التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اَٹھارہویں مجلس -- اَلٓــمّٓ ء ذٰلِکَ الْکِتَابُ لارَیْبَ فِیْہِ



حروف مقطعاتِ قرآنیہ ہیں اور ان کی کئی تاویلیں کی گئی ہیں:
ز   ایک تاویل  الف  سے مراد  اللہ   اور  لام   سے مراد   جبریل   اور میم سے مرا د  محمد   یعنی یہ کلام اللہ نے بھیجی جبریل لایا اور محمد مصطفی پر نازل ہوا
ز   دوسری تاویل الف سے مراد  انا  ، میں  لا م  سے مراد  اللہ  اور میم سے مراد  اعلم  ہے یعنی  انا  اللہ  اعلم  مقصد یہ ہے کہ ان کی حقیقت کو میں ہی جانتا ہوںبعض لوگو اللہ ، علی ، اور محمد بھی مراد لیتے  بعض لوگوں نے الف ولام سے مراد آل اور میم سے مراد محمد لیا ہے بعض لوگوں نے حروف ابجد کے اعداد کے اعتبار سے مدت اقوام بھی مراد لی ہے  
کل حروف مقطعات جو مختلف سورتوں کے اوئل میں ہیں ان کی تعداد چودہ ہے اور علم جفر والے ان کو حروف ناطقہ سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ باقی چودہ حروف کو حروف صامتہ کہتے ہیں
علم جفر آل محمد کا مخصوص علم ہے۔۔ چنانچہ جب حضرت حسن ؑشام سے واپس آکر وارد مدینہ ہوئے تو ایک اونٹ پر کتابوں کا انبا ردیکھ کر ایک شخص نے عرض کی حضور ان کتابوں میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا قیامت تک آنے والے ہمارے شیعوں کے اس میں نام درج ہیں چنانچہ اس  نے عرض کی کیا میرا نام بھی درج ہے ؟ آپ نے فرمایا بے شک چنانچہ اس نے خود دیکھ کر تسلی کر لی۔
بہر کیف یہ چودہ حروفِ مقطعات ہیں ان کا اگر با مقصد کوئی جملہ بن سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے:   صِرَاطُ عَلِیٍّ حَقٌّ نُمْسِکُہُ یا عَلِیٌّ صِرَاطُ حَقٍّ نُمْسِکُہُ
ز   بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حروفِ مقطعات تحدّی اور چیلنج کیلئے دہرائے گئے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تم اپنے کلمات کو مرکب کرتے ہو۔۔ اگر تم اس کو اللہ کاکلام نہیںجانتے اور محمد کا بیان سمجھتے  توتم بھی انہی حروف سے مرکب اس جیسا کلام پیش کرو؟
ز   بعض کہتے ہیں کہ یہ قسَم ہے یعنی الف و لام و میم کی قسم یا ان چودہ حروفِ ناطقہ کی قسَم اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔
یہ قسَم سب سے پہلے اللہ نے اُٹھائی۔۔ اس کے بعد حضرت پیغمبر ؐ نے لوگوں کو قرآن سنایا تو یہ حلفیہ بیان اپنی زبان پر جاری فرمایا۔۔ پھر صحابہ اور مومنین نے قرآن پڑھا تو اس حلفیہ بیان کو دہرا یا۔۔ اب ہمارا بچہ جب بھی قرآن پڑھتا ہے تو سب سے پہلے اس حلفیہ بیان کی تلاوت کرتاہے اور کتاب کے لاریب ہونے کا اقرار کرتا ہے۔
گویا کسی مسلمان کو قرآن پڑھنے کا حق نہیں پہنچتا جب تک کہ پہلے اس حلفیہ بیان کو نہ دہرائے؟ اور اللہ تعالیٰ نے آگے چل کر پھر اسے چیلنج کے طور پر فرمایا کہ   اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأتُوْ بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ  اگر تم شک میں پڑے ہو تو اس کی سورتوں جیسی ایک سورہ تم بھی لائو۔۔۔۔ اور تم تنہا نہیں بلکہ وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَکُمْ  ہم خیال لوگوں کو پورے جزیرۂ عرب سے اکٹھا کر کے اپنی مدد کیلئے بلا ئو اور پورے قرآن کا نہیں صرف اس کی ایک سورہ کا مقابلہ کر کے دکھائو؟ اور پھر فرمایا  فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوْا النَّارَ الَّتِیْ وُقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْن  پس اگر اس کا مقابلہ نہ کر سکو اور یقینا نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے بچو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے اور اس کاا یندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
میلہ عکاظ کے موقعہ پر جب سورۃ  اِنَّااَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرْ دیوارِ کعبہ پر لکھی گئی تو عرب کے مشہور شاعر نے نیچے صرف اتنا جملہ لکھا کہ مَا ھٰذَا کَلامُ الْبَشَرْ یعنی یہ انسان کا کلام نہیں ہے۔۔ جب حضرت پیغمبرؐ نے قریش کے بھرے مجمع میں قرآن کی چند آیات کی تلاوت فرمائی تو ولید بن مغیرہ جیسامتکبر اور دشمن بول اُٹھا کہ اس کلام کی دلکشی۔۔ رنگینی اور حقائق نگاری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ایسے اللہ کا کلام سمجھیں کیونکہ ایسا کلام بندے کا نہیں ہو سکتا بہر کیف یہ کتاب ریب سے بالاترہے۔
لیکن سوچنا یہ ہے کہ ہم تک یہ کتاب کیسے پہنچی؟ اللہ کی زبان نہیں اور جبریل ہمارے ساتھ بات نہیں کرتا؟ تو سب سے پہلے اس کلام کو زبان سے ادا کرنے والی زبان زبانِ محمد ؐ ہے تو یہ کلام بھی نکلا زبانِ محمدؐ سے ہے۔۔ لیکن محمدؐ کا کلام نہیں اللہ کا کلام ہے۔
آج تک پوری زندگی میں چالیس برس تک بھی محمد کی زبان سے کلمات ادا ہوئے لیکن وہ حدیث کہے جا سکتے ہیں قرآن نہیںاور چالیس برس گزرنے کے بعد دونوںطرح کے کلام آپ کی زبان سے جاری ہوئے لیکن ایک کلام کلامِ خدا ہے اور دوسراکلام کلامِ نبی اور حدیث ہے۔۔۔ اب کلامِ خدا ور کلامِ رسول میں فرق کس نے کیا؟ کہ وہ کلام خدا ہے اور یہ کلام رسول اور حدیث ہے؟ جبکہ دونوں کلام زبانِ محمدؐ سے ہی جاری ہوئے؟ تو ماننا پڑتا ہے کہ ان دونوں میں فرق حضورؐ نے خود کر دیا اور فرمایا کہ یہ کلام جو ادا کر رہا ہوں میرا نہیں اللہ کا ہے (قرآن ہے) اور یہ کلام جو ادا کر رہا ہوں اللہ کا نہیں میرا ہے ( حدیث ہے )
تو سب سے پہلے زبانِ محمدؐ پر ایمان لانا ضروری ہے تا کہ ان کے بیان کے ماتحت قرآن کو کلام اللہ کہیں اور حدیث کو کلامِ رسول سمجھیں۔۔ ورنہ اگر رسول کی زبان شک و ریب سے بالا تر نہ ہو تو قرآن و حدیث میں فرق کرنا مشکل ہوگا اور اسی غرض کے ماتحت چالیس برس تک اللہ نے اعلانِ رسالت کی اجازت نہ دی تاکہ اس لمبی مدت میں اپنے کردار سے لوگوں پر واضح کر دیں اور دوست و دشمن یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ محمدؐ صادق اور امین ہے روز مرہ کی باتوں میں اور لین دین میں جھوٹ اور خیانت نہیں کرتا اور اس کی ہر بات شک و ریب سے بالاتر ہے۔
