے بارے میں خلیفہ ثانی نے کہا تھاکہ صحیح بخاری میں ہے کہ اِنَّ بَیْعَۃَ أبِیْ بَکْرٍٍ کَانَتْ فَلْتَۃً وَکَلَّاہُ شَرَّھَا حضرت ابوبکر کی خلافت ایک فراڈ تھا جو چل نکلا اورآگے اس کے الفاظ ہیں کہ اب اگر کوئی ایسا فراڈ کرے گا تو وہ واجب القتل ہوگا؟
حالانکہ خود خلیفہ ثانی نے بھی یہی فراڈ کیا تھا کہ وہ جانتا تھا میں نے بھی فراڈ کیا ہے لیکن کیونکہ حکومت میرے ہاتھ میں ہے میں تو قتل نہیں ہوسکتا، جناب صاحب جس نے پہلے دن اس کے ہاتھ پر بیعت کی وہ بھی اس کی قسَم نہیں دے سکتا تو کیا قسَم دے سکتا ہے؟ اورخلیفہ ثانی تو بجائے خود خلیفہ اوّل کہ جس نے وہ دستار سر پر رکھی وہ بھی قسَم نہیں دے سکتا کہ میں واقعا ًمقدر تھا اس کی اَڑھائی سال کی حکومت کے پہلے دن تقریر بھی پڑھو اور اس کے آخری دن کا مطالعہ بھی کرو۔
تاریخ الخلفا ٔمیں علامہ جلال الدین سیوطی یوں لکھتے ہیں کہ پہلے دن جب تخت پر بیٹھاتو ایک بیان جاری کیا کہ تمہارے درمیان علی ؑبھی موجود ہے لیکن پھر بھی تم لوگوں نے دستار میرے سر پر رکھ دی ہے؟ میں بیان دے رہا ہوں کہ میں اس دستار کا حقدار نہیں ہوں۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ اس دستار کا حقدار میں نہیں یہ اس کا پہلے دن کا بیان ہے اور ساتھ ہی وہ اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے ساتھ ایک شیطان ہے یہ تاریخ الخلفا ٔ میں خطبہ ہے خلیفہ اوّل کا کہ ایک شیطان مخصوص میرے ساتھ ہے کہ کبھی کبھی رسول اکرؐم کی باتیں سنتا ہوں اور کبھی کبھی اس کے اقوال کو سنتا ہوں اور اگر میں کوئی بات صحیح کروں تو میری بات کو مان لینا اور اگر میں کوئی بات الٹی کر بیٹھوں تو مجھے اس بات کو سمجھانا؟
اے مسلمان تو نے تولکھ دیاکہ وہ صدیق تھااور ہم نے اس کی بات کو مان لیا کہ واقعا ًیہ بات صحیح کہی کہ کبھی سچی باتیں کرتا ہوں اور کبھی الٹی سیدھی اور جب الٹی سیدھی کروں تو مجھے سمجھا دینا۔۔۔۔۔ ہماری قوم شیعہ کا فقط یہی قصور ہے کہ اس کی غلط باتیں جو اس نے کہیں یا غلط افعال جو انجام دئیے ان کے بارے میں اُسے کہتے ہیں اس کے اپنے کہنے پر؟
ہم شیعہ کہتے ہیں کہ بتول ؑکا حق غصب کر کے بہت برا کیا۔۔ علی ؑکی خلافت غصب کرکے برا کیا۔۔ تیرے زمانے میں بتول ؑروتی ہوئی دار فانی سے دار لقا کی طرف گئیں یہ برا کیاہے۔۔ اور اگر تم نے یہ برے کا انجام نہ دیئے ہوتے تو آج شیعوں کے سر پر سے یہ دستار نہ اُتری ہوتی۔۔ آج بتول ؑکے بال کھلے نہ ہوتے۔۔ آج زینب ؑخاتون جنگلوں میں نہ روتی۔۔ آج رباب دھوپ پر نہ بیٹھی۔۔ حسین ؑکے جوان بیٹے کو برچھی کا وار نہ ہوتا۔۔ حسین ؑکے ۶ماہ کے بیٹے کو تیر جفا نہ لگتا؟
خلیفہ اوّل یہ سارا تیرا قصوار ہے۔۔۔۔ نہ تو بتول ؑپر ظلم کا دروازہ کھولتا نہ رسول اکرؐم کی آلِ عبا پر مصائب آتے؟ تو نے پہلا قدم اٹھایا اور تیرے ماننے والوں نے آخر تک پہنچا یا۔۔۔۔ تو نے بتول ؑکو دربار میں نہ رُلایا ہوتا تو بناتِ رسول ؐدرباروں اور بازاروں میں نہ رُلائی جاتیں؟ تو نے محسن ؑکو شہید نہ کر دیا ہوتا تو حسین ؑشہید نہ ہوتے؟ تو نے علی ؑکا حق غصب نہ کیا ہوتا تو زینب ؑو کلثوم ؑکی چادریں نہ لوٹی جاتیں؟ تیری خلافت میں بتول ؑپر تازیانہ نہ چلتا تو شمر سکینہ کو طماچہ نہ مارتا؟ یہ سب خلیفہ اوّل کی غلطیاں ہیں کہ خود اس نے کہا کہ اگر غلطیاں کروںتو اعتراض کرنے کا حق ہے، ہماری کیا مجال کہ ہم تمام غلطیوں کو بیان کر سکیں؟
