التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

محمد بن حنفیہ کی شجاعت

12 min read
کتب سیر و تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے پدر بزرگوار کے بعد شجاعت میں محمد بن حنفیہ اپنی نظیر آپ ہی تھا، فن سپہ گری اور حرب وضرب میں اپنے باپ حضرت امیر ؑ کا شاگرد تھا، کتاب ’’نہایہ ابن اثیر‘‘ سے منقول ہے کہ محمد بن حنفیہ سادات قریش اور شجاعانِ نامور میں سے تھا۔
کتاب ’’مستطرف‘‘ کی جلد اوّل سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ؑ نے ایک زرّہ خریدی تھی اور وہ قدرے لمبی تھی اس کو کچھ چھوٹا کرنا مقصود تھا تو محمد بن حنفیہ نے حاضر ہو کر عرض کیا بابا جان ! جس قدر زائد ازضرورت ہے اس پر نشان کر دیجئے پس حضرت امیر ؑ نے نشان کردیا اور محمد نے اس کو پکڑ کر اپنے ہاتھوں سے زائد مقدار کو الگ کرکے رکھ دیا، عبداللہ بن زبیر جب اس وقعہ کو نقل کرتا تھا تو اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔
ایک دفعہ بادشاہِ روم نے دوپہلوان معاویہ کے دربار میں بھیجے ایک بہت قدآور تھا اور دوسرا بڑا زور آور تھا، معاویہ نے سمجھا شاہِ روم نے فخرو مباہات کے طور پر ان دونوں کو میرے پاس بھیجا ہے، پس قد آوری میں تو اس پہلو ان کے مقابلہ میں ہمارے پاس قیس بن سعد موجود ہے لیکن زور آور اس پہلون کے مقابلہ میں کس کو تلاش کریں؟ اس تحیّر میں تھا کہ عمروبن عاص نے کہا علی ؑ کا شیر فرزند محمد بن حنفیہ جو موجود ہے، چنانچہ معاویہ نے قیس بن سعداور محمد بن حنفیہ کو بلوالیا پس قیس چونکہ بہت لمبی قدر رکھتا تھا اس کا زیر جامہ جب رومی دراز قد کو پہنایا گیا تو اس کو سینہ تک آگیا اور وہ شرمندہ ہوا، جب دوسرا پہلوان محمد بن حنفیہ کے مقابلہ میں آیا تو محمد نے اس سے فرمایا دوباتوں میں سے ایک کو اختیار کر لے یا تو بیٹھ جا اور میں تجھے اٹھاتا ہوں یا میں بیٹھتا ہوں اور تو مجھے اٹھالے، پس رومی بیٹھ گیا اور محمد نے پہلی جنبش سے اس کو بلند کر لیا، پھر محمد بیٹھا تو رومی نے ہر چند کوشش کی لیکن محمد اپنی جگہ سے سرمو نہ بلند کرسکا، پھر آپ نے فرمایا میں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے زمین پر بٹھادے یا تو کھڑا ہو جا اور میں تجھے زمین پر بٹھاتا ہوں، چنانچہ رومی کھڑا ہوگیا اور محمد بن حنفیہ نے اپنے ہاتھ سے اس کے کندھے پر زور دیا تو وہ فوراً بیٹھ گیا اس کے بعد آپ کھڑے ہوگئے تو رومی نے ہر چند اپنے سارے جسم کا زور لگایا لیکن محمد کے جسم میں خم تک نہ آیا۔۔۔ پس دونوںرومی پہلوان مغلوب وشرمسار ہو کر واپس پلٹے۔
جنگِ جمل میں محمد بن حنفیہ