چنانچہ جب آپؐ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ کوہِ ابوقیس کے پیچھیایک لشکرجر ّار حملہ آور ہونے کو تیا رہے تو مان لوگے؟ سب صنادید قریش اور فراعنہ مکہ نے یک زبان کہا اگر سامنے کچھ بھی نظر نہ آئے تو ہم اپنی آنکھوںکو جھوٹا کہیں گے لیکن آپؐ کی زبان پر شک نہ کریں گے۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ لوگ حضورؐ پر ایمان نہ لائے لیکن آپ کی زبان پر شک نہ کیا، کتنا بدبخت ہے وہ انسان جو اُن کی رسالت کا کلمہ بھی پڑھے اور ان کی زبان پر شک بھی کرے؟ اور جب تک محمد کی زبان کو شک و ریب سے بالا نہ سمجھا جائے نہ قرآن پر ایمان مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ حدیث پر ایمان ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کو قرآن اور حدیث کو حدیث کہنے والی زبان زبانِ پیغمبرؐ ہے، پس جس شخص کو محمدؐ کے فرمان پر یقین نہیں تو وہ اگر حَسْبُنَاکِتَابُ اللّٰہ کہے تو جھوٹا ہے۔۔ کیونکہ کتاب اللہ کو کلام اللہ کہنے والی زبان پر اس کو شک ہے اور اسی طرح اگر وہ سنت رسول سے تمسک کا دعویٰ کرے تو جھوٹا ہے کیونکہ قرآن و سنت کو بیان کرنے والی زبان وہی ہے جس میں اس کو شک ہے، لہذا ایسا شخص نہ سنی ہے نہ شیعہ بلکہ دشمن خدا ورسول ہے۔
جناب فاطمہ زہراؑ کو مال کی کیا ضرورت تھی؟ وہ غالباً یہی مسئلہ سمجھانے کیلئے تشریف لے گئی تھیں۔۔۔۔ کیونکہ ایک عالم گیر مشن کو چلانے کیلئے بہت بڑے دل و گردہ کی ضرور ت ہوتی، جس بی بی کے بابا نے ایک عالم گیر اسلام کی تحریک چلائی اسے اس کی اہمیت کا بخوبی علم تھا۔۔ البتہ جن لوگوں نے اس مشن کی سربراہی سنبھال رکھتی تھی بی بی ان کے ایمان کا پر دہ چاک کرنے کیلئے گئی تھیں تاکہ لوگ ان کی باتوں کے دھوکہ میں نہ رہیں اور حقیقت واضح ہو جائے۔
رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔۔ اب دو چیزوں کے تعین میں اختلاف ہے کچھ لوگ قرآن و اہل بیت ؑ کا نام لیتے ہیں اور کچھ قرآن و سنت مراد لیتے ہیں۔۔۔ بی بی نے اپنے مقدمہ میں اپنے حق کے اثبات کیلئے قرآن کو پیش کیا وَارِثَ سُلَیْمَانَ دَاؤد حضرت سلیمان ؑ حضرت داود ؑ کے وارث تھے اور حضرت زکریا ؑ نے اپنے بیٹے کیلئے دعا کی اے اللہ! مجھے فرزند عطا فرما جو میرا وارث ہو یَرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْب  جب دیکھا کرسی والوں نے کہ حَسْبُنَا کِتَابَ اللّٰہ کا دعویٰ ہمارے مفاد کے خلاف ہے اور اس سے پہلو تہی کی تو بی بی نے اپنے دعویٰ کے اثباب میںحسنین شریفین کو بطورِ گواہ پیش کیا اور حضرت علی ؑ کو پیش کیا جو مبا ہلہ میں رسول اللہ کے گواہ تھے پس گواہوں کو جھٹلایا گیا تو قرآن وآل کا انکار ہوا پھر بی بی نے رسول کی تحریر پیش کی جسکی حیثیت سنت رسول کی سی تھی تو اُس کو پھاڑ کر پھینک دیا گیا تو پھر قرآن و سنت کا انکار ہوا۔۔ پس بی بی پورے اسلامی مجمع کو سمجھا کر واپس آئیں کہ اگر کرسی اقتدار والے حَسْبُنَا کِتَابَ اللّٰہ  کا دعویٰ کریں تو ان کا دعویٰ غلط ہے اگر کتاب و سنت کی اتباع کا دعویٰ کریں تو غلط ہے اور اگر قرآن و عترت سے تمسک کا دعویٰ کریں تو غلط ہے کیونکہ قرآن کو انہوں نے ردّ کیا ، آل کی شہادت کو قبول نہ کیا اورتحریر پیغمبر کو ریزے ریزے کر کے سنت سے انحراف کر لیا، پس نہ ان کا قرآن پر ایمان ہے اور نہ سنت پر ایمان ہے اور میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ قرآن و سنت پر ایمان اس کا ہوسکتا ہے جو محمد مصطفی کی زبان کو شک و ریب سے بالاتر سمجھے خواہ جوانی میںبات کریں یاضعیفی میں۔۔ سفر میں یا حضر میں۔۔ جنگ میں یا صلح میں۔۔ تندرستی کی حالت میں یا بیماری کے دوران؟
پس جو شخص رسول اکرم کی جوانی کی بات میں شک کرے ایمان سے خارج۔۔ جو آپ کی ضعیفی کی بات میں شک کرے ایمان سے خارج۔۔ اسی طرح جو آپ کی تندرستی کی بات میں شک کرے بے ایمان اور جو آپ کی بیماری کے زمانہ کی بات میں شک کرے بے ایمان ہوگا؟ آپ کی تقریر پر شک کرے تو بے ایمان اور آپ  کی تحریر میں شک کرے تو بے ایمان۔۔۔۔ ہم شیعہ لوگوں کا زبانِ محمدؐ پر ایمان ہے وہ جو کچھ فرمائیں وہ دین ہے جس کا م کا حکم دیں وہ دین ہو گا جس محبت کا حکم دیں وہ محبت دین اور جس بیزاری کا حکم دیں وہ بیزاری دین، لہذا ہماری محبت جذبات کے تابع نہیں بلکہ محمد مصطفی کے فرمان کے تابع ہے۔۔ اسی طرح ہماری دشمنی بھی جذبات کے تابع نہیں بلکہ محمد مصطفی کے فرمان کے تابع ہے۔
دین و اسلام کے بہانہ سے لینے اور کھانے والے تو آپ کو بہت ملیں گے لیکن دین کو دینے والے اور دین پر خرچ کرنے والے بہت کم ہیں،آلِ محمد علیہم السلام  وہ خاندان ہے جنہوں نے حسب ضرورت دین پر ہر دَور میں خرچ کیا۔
حضرت محمد مصطفی نے دین پہنچایا اور زندگی بھر دین پر خرچ کرتے رہے،   دنیا میں مسلمانوں کو عزت و وقار عطا فرمایا اور مرنے کے بعد مسلمانوں سے جنت وکوثر دینے کا وعدہ فرمایا گویا یہاں بھی دیاا وروہاں بھی دیں گے۔۔۔۔ مسلمانوں سے لیا کچھ نہیں فرمایا  اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی اللّٰہ
آلِ محمد علیہم السلام نے دین کی خاطر کیا کیا مصیبتیں سہیں؟ کلیجہ منہ کو آتا ہے کیا کیا بیان کیا جائے؟ لوگ کہتے ہیں شیعہ روتے کیوں ہیں؟ حالانکہ جب ہم لو گ خوش ہوں تو اُنہیں پوچھنا چاہیے کہ تم خوش کیوں ہو؟ کہتے ہیں یہ ماتم کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اُنہیں عبرت کرنی چاہیے کہ ہم لو گ زندہ کیسے ہیں؟
نفسیاتی فقرہ عرض کرتا ہوں۔۔۔۔ کسی جوان۔۔ عزت دار۔۔ غیرت مند۔۔ شریف النفس انسان کے سامنے دشمنوں کے بھرے مجمع میں اس کی ماں کے سر سے چادر چھن جائے تو اس سے یہ پوچھنا کہ تم روتے کیوں ہو عقلمندی نہیں، ہاں اس سے  سوال کرنا چاہیے کہ اس قدر ہولناک حالات سے گزرنے کے بعد تم جیتے کیوں ہو ؟ اے غیرت مند مسلمان!  اگر تیرے خاندان کی بیٹیوں۔۔ بہنوں اور مائوں کے سروں پر چادریں ہیں تو اس غیرت و ناموس پر تیرا کیا خرچ ہوا ہے؟ یہ تو امام حسین ؑ کی بہن کا احسان ہے جس نے اپنی چادر لٹاد ی اور تیر ی بہو۔۔ بہن۔۔ ماں اور بیٹی کے سر پر شرم وحیا کی چادر ڈال دی۔
آج غیر مسلم ممالک بیٹی اور بہن کے نکاح کو قانونی شکل دینے سے گھبراتے ہیں اور یزید وہ ناپاک انسان تھا جس نے پیغمبر ؐکے فوراً بعد کے عرصہ میںمحارم سے نکاح کو جائز قرار دے دیا تھا۔۔۔ یہ امام حسین ؑ اور زینب عالیہ ؑ کا احسان ہے جنہوں نے یزیدیت کے آگے کوہِ گراں بن کر اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا اور حلال و حرام کے درمیان امتیازی نشان کھینچ کر مسلمانوں کو غیرتِ اسلامی کا درس دیا،  مشکل ترین اور ہو شر با حالات سے گزر کر پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دی۔
جب کبھی غیرتِ انساں کا سوال آتا ہے
بنت ِ زہراؑ تیرے پردے کا خیال آتا ہے
جب کوفہ کے قریب پہنچیں تو حضرت سجاد ؑ سے پوچھا یہ سامنے کونسا شہر ہے ؟ امام سجاد ؑ نے عرض کیا کوفہ ہے۔۔ فرمایا وہی کوفہ جس میں شہزادی رہ چکی ہوں؟ بقولے جناب فضہ سے فرمایا جا کر شمر سے کہو کہ میںاس شہر میں شہزادی رہ چکی ہوں مجھے اس شہر میں نہ لے جائو۔
 اور اگر لے جانا ہے تو ہمیں چادریں دے دو۔
اگر یہ بھی منظور نہیں تو کسی غیر معروف راستہ سے لے جائو۔
اگر یہ بھی قبول نہیں تو اس وقت لے جائو جب رات کی تاریکی چھا جائے اور شمعدان گل کئے جائیں۔
چنانچہ فضہ نے شمر سے بی بی کی فرمائش کو بیان کیا۔۔۔۔ اس حرامزادہ نے منہ دوسری طرف کر کے انتہائی لا پرواہی اور بے حیائی سے کہا کہ جائو زینب سے کہو اب تم کوفہ کی شہزادی نہیں بلکہ ہماری قیدن ہو ہم جیسے چاہیں گے لے جائیں گے؟
جب جناب فضہ نے شمر کا فقرہ دہرایا تو بقولے بی بی نے فرمایا میں اس حالت میں نہیں جائوںگی۔۔ پس اِدھر بی بی کا محمل رُکا اُدھر امام حسین ؑ کے سر والا نیزہ رُکا۔۔ شمر تازیانہ لے کر امام سجاد ؑ کی طرف بڑھا تو امام سجاد ؑ نے بابا کے نیزہ کی طرف رُخ کیا اور عرض کیا بابا تیری بہن آگے جاتی نہیں اور میری پشت برداشت نہیں کرسکتی؟ امام حسین ؑ کے سر سے آنسو کے خون آلود قطرے ٹپکے تو بی بی نے سر اٹھا کر عرض کیا بھیا حسین ؑ! رونے کی کیا وجہ ہے؟ بزبانِ حال فرمایا میرا بیٹا بیمار ہے اے بہن! تجھ میں چلنے کی سکت نہیں سجاد میں تازیانہ براداشت کرنے کی طاقت نہیں؟
دربا رمیں پیش ہوئیں۔۔ دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئیں کَانَتْ فِیْ اَرْذَلِ ثِیَابِھَا یعنی بی بی کے تن اقدس پر نہایت خستہ اور بوسیدہ لباس تھا۔۔ غالباً اچھے ملبوسات کربلا میں لوٹ لئے گئے یا نذر آتش ہوگئے۔۔ بس وہ لباس تھا جو مدینہ سے پہن کر آئی تھیں۔
ابن زیاد ایک اکھڑ۔۔ سرکش۔۔ بدلگام اور تلخ مزاج انسان تھا، اس نے گرج کر کہا حسین ؑ کی بہن کہاں ہے؟ شمر نے کہا دیوار کے ساتھ سہارا لیے بیٹھی ہے۔۔ اس نے کہا مجھے نظر نہیں آتی۔۔ شمر نے کہا کنیز کے پیچھے ہے۔۔ اس نے کہا کنیز کو ہٹائو میں زینب ؑ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ حضرت سجاد ؑ روکر بولے او ظالم!  اپنی زبان کو روک لے  اِلٰی کَمْ تَھْتَک عَمَّتِیْ بَیْنَ مَنْ یَّعْرِفُہَا وَ بَیْنَ مَنْ لا یَعْرِفُہَا  تو کب تک میری پھوپھی کی توہین کرتا رہے گا؟ خاموش ہوجا اور جاننے والوں اور نہ جاننے والوں کے درمیان میری پردہ دار پھوپھی کی توہین نہ کر۔
قاتلوں کو انعام ملنے لگے۔۔۔ بیبیاں خاموش دیکھ رہی ہیں اور اُن کے مقتولین کے قاتل انعام طلب کررہے ہیں؟ ہائے علی اکبر ؑ کی ماں تو نے کیسے برداشت کیا ہوگا؟ جب علی اکبر ؑ کے قاتل نے علی اکبر ؑ کے سر کا انعام وصول کیا ہو گا؟
خدا کرے کسی ماں کے سامنے جوان مقتول بیٹے کا قاتل نہ آئے (آمین) راہِ شام میں غالباً بی بی نے یہی فقرہ کہا (بقولے وہ کربلا میں موجود تھیں ) اے بیٹے علی اکبر ؑ!  جب تیرا قاتل میرے سامنے آتا ہے تو میں برداشت نہیں کر سکتی کاش  تیری ماں نے یہ وقت نہ دیکھا ہو تا۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

میں اوں یوسف دا قصہ پڑھداں جیندی زندگی تے پئے لٹ گئی
رہیاں ما دیاں حسرتاں دل دے وچ بے وقت جوانی کھٹ گئی
ما دے سامنے سینے وچ یارو سانگ ظلم دی ترٹ گئی
جیکوں لہندا ڈیکھ کے گھوڑے توں شبیر ؑ توں کرسی چھٹ گئی