جس شخص کو رسول اکرؐم کی آلِ عبا کا خیال نہیں تو اس کی غلطی پر پردہ ڈالنا بھی جرم ہے۔۔ دنیا چاہے جتنا اصحاب کی توہین کو جرم کہے میں کہوں گا اگر صحابہ کی توہین جرم ہے توبتول کی توہین بھی جرم ہے؟ پہلے وہ مجرم تلاش کرو کہ جس نے رسول اکرؐم کے گھر میں آگ جلائی۔۔۔ پہلے اس مجرم کو تلاش کرو کہ جس نے قرآن کو جلایا۔۔ پہلے اس مجرم کی جستجو کرو کہ جس نے رسول اکرؐم کے چھوٹے بچے رُلا دیئے؟
کتنے گھنٹے بہ حالت قیام بتول ؑدربار میں کھڑی رہی؟ تاریخیں بیان کرتی ہیں کہ کبھی بایاں پائوں بلند کرتی اور کبھی دایاں پائوں؟ کسی نے یہ نہیں کہا زہرا ؑتھک چکی ہو بیٹھ جائو۔۔۔ ہمیں اپنا درد نہیں بلکہ حضوؐر کی آل کا درد ہے۔
مسلمان ہوش کر جو ظلم بھی نبی کی آل پر ہوئے وہ تیرے چھپانے سے چھپ نہیں سکتے۔۔ حضرت زہرا ؑ پر ظلم و تشدد کے پہاڑ گرائے گئے تو محسن کے شہید ہونے کے بعد جب حضرت علی ؑکو بے دینوں نے بیعت کیلئے لے جانے کا ارادہ کیا تو بی بی نے تیزی سے حضرت علی ؑکی عبا میں ہاتھ ڈال دیا اور فرمایا مسلمانو!  علی ؑکونہ لے جائو تو اب کیا ہوا ایک سنگدل پولیس آفیسر نے قنفذ غلام سے تازیانہ کو بلند کرنے کا آرڈر دیا اور کہا کہ کیوں دیکھ رہا ہے جلدی کرتازیانہ بلند کر کے بتول ؑکے ہاتھ کو چھڑا؟ بی بی نے فرمایا کہ خَلُّوْ عَنْ اِبْنِ عَمِّی کہ میرا اور میرے شوہر کا کیا قصور ہے؟ ہمیں چھوڑ دو۔۔ فد ک بھی غصب کر لی۔۔ میرا محسن بھی شہید کر دیا۔۔ اب ہمیں گھر پر رہنے سے بھی روکتے ہو؟
یہ بہت افراد فقط یہودی نہیں بلکہ وہ ہیں کہ جو کل تک حضرت خدیجہ کی روٹی کھا کر جیتے تھے جب بھوکے تھے تو ماں کے سخاوت بھرے دسترخوان سے روٹی کھاتے رہے اور جب سیر ہو چکے تو بیٹی پر مصائب کی حد کر دی؟ قنفذ نے تازیا نہ بلند کیا اس کے بعد میں اتنا عرض کروں گا کہ بتول ؑکی چیخ نکلی مجبوراً ہاتھ چھوٹ گیا۔۔۔ یہ وہی مقام ہے جس سے غسل کے وقت قمیص جدا نہ ہوتی تھی؟ امّ ایمن نے رو کر پوچھا یا علی ؑکیا حضرت زہرا ؑجیسی بنت پیغمبر کے فراق پر گریہ کر رہے ہیں؟ فرمایا اے امّ ایمن!  بتول ؑکو غسل دینا ہے اور قمیص تن سے جدا نہیں ہوتی؟ خدا جانے بتول نے یہ دکھ کیسے سہے ہوںگے؟
اے مسلمان!  تو کہتا ہے کہ کون نہیں مانتا؟ اگر سب اِنہیں مانتے ہوتے تو کیا رسول اکرؐم کی بیٹی ایسے گریہ اورآہ وبقا سے دنیاکوالوداع کرتی؟ ایک تو دروازہ کے گرنے کا صدمہ۔۔ دوسرا محسن کے شہید ہونے کا ارمان۔۔ تیسری تازیانے کی دھمکی؟
آج تک بتول ؑمعظمہ کی قبر میں گریہ زاری ختم نہیںہوئی۔۔۔ شب ہفتم محرم کو اب فرات کا پانی سادات آلِ زہراؑپربندہوا۔۔ بچوں اوربڑوں نے جو پانی پینا تھا وہ پی لیا، عصر کے وقت خیام کو پیچھے ہٹا نے کا حکم ملا حضرت عباس ؑعلمدار کو۔۔ تو حضرت عباس ؑکے تیور بدلے۔۔ امام حسین ؑفرماتے ہیں کہ بھیا عباس ؑصبر سے کام لو؟ تو حضرت عباس ؑعرض کرتے ہیں کہ مولا ؑکب تک صبر؟ میں بتول معظمہ کی بتول زادیوں کی گریہ زاریاں اوردردو الم کی یہ فریادیں کب تک سن کر تحمل کروں گا؟ مولاؑ ایسا کریںکہ ایک بار آپ اندر تشریف لے جائیں میں ان ظالموں سے پوچھ تو لوںکہ خیموں کو کیسے ہٹا یا جاتاہے؟