کتب معتبرہ سے منقول ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت امیر ؑ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے پاس بلایا اور علَم فوج اس کے حوالے کیا اور فرمایا جائو بیٹا خوب جنگ کرو اور آگے بڑھ کر عائشہ کے اونٹ کو تم نے ہی گرانا ہے، چنانچہ شیر خدا کے شیر فرزند نے علَم تھا م لیا اور شعلہ جوالہ کی طرح میدانِ کا رزار کا رخ کیا (یہ جاننا چاہیے کہ اس جنگ کے وقت محمد بن حنفیہ کی عمر تقریباً بیس برس تھی اور ابتدائی جوانی کا عالم تھا اور اپنی عمر میںیہ پہلی جنگ تھی جس میں محمد نے حصہ لیا) حضرت امیر ؑ اس جنگ میں محمد کو تر بیت بھی دیتے رہے اور لڑائی میں بھیجتے بھی رہے گویا یہ جنگ محمد کیلئے فن سپہ گری کی تربیت گاہ تھی، جب محمد میدان میں پہنچا تو قبیلہ ازد کا ایک جوانمرد عرصہ کا رزار میں نکلا اور اس نے بنی ازد کو آواز دی   یَا مَعْشَرَ الْازْدکرُّوْا اے قبیلہ ازد کے جوانو آگے بڑھو، تو محمد نے اس کو اس سے مزید کلام کرنے کی مہلت نہ دی ایک ہی ضربت سے اس کا کام تمام کر کے فرمایا  یَا مَعْشَرَ الْازْد فِرُّوْا  اے قبیلہ ازد کے جوانوپیچھے بھاگو، پھر شیر غضبناک کی طرح صف ہائے اعدأ پر یکبارگی حملہ آور ہوا کہ دشمنانِ دین کے ہاتھ اور سر ہوا میں پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے نظر آتے تھے میدان میںسواروں اور پیادوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے، شیر خدا کے شیر فرزند کی جوانی کے سامنے جوانیاں سر بسجود ہوتی نظر آرہی تھیں۔۔ آپ کی تلوار شرر بار سو ار و راہوار دونوں کے پار ہو کر خونِ اعدأ میں باربار سیراب وسرشار ہوتی جارہی تھی، جس طرف کا رخ کرتے تھے لوگ بھیڑوںکی طرح میدان چھوڑ کر بھاگتے نظر آتے تھے، دشمن کی فوج سے عوف قیسی نامی ایک شخص اپنے زور بازو پر اتراتا ہوا تلوار کو ہوا میںلہراتا ہوا آگے بڑھا اور رجز خوانی کرنے لگا، لیکن شیر خدا کے فرزند نے اسے ایک سے دوسرے مصرعہ تک نہ پہنچے دیا ایک ہی جنبش تلوار سے اس کا کام تمام کردیا اور پھر طوفان مہیب بن کر لشکر کے میمنہ و میسرہ پر یکے بعد دیگرے مسلسل حملہ کرتاہوا آگے بڑھا اور اآخر کار دم لینے کیلئے خدمت شہِ ولایت میں ایک دفعہ واپس پلٹ آیا۔
محمد بن حنفیہ نے اگر چہ بہت کچھ جوہر شجاعت دکھائے لیکن حضرت شہِ ولایت کے ایک فرمان کی تعمیل نہ ہو سکی تھی اور وہ یہ کہ آپ ؑ نے فرمایا تھا عائشہ کے اونٹ پر حملہ کرکے اس کو گرانا؟ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ قبیلہ بنو ضبہ اونٹ کے ارد گرد دیوار آہن بن کر کھڑے تھے اور وہ بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے محمد نے خیال کیا جب ان کی تیر بارنی کم ہو گی یا ترکش خالی ہوجائیں گے تو ان کی طرف اقدام کرنا آسان ہو گا لیکن حضرت علی ؑ یہ چاہتے تھے کہ تیرو تفنگ کے درمیان گھس کر حملہ ہوتا، لہذا جب محمد واپس آئے تو آپ ؑ نے فرمایا بے شک تو میرا فرزند ہے اس قسم کی شجاعت تجھ سے متوقع تھی لیکن یہ غیر متوقع بزدلی جو میدان سے تجھے واپس لائی ہے تیری مادری کمزوری سے ہے۔
اپنے بابا سے اشارہ پاکر حضرت امام حسن ؑ نے محمد بن حنفیہ کے ہاتھ سے نیزہ لے لیا اور بروایت ابن شہر آشوب لشکر عائشہ پر حملہ آور ہو گئے اور برستے ہوئے تیروں میں گھس کر ایسی جنگ کی کہ فوج اعدأ کے قدم اکھڑ گئے اور میدان خالی ہوگیا پس آپ ؑ نے عائشہ کے اونٹ کے پائوں پر وار کیا کہ وہ گر گیا اور ہودج زمین پر آپہنچا پس واپس اپنے بابا کی خدمت میں پہنچے اور خون آلود نیزہ سامنے آکر پھینک دیا، محمد نے اپنے بھائی کی جرأت و شجاعت دیکھ کر شرمساری اور خجالت سے منہ جھکا لیا، حضرت امیر ؑ نے اپنے بیٹے محمد کی دلجوئی کیلئے ارشاد فرمایا:  بیٹا ! شرمساری کی کوئی بات نہیں آخر تو میرا فرزند ہے اور حسن ؑ رسالتمآبؐ کا فرزند ہے۔
میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ جنگ جمل حضرت محمد بن حنفیہ کا تر بیتی کورس تھا اور حضرت امیر ؑ اپنے فرزند کو جنگ کرنے کا ڈھنگ تعلیم فرمارہے تھے معمولی سی کمزوری کے اظہار پر سرزنش اس لئے فرمائی کہ یہ پہلی جنگ تھی اور پہلی غلطی پر شاگرد کو ٹوک دینا اس کے آیندہ سنبھل جانے کیلئے مہمیز ہوا کرتی ہے لیکن برعکس اس کے اگر استاد شاگرد کو پہلی غلطی پر نہ ٹوکے اور درگذر کرے تو پھر شاگرد سے بڑی بڑی غلطیوں کا امکان ہوتا ہے اور بعض اوقات پھر استاد کی تنبیہات بھی درخور اعتنا نہیں قرار پاتیں اور حضرت امام حسن ؑ کے مقابلہ میں محمدکی دلجوئی کرنا ضروری تھا تاکہ دل بوجھ نہ محسوس کرے کیونکہ دل میں احساس کمتری کا پیدا ہو جانا مرد میدان کیلئے ناکامی کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔
’’مروج الذہب‘‘ میں مسعودی نے اس طرح ذکر کیاہے کہ حضرت امیر ؑ کی فوج کا علَم حضرت محمد بن حنفیہ کے ہاتھ میں تھا، پس آپ ؑ نے محمد کو جنگ کرنے کا حکم دیا محمد نے انتطار کی تاکہ لشکر عائشہ کے تیرا ندازوں کے ترکش خالی ہوجائیں حضرت امیر ؑنے آکر دریافت فرمایا بیٹا حملہ کیوں نہیں کرتے؟ تومحمد نے عرض کیا بابا جان تیر بارانی کے خاتمہ کی انتظار کررہاہوں، آپ ؑنے فرمایا تیر و نیزہ میں گھس کر حملہ کرو خود موت تیری ڈھال بن جائے گیپس محمد نے حملہ کیالیکن تیروں نے آگے نہ جانے دیا پس حضرت علی ؑ نے آگے بڑھ کر محمد سے علَم لے لیا اورخود حملہ آور ہوئے اوربعض روایات میں ہے کہ آپ ؑ نے یہ اشعار زبان سے جاری کیے:
لا تَحْذَرَنَّ فَمَا یَفُتْکَ حَذَارُ
 اِنْ کانَ حَتْفُکَ سَاقَہٗ الْمِقْدَارُ
ڈرونہیں کیونکہ اگرتقدیر تمہاری موت کولائی ہے تویہ ڈرنا تمہیں بچانہیں سکے گا۔
 وَ اَرَی الظَّنِیْنَ عَلٰی الْحَمَامِ بِنَفْسِہٖ
لابُدّ اَنْ یَفْنٰی وَ یَبْقٰی الْعَارُ
اورجو شخص موت پر اپنے نفس کا بخل کرے آخر مرجائے گا اور عار ہمیشہ رہے گی۔
لِلضَّیْمِ فِیْ حَسْبِ الْاْبِیِّ جَرَاحَۃٌ
ھَیْھَاتَ یَبْلُغُ قَعْرَھَا الْمِسْبَارُ
خوددارانسان کے حسب میں بزدلی ایک ایسا زخم ہے جس کی گہرائی ناپ سے باہر ہے۔
فَاقْذِفْ بِنَفْسِکَ فِیْ الْمَھَالِکِ اِنَّمَا
خَوْفُ الْمَنِیَّۃِ ذِلَّۃٌ وَصِغَارُ
 پس خطرات کے مقام پر اپنے نفس کوواگزارکر کیونکہ موت کا خوف ذلت اورپستی ہے۔
 وَ الْمَوْتُ حَیْثُ تَقَصَّفَتْ سُمْرُالْقَنَا
فَوْقَ الْمُطَھَّمِ عِزَّۃٌ وَفِخَارُ
اورجہاں گندم گوں نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہاں جنگی گھوڑے کی پشت پربیٹھ کرموت کولینا باعث عزت وموجب فخرہواکرتاہے۔
ابن ابی الحدید سے اس طرح منقول ہے کہ حضرت امیر ؑ مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ جب کہ حسنینؑ اورمحمد بن حنفیہ بھی آپ ؑ کے ہمراہ تھے بنفس نفیس خود لشکر عائشہ پر حملہ آور ہوئے اورعلَم محمد کے ہاتھ میں دے کراس کوہودج عائشہ کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا، جب دیکھا کہ محمد تیر بارانی سے کتراتے ہوئے دیرکررہا ہے خود آگے بڑھے اورمحمد کے پیچھے سے آکر اپنا بایاں ہاتھ محمد کے دائیں کندھے پررکھا اور فرمایا   اَقْدِمْ لاام لَک یعنی آگے بڑھو، اس کے بعد محمد جب بھی اس منظر کا تصور کر تے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو کا سیلاب امنڈ آتا تھا اور فرماتے تھے وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جس کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا، پس حضرت علی ؑ کو محمد کی حالت پر رقت ہو ئی لیکن چونکہ بیٹے کی تربیت مقصود تھی پس علَم خود اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور خود پیش قدمی کے لئے آگے بڑھے اور ایک ہی لمحے میں عائشہ کی فوج کو کاغذوں کے دفتر کی طرح لپیٹ کر رکھ دیا اور اسی دوران کئی مرتبہ تلوار ٹیڑی ہوئی تواپنے زانوئے مبارک پر رکھ کر اس کو سیدھا کرکے پھراستعمال فرماتے رہے، کئی مرتبہ حضرت عمار اورمالک اشتر نے ہاتھ جوڑجوڑکرعرض کیا کہ حضور ہمیں موقعہ دیجئے لیکن آپ ؑنے پرواہ نہ کی، علی ؑ پورے میدان پراس طرح چھاگئے کہ ان کے نعرہ کے مقابلہ میں پوری فوجوں کی شوروغل کی آوازگم ہوجاتی تھی اور سارا میدانِ شہر خموشاں بناہوا تھا، آپ کی تلوارشرربار ہرچہارسوشعلہ جوالہ بن کردشمنوں کے سروں پرقہروغضب پروردگار کی بجلیا ں گرارہی تھی، نعرہ تکبیر کی دھمک کے ساتھ ساتھ ذوالفقار کی چمک ودمک صاعقہ وبرق کی کڑک اورلسک کا سماں پیداکررہی تھی۔۔۔ زمین کانپ رہی تھی۔۔۔ آسمان لرز رہا تھا۔۔۔ دشمنوں کے دل دہل رہے تھے اورپتے پانی ہورہے تھے۔۔۔ نہ قدم جمانامفید نہ قدم اٹھانا سود مند تھا، بس موت کا بازار گرم تھا خازنانِ جہنم اپنا مال اکٹھا وصول کررہے تھے حضرت امیر ؑ کے ہاتھ کا اشارہ تقدیر کی تحریر تھی۔۔۔ ملک الموت کارندوں اوراپنی فعال جماعت کے ہمراہ بلٹی بھجنے میں مصروف تھا اورداروغہ جہنم انہیں وصول کرکے ہاویہ کے وسعی و عریص  پنڈال میںجمع کرتا جا رہاتھا ، ادھر حضرت محمد بن حنفیہ اپنے باباکی جنگ کا تماشہ دیکھ کر سبق حاصل کررہے تھے، پس حضرت امیر ؑ تلوار کو نیام میں داخل کرکے ایک مرتبہ واپس پلٹے اورمحمد سے فرمایا:
اِطْعَنْ بِہَا طَعْنَ اَبِیْکَ تُحْمَدٖ
اس طرح جنگ کرو جس طرح تیرے باپ نے جنگ کیاہے تب شاباش کے قابل ہوگے۔
لاخَیْرَ فِی الْحَرْبِ اِذَا لَمْ تُوْقَدٖ
بَاالْمَشْرَفِیَّ وَالْقَنَاالْمُقَصَّدٖ
 وہ لڑائی ہی کیا ہے جس کی آگ کو بھڑ کا یا نہ جائے تلوار آبدار اور مضبوط نیزہ کے ساتھ۔
پھر آپ ؑ  نے   اُمح الْاُوْلٰی بِالْاُخْرٰی یعنی اب اس طر ح پُر جوش حملہ کرو کہ پہلی کمزوری پرپردہ پڑجائے۔
مسعودی نے ’’مروج الذہب‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ خزیمہ ذوالشہادتین نے حضرت امیر ؑ نے محمد بن حنفیہ کو علم فوج سپرد کرنے کی درخواست کی، چنانچہ اب دوبارہ آپ ؑ نے علَم فوج محمد کوعطا فرمایا، پس اب کی بار شیر خدا کے شیر فزند نے باپ کی پوری امنگوں کے ساتھ جومیدان کا رخ کیا توطوروطریقہ نرالاتھا۔۔ تیوربدلے ہوئے تھے اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ حیدر ثانی قضائے آسمانی بن کرلشکر عائشہ پر حملہ آور ہوا ہے اورتھوڑی ہی دیر میں پوری زمین منافقوں کے خون سے رنگین ہوگئی ہے اورمحمد نے شجاعت وجرأت کا وہ منظر پیش کیا کہ ٓازمودہ کارانِ حرب وضرب کواس کے سامنے قدم جمانے کی جرأت نہ ہوسکی، ایک طرف علی ؑ کے خون کا اثر اوردوسری طرف علی ؑ کی تربیت کا ثمرہ کیوں نہ ظاہر ہوتا، علی ؑ جیسے باپ کا محمد جیسا پسر ہواور علی ؑ جیسے اُستاد کا محمد جیسا شاگرد ہوتو کیوں نہ اس کا ہر اقدام فتح مندی ونصرت کا زینہ ہو ؟پس بیٹے نے باپ کو میدان سر کردیکھایا اورآخر کارلائق باپ کا لائق بیٹا اورشجاعت لے کے رہا بلکہ صحا بہ رسول مہاجرین وانصار پر اپنی شجاعت وجوانمردی کا لوہامنوا کے رہا، جبھی تو اختتام جنگ پر خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین صحابی رسول نے خدمت شہِ ولایت میں عرض کیا کہ مولا اگر آج محمد بن حنفیہ کے علاوہ کوئی دوسرا سالار فوج ہوتا تو ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑتا اورایک گروہ انصارنے عرض کیا مولاہم تسلیم کرتے ہیں کہ حسنین جناب رسالتمآبؐ کے فرزند ہیں اورامام ہیں ورنہ ہمارے نزدیک پورے عرب میں محمد بن حنفیہ کا کوئی فردِ بشر ہمسر نہیں ہے، آپ ؑ نے فرمایا حسنین شریفین بمنز لہ شمس وقمر ہیں اورمحمد بن حنفیہ ان کے مقابلہ میں ایک ستارہ ہے اورحسنین کی فضیلت سے محمد کی کسر شان نہیں ہے اورمحمد کی فضیلت اپنے مقام پرثابت ہے بے شک وہ لڑائی میں ثابت قدم اورجہاد میں صابر ہے لیکن آخر وہ میر افرزند ہے لیکن حسنین تورسول خداکا فرزندہیں، بروزخمیس ۱۰ جمادی الثانی  ۳۶ھ؁ کو جنگ جمل واقع ہوئی ( مروج الذہب مسعودی ) 
اسی جنگ جمل کے موقعہ پرحضرت امیر ؑ نے محمد بن حنفیہ کو جنگ میں ثابت قدم رہنے کے لئے جو کلمات تلقین فرمائے تھے وہ نہج البلاغہ میں اس طرح ہیں:
یَا بُنَیَّ تُزُوْلُ الْجِبَالُ ولاَ تَزُلْ عُضَّ عَلٰی نَاجِذِکَ اَعِرِاللّٰہُ جُمْجُمَتَکَ وَتِدْ فِی الْاَرْضِ قَدْمَکَ وَارْمِ بِبَصَرِکَ اَقْصَی الْقَوْمِ وَغُضَّ بَصَرَکَ وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ۔
اے فرزند!  اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں توتیراقدم نہ ہٹے، دشمن خداپرغضبناک رہو، اپناسراللہ کے حوالہ کردو اور زمین میں اپنا قدم گاڑھ دواوراپنی نظردشمنوں کی آخری صف تک رکھو اور طبیعت کوجمع رکھو اور یقین کرو کہ نصرت اللہ کی جانب سے ہے۔