حضرت امام حسین ؑمصروف گریہ ہوئے تو بہن نے سوال کیاکہ برادر کس نے رُلایا عباس ؑکی زندگی میں؟ میرے بھیا عباس ؑبڑے وفادار ہیں، اے ماں فضہ  عباس ؑکو بلا لائو۔۔ جناب فضہ کی ردا پر حضرت عباس ؑکی نگاہ پڑی تو دل کانپ اُٹھا جناب فضہ نے بآواز بلند کہا کہ عباس ؑاِدھر آئو؟ کانپتے پیروںسے درِ خیمہ کے قریب جاکر دریافت کیا؟ جناب فضہ کہنے لگی کہ بی بی زینب عالیہ ؑآپ کو بلا رہی ہیں۔۔ تو حضرت عباس ؑ کہتے ہیں کہ میری مخدومہ سے کہو مجھے ان اشقیا ٔسے پوچھنے تو دے تاکہ دوبارہ آپ کے خیام کے ہٹانے کا تو کوئی نہ کہے؟
جناب فضہ نے واپس آکر بی بی کی خدمت میں پیغام پہنچایا تو فرماتی ہیں کہ اے فضہ!  میرے بھائی سے کہہ دے کہ تو خیمہ میں آتا ہے یابرقعہ پہن کر میں خیمے سے باہر قدم رکھوں؟ جس وقت حضرت عباس ؑکو یہ پیغام ملا تو تلوار ہاتھ سے گر پڑی۔۔ عمامہ کے پیچ کھل گئے۔۔ اور خیام میں آ کر کہتے ہیں میری مخدومہ حکم؟ تو حضرت زینب عالیہ فرماتی ہیںکہ حسین ؑروتے رہیں اور تو تلوار اٹھائے؟ مجھے تیری بہادری کی ضرورت نہیں مجھے حسین ؑکی ضرورت ہے میرا بھائی حسین نہ روئے جس طرح یہ راضی اسی طرح میں راضی۔
حضرت عباس کو جناب امّ البنین مدینہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اکرؐم کے روضہ پر لے گئیں جب کچھ دیر ہوئی تو حضرت امام حسین ؑنے شہزادہ علی اکبر ؑکو روانہ کیا کہ جائو چچا کولے کر آئو؟ علی اکبر ؑنے دیکھا کہ ماں بیٹے سے مرقد پیغمبر پر ہاتھ رکھ کر وعدہ لے رہی ہے؟ شہزادہ علی اکبر ؑواپس پلٹے تو امام ؑسے فرمانے لگے کہ بابا میںکچھ نہیں کہہ سکتا جناب امّ البنین اور چچا عباس ؑراز کی باتیں کررہے ہیں؟ حضرت امام حسین ؑروضہ رسول پر آئے اور دیکھا کہ حضرت عباس ؑکا بازو جناب ام البنین کے ہاتھ میں ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کہ عباس! مرقد نبی پر ہاتھ رکھ کر قسَم اُٹھائو کہ زینب ؑکو اکیلا نہ چھوڑگے؟
کربلا میںجناب سکینہ کو چچا کے پانی لے آنے پر بڑا ناز تھا کہ میرا چچا پانی لے کر آئے گا۔۔ تو مولا غازی عباس ؑنے امام حسین ؑ سے اجازت لی اور گھوڑے پر سوار ہو کر پانی لینے کیلئے نہرفرات کی طرف چلے۔۔ جب فرات کے کنارے پہنچے تو وہاں پر موجود اشقیا ٔ کی فوجوں کو تہس نہس کیا اور آب فرات سے مشک پُر کر کے  خیام کا رُخ کیا۔۔ آتے وقت مشک پر کسی ظالم نے تیر مارا۔۔ پھر اشقیا ٔ نے دونوں بازو شہید کر دئیے اورخیام میں پہنچے سے پہلے پانی سب بہہ گیا اورکسی ملعون کی ضربت سے گھوڑے سے گرے اور فرمایا  ألسَّلامُ عَلَیْکَ یَا أبَا عَبْدِاللّٰہ کہ اس وقت امام حسین ؑ نے فرمایا  اَلآن اِنْکَسَرَتْ ظَہْرِیْ وَ قَلَّتْ حِیْلَتِیْ۔
مسلمان ہر شبیہ کی تعظیم واجب ہے۔۔۔۔ درست ہے کہ یہ وہ گھوڑا نہیں لیکن تجھے بتلا رہا ہے کہ امام مظلوم ؑکا گھوڑا ایسا ہی تھا کہ جس پر امام سوار ہوئے اورجس کی باگ کو امام کی معصوم بیٹی نے پکڑا تھا اورکہتی تھی لوگو میںیتیم ہوں؟

وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن